صوامع صومعۃ کی جمع) سے چھوٹے گرجے اور بیع (بیعۃ کی جمع) سے بڑے گرجے صلوات سے یہودیوں کے عبادت خانے اور مساجد سے مسلمانوں کی عبادت گاہیں مراد ہیں
[٦٧] مسلمانوں کو یہ سب مصائب اس لئے جھیلنا پڑے اور انھیں صرف اس جرم بےگناہی کی سزا دی جاتی رہی کہ وہ صرف ایک اللہ کے پرستار تھے۔ مکہ میں جس قدر مظالم ڈھائے گئے یہ داستان اتنی طویل اور خونچکاں ہے جس کا بیان یہاں ممکن نہیں اور اس کے لئے ایک الگ کتاب درکار ہے اس بات کا کچھ تھوڑا بہت اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مکی دور میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مقدس پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے اور سازشیں تیار کی گئیں ان کا مختصر ذکر سورة مائدہ کی آیت نمبر ٦٧ کے حاشیہ میں گزر چکا ہے۔- [٦٨] اس آیت میں الناس سے مراد مشرکین اور اللہ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے لوگ ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب بدی قوت زور پکڑنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اہل حق کا ساتھ دے کر، خواہ وہ اہل حق کتنے ہی تھوڑے اور کمزور ہوں، بدی کا زور توڑ دیتا ہے۔ وہ قوت جسے اپنے سرنگوں ہونے کا تصور تک بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اللہ انھیں حق و باطل کے معرکہ میں لاکر اور اہل حق کی امداد کرکے انھیں صفحہ ہستی سے ملیا میٹ کردیتا ہے۔ اللہ کا یہ قانون اگر جاری وساری نہ ہوتا تو مشرکین اور باطل قوتیں اہل حق کو کبھی جینے نہ دیتیں نہ ہی ان کے عبادت خانے برقرار رہنے دیتیں جن میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اور ان کے بجائے بس بت خانے۔۔ اور آستانے ہی دنیا میں نظر آتے۔- اس آیت میں صومعہ کا لفظ راہب قسم کے لوگوں کے عبادت خانوں کے لئے بیع (جمعہ بیعہ) عیسائیوں کی عبادت گاہ یا گرجا کے لئے صلوت یہودیوں کی عبادت گاہوں کے لئے اور مساجد مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے لئے استعمال ہوا ہے اور اب مسلمانوں کو جو جہاد و قتال کی اجازت دی جارہی ہے۔ تو وہ اللہ کے اسی قانون کے مطابق ہے کہ اللہ اہل حق کی امداد کرکے باطل کا سر کچل لدے۔ اس آیت میں دراصل مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑی بشارت دی گئی ہے اسی قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ میں مشرکوں کے غلبہ کو روکا اور اہل حق کو ان سے بچایا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ہی اسرائیل کو مشرکوں کے شر سے محفوظ رکھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں نصاریٰ کو اسی طرح اللہ تعالیٰ یقیناً مسلمانوں کو بھی مشرکین کے شر سے محفوظ رکھے گا اور انھیں غلبہ عطا کرے گا اور اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کردینے اور اہل ایمان کے حق میں انھیں ساز گار بنانے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔
الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ ۔۔ : یہ آیت دلیل ہے کہ اس سورت کا یہ حصہ مدینہ میں نازل ہوا ہے ۔- 3 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے دو ظلم بیان فرمائے ہیں، ایک یہ کہ انھوں نے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا، جب کہ یہ تمام دنیا کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ جو شخص جہاں رہتا ہے وہاں رہنے میں اور اس کی تمام سہولتوں سے فائدہ اٹھانے میں وہاں کے تمام لوگوں کے ساتھ برابر حق رکھتا ہے اور کسی کو حق نہیں کہ اسے اس کے گھر سے نکال باہر کرے۔ دوسرا ظلم یہ کہ انھوں نے مسلمانوں کو صرف اس جرم کی وجہ سے ان کے گھروں سے نکالا کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ جرم ہے ہی نہیں بلکہ عین عدل ہے اور یہ گھروں سے نکالنے کا باعث نہیں بلکہ امن و سکون سے اپنے گھروں میں سکونت کا ضامن ہے۔ دراصل اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی ایسے طریقے سے تعریف فرمائی ہے کہ ان سے ہر جرم کی نفی کرکے اس چیز کو ان کا جرم بیان کیا ہے جو حقیقت میں جرم نہیں خوبی ہے، جیسا کہ عرب کے ایک شاعر نے کچھ لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا - وَلَا عَیْبَ فِیْھِمْ غَیْرَ أَنَّ سُیُوْفَھُمْ- بِھِنَّ فُلُوْلٌ مِنْ قِرَاعِ الْکَتَاءِبِ- ” ان میں اس کے سوا کوئی عیب نہیں کہ ان کی تلواروں میں دشمن کے لشکروں سے کھٹکھٹانے کی وجہ سے دندانے پڑے ہوئے ہیں۔ “ - ظاہر ہے کہ جسے وہ عیب کہہ رہا ہے وہ دراصل بہت بڑی خوبی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقامات پر بھی کفار کا یہ ظلم یاد دلا کر مسلمانوں کو ان کی دوستی سے منع فرمایا ہے، فرمایا : (يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰهِ رَبِّكُمْ ) [ الممتحنۃ : ١ ] ” وہ رسول کو اور خود تمہیں اس لیے نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان لائے ہو۔ “- وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۔۔ : ” صَوَامِعُ “ ” صَوْمَعَۃٌ“ کی جمع ہے، وہ عبادت خانہ جو عیسائی راہب آبادیوں سے دور اونچے مینار کی شکل میں بناتے تھے، جس کی اوپر کی منزل میں وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہتے اور مینار کی چوٹی پر عموماً رات کو چراغ جلاتے، تاکہ مسافر راستہ معلوم کرسکیں اور نچلی منزل میں قیام کرسکیں۔ امرؤ القیس نے کہا ہے : - تُضِیْءُ الظَّلَام بالْعَشِيِّ کَأَنَّھَا - مَنَارَۃُ مُمْسَی رَاھِبٍ مُتَبَتِّلٖ- ” َبِيَعٌ“ ” بِیْعَۃٌ“ کی جمع ہے، آبادیوں میں نصرانیوں کے گرجے۔ ” َّصَلَوٰتٌ“ یہودیوں کے عبادت خانے، یہ ” صَلَاۃٌ“ کی جمع ہے۔ شاید ان کا نام ” َّصَلَوٰتٌ“ اس لیے رکھا گیا ہو کہ یہودیوں کو صرف اپنے عبادت خانے میں نماز پڑھنا لازم تھا۔ بعض کہتے ہیں یہ ” صلوتا “ کی جمع ہے جو غیر عربی لفظ ہے اور یہودیوں کے معبد خانے پر بولا جاتا ہے۔ ” لَّهُدِّمَتْ “ باب تفعیل کی وجہ سے ترجمہ ہوگا ” بری طرح ڈھا دیے جاتے “ یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام ہی ایسا رکھا ہے کہ ہر چیز، ہر شخص اور ہر جماعت، دوسری چیز، یا شخص یا جماعت کے مقابلے میں اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے جنگ کرتی رہے، اگر ایسا نہ ہوتا اور نیکی کو اللہ تعالیٰ اپنی حمایت میں لے کر بدی کے مقابلے میں کھڑا نہ کرتا تو نیکی کا نشان تک زمین پر باقی نہ رہتا۔ بےدین اور شریر لوگ، جن کی ہر زمانے میں کثرت رہی ہے، تمام مقدس مقامات اور شعائر اللہ کو ہمیشہ کے لیے صفحۂ ہستی سے مٹا دیتے۔ اس لیے ضروری ہوا کہ بدی کی طاقتیں کتنی ہی جمع ہوجائیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وقت آئے جب نیکی کے ہاتھوں بدی کے حملوں کا دفاع کرایا جائے اور حق تعالیٰ اپنے دین کی مدد کرنے والوں کی خود مدد فرما کر ان کو دشمنانِ حق پر غالب کرے۔ بہرحال اس وقت مسلمانوں کو ظالم کافروں کے مقابلے میں جہاد و قتال کی اجازت دینا اسی قانون قدرت کے ماتحت تھا اور یہ وہ عام قانون ہے جس کا انکار کوئی عقل مند نہیں کرسکتا۔ اگر دفاع و حفاظت کا یہ قانون نہ ہوتا تو اپنے اپنے زمانے میں نہ نصرانی راہبوں کے صوامع قائم رہتے اور نہ نصاریٰ کے گرجے، نہ یہود کے عبادت خانے اور نہ مسلمانوں کی وہ مسجدیں جن میں اللہ کا ذکر بڑی کثرت سے ہوتا ہے، یہ سب عبادت گاہیں گرا کر اور بری طرح ڈھا کر ملیامیٹ کردی جاتیں۔ تو اس عام قانون کے تحت کوئی وجہ نہیں کہ مسلمانوں کو ایک مناسب وقت پر اپنے دشمنوں سے لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس مضمون کی ایک اور آیت کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٢٥١) ۔- 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے، ان کو مسمار نہ کیا جائے، کیونکہ ان میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے، البتہ بت خانے اور آتش کدے صرف اس صورت میں باقی رکھے جائیں گے جب کسی قوم سے معاہدے میں انھیں باقی رکھنا شامل ہو۔ ۭوَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ : اللہ کی مدد سے مراد اللہ کے دین کی مدد ہے، کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے : (يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ ۚ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ) [ فاطر : ١٥] ” اے لوگو تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بےپروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔ “ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خود بھی اس کے دین کو فروغ دینے کی کوشش کرے۔ دین کی مدد دلیل وبرہان کے ساتھ بھی ہے اور سیف وسنان کے ساتھ بھی، اسی طرح جان کے ساتھ بھی ہے اور مال کے ساتھ بھی، پھر ہاتھوں کے ساتھ بھی ہے اور زبان کے ساتھ بھی، غرض ہر طرح سے اللہ کے دین کی مدد لازم ہے اور جو بھی یہ فریضہ سرانجام دے گا اللہ تعالیٰ اس کی یقیناً ضرور مدد فرمائے گا، خواہ اس کے لیے نصرت کے دنیوی اسباب مہیا فرما دے یا غیب سے اپنے لشکروں میں سے کسی لشکر کے ساتھ مدد کر دے، فرمایا : (وَمَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ ) [ المدثر : ٣١ ] ” اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “ جیسے بدر میں فرشتوں کے ذریعے سے مدد فرمائی (انفال : ٩) اور خندق میں آندھی اور ان لشکروں کے ذریعے سے مدد فرمائی جو تم نے نہیں دیکھے۔ (احزاب : ٩) - اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ : بیشک اللہ یقیناً بہت قوت والا، سب پر غالب ہے۔ جس کی وہ مدد کرے یقیناً وہی غالب ہوگا اور اس کا مدمقابل مغلوب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا اور اپنے دین کی مدد کرنے والے انصار و مہاجرین اور ان کے پیروکاروں کے ہاتھوں زمین کے جابر و قاہر بادشاہوں کو مغلوب و مقہور کرکے مشرق سے مغرب تک اسلام کا بول بالا کردیا۔ (وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيْثًا ) [ النساء : ٨٧ ] ” اور اللہ سے بڑھ کر بات کا سچا کون ہے ؟ “
جہاد و قتال کی ایک حکمت :- وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ ، اس میں جہاد و قتال کی حکمت کا اور اس کا بیان ہے کہ یہ کوئی نیا حکم نہیں۔ پچھلے انبیاء اور ان کی امتوں کو بھی قتال کفار کے احکام دیئے گئے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو کسی مذہب اور دین کی خیر نہ تھی سارے ہی دین و مذہب اور ان کی عبادت گاہیں ڈھا دی جاتیں۔- لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ جتنے دین و مذہب دنیا میں ایسے ہوئے ہیں کہ کسی زمانے میں ان کی اصل بنیاد اللہ کی طرف سے اور وحی کے ذریعہ سے قائم ہوئی تھی پھر وہ منسوخ ہوگئے اور ان میں تحریف ہو کر کفر و شرک میں تبدیل ہوگئے مگر اپنے اپنے وقت میں وہی حق تھے ان سب کی عبادت گاہوں کا اس آیت میں ذکر فرمایا ہے کیونکہ اپنے اپنے وقت میں ان کی عبادت گاہوں کا احترام اور حفاظت فرض تھی ان مذاہب کے عبادت خانوں کا ذکر نہیں فرمایا جن کی بنیاد کسی وقت بھی نبوت اور وحی الٰہی پر نہیں تھی جیسے آتش پرست مجوس یا بت پرست ہندو کیونکہ ان کے عبادت خانے کسی وقت بھی قابل احترام نہ تھے۔- آیت میں صَوَامِعُ ، صومعہ کی جمع ہے جو نصاریٰ کے تارک الدنیا راہبوں کی مخصوص عبادت گاہ کو کہا جاتا ہے اور بیع بیعة کی جمع ہے جو نصاریٰ کے عام کنیسوں کا نام ہے اور صَلَوٰتٌ صلوت کی جمع ہے جو یہود کے عبادت خانہ کا نام ہے اور مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا نام ہے۔- مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر کفار سے قتال و جہاد کے احکام نہ آتے تو کسی زمانے میں کسی مذہب و ملت کے لئے امن کی جگہ نہ ہوتی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں صلوت اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں صوامع اور بیع اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں مسجدیں ڈھا دی جاتیں (قرطبی)
الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ ٠ۭ وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْہَا اسْمُ اللہِ كَثِيْرًا ٠ۭ وَلَيَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ ٤٠- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- دفع - الدَّفْعُ إذا عدّي بإلى اقتضی معنی الإنالة، نحو قوله تعالی: فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ- [ النساء 6] ، وإذا عدّي بعن اقتضی معنی الحماية، نحو : إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا - [ الحج 38] ، وقال : وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج 40] ، وقوله : لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 2- 3] ، أي : حام، والمُدَفَّع : الذي يدفعه كلّ أحد «3» ، والدُّفْعَة من المطر، والدُّفَّاع من السّيل .- ( د ف ع ) الدفع ( دفع کرنا ، ہٹا دینا ) جب اس کا تعدیہ بذریعہ الیٰ ہو تو اس کے معنی دے دینے اور حوالے کردینا ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء 6] تو ان کا مال ان کے حوالے کردو ۔ اور جب بذریعہ عن متعدی ہو تو اس کے معنی مدافعت اور حمایت کرنا ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا[ الحج 38] خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا تا تا رہتا ہے ہے ۔ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج 40] اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے ( پر چڑھائی اور حملہ کرنے ) سے ہٹاتا نہ رہتا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 2- 3] کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا ۔ اور وہ ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے ( نازل ہوگا ) میں دافع کے معنی حامی اور محافظ کے ہیں ۔ المدقع ۔ ہر جگہ سے دھتکار ہوا ۔ ذلیل ار سوار ۔ الدفعۃ ۔ بارش کی بوچھاڑ ۔ الدفاع سیلاب کا زور ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - هدم - الهدم : إسقاط البناء . يقال : هَدَمْتُهُ هَدْماً. والهَدَمُ : ما يهدم، ومنه استعیر : دم هَدْمٌ. أي :- هدر، والهِدْمُ بالکسر کذلک لکن اختصّ بالثّوب البالي، وجمعه : أهدام، وهدّمت البناء علی التّكثير . قال تعالی: لَهُدِّمَتْ صَوامِعُ [ الحج 40] .- ( ھ د م ) الھدم ( ض ) کے اصل معنی عمارت کو گرا دینا کے ہیں اس سے فعل ھدم آتا ہے اور گری ہوئی چیز کو ھدم کہا جاتا ہے ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور پر رائیگا خون کو دم ھدم کہا جاتا ہے اور یہی معنی ھدم بکسر الہا کے ہیں لیکن یہ خاص کر پوسیدہ کپڑے پر بولاجاتا ہے اور اس کی جمع اھدام آتی ہے اور ھدمت البناء کے معنی بھی عمارت کو گرادینے کے ہیں مگر اس میں تکثیر کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن پا ک میں ہے : ۔ لَهُدِّمَتْ صَوامِعُ [ الحج 40] تو ( انصار ی ) کے صومعے کبھی کے ڈھائے چکے ہوتے ۔- صمع - الصَّوْمَعَةُ : كلّ بناء مُتَصَمِّع الرّأسِ ، أي : متلاصقه، وجمعها صَوَامِعُ. قال تعالی:- لَهُدِّمَتْ صَوامِعُ وَبِيَعٌ [ الحج 40] ، والأَصْمَعُ : الّلاصق أذنه برأسه، وقلبٌ أَصْمَعُ :- جریءٌ ، كأنه بخلاف من قال اللہ فيهم : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] ، والصَّمْعَاءُ :- البُهْمَى قبل أن تتفقّأ «2» ، وکلابٌ صُمُعُ الكُعُوبِ : ليسوا بأجوفها .- ( ص م ع ) الصومعۃ ( راہب کی کو ٹھری ) ہر وہ عمارت جس کا سر لمبا اور نوکدار ہو ) جیسے گرجے کا منارہ) اس کی جمع صوامع آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : لَهُدِّمَتْ صَوامِعُ وَبِيَعٌ [ الحج 40] تو ( راہبوں کے ) صومعے اور ) عیسائیوں کے) گرجے ۔۔۔۔ ویران ہوچکے ہوتے۔ اور اصمع اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے کان چھوٹے ہوں گویا وہ سرکے ساتھ پیوست ہیں قلب اصمع بہادر ہوگا یا اس کی حالت ان لوگوں کے خلاف ہے جو کہ آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اورا ن کے دل ( مارے خوف کے ) ہوا ہورہے ہوں گے کے مصداق ہیں ۔ الصمعاء بہمی گھاس جس کے شگوفے تاحال ظاہر نہ ہوئے ہوں کلاب صمع الکعوب یعنی چھوٹے اور باریک ٹانگوں والے کتے ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزۃ - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
حالت امن میں تمام مذاہب کے معابد قابل احترام ہیں - قول باری ہے (ولو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھد مت صوامع وبیع وصلوت و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیراً اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے سب مسمار کر ڈالی جائیں) مجاہد کا قول ہے کہ راہبوں کی خانقاہوں کو صوامع کہا جاتا ہے اور یہودیوں کے گرجائوں کو بیع کہتے ہیں۔ ضحاک کا قول ہے کہ یہودیوں کے گرجائوں کو صلوت کہا جاتا ہے۔ وہ انہیں صلوت بھی کہتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق صلوات ان مقامات کو کہتے ہیں جو مسلمان اپنے گھروں میں نماز کے لئے مخصوص کردیتے ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کے زمانے میں خانقاہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں گرجے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے زمانے میں مسجدیں مسمار کر ڈالی جاتیں۔ جس کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ذریعے اہل ذمہ کی عبادت گاہوں کو مسمار ہونے سے بچاتا رہتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں یہ دلیل موجود ہے کہ مذکورہ مقامات کو مسمار کرنا جائز نہیں ہے جبکہ ان کا تعلق ان لوگوں سے ہو جن کے ساتھ ہم نے حفاظت کی ذمہ داری کا عہد کیا ہو یعنی اہل کتاب یا جن کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو یعنی اہل کفر ، دارالحرب میں ان کے لئے ان مقامات کو مسمار کردینا اسی طرح جائز ہے جس طرح وہ اپنے تمام مکانات کو مسمار کرسکتے ہیں۔ امام محمد بن الحسن نے صلح کی سر زمین کے متعلق جب وہ مسلمانوں کا علاقہ بن جائے کہا ہے کہ اس میں یہودیوں اور عیسائیوں کے گرجوں اور پارسیوں کے آتش کدوں کو مسمار نہیں کیا جائے گا لیکن جس علاقے پر مسلمانوں کا بزور شمشیر قبضہ ہوا ہو اور وہاں کے غیر مسلم باشندوں کو جزیہ کے بدلے وہاں رہنے کی اجازت دے دی گئی ہو پھر جس حصے پر مسلمانوں کی آبادی ہوگئی ہو اور وہ مسلمانوں کا شہر بن گیا ہو وہاں مسلمانوں کو ان کے گرجوں اور کلیسائوں میں نماز ادا کرنے سے منع کردیا جائے گا، لیکن انہیں منہدم نہیں کیا جائے گا بلکہ مسلمانوں سے کہا جائے گا کہ اگر وہ چاہیں تو ان عمارتوں میں سکونت اختیار کرلیں۔
(٤٠) جن کو کفار مکہ نے ان کے گھروں سے بےوجہ بغیر کسی جرم کے نکالا، محض اتنی بات پر کہ وہ یوں کہتے ہیں۔ ” لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ “۔- اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کا ایک دوسرے سے زور نہ توڑتا رہتا تو نصاری کے خلوت خانے اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے آتش کدے اور مسلمانوں کی وہ مسجدیں جس میں تکبیر وتہلیل کثرت سے کی جاتی ہے، سب منہدم ہوجاتیں کہ انبیاء کرام کی بدولت مسلمانوں سے اور مسلمانوں کی بدولت کافروں سے اور مجاہدین کی بدولت جہاد نہ کرنے والوں سے تکالیف کو دور کرایا، اللہ تعالیٰ دشمن کے مقابلہ میں اس شخص کی مدد کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نبی کی مدد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مدد کرنے اور اس شخص کی مدد کرنے میں جو کہ اس کے نبی کی مدد کرے، بڑی طاقت والا اور اپنے نبی کے دشمنوں کو سزا دینے میں بڑا غالب ہے۔
آیت ٤٠ (الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ ) ” - یعنی مہاجرین جنہیں اپنے اہل و عیال اور گھر بار چھوڑ کر مکہّ سے نکل جانے پر مجبور کردیا گیا تھا۔- (اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ط) ” - ان کا جرم بس یہ تھا کہ وہ اہل مکہ کے باطل معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ کو اپنا رب اور معبود مانتے تھے ‘ جس کی پاداش میں انہیں گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔- (وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ ) ” - یہ مضمون اس سے پہلے سورة البقرۃ کی آیت ٢٥١ میں بھی آچکا ہے۔ وہاں پر مشرک بادشاہ جالوت کے ساتھ حضرت طالوت کی جنگ کا ذکر کرنے کے بعد یہ اصول بیان فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً زمین کی صفائی کرتا رہتا ہے۔ فاسد لوگ ہوں یا فاسد تہذیب و ثقافت ‘ جب ان کا فساد زمین میں ایک حد سے تجاوز کرنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے اسے کسی دوسری طاقت کے ذریعے نیست و نابود کردیتا ہے۔ سورة البقرۃ کی مذکورہ آیت میں فرمایا گیا کہ اگر اللہ ایسے نہ کرتا تو : (لَفَسَدَتِ الْاَرْضُ ) زمین میں ہر طرف فساد ہی فساد ہوتا۔ البتہ یہاں اس بگاڑ یا فساد کے ایک دوسرے پہلو کی طرف توجہ دلائی گئی ہے :- (لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا ط) ” - صَلَوٰتٌ‘ صلوٰۃ کی جمع ہے۔ صَلَوتَا عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس سے مراد یہودیوں کے عبادت خانے ( ) ہیں۔ دراصل عبرانی اور عربی زبانوں میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یا تو ان کا آپس میں ماں بیٹی کا رشتہ ہے یا پھر دونوں سگی بہنیں ہیں۔ یعنی یا تو عربی زبان عبرانی سے نکلی ہے اور یا یہ دونوں کسی ایک زبان کی شاخیں ہیں۔ چناچہ ان دونوں میں بہت سے الفاظ باہم مشابہ ہیں۔ مثلا عربی کے لفظ ” سلام “ کی جگہ عبرانی میں ” شولوم “ بولا جاتا ہے۔ اسی طرح عبرانی کے ” یوم کپور “ کو عربی میں ” یوم کفارہ “ ّ کہا جاتا ہے۔ یعنی لفظ ” یوم “ تو جوں کا توں ویسے ہی ہے جبکہ ” کپور “ اور ” کفارہ “ میں بنیادی فرق ” پ “ اور ” ف “ کا ہے۔ عربی میں چونکہ ” پ “ نہیں ہے اس لیے اکثر زبانوں کی ” پ “ کی آواز عربی میں آکر ” ف “ سے بدل جاتی ہے۔ جیسے اس سے پہلے سورة الانبیاء کی آیت ٨٥ کے تحت ” ذو الکفل “ ِ کے حوالے سے ہندی کے لفظ ” کپل “ کا عربی کے ِ ” کفل “ کی صورت اختیار کرنے کا ذکر ہوا تھا۔ بہر حال عبرانی اور عربی زبانوں کے الفاظ اور ان کی اصطلاحات میں اکثر مشابہت پائی جاتی ہے۔- تو اگر اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق کچھ لوگوں کو کچھ لوگوں کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا ‘ یعنی مفسد قوتوں کو نیست و نابود نہ کرتا رہتا تو دنیا میں تمام مذاہب کی جتنی بھی عبادت گاہیں ہیں وہ سب کی سب منہدم کردی جاتیں۔ ظاہر ہے یہ تمام عبادت گاہیں اپنے اپنے وقت میں ایک اللہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی تھیں۔- (وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ ط) ” - ان الفاظ میں اہل ایمان کے لیے یہ بہت بڑی خوشخبری ہے۔ لہٰذا آیت کا یہ ٹکڑا ہر مسلمان کو ازبر ہونا چاہیے۔ اس عبارت میں تاکید کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ عربی زبان میں انتہائی تاکید کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ فعل مضارع سے پہلے لام مفتوح (زبر کے ساتھ) بھی حرف تاکید ہے ‘ جبکہ آخر میں نون مشددّ سے معنی میں مزید تاکید پیدا ہوتی ہے۔ جیسے اَفْعَلُ کے معنی ہیں کہ میں یہ کروں گا ‘ لیکن لَاَفْعَلَنََّّ کے معنی ہوں گے کہ میں یہ لازماً کر کے رہوں گا۔- لیکن اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ یک طرفہ معاملہ نہیں ہے ‘ بلکہ یہ وعدہ مشروط ہے۔ تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا جیسے سورة البقرۃ کی آیت ١٥٢ میں فرمایا گیا ہے : (فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ ) کہ تم مجھے یاد رکھو ‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ تم لوگ اللہ کے باغیوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھاؤ ‘ تمہاری وفاداریاں اللہ کے دشمنوں کے ساتھ ہوں اور پھر بھی تم چاہو کہ وہ تمہاری مدد کرے۔ اس سلسلے میں اسی سورت کی آیت ١٥ کا مضمون بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے ‘ جس میں اللہ کی مدد پر بندۂ مؤمن کے پختہ یقین کا معاملہ زیر بحث آیا ہے۔ دراصل یہ بندۂ مؤمن کا ” یقین “ ہی ہے جو اس کے صبر و استقامت اور ثبات و استقلال کے لیے سہارا فراہم کرتا ہے۔ اور اگر دل میں یقین کی جگہ بےیقینی ڈیرے جما لے اور اس بےیقینی کے ہاتھوں نصرت الٰہی کی امید کی رسی ہی کٹ جائے تو پھر ایسے شخص کے لیے دنیا میں اور کوئی سہارا نہیں رہتا۔- (اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ) ” - یعنی اللہ نے تمہاری مدد کا وعدہ کیا ہے تو جان لو کہ وہ زبردست طاقت کا مالک اور ہر وقت ‘ ہر جگہ تمہاری مدد پر پوری طرح قادر ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :80 یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ سورہ حج کا یہ حصہ لازماً ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :81 جس ظلم کے ساتھ یہ لوگ نکالے گئے اس کا اندازہ کرنے کے لیے ذیل کے چند واقعات ملاحظہ ہوں : حضرت صہیب رومی جب ہجرت کرنے لگے تو کفار قریش نے ان سے کہا کہ تم یہاں خالی ہاتھ آئے تھے اور اب خوب مال دار ہو گئے ہو ۔ تم جانا چاہو تو خالی ہاتھ ہی جا سکتے ہو ۔ اپنا مال نہیں لے جا سکتے ۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا تھا ، کسی کا دیا نہیں کھاتے تھے ۔ آخر وہ غریب دامن جھاڑ کر کھڑے ہو گئے اور سب کچھ ظالموں کے حوالے کر کے اس حال میں مدینے پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا ۔ حضرت ام سلمہ اور ان کے شوہر ابو سلمہ اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر ہجرت کے لیے نکلے ۔ بنی مغیرہ ( ام سلمہ کے خاندان ) نے راستہ روک لیا اور ابو سلمہ سے کہا کہ تمہارا جہاں جی چاہے پھرتے رہو ، مگر ہماری لڑکی کو لے کر نہیں جا سکتے ۔ مجبوراً بے چارے بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے ۔ پھر بنی عبدالاسد ( ابو سلمہ کے خاندان والے ) آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ بچہ ہمارے قبیلے کا ہے ، اسے ہمارے حوالے کرو ۔ اس طرح بچہ بھی ماں اور باپ دونوں سے چھین لیا گیا ۔ تقریباً ایک سال تک حضرت ام سلمہ بچے اور شوہر کے غم میں تڑپتی رہیں ، اور آخر بڑی مصیبت سے اپنے بچے کو حاصل کر کے مکے سے اس حال میں نکلیں کہ اکیلی عورت گود میں بچہ لیے اونٹ پر سوار تھی اور ان راستوں پر جارہی تھی جن سے مسلح قافلے بھی گزرتے ہوئے ڈرتے تھے ۔ عیاش بن ربیعہ ، ابو جہل کے ماں جائے بھائی تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینے پہنچ گئے ۔ پیچھے پیچھے ابو جہل اپنے ایک بھائی کو ساتھ لے کر جا پہنچا اور بات بنائی کہ اماں جان نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک عیاش کی صورت نہ دیکھ لوں گی نہ دھوپ سے سائے میں جاؤں گی اور نہ سر میں کنگھی کروں گی ۔ اس لیے تم بس چل کر انہیں صورت دکھا دو ، پھر واپس آ جانا ۔ وہ بیچارے ماں کی محبت میں ساتھ ہو لیے ۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے ان کو قید کر لیا اور مکے میں انہیں لے کر اس طرح داخل ہوئے کہ وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے ۔ اور دونوں بھائی پکارتے جا رہے تھے کہ اے اہل مکہ ۔ اپنے اپنے نالائق لونڈوں کو یوں سیدھا کرو جس طرح ہم نے کیا ہے ۔ کافی مدت تک یہ بیچارے قید رہے ور آخر کار ایک جانباز مسلمان ان کو نکال لانے میں کامیاب ہوا ۔ اس طرح کے مظالم سے قریب قریب ہر اس شخص کو سابقہ پیش آیا جس نے مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی ۔ ظالموں نے گھر بار چھوڑتے وقت بھی ان غریبوں کو خیریت سے نہ نکلنے دیا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :82 اصل میں سَوَأمِعُ اور بِیَعٌ اور سَلَواتٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ صومعہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں راہب ور سنیاسی اور تارک الدنیا فقیر رہتے ہوں ۔ بیعہ کا لفظ عربی زبان میں عیسائیوں کی عبادت گاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ صلوات سے مرد یہودیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے ۔ یہودیوں کے ہاں اس کا نام صلوتا تھا جو آرامی زبان کا لفظ ہے ۔ بعید نہیں کہ انگریزی لفظ ( ) اور ( ) اسی سے نکل کر لاطینی میں اور پھر انگریزی میں پہنچا ہو ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :83 یعنی اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے کسی ایک گروہ یا قوم کو دائمی اقتدار کا پٹہ لکھ کر نہیں دے دیا ، بلکہ وہ وقتاً فوقتاً دنیا میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفع کرتا رہتا ہے ۔ ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو کہیں پٹہ مل گیا ہوتا تو قلعے اور قصر اور ایوان سیاست ، اور صنعت و تجارت کے مرکز ہی تباہ نہ کر دیے جاتے بلکہ عبادت گاہیں تک دست درازیوں سے نہ بچتیں ۔ سورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِا الْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ، اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد مچ جاتا ۔ مگر اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے ۔ ( آیت 251 ) ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :84 یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو لوگ خلق خدا کو توحید کی طرف بلانے اور دین حق کو قائم کرنے اور شر کی جگہ خیر کو فروغ دینے کی سعی و جہد کرتے ہیں وہ دراصل اللہ کے مدد گار ہیں ، کیونکہ یہ اللہ کا کام ہے جسے انجام دینے میں وہ اس کا ساتھ دیتے ہیں ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، آل عمران ، حاشیہ 50 ۔
24: اس آیت میں جہاد کی حکمت بیان فرمائی گئی ہے اور وہ یہ کہ جتنے انبیاء کرام علیہم السلام دنیا میں آئے ہیں، اپنے اپنے وقت میں انہوں نے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تعلیم دی، اور اس کے لئے عبادت گاہیں بنائیں، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں اس کام کے لئے خانقاہیں اور کلیسا بنائے گئے جنہیں عربی میں صومعہ اور بیعہ کہا جاتا ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پیرووں نے جو عبادت گاہیں بنائیں ان کو صلوات کہا گیا ہے اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مسجد کہا جاتا ہے، جو لوگ ان آسمانی مذاہب کے مخالف تھے وہ ان عبادت گاہوں کو مٹانے کے درپے رہے، اگر ان کے خلاف جہاد کی اجازت نہ ہوتی تو وہ ان عبادت گاہوں کو مسمار کرڈالتے۔