پابندی احکامات کی تاکید حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت ہمارے بارے میں اتری ہے ۔ ہم بےسبب خارج ازوطن کئے گئے تھے ، پھر ہمیں اللہ نے سلطنت دی ، ہم نے نماز وروزہ کی پابندی کی بھلے احکام دئیے اور برائی سے روکنا جاری کیا ۔ پس یہ آیت میرے اور میرے ساتھیوں کے بارے میں ہے ۔ ابو العالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد اس سے اصحاب رسول ہیں ۔ خلیفہ رسول حضرت عمربن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے خطبے میں اس آیت کی تلاوت فرما کر فرمایا اس میں بادشاہوں کا بیان ہی نہیں بلکہ بادشاہ رعایا دونوں کا بیان ہے ۔ بادشاہ پر تو یہ ہے کہ حقوق الٰہی تم سے برابر لے اللہ کے حق کی کوتاہی کے بارے میں تمہیں پکڑے اور ایک کا حق دوسرے سے دلوائے اور جہاں تک ممکن ہو تمہیں صراط مستقیم سمجھاتا رہے ۔ تم پر اس کا یہ حق ہے کہ ظاہر وباطن خوشی خوشی اس کی اطاعت گزاری کرو ۔ عطیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسی آیت کامضمون آیت ( وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ 55 ) 24- النور:55 ) میں ہے ۔ کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھ ہے ۔ عمدہ نتیجہ پرہیزگاروں کا ہوگا ۔ ہرنیکی کا بدلہ اسی کے ہاں ہے ۔
41۔ 1 اس آیت میں اسلامی حکومت کی بنیادی اہداف اور اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں، جنہیں خلافت راشدہ کی دیگر اسلامی حکومتوں میں بروئے کار لایا گیا اور انہوں نے اپنی ترجیحات میں ان کو سر فہرست رکھا تو ان کی بدولت ان کی حکومتوں میں امن اور سکون بھی رہا، رفاہیت و خوش حالی بھی رہی اور مسلمان سربلند اور سرفراز بھی رہے۔ آج بھی سعودی عرب کی حکومت میں بحمد اللہ ان چیزوں کا اہتمام ہے، تو اس کی برکت سے وہ اب بھی امن و خوش حالی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اور مثالی مملکت ہے۔ آجکل اسلامی ملکوں میں فلاحی مملکت کے قیام کا بڑا غلغلہ اور شور ہے اور ہر آنے جانے والاحکمران اس کے دعوے کرتا ہے لیکن ہر اسلامی ملک میں بدامنی، فساد، قتل و غارت اور ادبار وپستی اور زبوں حالی روز افزوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کے ذریعے سے فلاح و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آسمان میں تھگلی لگانے اور ہوا کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہے جب تک مسلمان مملکتیں قرآن کے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق اقامت صلوۃ و زکوٰۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام نہیں کریں اور اپنی ترجیحات میں ان کو سرفہرست نہیں رکھیں گی وہ فلاحی ممللکت کے قیام میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ 41۔ 2 یعنی ہر بات کا مرجع اللہ کا حکم اور اس کی تدبیر ہی ہے اس کے حکم کے بغیر کائنات میں کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چہ جائیکہ کوئی اللہ کے احکام اور ضابطوں سے انحراف کرکے حقیقی فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہوجائے۔
[٦٩] اس آیت اسلامی طرز حکومت کے خدوخال اور حکومت چلانے والوں کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام میں ریاست کا قیام اصل مقصود نہیں بلکہ یہ کسی دوسرے عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ لہذا ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں بھی غیر اسلامی ریاستوں سے بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً ایک غیر اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں محض یہ ہیں کہ پولیس کے ذریعہ امن بحال رکھا جائے۔ انتظامیہ کے ذریعہ حکومت کاروبار چلایا جائے اور فوج کے ذریعہ سرحدوں کی حفاظت کی جائے۔ جبکہ ایک اسلامی ریاست یہ ذمہ داریاں بھی پورا کرتی ہے اور یہ اس کا ثانوی فریضہ ہوتا ہے اس کے قیام کے اولین مقاصد یہ ہیں۔- ١۔ پوری ریاست میں نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کیا جائے۔- ٢۔ مکروہ کاموں کی روک تھام کی جائے اور اچھے کاموں کو فروغ دیا جائے اور ان اغراض کے لئے محکمہ قائم کئے جائیں اور اس طرح۔- ٣۔ ملک سے ظلم وجود کو ختم کرکے عدل و انصاف قائم کیا جائے اور اس راہ میں جو باطل قوتیں مزاحم ہوں۔ ان کو دور کیا جائے اور اسی کا نام جہاد ہے۔- علاوہ ازیں چونکہ ایک اسلامی ریاست کی بنیاد اخلاقی اقدار پر اٹھتی ہے، اسی لئے اسلام نے حکومت کے انتظام و انصرام کو وہ اہمیت نہیں دی جو اخلاقی اقدار کو دی ہے اور یہی چیز ایک اسلامی طرز حکومت کو دوسرے تمام اقسام حکومت سے ممتاز کرتی ہے۔- اس آیت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عموماً اور مہاجرین کی خصوصاً اور بالخصوص خلفائے راشدین کی حقانیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ جن کے ذریعہ وہ تمام امور بطریق احسن سرانجام پائے جو اس آیت میں مذکور ہیں۔ اور جن کی داغ بیل خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ڈالی تھی۔- [٧٠] یعنی ایک ایسی طرز حکومت کے قیام کا تصور خواہ موجودہ حالات ناممکن نظر آرہا ہو لیکن ہر کام کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جو ابابیلوں کے لشکر سے ہاتھیوں کے لشکر کو بھی پٹوا سکتا ہے۔ وہ آخر ایک اہل حق کی کمزور سی جماعت کے مقابلہ میں کفار کے کروفر والے لشکر کو مغلوب کیوں نہیں کرسکتا۔
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ ۔۔ : اس سے پہلے جن لوگوں کا ذکر ہوا ہے کہ انھیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے، کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا اور وہ گھروں سے صرف توحید الٰہی کے جرم میں نکالے گئے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی ضرور مدد کرے گا، انھی کے متعلق اللہ تعالیٰ پیشگی بیان فرما رہے ہیں کہ اگر ہم نے انھیں زمین میں اقتدار بخشا تو وہ چار کام سرانجام دیں گے۔ پہلا اور دوسرا یہ کہ وہ نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کریں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین کے عہد میں اقامت صلاۃ کا ایسا مضبوط نظام قائم تھا کہ حدیث و سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں دوسرے گناہوں کے ارتکاب کا اور ان کی سزا کا ذکر آپ پڑھیں گے مگر ایک بھی شخص نہیں پائیں گے جو نماز نہ پڑھتا ہو یا زکوٰۃ نہ دیتا ہو اور اسے مسلمان سمجھا جاتا ہو، حتیٰ کہ منافقین کو بھی اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دینے کے لیے مسجدوں میں آ کر نماز پڑھنا پڑتی تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا) [ النساء : ١٤٢ ] ” بیشک منافق لوگ اللہ سے دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ وہ انھیں دھوکا دینے والا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔ “ اور سب جانتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بعض قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو ابوبکر (رض) نے فرمایا تھا : ( وَاللّٰہِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ ) [ بخاري، الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ : ١٤٠٠ ] ” اللہ کی قسم میں ہر صورت اس سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرے گا۔ “ مسلمانوں کے زوال کا آغاز اس دن سے ہوا جب کچھ حکمرانوں نے ان لوگوں کا موقف اختیار کیا جو کہتے تھے کہ کوئی نماز پڑھے یا نہ پڑھے، زکوٰۃ دے یا نہ دے، اس کے ایمان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، وہ پکا مسلمان ہے۔ کچھ لوگ یہاں تک پہنچ گئے کہ ایمان سب کا ایک جیسا ہے، اس میں کمی یا اضافہ نہیں ہوتا، اس لیے ہمارا اور ابوبکر (رض) کا اور ہمارا اور جبریل (علیہ السلام) کا ایمان برابر ہے۔ آج کل بعض حضرات کی جماعتیں پوری دنیا میں نماز کی دعوت دیتی پھرتی ہیں مگر خود ان کے خویش و اقارب اور بیویاں اور اولاد بےنماز ہیں، اس کے باوجود وہ انھیں سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔ اپنا کاروبار اور جائداد انھی کے سپرد رکھتے ہیں۔ اصل سبب عقیدے کی خرابی ہے کہ وہ بےنماز اور نمازی دونوں کے ایمان کو برابر سمجھتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ ایمان صرف تصدیق اور اقرار کا نام ہے، اگر آج ” اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ “ کا فریضہ سرانجام دینے والے صدیق و فاروق اور عثمان و علی (رض) ہوتے تو ہم دیکھتے کہ یہ لوگ کس طرح نماز اور زکوٰۃ کے بغیر مسلمان کی حیثیت سے دندناتے پھرتے، بلکہ اپنے آپ کو نمازیوں سے بہتر مسلمان قرار دیتے رہتے۔- تیسرا اور چوتھا وصف یہ بیان فرمایا کہ وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اس آیت سے خلفائے راشدین کی خلافت برحق ثابت ہوتی ہے، کیونکہ انھوں نے صلاۃ و زکوٰۃ کے علاوہ صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیا۔ اللہ کی حدود قائم کیں، جن کی برکت سے حیرہ سے چل کر اکیلی خاتون نے بیت اللہ کا حج کیا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ تھا۔ جہاد کے ذریعے سے دنیا کو توحید کی دعوت دی اور شرک و کفر سے منع کیا اور قیصر و کسریٰ اور عرب کے بڑے بڑے جابروں کو شکست فاش دے کر ان کے خزانے فتح کیے اور ان کی اقوام کو دائرۂ اسلام میں داخل کیا۔ جو خوشی سے اس دائرے میں نہیں آیا اسے زبردستی مسلمان نہیں بنایا مگر اس سے اس وقت تک جنگ جاری رکھی جب تک اس نے جزیہ ادا کرنے کا اقرار کرکے اسلام کا محکوم بننا قبول نہیں کیا۔ خلفائے راشدین کے بعد وہ خلفاء بھی اس بشارت میں شامل ہیں جنھوں نے یہ چاروں امور پوری طرح سرانجام دیے۔ کس قدر بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ان عظیم ہستیوں سے بغض رکھتے ہیں کہ جن کے اوصاف حسنہ اور اعمال صالحہ کی شہادت اللہ تعالیٰ انھیں اقتدار عطا کرنے سے پہلے دے رہا ہے۔ - 3 آج بھی اللہ تعالیٰ کا نصرت کا وعدہ انھی لوگوں سے ہے جنھیں اللہ تعالیٰ اقتدار عطا فرمائے تو وہ یہ چاروں کام سرانجام دیں۔ اس کے نتیجے میں انھیں اقوام عالم پر غلبہ حاصل ہوگا، اسی کے نتیجے میں معاشی بدحالی ختم ہو کر فلاحی مملکت قائم ہوگی اور اسی کے نتیجے میں امن قائم ہوگا۔ افسوس مسلمان حکام ان چاروں چیزوں کو چھوڑ کر کفار کے طریقوں جمہوریت، سود، بےحیائی کے فروغ، آخرت سے دوری اور صرف اور صرف دنیا طلبی کے پیچھے لگ کر یہ توقع کر رہے ہیں کہ اس سے دنیا پر غلبہ حاصل ہوگا، خوش حالی آئے گی اور امن قائم ہوگا، حالانکہ یہ ممکن ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ہر بیماری کا علاج صرف اور صرف اللہ کے فرمان پر عمل ہے۔- 3 اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ اور بشارت سورة نور میں بھی مذکور ہے، فرمایا : (وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) [ النور : ٥٥ ] ” اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ضرور ہی جانشین بنائے گا، جس طرح ان لوگوں کو جانشین بنایا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کے اس دین کو ضرور ہی اقتدار دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ہر صورت انھیں ان کے خوف کے بعد بدل کر امن دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جس نے اس کے بعد کفر کیا تو یہی لوگ نافرمان ہیں۔ “- وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ : مفسر بقاعی نے اس ” واؤ “ کے تحت بہت خوب صورت نکتہ بیان فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اس ” واؤ “ کا جس جملے پر عطف ہے وہ یہاں ذکر نہیں ہوا، جہاد کے حکم اور اس کی حکمت ” وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ “ کی مناسبت سے کلام یہ ہے کہ ” فَلِلّٰہِ بَادِءَۃُ الْأُمُوْرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُوْرِ “ یعنی پہلے کفار کے مسلمانوں کو طویل عرصہ تک بیحد ایذا کی مہلت دینے اور اب مسلمانوں کو جہاد کی اجازت اور نصرت کے وعدے کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام امور کی ابتدا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ شروع میں بعض اوقات کفار کو مہلت دے دیتا ہے، جس سے ان پر اتمام حجت مقصود ہوتا ہے اور ایمان کے دعوے داروں کا امتحان مقصود ہوتا ہے، تاکہ سچا اور جھوٹا اور مذبذب ایمان اور مستحکم ایمان والا ظاہر ہوجائے اور بعض اوقات شروع ہی میں مسلمانوں کی مدد کردیتا ہے۔ پس تمام کاموں کا آغاز صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمام کاموں کا انجام بھی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ” بَادِءَۃُ الْأُمُوْرِ “ کے حذف اور ” عَاقِبَةُ الْاُمُوْر “ کے ذکر سے مسلمانوں کو حوصلہ دیا ہے کہ ابتدا میں تو بعض اوقات اللہ کے دشمنوں کو بھی موقع مل جاتا ہے مگر انجام تمہارا ہی ہے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے، چاہے تو دنیا میں بھی انجام مسلمانوں کے حق میں کر دے اور چاہے تو اس وقت ان کے حق میں کر دے جب ہر کام اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اور جب اللہ تعالیٰ کے سوا سب کا اختیار ختم ہوجائے گا (انفطار : ١٩) بلکہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی بول بھی نہیں سکے گا۔ (نبا : ٣٨) پھر جو جہنم سے بچ گیا اور جنت میں داخل ہوگیا تو وہی کامیاب ہے اور اسی کا انجام بخیر ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (١٨٥) ۔
خلفائے راشدین کے حق میں قرآن کی پیشین گوئی اور اس کا ظہور :- اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ ، اس آیت میں الذین صفت ہے ان لوگوں کی جن کا ذکر اس سے پہلے آیت میں ان الفاظ سے آیا ہے الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ ، یعنی وہ لوگ جن کو ان کے گھروں سے ظلماً بغیر کسی حق کے نکال دیا گیا۔ ان لوگوں کے بارے میں اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ان کو زمین میں حکومت و اقتدار دے دیا جائے تو یہ لوگ اپنے اقتدار کو ان کاموں میں صرف کریں گے کہ نمازیں قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں اور نیک کاموں کی طرف لوگوں کو دعوت دیں برے کاموں سے روکیں۔ اور یہ اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ یہ آیات ہجرت مدینہ کے فوراً بعد اس وقت نازل ہوئی ہیں جبکہ مسلمانوں کو کسی بھی زمین میں حکومت و اقتدار حاصل نہیں تھا مگر حق تعالیٰ نے ان کے بارے میں پہلے ہی یہ خبر دے دی کہ جب ان کو اقتدار حکومت ملے گا تو یہ دین کی مذکورہ اہم خدمات انجام دیں گے اسی لئے حضرت عثمان غنی نے فرمایا ثناء قبل بلاء، یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد عمل کے وجود میں آنے سے پہلے اس کے عمل کرنے والوں کی مدح وثناء ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی اس خبر کا جس کا وقوع یقینی تھا اس دنیا میں وقوع اس طرح ہوا کہ چاروں خلفائے راشدین اور مہاجرین الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا کے مصداق صحیح تھے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں کو سب سے پہلے زمین کی مکنت وقدرت یعنی حکومت و سلطنت عطا فرمائی اور قرآن کی پیشین گوئی کے مطابق ان کے اعمال و کردار اور کارناموں نے دنیا کو دکھلا دیا کہ انہوں نے اپنے اقتدار کو اسی کام میں استعمال کیا کہ نمازیں قائم کیں زکوٰة کا نظام مضبوط کیا اچھے کاموں کو رواج دیا برے کاموں کا راستہ بند کیا۔- اسی لئے علماء نے فرمایا کہ یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ خلفاء راشدین سب کے سب اسی بشارت کے مصداق ہیں اور جو نظام خلافت ان کے زمانے میں قائم ہوا وہ حق و صحیح اور عین اللہ تعالیٰ کے ارادے اور رضا اور پیشگی خبر کے مطابق ہے (روح المعانی)- یہ تو اس آیت کے شان نزول کا واقعاتی پہلو ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ الفاظ قرآن جب عام ہوں تو وہ کسی خاص واقعہ میں منحصر نہیں ہوتے ان کا حکم عام ہوتا ہے۔ اسی لئے ائمہ تفسیر میں سے ضحاک نے فرمایا کہ اس آیت میں ان لوگوں کے لئے ہدایت بھی ہے جن کو اللہ تعالیٰ ملک و سلطنت عطا فرما دیں کہ وہ اپنے اقتدار میں یہ کام انجام دیں جو خلفاء راشدین نے اپنے وقت میں انجام دیئے تھے۔ (قرطبی مع توضیح)
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ٠ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ ٤١- مكن - المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] - ( م ک ن ) المکان - اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔- وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - الاقامة- وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل،- ( ق و م ) قيام - اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ- [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] ، إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ، وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] ، أي : بالاقتصاد والإحسان، وقوله : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] ، وقوله : قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] ، أي : ردّ بالجمیل ودعاء خير من صدقة كذلك، والعُرْفُ : المَعْرُوفُ من الإحسان، وقال : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ- [ الأعراف 199] . وعُرْفُ الفرسِ والدّيك مَعْرُوفٌ ، وجاء القطا عُرْفاً. أي : متتابعة . قال تعالی: وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ہاں ( اس شخص کی مشاورت اچھی ہوسکتی ہے ) جو خیرات یا نیک بات ۔۔۔ کہے ۔ وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] اور مطلقہ کو بھی دستور کے مطابق نان ونفقہ دینا چاہیے ۔ یعنی اعتدال اور احسان کے ساتھ ۔ نیز فرمایا : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] تو یا تو ان کی اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو اور اچھی طرح سے علیحدہ کردو ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] نرم بات اور درگذر کرنا صدقہ سے بہتر ہے ۔ یعنی نرم جواب دے کر لوٹا دینا اور فقیر کے لئے دعا کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس پر احسان جتلایا جائے ۔ العرف : وہ نیک بات جس کی اچھائی کو سب تسلیم کرتے ہوں قرآن پاک میں ہے : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف 199] اور نیک کام کرنے کا حکم دو ۔ عرف الفرس گھوڑے کی ایال عرف الدیک : مرغی کی کلغی جاء القطاعرفا : قطار جانور آگے پیچھے یکے بعد دیگرے آئے اسی سے قرآن پاک میں ہے : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] ہواؤں کی قسم جو متواتر چلتی ہیں ۔- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔ - عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔
اسلامی اقتدار، اقامت صلوۃ اور ادائے زکوۃ کے نظام کا پابند ہوگا - قول باری ہے (الذین ان مکنا ھم فی الارض اقاموا الصلوۃ و اتوا الزکوۃ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم اگر زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوۃ دیں گے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی صفت ہے جنہیں قتال کی اجازت دے دی گئی تھی۔ چناچہ ارشاد باری ہے (اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا۔ اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں ) تاقول باری (الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے) تا قول باری (الذین ان مکنا ھم فی الارض اقاموا الصلوۃ و امروا بالمعروف ونھوا عن المنکر یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے) یہ مہاجرین کرام کی صفت ہے اس لئے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکال دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ وہ انہیں زمین میں اقتدار بخشے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکواۃ دیں گے، معروف کا حکم دیںے اور منکر سے منع کریں گے۔ یہ خلفائے راشدین یعنی حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی کی صفت ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین میں اقتدار بخشا تھا۔ اس میں ان حضرات کی امامت کی صحت پر واضح دلالت موجود ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ انہیں جب زمین میں اقتدار حاصل ہوجائے گا تو یہ ان فرائض کی ادائیگی کریں گے جو ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد ہوں گے۔ انہیں زمین میں اقتدار بخشا گیا اس لئے انہیں ایسے ائمہ تسلیم کرنا واجب ہے جو اللہ کے اوامر کی ادائیگی پر کمربستہ اور اس کے نواہی و زو اجر سے کنارہ کش رہے۔ حضرت معاویہ ان میں شامل نہیں ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس صفت سے ان مہاجرین کو متصف کیا تھا جو اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے تھے۔ حضرت معاویہ مہاجرین میں سے نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں فتح مکہ کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر قسم کی گرفت اور سزا سے آزاد کردیا تھا۔ انہیں طلقاء کہا جاتا ہے۔
(٤١) یہ حضرات (صحابہ کرام (رض) ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کو سرزمین مکہ میں حکومت دے دیں تو خود بھی پانچوں نمازوں کی پابندی کریں، اور زکوٰۃ دیں اور دوسروں کو بھی توحید اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا حکم دیں اور کفر وشرک اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت سے روکیں اور آخرت میں تمام کاموں کے انجام اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جائیں گے۔
آیت ٤١ (اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ ) ” - ” تمکن “ کا ذکر اس سے پہلے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے حوالے سے سورة یوسف ( علیہ السلام) کی آیت ٢١ اور ٥٦ میں بھی آچکا ہے : (وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِز) ” اور اسی طرح ہم نے یوسف ( علیہ السلام) کو زمین میں تمکن عطا کیا “۔ تو اپنے ان مؤمن بندوں کو اگر ہم کسی خطۂ زمین کا اختیار و اقتدار عطا کریں گے تو ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا ؟- (اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ) ” - مؤمنین کو اگر کسی ملک پر حکومت کرنے کا اختیار ملے گا تو وہ اپنی پہلی ترجیح کے طور پر نماز کا نظام قائم کریں گے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ پہنچتے ہی جمعہ کے قیام کا اہتمام فرمایا اور اقامت صلوٰۃ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر مسجد نبوی کی تعمیر کی۔- (وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ ) ” - پھر زکوٰۃ کا باقاعدہ نظام قائم کیا جائے گا تاکہ معاشرے کے پس ماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی کفالت کا بندوبست ہو سکے۔- (وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ ) ” - اگر یہ روایت صحیح ہے کہ یہ آیات سفر ہجرت کے دوران میں نازل ہوئی تھیں تو ان میں سے خصوصی طور پر یہ آیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ تشریف آوری کے فوراً بعد کی صورت حال کے لیے ایک منشور ( ) کا درجہ رکھتی ہے۔ چونکہ عنقریب مدینہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ورود ایک بےتاج بادشاہ کی حیثیت سے ہونے والا تھا اور مدینہ پہنچتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار و اقتدار ملنے والا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے پیشگی بتادیا کہ اس صورت حال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ترجیحات کیا ہوں گی۔ چناچہ جس طرح آج کل ہر سیاسی پارٹی الیکشن سے پہلے اپنا منشور جاری کرتی ہے کہ حکومت ملنے کی صورت میں ہماری ترجیحات کیا ہوں گی ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل ایمان کو ہمیشہ کے لیے ایک منشور عطا کردیا ہے کہ کسی ملک میں اقتدار ملنے کی صورت میں انہیں کون کون سے امور ترجیحی بنیادوں پر انجام دینے ہوں گے۔- یہ وہ خاص آیات (٣٨ تا ٤١) ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگ اس سورت کو مدنی سورت سمجھتے ہیں ‘ البتہ درست موقف یہی ہے کہ یہ آیات یا تو اثنائے سفر ہجرت میں نازل ہوئیں یا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ پہنچنے کے فوراً بعد۔ لیکن انہیں مضامین حج کی مناسبت سے اس مکی سورت میں اس مقام پر رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد اگلی آیت سے دوبارہ مکی انداز کے مضامین کا آغاز ہو رہا ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :85 یعنی اللہ کے مددگار اور اس کی تائید و نصرت کے مستحق لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ اگر دنیا میں انہیں حکومت و فرمانروائی بخشی جائے تو ان کا ذاتی کردار فسق و فجور اور کبر و غرور کے بجائے اقامت صلوٰۃ ہو ، ان کی دولت عیاشیوں اور نفس پرستیوں کے بجائے ایتائے زکوٰۃ میں صرف ہو ، ان کی حکومت نیکی کو دبانے کے بجائے اسے فروغ دینے کی خدمت انجام دے اور ان کی طاقت بدیوں کو پھیلانے کے بجائے ان کے دبانے میں استعمال ہو ۔ اس ایک فقرے میں اسلامی حکومت کے نصب العین اور اس کے کارکنوں اور کار فرماؤں کی خصوصیات کا جوہر نکال کر رکھ دیا گیا ہے ۔ کوئی سمجھنا چاہے تو اسی ایک فقرے سے سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فی الواقع کس چیز کا نام ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :86 یعنی یہ فیصلہ کہ زمین کا انتظام کس وقت کسے سونپا جائے دراصل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ مغرور بندے اس غلط فہمی میں ہیں کہ زمین اور اس کے بسنے والوں کی قسمتوں کے فیصلے کرنے والے وہ خود ہیں ۔ مگر جو طاقت ایک ذرا سے بیج کو تناور درخت بنا دیتی ہے اور ایک تناور درخت کو بیزم سوختنی میں تبدیل کر دیتی ہے ، اسی کو یہ قدرت حاصل ہے کہ جن کے دبدبے کو دیکھ کر لوگ خیال کرتے ہوں کہ بھلا ان کو کون ہلا سکے گا انہیں ایسا گرائے کہ دنیا کے لیے نمونۂ عبرت بن جائیں ، اور جنہیں دیکھ کر کوئی گمان بھی نہ کر سکتا ہو کہ یہ بھی کبھی اٹھ سکیں گے انہیں ایسا سر بلند کرے کہ دنیا میں ان کی عظمت و بزرگی کے ڈنکے بج جائیں ۔
25: مسلمانوں کو مدینہ منورہ میں حکومت قائم کرنے اور کافروں کے خلاف لڑائی میں ان کی مدد کرنے کا مقصد اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ زمین میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی جان اور مال سے اللہ تعالیٰ کی عبادت خود بھی کریں گے، اور دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنے کا فریضہ انجام دیں گے۔ اس طرح یہ آیت ایک اسلامی ریاست کے بنیادی اغراض و مقاصد بیان فرما رہی ہے۔