کافروں کی حجت بازی بہت پرانی بیماری ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ منکروں کا انکار آپ کیساتھ کوئی نئی چیز نہیں ۔ نوح علیہ السلام سے لے کر موسیٰ علیہ السلام تک کے کل انبیاء کا انکار کفار برابر کرتے چلے آئے ہیں ۔ دلائل سامنے تھے ، حق سامنے تھا لیکن منکروں نے مان کر نہ مانا ۔ میں نے کافروں کو مہلت دی کہ یہ سوچ سمجھ لیں اپنے انجام پر غور کرلیں ۔ لیکن جب وہ اپنی نمک حرامی سے باز نہ آئے تو آخرکار میرے عذابوں میں گرفتار ہوئے ، دیکھ لے کہ میری پکڑ کیسی بےپناہ ثابت ہوئی کس قدر دردناک انجام ہوا ۔ سلف سے منقول ہے کہ فرعون کے حکمرانی کے دعوے اور اللہ کی پکڑ کے درمیان چالیس سال کا عرصہ تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھٹکارا نہیں ہوتا پھر آپ نے آیت ( وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ١٠٢ ) 11-ھود:102 ) تلاوت کی ، پھر فرمایا کہ کئی ایک بستیوں والے ظالموں کو جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی ہم نے غارت کردیا ۔ جن کے محلات کھنڈر بنے پڑے ہیں اوندھے گرے ہوئے ہیں ، ان کی منزلیں ویران ہوگیئں ، ان کی آبادیاں ویران ہوگئیں ، ان کے کنویں خالی پڑے ہیں ، جو کل تک آباد تھے آج خالی ہیں ، ان کے چونہ گچ محل جو دور سے سفید چمکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ، جو بلند وبالا اور پختہ تھے وہ آج ویران پڑے ہیں ، وہاں الو بول رہا ہے ، ان کی مضبوطی انہیں نہ بچا سکی ، ان کی خوبصورتی اور پائیداری بیکار ثابت ہوئی ۔ رب کے عذاب نے تہس نہس کردیا جیسے فرمان ہے آیت ( اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَةٍ 78 ) 4- النسآء:78 ) یعنی گو تم چونہ گچ پکے قلعوں میں محفوظ ہو لیکن موت وہاں بھی تمہیں چھوڑنے کی نہیں ۔ کیا وہ خود زمین میں چلے پھرے نہیں یا کبھی غور وفکر بھی نہیں کیا کہ کچھ عبرت حاصل ہوتی ؟ امام ابن ابی الدنیا کتاب التفکر والا عبار میں روایت لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ اے موسیٰ لوہے کی نعلین پہن کر لوہے کی لکڑی لے کر زمین میں چل پھر کر آثار وعبرت کو دیکھ وہ ختم نہ ہوں گے یہاں تک کہ تیری لوہے کی جوتیاں ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور لوہے کی لکڑی بھی ٹوٹ پھوٹ جائے ۔ اسی کتاب میں بعض دانشمندوں کا قول ہے کہ وعظ کے ساتھ اپنے دل کو زندہ کر ۔ اور غور وفکر کے ساتھ اسے نورانی کر اور زہد اور دنیا سے بچنے کے ساتھ اسے مار دے اور یقین کے ساتھ اس کو قوی کرلے اور موت کے ذکر سے اسے ذلیل کردے اور فنا کے یقین سے اسے صبر دے ۔ دنیاکی مصیبتیں اس کے سامنے رکھ کر اس آنکھیں کھول دے زمانے کی تنگی اسے دکھا اسے دہشت ناک بنادے ، دنوں کے الٹ پھیر اسے سمجھا کر بیدار کردے ۔ گذشتہ واقعات سے اسے عبرتناک بنا ۔ اگلوں کے قصے اسے سنا کر ہوشیار رکھ ۔ ان کے شہروں میں اور ان کی سوانح میں اسے غور وفکر کرنے کا عادی بنا ۔ اور دیکھ کہ گہنگاروں کے ساتھ اس کا معاملہ کیا ہوا کس طرح وہ لوٹ پوٹ کردیئے گئے ۔ پس یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ اگلوں کے واقعات سامنے رکھ کر دلوں کو سمجھدار بناؤ ان کی ہلاکت کے سچے افسانے سن کر عبرت حاصل کرو ۔ سن لو آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سب سے برا اندھا پن دل کا ہے گو آنکھیں صحیح سالم موجود ہوں ۔ دل کے اندھے پن کی وجہ سے نہ تو عبرت حاصل ہوتی ہے نہ خیروشر کی تمیز ہوتی ہے ۔ ابو محمد بن جیارہ اندلسی نے جن کا انتقال ٥١٧ھ میں ہوا ہے اس مضمون کو اپنے چند اشعار میں خوب نبھایا ہے وہ فرماتے ہیں ۔ اے وہ شخص جو گناہوں میں لذت پا رہا ہے کیا اپنے بڑھاپے اور نفس کی برائی سے بھی تو بےخبر ہے؟ اگر نصیحت اثر نہیں کرتی تو کیا دیکھنے سننے سے بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی ؟ سن لے آنکھیں اور کان اپنا کام نہ کریں تو اتنا برا نہیں جتنا ، برا یہ ہے کہ واقعات سے سبق نہ حاصل کیا جائے ۔ یاد رکھ نہ تو دنیا باقی رہے گی نہ آسمان نہ سورج چاند ۔ گو جی نہ چاہے مگر دنیا سے تم کو ایک روز بادل ناخواستہ کوچ کرناہی پڑے گا ۔ کیا امیر ہو کیا غریب کیا شہری ہو یا دیہاتی ۔
وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ ۔۔ : آیت کے شروع میں ” واؤ “ کا عطف ایک محذوف جملے پر ہے اور وہ محذوف جملہ اور یہ مذکور جملہ دونوں ترغیب و ترہیب پر مشتمل پچھلی آیات کا حاصل بیان کر رہے ہیں۔ وہ جملہ یہ ہے : ” فَاِنْ آمِنُوْا بِکَ مَکَّنَّاھُمْ فِي الْأَرْضِ وَ إِنْ یُّکَذِّبُوْکَ أَخَذْتُھُمْ “ ” پس اگر وہ (یہ سب کچھ سن کر) تجھ پر ایمان لے آئیں تو ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں گے اور اگر وہ تجھے جھٹلائیں تو میں انھیں پکڑ لوں گا۔ “ پہلا جملہ سننے والے کی سمجھ کے سپرد کرکے حذف کردیا ہے اور ” وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ “ کا اس پر عطف ڈالا ہے۔ (بقاعی) قرآن مجید میں بعض مقامات پر اس حذف شدہ جملے جیسے جملے مذکور بھی ہیں، مثلاً : (فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ) [ البقرۃ : ١٣٧ ] ” پھر اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقیناً وہ ہدایت پا گئے اور اگر پھرجائیں تو وہ محض ایک مخالفت میں (پڑے ہوئے) ہیں۔ “ اور فرمایا : (فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ ) [ آل عمران : ٢٠ ] ” پس اگر وہ تابع ہوجائیں تو بیشک ہدایت پا گئے اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو تیرے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے ۔ “ اور فرمایا : (قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ۭ وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا) [ النور : ٥٤ ] ” کہہ دے اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو، پھر اگر تم پھر جاؤ تو اس کے ذمے صرف وہ ہے جو اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے اور تمہارے ذمے وہ جو تم پر بوجھ ڈالا گیا اور اگر اس کا حکم مانو گے تو ہدایت پاجاؤ گے۔ “- ” وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ ۔۔ “ یہ جملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے اور ان کا غم دور کرنے کے لیے فرمایا ہے، یعنی اگر وہ تجھے جھٹلائیں تو میں انھیں پکڑ لوں گا، خواہ وہ کتنی قوت رکھتے ہوں، میں نے ان سے پہلے عمر، قد و قامت، قوت و شوکت، مال و متاع، خبث و نجاست اور حکومت و اقتدار میں ان سے کہیں بڑھی ہوئی قوموں کو، جب وہ باز نہ آئے تو پکڑ لیا اور وہ میری گرفت سے بچ نہ سکے، تو مکہ کے ان کافروں کی کیا بساط ہے ؟ اس لیے آپ غم زدہ نہ ہوں۔ آپ سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم نے جھٹلایا، جن کی عمریں سب لوگوں سے زیادہ اور جن کا اقتدار نہایت مضبوط تھا اور عاد نے جو بہت لمبے اور نہایت مضبوط قد رکھتے تھے، جن کے بعد ان جیسی قوم پیدا نہیں ہوئی اور ثمود، جنھوں نے میدانوں میں اور پہاڑوں میں چٹانیں تراش کر نہایت مضبوط اور بلند و بالا عمارتیں بنا رکھی تھیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کو جو جبر و تکبر میں انتہا کو پہنچے ہوئے تھے اور لوط (علیہ السلام) کی خبیث اور نجس قوم کو اور مدین والوں کو جنھوں نے حرام طریقے سے کمائے ہوئے مال کے خزانے جمع کر رکھے تھے۔- وَكُذِّبَ مُوْسٰى : موسیٰ (علیہ السلام) کو چونکہ سب لوگوں کو نظر آنے والے اتنے معجزے عطا کیے گئے جو اس سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئے تھے، اس لیے ان کی تکذیب انتہائی بعید بات تھی، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے کلام کا اسلوب بدل دیا اور اس لیے بھی بدل دیا کہ پہلے ذکر کردہ تمام انبیاء کی اقوام نے انھیں جھٹلایا تھا جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل نے انھیں چند ایک کے سوا نہیں جھٹلایا، صرف فرعون کی قوم قبطیوں نے انھیں جھٹلایا تھا۔ رہی بنی اسرائیل کی نافرمانیاں تو وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا سمجھنے کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس قوم کی بدعملی اور طبیعت کی خست کی وجہ سے تھیں۔- فَاَمْلَيْتُ لِلْكٰفِرِيْنَ : اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور مسلمانوں کو دلاسا اور تسلی دی ہے کہ میں نے مکہ کے کفار کو بھی اسی طرح مہلت دی ہے، اب جنگ کی اجازت ہے، اگر یہ ایمان لے آئیں تو خیر، ورنہ ان پر بھی میری پکڑ مہاجرین و انصار کی یلغار کی صورت میں تیار ہے۔ - فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ : ” نَكِيْرِ “ کی ” راء “ کے نیچے کسرہ ہے، کیونکہ اصل میں ” نَکِیْرِيْ “ تھا، میرا عذاب۔ ” یاء “ کو تخفیف کے لیے اور فواصل یعنی آیات کے آخری الفاظ (مثلاً کَفُوْر، عَزِیْز، اَلْاُمُوْر، مَشِیْد، اَلصُّدُوْر وغیرہ) کی موافقت کے لیے حذف کردیا گیا۔ ان پر آنے والے عذابوں کی تفصیل سورة عنکبوت میں ہے، فرمایا : (فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا ۚوَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَان اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ) [ العنکبوت : ٤٠ ] ” تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا، پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھراؤ والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کردیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے اور لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔ “
خلاصہ تفسیر - اور یہ (مجادلہ کرنے والے لوگ) اگر آپ کی تکذیب کرتے ہوں (تو آپ مغموم نہ ہوں کیونکہ ان لوگوں سے پہلے قوم نوح اور عاد وثمود اور قوم ابراہیم اور قوم لوط اور اہل مدین بھی (اپنے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کی) تکذیب کرچکے ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی کاذب قرار دیا گیا (مگر تکذیب کے بعد) میں نے ان کافروں کو (چند روز) مہلت دی جیسے آج کے منکروں کو مہلت دے رکھی ہے پھر میں نے ان کو (عذاب میں) پکڑ لیا تو (دیکھو) میرا عذاب کیسا ہوا۔ غرض کتنی بستیاں ہیں جن کو ہم نے (عذاب سے) ہلاک کیا جن کی یہ حالت تھی کہ وہ نافرمانی کرتی تھیں تو (اب ان کی یہ کیفیت ہے کہ) وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں (یعنی ویران ہیں کیونکہ عادةً اول چھت گرا کرتی ہے پھر دیواریں آپڑتی ہیں) اور (اس طرح ان بستیوں میں) بہت سے بیکار کنویں (جو پہلے آباد تھے) بہت سے پختہ قلعی چونے کے محل (جو اب شکستہ ہوگئے یہ سب ان بستیوں کے ساتھ تباہ ہوئے پس اسی طرح وقت موعود پر اس زمانے کے لوگ بھی عذاب میں پکڑے جاویں گے) تو کیا یہ (سن کر) لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں جس سے ان کے دل ایسے ہوجاویں کہ ان سے سمجھنے لگیں یا ان کے کان ایسے ہوجاویں کہ ان سے سننے لگیں بات یہ ہے کہ (نہ سمجھنے والوں کی کچھ) آنکھیں اندھی نہیں ہوجایا کرتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوجاتے ہیں (ان موجودہ منکرین کے بھی دل اندھے ہوگئے ورنہ پچھلی امتوں کے حالات سے سبق سیکھ لیتے) اور یہ لوگ (نبوت میں شبہ ڈالنے کے لئے) آپ سے عذاب کا تقاضا کرتے ہیں (اور عذاب کے جلدی نہ آنے سے یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ عذاب آنے والا ہی نہیں) حالانکہ اللہ تعالیٰ کبھی اپنا وعدہ خلاف نہ کرے گا (یعنی وعدہ کے وقت ضرور عذاب واقع ہوگا) اور آپ کے رب کے پاس کا ایک دن (جس میں عذاب واقع ہوگا یعنی قیامت کا دن اپنے امتداد یا اشتداد میں) ایک ہزار سال کی برابر ہے تم لوگوں کی شمار کے مطابق (تو یہ بڑے بیوقوف ہیں کہ ایسی مصیبت کا تقاضا کرتے ہیں) اور (جواب مذکور کا خلاصہ پھر سن لو کہ) بہت سی بستیاں ہیں جن کو میں نے مہلت دی تھی اور وہ نافرمانی کرتی تھیں پھر میں نے ان کو (عذاب میں) پکڑ لیا اور سب کو میری ہی طرف لوٹنا ہوگا (اس وقت پوری سزا ملے گی) اور آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ اے لوگو میں تو تمہارے لئے ایک صاف ڈرانے والا ہوں (عذاب واقع کرنے نہ کرنے میں میرا دخل نہیں نہ میں نے اس کا دعویٰ کیا ہے) تو جو لوگ (اس ڈر کو سن کر) ایمان لے آئے اور اچھے کام کرنے لگے ان کے لئے مغفرت اور عزت کی روزی (یعنی جنت) ہے اور جو لوگ ہماری آیتوں کے متعلق (ان کے انکار اور ابطال کی) کوشش کرتے رہتے ہیں (نبی کو اور اہل ایمان کو) ہرانے (یعنی عاجز کرنے) کیلئے ایسے لوگ دوزخ میں (رہنے والے) ہیں۔
وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّثَمُوْدُ ٤٢ۙ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔
(٤٢۔ ٤٣) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہ قریش آپ کو جھٹلاتے ہیں تو آپ کی قوم سے پہلے قوم نوح، نوح (علیہ السلام) کی اور قوم ہود، ہود (علیہ السلام) کی اور قوم صالح، صالح (علیہ السلام) کی اور قوم ابراہیم، ابراہیم (علیہ السلام) کی اور قوم لوط، لوط (علیہ السلام) کی اور قوم شعیب بھی شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کرچکی ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :87 یعنی کفار مکہ ۔