ذرا صبر ، عذاب کا شوق پورا ہوگا اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ وسلامہ علیہ سے فرما رہا ہے کہ یہ ملحد کفار اللہ کو اس کے رسول کو اور قیامت کے دن کو جھٹلانے والے تجھ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی کررہے ہیں کہ جلد ان عذابوں کو کیوں نہیں برپا کردیا جاتا جن سے ہمیں ہر وقت ڈرایا دھمکایا جارہاہے ۔ چنانچہ وہ اللہ سے بھی کہتے تھے کہ الٰہی اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے سنگ باری کر یا اور کسی طرح کا درد ناک عذاب بھیج ۔ کہتے تھے کہ حساب کے دن سے پہلے ہی ہمارا معاملہ صاف کردے ۔ اللہ فرماتا ہے یاد رکھو اللہ کا وعدہ اٹل ہے قیامت اور عذاب آکر ہی رہیں گے ۔ اولیا اللہ کی عزت اور اعداء اللہ کی ذلت یقینی اور ہو کر رہنے والی ہے ۔ اسمعی کہتے ہیں میں ابو عمرو بن علا کے پاس تھا کہ عمرو بن عبید آیا اور کہنے لگا کہ اے ابو عمرو کیا اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس نے اسی وقت عذاب کی ایک آیت تلاوت کی اس پر آپ نے فرمایا کیا تو عجمی ہے ؟ سن عرب میں وعد کا یعنی اچھی بات سے وعدہ خلافی کو برا فعل سمجھا جاتا ہے لیکن الیعاد کا یعنی سزا کے احکام کا ردو بدل یا معافی بری نہیں سمجھی جاتی بلکہ وہ کرم ورحم سمجھا جاتا ہے دیکھو شاعر کہتا ہے ۔ ( فانی وان اوعدتہ او وعدتہ لمخلف ایعادی ومنجز موعدی ) میں کسی کو سزا کہوں یا اس سے انعام کا وعدہ کروں ۔ تو یہ تو ہوسکتا ہے کہ میں اپنی دھمکی کے خلاف کر جاؤں بلکہ قطعا ہرگز سزا نہ دوں لیکن اپنا وعدہ تو ضرور پورا کر کے ہی رہوں گا ۔ الغرض سزا کا وعدہ کرکے سزا نہ کرنا یہ وعدہ خلافی نہیں ۔ لیکن رحمت انعام کا وعدہ کرکے پھر روک لینا یہ بری صفت ہے جس سے اللہ کی ذات پاک ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ایک ایک دن اللہ کے نزدیک تمہارے ہزار ہزار دنوں کے برابر ہے یہ بہ اعتبار اس کے حلم اور بردباری کے ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ ہر وقت ان کی گرفت پر قادر ہے اس لئے عجلت کیا ہے ؟ گو کتنی ہی سے مہلت مل جائے ، گو کتنی ہی سے رسی دراز ہوجائے لیکن جب چاہے گا سانس لینے کی بھی مہلت نہ دے گا اور پکڑلے گا ۔ اسی لئے اس کے بعد ہی فرمان ہوتا ہے بہت سی بستیوں کے لوگ ظلم پر کمر کسے ہوئے تھے ، میں نے بھی چشم پوشی کر رکھی تھی ۔ جب مست ہوگئے تو اچانک گرفت کر لی ، سب مجبور ہیں سب کو میرے ہی سامنے حاضر ہونا ہے ، سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فقرا مسلمان مالدار مسلمانوں سے آدھا دن پہلے جنت میں جائیں گے یعنی پانچ سو برس پہلے ۔ اور روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا آدھے دن کی مقدار کیا ہے؟ فرمایا کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا ؟ میں نے کہا ہاں تو یہی آیت سنائی ۔ یعنی اللہ کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال کاہے ۔ ابو داؤد کی کتاب الملاحم کے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ میری امت کو آدھے دن تک تو ضرور موخر رکھے گا ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا آدھا دن کتنے عرصے کا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا پانچ سو سال کا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو پڑھ کر فرمانے لگے یہ ان دنوں میں سے جن میں اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ( ابن جریر ) بلکہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب الرد علی الجمیہ میں اس بات کو کھلے لفظ میں بیان کیا ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت مثل آیت ( يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗٓ اَلْفَ سَـنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ Ĉ ) 32- السجدة:5 ) کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کام کی تدبیر آسمان سے زمین کی طرف کرتا ہے ، پھر اس کی طرف چڑھ جاتا ہے ۔ ایک ہی دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہے ۔ امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ ایک نو مسلم اہل کتاب سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین چھ دن میں پیدا کیا اور ایک دن تیرے رب کے نزدیک مثل ایک ہزار سال کے ہے جو گنتے ہو ۔ اللہ نے دنیا کی اجل چھ دن کی کی ہے ساتویں دن قیامت ہے اور ایک ایک دن مثل ہزار ہزار سال کے ہے پس چھ دن تو گزر گئے اور اب تم ساتویں دن میں ہو اب تو بالکل اس حاملہ کی طرح ہے جو پورے دنوں میں ہو اور نہ جانے کب بچہ ہوجائے ۔
47۔ 1 اس لئے یہ لوگ تو اپنے حساب سے جلدی کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے حساب میں ایک دن بھی ہزار سال کا ہے اس اعتبار سے وہ اگر کسی کو ایک دن (24 گھنٹے) کی مہلت دے تو ہزار سال، نصف یوم کی مہلت تو پانچ سو سال، 6 گھنٹے (جو 24 گھنٹے کا چوتھائی ہے) مہلت دے تو ڈھائی سو سال کا عرصہ عذاب کے لئے درکار ہے، اس طرح اللہ کی طرف سے کسی کو ایک گھنٹے کی مہلت مل جانے کا مطلب کم و بیش چالیس سال کی مہلت ہے (ایسر التفاسیر) ایک دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی قدرت میں ایک دن اور ہزار سال برابر ہیں اس لیے تقدیم و تاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ جلدی مانگتے ہیں وہ دیر کرتا ہے تاہم یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرکے رہے گا اور بعض نے اسے آخرت پر محمول کیا ہے کہ شدت ہولناکی کی وجہ سے قیامت کا ایک دن ہزار سال بلکہ بعض کو پچاس ہزار سال کا لگے گا اور بعض نے کہا کہ آخرت کا دن واقعی ہزار سال کا ہوگا۔
[٧٥] اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ابھرنے والی قوم یا تہذیب کی طبعی عمر ہزار سال ہوتی ہے یا ہونی چاہئے۔ بلکہ یہ الفاظ انسان کے عذاب کو جلد طلب کرنے اور اس کے قانون تدریج و امہال کے مطابق تاخیر میں تقابل کے طور پر ذکر کئے گئے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ کسی قوم کے ظلم و جور میں اس قدر زیادتی واقع ہوجائے تو تین چار صدیاں گزرنے پر بھی اسے تباہ کردیا جائے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے۔ کہ کوئی قوم یا تہذیب ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ زندہ رہے۔ یہ سب باتیں کسی قوم کے گناہوں کی رفتار پر منحصر ہوتی ہیں۔
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ : مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جلد از جلد عذاب لانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ اس مطالبے سے ان کا مقصد عذاب آنے کا انکار اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانا، آپ کا مذاق اڑانا اور آپ کو لاجواب کرنا تھا۔ قرآن مجید نے ان کے اس مطالبے کا کئی جگہ ذکر فرمایا ہے، چناچہ فرمایا : (وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) [ الأنبیاء : ٣٨ ] ” اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو۔ “ اور فرمایا : (وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ ۭ وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاۗءَهُمُ الْعَذَابُ ) [ العنکبوت : ٥٣ ] ” اور وہ تجھ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر ایک مقرر وقت نہ ہوتا تو ان پر عذاب ضرور آجاتا۔ “ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست عذاب کی دعا سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے : (وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ ) [ صٓ : ١٦ ] ” اور انھوں نے کہا اے ہمارے رب ہمیں ہمارا حصہ یوم حساب سے پہلے جلدی دے دے۔ “ اور فرمایا : (وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) [ الأنفال : ٣٢ ] ” اور جب انھوں نے کہا اے اللہ اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔ “- وَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ : مشرکین جس یقین کے ساتھ عذاب نازل ہونے کو جھٹلاتے تھے اسی تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف ہرگز نہیں کرے گا، جو اس نے فرمایا ہے ہو کر رہے گا، مگر اس وقت پر جو اس نے مقرر فرمایا ہے۔- وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ ۔۔ : یعنی رب تعالیٰ تمہاری طرح تنگ ظرف اور جلد باز نہیں بلکہ بیحد حلیم اور وسعت والا ہے۔ اس کی دی ہوئی تھوڑی سی مہلت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے، تمہارا ایک ہزار سال اس کے نزدیک صرف ایک دن ہے، وہ اتنا حلیم ہے کہ آدھے دن کی مہلت دے تو وہ بھی پانچ سو برس ہوگی اور ایک گھنٹہ کی مہلت دے تو چالیس برس سے زیادہ ہوگی۔ اس کے حلم کی وجہ یہ ہے کہ وہ انتقام پر قادر ہے، کوئی چیز اس کی گرفت سے نکل نہیں سکتی، خواہ وہ کتنی مہلت دے یا رسی دراز کرے۔
آخرت کا دن ایک ہزار سال ہونے کا مطلب :- آیت مذکورہ میں جو یہ فرمایا ہے اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ ، یعنی آپ کے رب کے پاس ایک دن دنیا کے ایک ہزار سال کی برابر ہوگا۔ اس میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ اس دن سے مراد قیامت کا دن لیا جائے اور اس کا ایک ہزار سال کی برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس دن کے ہولناک واقعات اور ہیبت ناک حالات کی وجہ سے یہ دن اتنا دراز محسوس ہوگا جیسے ایک ہزار سال خلاصہ تفسیر مذکور میں اسی کو اشتداد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے بہت سے حضرات مفسرین نے اس کے یہی معنے قرار دیئے ہیں۔- دوسرے یہ کہ واقع میں عالم آخرت کا ایک دن ہمیشہ کے لئے دنیا کے ایک ہزار سال ہی کے برابر ہو بعض روایات حدیث سے اسی معنے کی شہادت ملتی ہے۔ مسند احمد، ترمذی میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز فقراء مہاجرین کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم کو میں قیامت کے روز مکمل نور کی بشارت دیتا ہوں اور یہ کہ تم اغنیاء اور مالداروں سے آدھا دن پہلے جنت میں جاؤ گے اور اللہ کے یہاں ایک دن ایک ہزار سال کا ہوگا اس لئے فقراء اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے (رواہ الترمذی و حسنہ۔ مظہری)- خلاصہ تفسیر میں اسی دوسرے معنے کو بلفظ امتداد تعبیر کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم - ایک شبہ کا جواب :- سورة معارج میں جو آخرت کے دن کو پچاس ہزار سال کے برابر قرار دیا ہے کان مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ اس میں بھی دونوں تفسیریں اشتداد اور امتداد کی ہو سکتی ہیں اور ہر شخص کی شدت و مصیبت چونکہ دوسروں سے مختلف اور کم و بیش ہوگی اس لئے وہ دن کسی کو ایک ہزار سال کا محسوس ہوگا کسی کو پچاس ہزار سال کا، اور اگر دوسرے معنے لئے جاویں کہ حقیقةً آخرت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا تو ان دونوں آیتوں میں بظاہر تعارض ہوتا ہے کہ ایک میں ایک ہزار سال اور دوسری میں پچاس ہزار سال کا ذکر ہے تو اس کی تطبیق سیدی حکیم الامت قدس سرہ نے بیان القرآن میں بیان فرمائی ہے جو اہل علم کے لئے علمی اور اصطلاحی الفاظ ہی میں نقل کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ تفاوت ایک ہزار سال سے پچاس ہزار سال تک اختلاف آفاق کے اعتبار سے ہو جس طرح دنیا میں معدل النہار کی حرکت کہیں دولابی ہے کہیں حمائلی کہیں رحوی اور اسی وجہ سے خط استواء پر ایک رات دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے اور عرض تسعین (قطب شمالی) پر ایک سال کا اور ان دونوں کے درمیان مختلف مقادیر پر مختلف ہوتا چلا جاتا ہے اسی طرح ممکن ہے کہ اول شمس کی حرکت جو معدل کے ساتھ ہے بطور خرق عادت و اعجاز اس قدر سست ہوجائے کہ ایک افق پر ایک ہزار سال کا دن ہو اور جو افق اس سے پچاس حصے ہٹا ہوا ہو اس پر پچاس ہزار برس کا ہو اور درمیان میں اسی نسبت سے متفاوت ہو، واللہ اعلم (بیان القرآن)
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُّخْلِفَ اللہُ وَعْدَہٗ ٠ۭ وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ٤٧- عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - خُلف ( عهد شكني)- والخُلْفُ : المخالفة في الوعد . يقال : وعدني فأخلفني، أي : خالف في المیعاد بما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] - ( خ ل ف ) خُلف - الخلف کے معنی وعدہ شکنی کے میں محاورہ ہے : اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر اسے پورا نہ کیا ۔ قرآن میں ہے ۔ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اسکے خلاف کیا ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] بیشک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔ - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- عد - العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5]- ( ع د د ) العدد - ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب
(٤٧) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نضر بن حارث نزول عذاب کے وقت سے پہلے آپ سے عذاب کا تقاضا کرتے ہیں، عذاب کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے وہ کبھی اس کے خلاف نہیں کرے گا اور آپ کے رب کے پاس کا ایک دن جس میں ان سے نزول عذاب کا وعدہ فرمایا ہے وہ دنیا کے سالوں میں سے ایک ہزار سال کے برابر ہوگا۔
آیت ٤٧ (وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰہُ وَعْدَہٗ ط) ” - عذاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سب وعدے ہر صورت میں پورے ہوں گے اور ان لوگوں پر عذاب آکر رہے گا۔ البتہ یہ عذاب کب آئے گا ؟ کس شکل میں آئے گا ؟ اس کے بارے میں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ اس نے ایسی تمام معلومات خفیہ رکھی ہیں۔ سورة الانبیاء میں اس موضوع سے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یوں اعلان کرایا گیا : (وَاِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ ) ” اور میں نہیں جانتا کہ جس عذاب کا تم لوگوں سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا کچھ عرصے بعد آئے گا۔ “ - (وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) ” - دنیا میں عام انسانی حساب کے مطابق ایک ہزار برس کا عرصہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے برابر ہے۔ سورة السجدۃ میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : (یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) ” اللہ آسمان سے زمین تک کے ہر معاملے کی تدبیر کرتا ہے ‘ پھر یہ چڑھتا ہے اس کی طرف ایک ایسے دن میں جس کی مقدار ہے ایک ہزار سال ‘ جیسے تم لوگ گنتے ہو “۔ یہ ” تدبیرِ اَمر “ دراصل اللہ تعالیٰ کے ان تین کاموں میں سے ایک ہے جن کے متعلق قبل ازیں سورة یونس کی آیت ٣ کے تحت (جلد چہارم) شاہ ولی اللہ (رح) کی تصنیف ” حجۃ اللہ البالغہ “ کے حوالے سے بتایا جا چکا ہے ‘ یعنی ابداع ‘ خلق اور تدبیر۔ چناچہ اس تیسرے کام (تدبیر) کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو طرح طرح کے احکام دیے جاتے ہیں اور پھر فرشتوں کے ذریعے سے ہی ان احکام کی تنفیذ ( ) ہوتی ہے۔ اس منصوبہ بندی میں اللہ کے ہاں ایک دن کا عرصہ انسانی گنتی کے مطابق ایک ہزار برس کے برابر ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ یہ مضمون چونکہ بہت واضح الفاظ کے ساتھ قرآن میں دو مرتبہ آیا ہے اس لیے یہ معاملہ ” متشابہات “ میں سے نہیں بلکہ ” محکمات “ کے درجے میں ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :92 یعنی بار بار چیلنج کر رہے ہیں کہ میاں اگر تم سچے نبی ہو تو کیوں نہیں آجاتا ہم پر وہ عذاب جو خدا کے بھیجے ہوئے نبی برحق کے جھٹلانے پر آنا چاہیے ، اور جس کی دھمکیاں بھی تم بارہا ہم کو دے چکے ہو ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :93 یعنی انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے تمہاری گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے کہ آج ایک صحیح یا غلط روش اختیار کی اور کل اس کے اچھے یا برے نتائج ظاہر ہو گئے ۔ کسی قوم سے اگر یہ کہا جائے کہ فلاں طرز عمل اختیار کرنے کا انجام تمہاری تباہی کی صورت میں نکلے گا تو وہ بڑی ہی احمق ہوگی اگر جواب میں یہ استدلال کرے کہ جناب اس طرز عمل کو اختیار کیے ہمیں دس ، بیس یا پچاس برس ہو چکے ہیں ، ابھی تک تو ہمارا کچھ بگڑا نہیں ۔ تاریخی نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو درکنار صدیاں بھی کوئی بڑی چیز نہیں ہیں ۔
26: اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے ایک ہزار سال کے برابر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کی صحیح تشریح تو اﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہ نے اسے متشابہات میں بھی شمار کیا ہے، لیکن اس آیت کو سمجھنے کے لئے اتنی تشریح کافی ہے کہ کفار کے سامنے جب یہ کہا جاتا تھا کہ ان کے کفر کے نتیجے میں ان پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دُنیا یا آخرت میں عذاب آئے گا، تو وہ اِس کا مذاق اڑاتے تھے، اور کہتے تھے کہ اِتنے دن گذر گئے، لیکن کوئی عذاب نہیں آیا، اگر واقعی عذاب آنا ہے تو ابھی کیوں نہیں آجاتا؟ اس کے جواب میں فرمایا جارہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو وعدہ کر رکھا ہے وہ تو ضرور پورا ہوگا۔ رہا اُس کا وقت، تو وہ اﷲ تعالیٰ کی اپنی حکمت کے مطابق متعین ہوگا۔ اور تم جو سمجھ رہے ہو کہ اس کے آنے میں بہت دیر ہوگئی ہے تو درحقیقت تم جس مدّت کو ایک ہزار سال سمجھتے ہو، وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے برابر ہے۔ اس آیت کی کچھ مزید تفصیل اِن شاء اللہ سورۂ معارج (۷۰:۴) میں آئے گی۔