اطاعت الٰہی سے روکنے والوں کا حشر چونکہ کفار عذاب مانگا کرتے تھے اور ان کی جلدی مچاتے رہتے تھے ان کے جواب میں اعلان کرایا جارہا ہے کہ لوگو میں تو اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ تمہیں رب کے عذابوں سے جو تمہارے آگے ہیں چوکنا کردوں ، تمہارا حساب میرے ذمے نہیں ۔ عذاب اللہ کے بس میں ہے چاہے اب لائے چاہے دیر سے لائے ۔ مجھے کیا معلوم کہ تم میں کس کی قسمت میں ہدایت ہے اور کون اللہ کی رحمت سے محروم رہنے والا ہے چاہت اللہ کی ہی پوری ہونی ہے حکومت اسی کے ہاتھ ہے مختار اور کرتا دھرتا وہی ہے کسی کو اس کے سامنے چوں چرا کی مجال نہیں وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے ۔ میری حیثیت تو صرف ایک آگاہ کرنے والے کی ہے ۔ جن کے دلوں میں یقین وایمان ہے اور اسکی شہادت انکے اعمال سے بھی ثابت ہے ۔ انکے کل گناہ معافی کے لائق ہیں اور ان کی کل نیکیاں قدردانی کے قابل ہیں ۔ رزق کریم سے مراد جنت ہے ۔ جو لوگ اوروں کو بھی اللہ کی راہ سے اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روکتے ہیں وہ جہنمی ہیں ، سخت عذابوں اور تیز آگ کے ایندھن ہیں ، اللہ ہمیں بچائے ۔ اور آیت میں ہے کہ ایسے کفار کو انکے فساد کے بدلے عذاب پر عذاب ہیں ۔
49۔ 1 یہ کفار و مشرکین کے مطالبہ پر کہا جا رہا ہے کہ میرا کام تو عذاب بھیجنا، یہ اللہ کا کام ہے، وہ جلدی گرفت فرما لے یا اس میں تاخیر کرے، وہ اپنی حسب و مشیت و مصلحت یہ کام کرتا ہے۔ جس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس خطاب کے اصل مخاطب اگرچہ اہل مکہ ہیں۔ لیکن چونکہ آپ پوری نوح انسانی کے لئے رہبر اور رسول بن کر آئے تھے، اس لئے خطاب یَا اَیُّھَا لنَّاسُ کے الفاظ سے کیا گیا، اس میں قیامت تک ہونے والے وہ کفار و مشرکین آگئے جو اہل مکہ کا سا رویہ اختیار کریں گے۔
[٧٧] یعنی یہ بات میرے اختیار میں نہیں کہ اگر تم عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ کرو تو میں فوراً وہ عذاب لے آؤں۔ میرا کام صرف تمہیں تمہارے انجام سے ڈرانا ہے اور یہ کام میں پوری ذمہ داری سے سرانجام دے رہا ہوں۔
قُلْ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّمَآ اَنَا لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ لوگ آپ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک جواب تو اپنا قانون مہلت ذکر فرمایا، یہ آیت دوسرا جواب ہے۔ فرمایا، ان سے کہہ دیجیے کہ میں تو صرف تمہیں ڈرانے والا ہوں، میرا کام کفر کے برے انجام سے خبردار اور آگاہ کرنا ہے، عذاب جلدی لانا یا دیر سے لانا میرا کام نہیں، یہ مجھے بھیجنے والے کا کام ہے۔ میں صرف پیغام پہنچانے والا ہوں، خود اللہ نہیں ہوں۔- يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : یعنی تمام دنیا کے لوگوں کو پیغام پہنچا دو خواہ کسی قوم یا ملک سے تعلق رکھتے ہوں، خواہ قیامت تک کسی زمانے کے لوگ ہوں۔ دیکھیے سورة سبا (٢٨) ۔- نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : یعنی میں تمہیں ڈرانے والا (اور بشارت دینے والا) ہوں، تمہیں کھول کر ہر وہ چیز بتاتا ہوں جو تمہارے لیے نقصان دہ ہے، تاکہ تم اس سے بچ جاؤ اور ہر وہ چیز بتاتا ہوں جو تمہارے فائدے کی ہے، تاکہ تم اسے اختیار کرلو۔ یہاں ” نَذِيْرٌ“ کے ساتھ ” بَشِیْرٌ“ بھی ہے مگر الفاظ میں اسے حذف کردیا گیا ہے، کیونکہ مقام اس عذاب سے ڈرانے کا ہے جسے وہ جلدی مانگ رہے ہیں۔ یہاں ” بَشِیْرٌ“ کو الگ اس لیے ذکر نہیں فرمایا کہ ہر نذیر بشیر بھی ہوتا ہے، کیونکہ اس کی خبردار کردہ چیزوں سے بچنے کا نتیجہ خوشی کی خبر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ” نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ“ کے ضمن میں ” بَشِیْرٌ“ کے تذکرے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد پہلی آیت میں بشارت ہے اور دوسری میں نذارت۔ (بقاعی)
قُلْ يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّمَآ اَنَا لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ٤٩ۚ- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔
(٤٩) آپ فرما دیجیے مکہ والو میں تمہارے لیے اللہ کی طرف سے ایک ایسی زبان میں جس کو تم جانتے ہو ڈرانے والا رسول ہوں۔
آیت ٤٩ (قُلْ یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّمَآ اَنَا لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ) ” (- کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہی اسی لیے ہے کہ میں تم لوگوں کو آنے والی زندگی کے مراحل کی تمام تفصیلات سے واضح طور پر خبردار کر دوں۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :94 یعنی میں تمہاری قسمتوں کے فیصلے کرنے والا نہیں ہوں ، بلکہ صرف خبردار کرنے والا ہوں ۔ میرا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ شامت آنے سے پہلے تم کو متنبہ کر دوں ۔ آگے فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے ۔ وہی طے کرے گا کہ کس کو کب تک مہلت دینی ہے اور کب کس صورت میں اس پر عذاب لانا ہے ۔