Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پہلی پیدائش دوسری پیدائش کی دلیل مخالفین اور منکرین قیامت کے سامنے دلیل بیان کی جاتی ہے کہ اگر تمہیں دوسری بار کی زندگی سے انکار ہے تو ہم اس کی دلیل میں تمہاری پہلی دفعہ کی پیدائش تمہیں یاد دلاتے ہیں ۔ تم اپنی اصلیت پر غور کرکے دیکھو کہ ہم نے تمہیں مٹی سے بنایا ہے یعنی تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو جن کی نسل تم سب ہو ۔ پھر تم سب کوذلیل پانی کے قطروں سے پیدا کیا ہے جس نے پہلے خون بستہ کی شکل اختیار کی پھر گوشت کا ایک لوتھڑا بنا ۔ چالیس دن تک تو نطفہ اپنی شکل میں بڑھتا ہے پھر بحکم الٰہی اس میں خون کی سرخ پھٹکی پڑتی ہے ، پھر چالیس دن کے بعد وہ ایک گوشت کے ٹکڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس میں کوئی صورت وشبیہ نہیں ہوتی پھر اللہ تعالیٰ اسے صورت عنایت فرماتا ہے سرہاتھ ، سینہ ، پیٹ ، رانیں ، پاؤں اور کل اعضابنتے ہیں ۔ کبھی اس سے پہلے ہی حمل ساقط ہوجاتا ہے ، کبھی اس کے بعد بچہ گرپڑتا ہے ۔ یہ تو تمہارے مشاہدے کی بات ہے ۔ اور کبھی ٹھہرجاتا ہے ۔ جب اس لوتھڑے پر چالیس دن گزرجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جواسے ٹھیک ٹھاک اور درست کرکے اس میں روح پھونک دیتا ہے اور جیسے اللہ چاہتا ہو خوبصورت بدصورت مرد عورت بنادیا جاتا ہے رزق ، اجل ، نیکی ، بدی اسی وقت لکھ دی جاتی ہے ۔ بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس رات تک جمع ہوتی ہے ۔ پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت رہتی ہے ، پھر چالیس دن تک گوشت کے لوتھڑے کی ، پھر فرشتے کو چار چیزیں لکھ دینے کا حکم دے کر بھیجا جاتا ہے ۔ رزق ، عمل ، اجل ، شقی یاسعید ہونا لکھ لیا جاتا ہے پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے عبداللہ فرماتے ہیں نطفے کے رحم میں ٹھیرتے ہی فرشتہ پوچھتا ہے کہ اے اللہ یہ مخلوق ہوگا یا نہیں ؟ اگر انکار ہوا تو وہ جمتا ہی نہیں ۔ خون کی شکل میں رحم اسے خارج کردیتا ہے اور اگر حکم ملا کہ اس کی پیدائش کی جائے گی تو فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی ؟ نیک ہوگا یابد؟ اجل کیا ہے؟ اثر کیا ہے ؟ کہاں مرے گا ؟ پھرنطفے سے پوچھا جاتا ہے تیرے رب کون ہے وہ کہتا ہے اللہ پوچھا جاتا ہے رازق کون ہے ؟ کہتا ہے کہ اللہ ۔ پھرفرشتے سے کہا جاتا ہے تو جا اور اصل کتاب میں دیکھ لے وہیں اس کا حال مل جائے گا پھر وہ پیدا کیا جاتا ہے لکھی ہوئی زندگی گزارتا ہے مقدر کا رزق پاتا ہے مقررہ جگہ چلتا پھرتا ہے پھر موت آتی ہے اور دفن کیا جاتا ہے جہاں دفن ہونا مقدر ہے ۔ پھر حضرت عامر رحمتہ اللہ علیہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی مضغہ ہونے کے بعد چوتھی پیدائش کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور ذی روح بنتا ہے ۔ حضرت حذیفہ بن اسید کی مرفوع روایت میں ہے کہ چالیس پینتالیس دن جب نطفے پر گزر جاتے ہیں تو فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ یہ دوزخی ہے یا جنتی ؟ جو جواب دیا جاتا ہے لکھ لیتا ہے پھر پوچھتا ہے لڑکا ہے یالڑکی ؟ جو جواب ملتا ہے لکھ لیتا ہے پھر عمل اور اثر اور رزق اور اجل لکھی جاتی ہے اور صحیفہ لپیٹ لیا جاتا ہے جس میں نہ کمی ممکن ہے نہ زیادتی پھر بچہ ہو کردنیا میں تولد ہوتا ہے نہ عقل ہے نہ سمجھ ۔ کمزور ہے اور تمام اعضا ضعیف ہیں پھر اللہ تعالیٰ بڑھاتا رہتا ہے ماں باپ کو مہربان کردیتا ہے ۔ دن رات انہیں اس کی فکر رہتی ہے تکلیفیں اٹھا کر پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پروان چڑھاتا ہے ۔ یہاں تک کہ عنفوان جوانی کا زمانہ آتا ہے خوبصورت تنومند ہوجاتا ہے بعض تو جوانی میں ہی چل بستے ہیں بعض بوڑھے پھونس ہوجاتے ہیں کہ پھرعقل وخرد کھوبیٹھتے ہیں اور بچوں کی طرح ضعیف ہوجاتے ہیں ۔ حافظہ ، فہم ، فکر سب میں فتور پڑ جاتا ہے علم کے بعد بےعلم ہوجاتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ 54؀ ) 30- الروم:54 ) اللہ نے تمہیں کمزوری میں پیدا کیا پھر زور دیا پھر اس قوت وطاقت کے بعد ضعف اور بڑھاپا آیا جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے پورے علم والا اور کامل قدرت والاہے ۔ مسندحافظ ابو یعلی موصلی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بچہ جب تک بلوغت کو نہ پہنچے اس کی نیکیاں اس کے باپ کے یا ماں باپ کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں اور برائی نہ اس پر ہوتی ہے نہ ان پر ۔ بلوغت پر پہنچتے ہی قلم اس پر چلنے لگتا ہے اس کے ساتھ کے فرشتوں کو اس کی حفاظت کرنے اور اسے درست رکھنے کا حکم مل جاتا ہے جب وہ اسلام میں ہی چالیس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تین بلاؤں سے نجات دے دیتا ہے جنون اور جذام سے اور برص سے جب اسے اللہ تعالیٰ کے دین پر بچاس سال گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کردیتا ہے جب وہ ساٹھ سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی کے کاموں کی طرف اس کی طبعیت کا پورا میلان کردیتا ہے اور اسے اپنی طرف راغب کر دیتا ہے جب وہ ستر برس کا ہوجاتا ہے تو آسمانی فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب وہ اسی برس کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں تولکھتا ہے لیکن برائیوں سے تجاوز فرما لیتا ہے جب وہ نوے برس کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے اس کے گھرانے والوں کے لئے اسے سفارشی اور شفیع بنا دیتا ہے وہ اللہ کے ہاں امین اللہ کا خطاب پاتا ہے اور زمین میں اللہ کے قیدیوں کی طرح رہتا ہے جب بہت بڑی ناکارہ عمر کو پہنچ جاتا ہے جب کہ علم کے بعد بےعلم ہوجاتا ہے تو جو کچھ وہ اپنی صحت اور ہوش کے زمانے میں نیکیاں کیا کرتا تھا سب اس کے نامہ اعمال میں برابر لکھی جاتی ہیں اور اگر کوئی برائی اس سے ہوگئی تو وہ نہیں لکھی جاتی ۔ یہ حدیث بہت غریب ہے اور اس میں سخت نکارت ہے باوجود اس کے اسے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ اپنی مسند میں لائے ہیں موقوفاً بھی اور مرفوعا بھی ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفامروی ہے اور حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے از فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی دوسری سند سے مرفوعا یہی وارد کی ہے ۔ حافظ ابو بکر بن بزار رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسے بہ روایت حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوع میں بیان کیا ہے ( اور مسلمانوں پر رب کی مہربانی کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ اللہ ہماری عمر میں نیکی کے ساتھ برکت دے آمین ) مردوں کے زندہ کردینے کی ایک دلیل یہ بیان کرکے پھر دوسری دلیل بیان فرماتا ہے کہ چٹیل میدان بےروئیدگی کی خشک اور سخت زمین کو ہم آسمانی پانی سے لہلہاتی اور تروتازہ کردیتے ہیں طرح طرح کے پھل پھول میوے دانے وغیرہ کے درختوں سے سرسبز ہوجاتی ہے قسم قسم کے درخت اگ آتے ہیں اور جہاں کچھ نہ تھا وہاں سب کچھ ہوجاتا ہے مردہ زمین ایک دم زندگی کے کشادہ سانس لینے لگتی ہے جس جگہ ڈرلگتا تھا وہاں اب راحت روح اور نورعین اور سرور قلب موجود ہوجاتا ہے قسم قسم کے طرح طرح کے میٹھے کھٹے خوش ذائقہ مزیدار رنگ روپ والے پھل اور میوؤں سے لدے ہوئے خوبصورت چھوٹے بڑے جھوم جھوم کر بہار کا لطف دکھانے لگتے ہیں ۔ یہی وہ مردہ زمین ہے جو کل تک خاک اڑا رہی تھی آج دل کا سرور اور آنکھوں کا نور بن کر اپنی زندگی کی جوانی کامزا دی رہی ہے ۔ پھولوں کے چھوٹے چھوٹے پودے دماغ کو مخزن عطار بنا دیتے ہیں دور سے نسیم کے ہلکے ہلکے جھونکے کتنے خوشگوار معلوم ہوتے ہیں ۔ سچ ہے خالق ، مدبر ، اپنی چاہت کے مطابق کرنے والا ، خود مختیار حاکم حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور اس کی نشانی مردہ زمین کا زندہ ہونا مخلوق کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔ وہ ہر انقلاب پر ہر قلب ماہیت پر قادر ہے جو چاہتا ہے ہوجاتا ہے ۔ جس کام کا ارادہ کرتا ہے ۔ فرماتا ہے ہوجا ۔ پھر ناممکن ہے کہ وہ کہتے ہی ہو نہ جائے ۔ یاد رکھو قیامت قطعا بلاشک وشبہ آنے والی ہی ہے اور قبروں کے مردوں کو وہ قدرت والا اللہ زندہ کرکے اٹھانے والا ہے وہ عدم سے وجود میں لانے پر قادر تھا اور ہے اور رہے گا ۔ سورۃ یاسین میں بھی بعض لوگوں کے اس اعتراض کا ذکر کرکے انہیں ان کی پہلی پیدائش یاد دلاکر قائل کیا گیا ہے ساتھ ہی سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کی قلب ماہیت کو بھی دلیل میں پیش فرمایا گیا ہے اور آیتیں بھی اس بارے میں بہت سی ہیں ۔ حضرت لقیط بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ابو رزین عقیلی کی کنیت سے مشہور ہیں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا ہم لوگ سب کے سب قیامت کے دن اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھیں گے؟ اور اس کی مخلوق میں اس دیکھنے کی مثال کوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم سب کے سب چاند کو یکساں طور پر نہیں دیکھتے ؟ ہم نے کہا ہاں فرمایا پھر اللہ تو بہت بڑی عظمت والا ہے آپ نے پھر پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی بھی کوئی مثال دنیا میں ہے ؟ جواب ملا کہ کیا ان جنگلوں سے تم نہیں گزرے جو غیرآباد ویران پڑے ہوں خاک اڑ رہی ہو خشک مردہ ہو رہیں پھر دیکھتے ہو کہ وہی ٹکڑا سبزے سے اور قسم قسم کے درختوں سے ہرا بھرا نوپید ہوجاتا ہے بارونق بن جاتا ہے اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور مخلوق میں یہی دیکھی ہوئی مثال اس کا کافی نمونہ اور ثبوت ہے ( ابوداؤد وغیرہ ) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو اس بات کا یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور قیامت قطعا بےشبہ آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ مردوں کو قبروں سے دوبارہ زندہ کرے گا وہ یقینا جنتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی نطفے (قطرہ منی) سے چالیس روز بعد عَلَقَۃٍ گاڑھا خون اور عَلَقَۃٍ سے مُضْغَۃٍ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے مُخَلَّقَۃٍ سے، وہ بچہ مراد ہے جس کی پیدائش واضح اور شکل و صورت نمایاں ہوجائے، اس کے برعکس، جس کی شکل و صورت واضح نہ ہو، نہ اس میں روح پھونکی جائے اور قبل از وقت ہی وہ ساقط ہوجائے۔ صحیح حدیث میں بھی رحم مادر کی ان کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلا ایک حدیث میں ہے کہ نطفہ چالیس دن کے بعد علقۃ (گاڑھا خون) بن جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد یہ مضغۃ (لوتھرڑا یا گوشت کی بوٹی) کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ آتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے یعنی چار مہینے کے بعد نفخ روح ہوتا ہے اور بچہ ایک واضح شکل میں ڈھل جاتا ہے (صحیح بخاری) 5۔ 2 یعنی اس طرح ہم اپنا کمال قدرت و تخلیق تمہارے لئے بیان کرتے ہیں۔ 5۔ 3 یعنی جس کو ساقط کرنا نہیں ہوتا۔ 5۔ 4 یعنی عمر اشد سے پہلے ہی۔ عمر اشد سے مراد بلوغت یا کمال عقل و کمال قوت وتمیز کی عمر، جو 30 سے 40 سال کے درمیان عمر ہے۔ 5۔ 5 اس سے مراد بڑھاپے میں قوائے انسانی میں ضعف و کمزوری کے ساتھ عقل و حافظہ کا کمزور ہوجانا اور یادداشت اور عقل و فہم میں بچے کی طرح ہوجانا، جسے سورة یٰسین میں (وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ) 36 ۔ یس :68) اور سورة تین میں (ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ ) 95 ۔ التین :5) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 5۔ 6 یہ احیائے موتی (مردوں کے زندہ کرنے) پر اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل، جو مذکورہ ہوئی، یہ تھی کہ جو ذات ایک حقیر قطرہ پانی سے اس طرح ایک انسانی پیکر تراش سکتا ہے اور ایک حسین وجود عطا کرسکتا ہے، علاوہ ازیں وہ اسے مختلف مراحل سے گزارتا ہوا بڑھاپے کے ایسے اسٹیج پر پہنچا سکتا ہے جہاں اس کے جسم سے لے کر اس کی ذہنی و دماغی صلاحیتیں تک، سب ضعف و انحطاط کا شکار ہوجائیں۔ کیا اس کے لئے اسے دوبارہ زندگی عطا کردینا مشکل ہے ؟ یقینا جو ذات انسان کو ان مراحل سے گزار سکتی ہے، وہی ذات مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے ایک نیا قالب اور نیا وجود بخش سکتی ہے دوسری دلیل یہ دی ہے کہ دیکھو زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے لیکن اسے بارش کے بعد یہ کس طرح زندہ اور شاداب اور انواع و اقسام کے غلے، میوہ جات اور رنگ برنگ کے پھولوں سے مالا مال ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت والے دن انسانوں کو بھی ان کی قبروں سے اٹھا کر کھڑا کرے گا۔ جس طرح حدیث میں ہے ایک صحابی نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو جس طرح پیدا فرمائے گا اس کی کوئی نشانی مخلوقات میں سے بیان فرمائیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہارا گزر ایسی وادی سے ہوا ہے جو خشک اور بنجر ہو پھر دوبارہ اسے لہلہاتا ہوا دیکھا ہو ؟ اس نے کہا ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بس اسی طرح انسانوں کی جی اٹھنا ہوگا۔ (مسند احمد جلد 4)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] مشرکین مکہ سے اولین جھگڑا تو ان کے بتوں کے خدائی اختیارات سے تعلق رکھتا تھا اور دوسرا جھگڑا یہ تھا کہ دین ابراہیمی کے پیرکار ہونے کا دعوی رکھنے کے باوجود لیث بعدالموت کا یقین نہیں رکھتے تھے لہذا اب ایسے دلائل دیئے جارہے ہیں جو لیث بعدالموت پر پوری رہنمائی کرتے ہیں۔- سب سے پہلی دلیل تو انسان کا اپنا وجود ہے۔ آدم کے پتلے کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے بنایا۔ مٹی بےجان چیز ہے۔ جب اس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی تو وہ جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ پھر آگے توالد و تناسل سے آدم کی اولاد پھیلی۔ اب جو چیزیں یا غذائیں انسان کھاتا ہے۔ وہ سب زمین سے حاصل ہوتی ہیں۔ انھیں غذاؤں سے کہیں انسان کا گوشت بنتا ہے، کہیں ہڈیاں، کہیں عضلات بنتے ہیں پھر اسی غذا سے نطفہ بھی بنتا ہے اور اس نطفہ کے ایک قطرہ میں ہزاروں جاندار جرثومے ہوتے ہیں۔ اب دیکھئے زمین بھی بےجان چیز ہے اور یہ غذائیں انسان نے استعمال کیں وہ بھی بنے جاں تھیں۔ لیکن اللہ نے انہی بےجان چیزوں سے زندہ اور متحرک جراثیم پیدا کردیئے۔ پھر ان ہزاروں جرثوموں میں کوئی ایک آدھ جرثومہ عورت کے خلیہ بیضہ سے ملتا ہے تو انسان کی تخلیق کا عمل شروع ہوجاتا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ اللہ کو منظور ہو۔ ورنہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مرد اور عورت کے ملاپ کے بعد بھی حمل قرار نہیں پاتا۔ حالانکہ مرد اور عورت دونوں کے نطفہ میں پوری پوری صلاحیت موجود ہوتی ہے۔- پھر رحم مادر کے تہ بہ تہ اندھیروں میں انسان کی جس طرح تخلیق ہوتی ہے اور جن جن مراحل سے وہ گزرتا ہے ان میں سے اللہ نے صرف ان مراحل کا ذکر فرمایا ہے جو بالعموم عام انسانوں کے مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں اور اس مشاہدہ کی صورت اسقاط حمل ہے۔ نطفہ کے بعد جما ہوا خون، پھر اس کے بعد جما ہوا خون گوشت کے لوتھڑے میں تبدیل ہوتا ہے۔ مگر اس پر کسی قسم کا کوئی نقش نہیں ہوتا۔ پھر اس گوشت کے لوتھڑے میں آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پاؤں وغیرہ سب اعضاء کے نقوش بننے لگتے ہیں پھر اسی لوتھڑے میں ہڈیاں اور عضلات بنتے چلے جاتے ہیں تاآنکہ مقررہ وقت کے بعد انسان کا بچہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اللہ چاہے تو وہ لڑکا بن جاتا ہے اور چاہے تو لڑکی بن جاتا ہے اور سب امور اور مراحل اللہ کی زبردست نگرانی میں طے ہوتے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- حضرت انس کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے عورت کے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے، جو کہتا ہے، پروردگار اب نطفہ پڑا۔ پروردگار اب یہ خون بن گیا۔ پروردگار اب یہ لوتھڑا بن گیا پھر جب اللہ انہی پیدائش کے متعلق فیصلہ کردیتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے کہ یہ مرد ہے یا عورت ؟ بدبخت ہے یا نیک بخت ؟ اس کی روزی کیا ہے ؟ اور اس کی عمر کیا ہے ؟ پھر ماں کے پیٹ میں ہی یہ سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری کتاب الحیض۔ باب قول اللہ مخلقنہ غیر مخلقہ ن) - اب انسان کی غفلت شعاری کا یہ حال ہے کہ کوئی کارنامہ خواہ کتنا ہی محیرالعقول ہو۔ اگر وہ علات بن چکا ہو تو اس میں غور کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتا۔ مگر اس جیسا یا اس سے کم محیرالعقول بات جو ابھی وقوع پذیر نہ ہوئی ہو اس کا فوراً انکار کردیتا ہے۔ لیث بعدالموت کا واقعہ انسان کی انہی پیدائش سے کچھ زیادہ محیرالعقول نہیں ہے۔ لیکن انسان کا انکار صرف اس بنا پر ہوتا ہے کہ وہ ابھی وقوع پذیر نہیں ہوا۔- پھر یہ بات کیا کم حیرت انگیز ہے کہ جب انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو جوانی تک اس کے جسم، اس کی عقل اور اس کی قوت ہر چیز میں اضافہ ہوتا جاتا ہے لیکن جوانی کے بعد انسان وہی پہلی سی غذائیں بلکہ پہلے سے اچھی غذائیں کھاتا ہے۔ لیکن اس کی عقل اور قوت میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کا۔۔ ایک مقررہ حد تک جاکر رک جاتا ہے پھر اس میں انحطاط رونما ہونے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اعضاء کے اضمحلال کے علاوہ اس کی عقل بھی ماؤف ہوجاتی ہے، سیکھی ہوئی باتیں بھول جاتا ہے اور بہکی بہکی بچوں کی سی باتیں کرنے لگتا ہے کیا یہ شواہد ایسے نہیں ہیں کہ جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے نیز یہ کہ جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہ اس کے کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے ؟ پھر آخر لیث بعدالموت سے انکار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔- [٥] یہ معاد یا لیث بعد الموت پر دوسری دلیل ہے۔ مختلف قسم کی نباتات اور اجناس کے بیج زمین میں بکھرے پڑے ہوتے ہیں جنہیں ہواؤں نے یا پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا۔ اسی طرح بیشمار چیزوں کی جڑیں بھی جگہ جگہ پیوند خاک ہوئی پڑی تھیں۔ جن میں نباتاتی زندگی کا کوئی ظہور موجود نہ تھا۔ مگر جونہی ان پر بارش کے چھینٹے پڑے تو ہر طرف زندگی لہلہانے لگی۔ ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اٹھا اور ہر بےکار پڑا ہوا بےجان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا اور یہ احیائے اموات کا ایسا عمل ہے۔ جسے ہر انسان موسم بہار میں اور موسم برسات میں خود مشاہدہ کرتا رہتا ہے یہی صورت انسان کے جسم کی ہے۔ جس کا بدن گل سڑ جاتا ہے اور اس کے بھی اٹھنے کا موسم نفخہ ئ صور ثانی ہے۔ جب یہ موسم آجائے گا تو ہر انسان اپنے اپنے مدفن سے زندہ اٹھا کھڑا کردیا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ ۔۔ : یعنی اگر تمہیں آخرت کو دوبارہ زندہ ہونے میں شک ہے تو اسے دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی پیدائش کی ابتدا پر غور کرو، اس سے تم جان لو گے کہ جس نے تمہیں پہلی دفعہ پیدا کیا وہ دوسری دفعہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے اور جو زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد نباتات پیدا کرتا ہے وہ تمہیں تمہاری قبروں سے نکالنے پر بھی قادر ہے۔- مِّنْ تُرَابٍ : اس میں تنوین تحقیر کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ حقیر مٹی کیا گیا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کی طرف اشارہ ہے اور سب لوگوں کے مٹی سے پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں، جو اس بےجان اور قدموں میں پامال ہونے والی مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ ۝ۚثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ ) [ السجدۃ : ٧، ٨ ] ” وہ (ذات پاک) جس نے اچھا بنایا ہر چیز کو جو اس نے پیدا کی اور انسان کی پیدائش حقیر مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک حقیر پانی کے خلاصہ سے بنائی۔ “ زیر تفسیر آیت میں انسانی زندگی پر گزرنے والے سات مراحل ذکر ہوئے ہیں۔- ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ : پھر پانی کے ایک قطرے سے۔ جدید سائنس نے ثابت کیا ہے کہ منی کے ایک قطرے میں کروڑوں جرثومے ہوتے ہیں، جن میں سے صرف ایک جرثومہ عورت کے بیضہ سے مل کر حمل کا حصہ بنتا ہے۔ یہ معاملہ مٹی سے بھی عجیب ہے کہ ایک سیال لیس دار خوردبینی ذرے سے ایک حسین و جمیل انسان پیدا ہوجاتا ہے، اسے پیدا کرنے والے کے لیے اسے دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ شیخ سعدی نے کہا ہے ؂- دھد نطفہ را صورتے چوں پری کہ کرداست برآب صورت گری - ” یعنی اللہ تعالیٰ ایک قطرے کو پری جیسی صورت عطا فرما دیتا ہے، بھلا اس کے سوا کون ہے جو پانی پر صورت گری کرسکتا ہے۔ “ - ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ : ” عَلَقَةٍ “ کا معنی جما ہوا خون بھی ہے اور جونک بھی، یعنی پھر وہ سیال مادہ جمے ہوئے خون کا ایک ٹکڑا بن جاتا ہے، جس کی شکل جو نک سے ملتی جلتی ہے۔- ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ ۔۔ :” مَضَغَ یَمْضَغُ “ (ف) چبانا۔ ” مُّضْغَةٍ “ گوشت کا ٹکڑا جو چبایا جاتا ہے۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” جب نطفہ عورت کے رحم میں قرار پکڑتا ہے تو چالیس دن اسی حالت میں اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، پھر وہ اللہ کے حکم سے سرخ رنگ کا جما ہوا خون بن جاتا ہے، پھر وہ چالیس دن تک اسی حالت میں رہتا ہے۔ پھر وہ بدل کر ” مُضْغَةٍ “ یعنی گوشت کا ایک ٹکڑا بن جاتا ہے، جس میں نہ کوئی نقش ہوتا ہے نہ شکل و صورت، پھر اس میں نقش اور شکل و صورت بننا شروع ہوتی ہے، چناچہ اس کے سر، ہاتھوں، سینے، پیٹ، ٹانگوں، پاؤں اور باقی اعضاء کی شکل بنتی ہے، پھر کبھی شکل و صورت بننے سے پہلے عورت اسے گرا دیتی ہے اور کبھی شکل و صورت بننے کے بعد، جیسا کہ بچوں کے اسقاط کی صورت میں مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے فرمایا : (ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ ) کہ جس کی پوری شکل بنائی ہوئی ہے اور جس کی پوری شکل نہیں بنائی ہوئی۔ “ سورة مومنون (١٢ تا ١٤) میں بھی یہ تفصیل مذکور ہے۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ خَلْقَ أَحَدِکُمْ یُجْمَعُ فِيْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا وَأَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَہٗ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَہٗ ذٰلِکَ ثُمَّ یُبْعَثُ إِلَیْہِ الْمَلَکُ فَیُؤْذَنُ بِأَرْبَعَ کَلِمَاتٍ رِزْقَہٗ وَ أَجَلَہُ وَعَمَلَہٗ وَ شَقِیٌّ أَمْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ ) [ بخاري، التوحید، باب ( ولقد سبقت کلمتا ۔۔ ) : ٧٤٥٤۔ مسلم : ٢٦٤٣ ] ” تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں (نطفہ کی صورت میں) چالیس دن اور چالیس راتیں جمع ہوتی رہتی ہے۔ پھر وہ اتنی دیر تک جما ہوا خون رہتا ہے، پھر اتنی دیر ہی مضغہ رہتا ہے، پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے، تو اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے، اس کا رزق اور اس کی مدت اور اس کا عمل اور یہ بات کہ بدبخت ہے یا نیک بخت لکھ دیتا ہے، پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ “ - لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ : تاکہ ہم تمہارے لیے واضح کریں کہ ہم جب پانی کے ایک قطرے کو پوری شکل و صورت والا گوشت کا ٹکڑا بنا دیتے ہیں تو ہمارے لیے تمہیں دوبارہ بنانا اور قبروں سے نکال کر زندہ کرکے حساب کتاب لینا کیا مشکل ہے۔ ۭ وَنُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ ۔۔ : یعنی جسے ہم چاہتے ہیں ساقط ہونے سے محفوظ کرکے رحم میں قائم رکھتے ہیں۔ ” اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى“ یعنی کم از کم چھ ماہ اور زیادہ جتنا ہم چاہتے ہیں۔ یہ ہماری مرضی پر موقوف ہے کہ ہم نے اسے کتنی دیر رحم میں رکھنا ہے۔ ” ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا “ پھر ہم اسے بچے کی صورت میں شکم مادر سے نکالتے ہیں۔- ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ ۔۔ : ” ثُمَّ “ کے بعد کچھ عبارت محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آرہی ہے، یعنی پھر ہم تمہیں بچہ ہونے کی حالت میں ماں کے پیٹ سے نکالتے ہیں جو اپنے بدن، کانوں، آنکھوں، قوت اور عقل میں کمزور ہوتا ہے۔ ” ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ “ پھر اللہ تعالیٰ اسے آہستہ آہستہ قوت بخشتا ہے، اس کے والدین دن رات اس پر شفقت اور اس کی خدمت کرتے ہیں، وہ بڑھتا جاتا ہے، تاکہ بچپن، لڑکپن سے گزرتا ہوا اپنی پوری قوت کو پہنچ کر جوانی کا حسن و کمال حاصل کرلے۔ - وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى ۔۔ : یعنی تم میں سے کچھ وہ ہیں جو جوانی کو پہنچ کر یا اس سے پہلے فوت کرلیے جاتے ہیں۔ ” وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْــــًٔا “ یہ ساتواں مرحلہ ہے، یعنی کچھ وہ ہیں جو سب سے نکمّی عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، یعنی انتہائی بڑھاپا جس میں عقل و فکر اور بدن کی تمام قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ جو شخص کسی وقت بہت بڑا عالم تھا اسے کچھ یاد نہیں رہتا، نہ حافظہ باقی رہتا ہے اور نہ عقل کام کرتی ہے۔ دوبارہ بچوں کی طرح کمزور اور عقل و فکر سے عاری ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ) [ یٰسٓ : ٦٨ ] ” اور جسے ہم زیادہ عمر دیتے ہیں اسے بناوٹ میں الٹا کردیتے ہیں۔ “ اور فرمایا : (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً ) [ الروم : ٥٤ ] ” اللہ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری سے پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت بنائی، پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا بنادیا۔ “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارذل العمر سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، جیسا کہ عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص (رض) اپنے بیٹوں کو یہ کلمات سکھاتے تھے جس طرح معلم لڑکوں کو لکھنا سکھاتا ہے اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے بعد ان کلمات کے ساتھ پناہ مانگا کرتے تھے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَ أَعُوْذُ بِکَ أَنْ أُرَدَّ إِلٰی أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ) [ بخاري، الجھاد والسیر، باب ما یتعوذ من الجبن : ٢٨٢٢ ] ” اے اللہ میں بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ نکمّی عمر کی طرف لوٹایا جاؤں اور میں دنیا کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ “ مصعب بن سعد کی روایت میں ” اَللّٰھُمَّ اِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ “ کے بعد ” وَأَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ “ بھی ہے کہ میں بخل سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ [ بخاري، الدعوات، باب الاستعاذۃ من أرذل العمر۔۔ : ٦٣٧٤ ] ۭ وَتَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً ۔۔ : ” اهْتَزَّتْ “ ” ھَزَّ یَھُزُّ ھَزًّا “ حرکت دینا، ہلانا۔ ” اِھْتَزَّ یَھْتَزُّ اِھْتِزَازًا “ (افتعال) حرکت کرنا، کھیتی کا لہلہانا۔ ” َرَبَتْ “ ” رَبَا یَرْبُوْ “ (ن) بڑھنا، پھولنا۔ یہ موت کے بعد زندگی کی دوسری دلیل ہے۔ مختلف قسم کی نباتات اور اجناس کے بیج زمین میں بکھرے پڑے ہوتے ہیں، جنھیں ہواؤں نے یا پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا۔ اسی طرح بیشمار چیزوں کی جڑیں بھی جگہ جگہ مٹی میں دفن ہوتی ہیں، جن میں زندگی کا نشان تک نہیں ہوتا، مگر جوں ہی ان پر بارش کے چھینٹے پڑے تو ہر طرف زندگی لہلہانے لگی۔ ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اٹھی اور ہر بےکار پڑا ہوا بےجان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ مردوں کے زندہ ہونے کا ایسا عمل ہے جسے ہر انسان موسم بہار میں اور موسم برسات میں خود مشاہدہ کرتا رہتا ہے۔ یہی صورت انسان کے جسم کی ہے، اس کے اٹھنے کا بھی ایک موسم ہے، جو صور کا دوسرا نفخہ ہے، جب یہ موسم آجائے گا تو ہر انسان اپنے دفن ہونے کی جگہ سے زندہ اٹھا کر کھڑا کردیا جائے گا۔ (تیسیر القرآن)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

بطن مادر میں تخلیق انسانی کے درجات اور مختلف احوال : - فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ، اس آیت میں بطن مادر کے اندر انسان کی تخلیق کے مختلف درجات کا بیان ہے۔ اس کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے جو حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اور وہ سچ بولنے والے اور سچے سمجھے جانے والے ہیں کہ انسان کا مادہ چالیس روز تک رحم میں جمع رہتا ہے پھر چالیس دن کے بعد علقہ یعنی منجمد خون بن جاتا ہے پھر چالیس ہی دن میں وہ مضغہ یعنی گوشت بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونک دیتا ہے اور اس کے متعلق چار باتیں اسی وقت فرشتہ کو لکھوا دی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ اس کی عمر کتنی ہے دوسرے رزق کتنا ہے، تیسرے عمل کیا کیا کرے گا، چوتھے یہ کہ انجام کار یہ شقی اور بدبخت ہوگا یا سعید خوش نصیب (قرطبی)- دوسری ایک روایت میں جس کو ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن مسعود ہی سے روایت کیا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ نطفہ جب کئی دور سے گزرنے کے بعد مضغہ گوشت بن جاتا ہے تو اس وقت وہ فرشتہ جو ہر انسان کی تخلیق پر مامور ہے وہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتا ہے یا رب مخلقہ او غیر مخلقہ (یعنی اس مضغہ سے انسان کا پیدا کرنا آپ کے نزدیک مقدر ہے یا نہیں) اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب ملتا ہے کہ یہ غیر مخلقہ ہے تو رحم اس کو ساقط کردیتا ہے تخلیق کے دوسرے مراتب تک نہیں پہنچتا اور اگر حکم ہوتا کہ یہ مخلقہ ہے تو پھر فرشتہ سوال کرتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی، اور شقی ہے یا سعید اور اس کی عمر کیا ہے اور اس کا عمل کیسا ہے اور کہاں مرے گا (یہ سب چیزیں اسی وقت فرشتہ کو بتلا دی جاتی ہیں (ابن کثیر) مخلقہ و غیر مخلقہ کی یہ تفسیر حضرت ابن عباس سے بھی منقول ہے (قرطبی)- مُّخَلَّقَةٍ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ ، حدیث مذکور سے ان دونوں کی تفسیر یہ معلوم ہوئی کہ جس نطفہ انسانی کا پیدا ہونا مقدر ہوتا ہے وہ مخلقہ ہے اور جس کا ضائع اور ساقط ہوجانا مقدر ہے وہ غیر مخلقہ ہے اور بعض حضرات مفسرین مخلقہ اور غیر مخلقہ کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ جس بچے کی تخلیق مکمل اور تمام اعضاء صحیح سالم اور متناسب ہوں وہ مخلقہ اور جس کے بعض اعضاء ناقص ہوں یا قد اور رنگ وغیرہ غیر متناسب ہو وہ غیر مخلقہ ہے خلاصہ تفسیر مذکور میں اسی تفسیر کو لیا گیا ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔- ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا، یعنی پھر بطن مادر سے تم کو نکالتے ہیں۔ طفل ضعیف کی صورت میں اس کا بدن بھی کمزور ہوتا ہے سماعت و بصارت بھی۔ حواس و عقل بھی، حرکت و گرفت کی قوت بھی غرضیکہ سب قوتیں انتہائی ضعیف و کمزور ہوتی ہیں پھر تدریجاً ان میں ترقی دی جاتی ہے یہاں تک کہ پوری قوت تک پہنچ جاتے ہیں ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ کے یہی معنے ہیں۔ لفظ اشد، شدة کی جمع ہے جیسے انعم نعمة کی جمع آتی ہے معنے یہ ہوئے کہ تدریجی ترقی کا سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک کہ تمہاری ہر قوت مکمل نہ ہوجائے جو جوانی کے وقت میں ہوتی ہے۔- اَرْذَلِ الْعُمُرِ ، یعنی وہ عمر جس میں انسان کے عقل و شعور اور حواس میں خلل آنے لگے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی عمر سے پناہ مانگی ہے۔ نسائی میں بروایت سعد منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسب ذیل الفاظ پر مشتمل یہ دعا بکثرت مانگتے تھے اور راوی حدیث حضرت سعد یہ دعا اپنی سب اولاد کو یاد کرا دیتے تھے وہ دعا یہ ہے اللھم انی اعوذ بک من البخل واعوذ بک من الجبن واعوذ بک من ان ارد الی ارذل العمر واعوذ بک من فتنة الدنیا و عذاب القبر۔ (قرطبی)- انسان کی ابتدائی تخلیق کے بعد عمر کے مختلف مدارج اور ان کے احوال : - مسند احمد اور مسند ابو یعلی میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بچہ جب تک بالغ نہیں ہوتا اس کے نیک عمل اس کے والد یا والدین کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور جو کوئی برا عمل کرے تو وہ نہ اس کے حساب میں لکھا جاتا ہے نہ والدین کے، پھر جب وہ بالغ ہوجاتا ہے تو قلم حساب اس کے لئے جاری ہوجاتا ہے اور دو فرشتے جو اس کے ساتھ رہنے والے ہیں ان کو حکم دے دیا جاتا ہے کہ اس کی حفاظت کریں اور قوت بہم پہنچائیں جب حالت اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو (تین قسم کی بیماریوں سے) محفوظ کردیتے ہیں یعنی جنون اور جذام اور برص سے۔ جب پچاس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب ہلکا کردیتے ہیں۔ جب ساٹھ سال کو پہنچتا ہے تو اللہ اس کو اپنی طرف رجوع کی توفیق دے دیتے ہیں۔ جب ستر سال کو پہنچتا ہے تو سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حسنات کو لکھتے ہیں اور سیئات کو معاف فرما دیتے ہیں پھر جب نوے سال کی عمر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور اس کو اپنے اہل بیت کے معاملے میں شفاعت کرنے کا حق دیتے ہیں اور اس کی شفاعت قبول فرماتے ہیں اور اس کا لقب امین اللہ اور اسیر اللہ فی الارض (یعنی زمین میں اللہ کا قیدی) ہوجاتا ہے (کیونکہ اس عمر میں پہنچ کر عموماً انسان کی قوت ختم ہوجاتی ہے کسی چیز میں لذت نہیں رہتی، قیدی کی طرح عمر گزارتا ہے اور جب ارذل عمر کو پہنچ جائے تو اس کے تمام وہ نیک عمل نامہ اعمال میں برابر لکھے جاتے ہیں جو اپنی صحت و قوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا اور اگر اس سے کوئی گناہ ہوجاتا ہے تو وہ لکھا نہیں جاتا۔- یہ روایت حافظ ابن کثیر نے مسند ابو یعلی سے نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے ھذا حدیث غریب جدا وفیہ نکارة شدیدة (یعنی یہ حدیث غریب ہے اور اس میں سخت نکارت ہے) پھر فرمایا و مع ھذا قد رواہ الامام احمد بن حنبل فی مسندہ موقوفاً و مرفوعاً (یعنی اس غرابت و نکارت کے باوجود امام احمد نے اپنی مسند میں اس کو موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح روایت کیا ہے پھر ابن کثیر نے مسند احمد سے یہ دونوں قسم کی روایتیں نقل کی ہیں جن کا مضمون تقریباً وہی ہے جو بحوالہ مسند ابو یعلی اوپر نقل ہوا ہے واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ۝ ٠ۭ وَنُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ۝ ٠ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَـيْــــًٔا۝ ٠ۭ وَتَرَى الْاَرْضَ ہَامِدَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍؚبَہِيْجٍ۝ ٥- ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] ،- فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] ، أي : توجههم ومضيّهم .- ( ب ع ث ) البعث - ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے - پس بعث دو قسم پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا - دوم بعث الہی - یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - ترب - التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] ، یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] .- ( ت ر ب )- التراب کے معنی مٹی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔ یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ - نطف - النُّطْفَةُ : الماءُ الصافي، ويُعَبَّرُ بها عن ماء الرَّجُل . قال تعالی: ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ- [ المؤمنون 13] ، وقال : مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان 2] ، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة 37] ويُكَنَّى عن اللُّؤْلُؤَةِ بالنَّطَفَة، ومنه : صَبِيٌّ مُنَطَّفٌ: إذا کان في أُذُنِهِ لُؤْلُؤَةٌ ، والنَّطَفُ : اللُّؤْلُؤ . الواحدةُ : نُطْفَةٌ ، ولیلة نَطُوفٌ: يجيء فيها المطرُ حتی الصباح، والنَّاطِفُ : السائلُ من المائعات، ومنه : النَّاطِفُ المعروفُ ، وفلانٌ مَنْطِفُ المعروف، وفلان يَنْطِفُ بسُوء کذلک کقولک : يُنَدِّي به .- ( ن ط ف ) النطفۃ - ۔ ضمہ نون اصل میں تو آب صافی کو کہتے ہیں مگر اس سے مرد کی منی مراد لی جاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون 13] پھر اس کو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ ہیں نطفہ بنا کر رکھا ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان 2] نطفہ مخلوط سے أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة 37] کیا وہ منی کا جور رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا ۔ اور کنایۃ کے طور پر موتی کو بھی نطمۃ کہا جاتا ہے اسی سے صبی منطف ہے یعنی وہ لڑکا جس نے کانوں میں موتی پہنے ہوئے ہوں ۔ النطف کے معنی ڈول کے ہیں اس کا واحد بھی نطفۃ ہی آتا ہے اور لیلۃ نطوف کے معنی بر سات کی رات کے ہیں جس میں صبح تک متواتر بارش ہوتی رہے ۔ الناطف سیال چیز کو کہتے ہیں اسی سے ناطف بمعنی شکر ینہ ہے اور فلان منطف المعروف کے معنی ہیں فلاں اچھی شہرت کا مالک ہے اور فلان ینطف بسوء کے معنی برائی کے ساتھ آلودہ ہونے کے ہیں جیسا کہ فلان یندی بہ کا محاورہ ہے ۔- علق - العَلَقُ : التّشبّث بالشّيء، يقال : عَلِقَ الصّيد في الحبالة، وأَعْلَقَ الصّائد : إذا علق الصّيد في حبالته، والمِعْلَقُ والمِعْلَاقُ : ما يُعَلَّقُ به، وعِلَاقَةُ السّوط کذلک، وعَلَقُ القربة كذلك، وعَلَقُ البکرة : آلاتها التي تَتَعَلَّقُ بها، ومنه : العُلْقَةُ لما يتمسّك به، وعَلِقَ دم فلان بزید : إذا کان زيد قاتله، والعَلَقُ : دود يتعلّق بالحلق، والعَلَقُ : الدّم الجامد ومنه : العَلَقَةُ التي يكون منها الولد . قال تعالی: خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق 2] ، وقال : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله :- فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً «1» والعِلْقُ : الشّيء النّفيس الذي يتعلّق به صاحبه فلا يفرج عنه، والعَلِيقُ : ما عُلِّقَ علی الدّابّة من القضیم، والعَلِيقَةُ : مرکوب يبعثها الإنسان مع غيره فيغلق أمره . قال الشاعر : أرسلها علیقة وقد علم ... أنّ العلیقات يلاقین الرّقم - «2» والعَلُوقُ : النّاقة التي ترأم ولدها فتعلق به، وقیل للمنيّة : عَلُوقٌ ، والعَلْقَى: شجر يتعلّق به، وعَلِقَتِ المرأة : حبلت، ورجل مِعْلَاقٌ: يتعلق بخصمه .- ( ع ل ق ) العلق کے معنی کسی چیز میں پھنس جانیکے ہیں کہا جاتا ہے علق الصید فی الحبالتہ شکار جال میں پھنس گیا اور جب کسی کے جال میں شکار پھنس جائے تو کہا جاتا ہے اعلق الصائد ۔ المعلق والمعلاق ہر وہ چیز جس کے ساتھ کسی چیز کا لٹکا یا جائے اسی طرح علاقتہ السوط وعلق القریتہ اس رسی یا تسمیہ کو کہتے ہیں جس سے کوڑے کا یا مشک کا منہ باندھ کر اسے لٹکا دیا جاتا ہے ۔ علق الکبرۃ وہ لکڑی وغیرہ جس پر کنوئیں کی چرخی لگی رہتی ہے ۔ اسی سے العلقتہ ہر اس چیز کہا کہا جاتا ہے جسے سہارا کے لئے پکڑا جاتا ہے ۔ علق دم فلان بزید فلاں کا خون زید کے ساتھ چمٹ گیا یعنی زید اس کا قاتل ہے ۔ العلق ( جونک ) ایک قسم کا کیڑا جو حلق کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے ۔ نیز جما ہوا خون اسی سے لوتھڑے کی قسم کے خون کو علقہ کہا جاتا جس سے بچہ بنتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا ؛ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله کے آخر میں فرمایا : فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةًپھر لو تھڑے کی بوٹی بنائی ۔ العلق اس عمدہ چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ مالک کا دل چمٹا ہوا ہو اور اس کی محبت دل سے اترتی نہ ہو العلیق ۔ جو وغیرہ جو سفر میں جو نور کے کھانے کے لئے اس پر باندھ دیتے ہیں اور العلیقتہ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ بھیجا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( رجز ) ( ارسلھا علیقتہ وقد علم ان العلیقات یلاقیں الرقم اس نے غلہ لینے کے لئے لوگوں کے ساتھ اپنا اونٹ بھیجد یا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ دوسروں کے ساتھ بھیجے ہوئے اونٹ تکالیف سے دوچار ہوتے ہیں ۔ العلوق وہ اونٹنی جو اپنے بچے پر مہربان ہو اور اس سے لپٹی رہے اور موت کو بھی علوق کہا جاتا ہے العلقی درخت جس میں انسان الجھ جائے تو اس سے نکلنا مشکل علقت المرءۃ عورت حاملہ ہوگئی ۔ رجل معلاق جھگڑالو آدمی جو اپنے مخالف کا پیچھا نہ چھوڑے اور اس سے چمٹار ہے ۔- مضغ - المُضْغَةُ : القطعة من اللّحم قدر ما يُمْضَغُ ولم ينضج . قال الشاعر :- يلجلج مضغة فيها أنيض أي : غير منضج، وجعل اسما للحالة التي ينتهي إليها الجنین بعد العلقة . قال تعالی: فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً [ المؤمنون 14] ، وقال : مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ [ الحج 5] . والمضاغة : ما يبقی عن المَضْغ في الفم، والمَاضِغان : الشّدقان لمضغهما الطّعام، والمَضَائِغ : العقبات اللّواتي علی طرفي هيئة القوس الواحدة مَضِيغَة .- ( م ض غ ) المضغۃ گوشت کا چھوٹا سا ٹکڑا جو چبانے کے لئے منہ میں ڈالا جاسکے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 410 ) یلجع مضغۃ فیھا انیض یوہ گویا نیم پختہ گوشت کی بوٹی کو منہ میں پھیرا تا ہے ۔ پھر جنین کی اس حالت کو جو علقہ کے بعد ہوتی ہے ۔ مضغۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً [ المؤمنون 14] اور لوتھڑے کی بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ۔ اور فرمایا : ۔ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ [ الحج 5] بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی ۔ المضاغۃ چبانے اسے جو آخر کار منہ میں باقی رہ جائے ۔ الما ضغان دونوں جبڑے کیونکہ ان سے کھانا چبایا جاتا ہے المضائغ واحد مضیغۃ ) وہ تانت جو کمان کے دونوں سروں پر کسی ہوتی ہے ۔- قرر - قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وأصله من القُرِّ ، وهو البرد، وهو يقتضي السّكون، والحرّ يقتضي الحرکة، وقرئ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب 33] «1» قيل «2» : أصله اقْرِرْنَ فحذف إحدی الرّاء ین تخفیفا نحو : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة 65] ، أي : ظللتم . قال تعالی: جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر 64] ، أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً [ النمل 61] ، أي : مستقرّا، وقال في صفة الجنّة : ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ«3» ، وفي صفة النّار قال :- فَبِئْسَ الْقَرارُ [ ص 60] ، وقوله : اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ ما لَها مِنْ قَرارٍ [إبراهيم 26] ، أي : ثبات، وقال الشاعر :- 365-- ولا قرار علی زأر من الأسد - «4» أي : أمن واسْتِقْرَارٍ ، ويوم الْقَرِّ : بعد يوم النّحر لاستقرار الناس فيه بمنی، وو - ، وقیل : قَرَّتْ ليلتنا تَقِرُّ ، ويوم قَرٌّ ، ولیلة قِرَّةٌ ، وقُرَّ فلان فهو مَقْرُورٌ: أصابه الْقُرُّ ، وقیل : حرّة تحت قِرَّةٍ «2» ، وقَرَرْتُ القدر أَقُرُّهَا : - ( ق ر ر )- قرنی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب 33 اور اپن گھروں میں ٹھہری رہو ۔ میں ایک قرات وقرن فی بیوتکن ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں اقررن ہے ایک راء کو تخفیف کے لئے خلاف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت ؛ فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة 65] ، ہے اور ایک ) لام کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے ۔ القرار ( اسم ) ( ٹھہرنے کی جگہ ) قرآن میں ہے : جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر 64]( جس نے ) زمین کو قرار لگا دبنا یا ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ«3»جو رہنے کے لائق اور جہاں نتھرا ہوا پانی تھا ( پناہ دی ) اور جن ہم کے متعلق فرمایا : فَبِئْسَ الْقَرارُ [ ص 60] اور وہ بڑا ٹھکانا ہے ۔ اور آیت کریمہ : اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ ما لَها مِنْ قَرارٍ [إبراهيم 26] زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیاجائے ۔ اس کو ذرا بھی قرار نہیں ہے ۔۔۔ قرار کے معنی ثبات کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے (352) ولا قرار عل ی زاز من الاسد یعنی شیر کے دھاڑنے پر امن ( چین) حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اور یوم النحر سے بعد کے دن کو یوم القر کہاجاتا ہے کیونکہ لوگ اس روز منیٰ میں ٹھہری رہتے ہیں ۔ - (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مضغۃ، علقہ کو انسان قرار نہیں دیا جاسکتا - قول باری ہے (مخلقۃ وغیر مخلقۃ جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بےشکل بھی ) قتادہ نے کہا۔” جو تام الخلقت بھی ہوتی ہے اور نا تمام بھی۔ “ مجاہد کا قول ہے ” شکل والی بھی اور بےشکل بھی) حضرت ابن مسعود کا قول ہے … کہ جب رحم میں نطفہ پہنچ جاتا ہے تو اسے ایک فرشتہ اپنی ہتھیلی پر اٹھا کر کہتا ہے ۔ اے رب یہ نطفہ تام الخلقت ہوگا یا نا تمام۔ “ اگر نا تمام ہوگا تو رحم اسے خون کی شکل میں خارج کر دے گا اور اگر تام الخلقت ہوگا تو اس کا رزق اور اس کی عمر، نیز مذکر یا مئونث، نیک بخت ہے یا بدبخت ، فرشتہ یہ تمام تفصیلات در جکر دے گا۔ ابو العالیہ کا قول ہے کہ غیر مخلقہ سے اسقاط کی شکل میں گر جانے والا بچہ مراد ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری مضغۃ مخلقۃ گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی ہوتی ہے) کا ظاہر، اس بات کا مقتضی ہے کہ گوشت کی بوٹی کو انسان قرار نہ دیا جائے جس طرح یہ اس امر کا مقتضی ہے کہ خون کے لوتھڑے کو نطفہ اور مٹی کو بھی انسان نہ کہا جائے۔ رحم میں جنین کے ان تمام مراحل کے بیان سے دراصل اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی قدرت کاملہ اور اپنی مشیت کے نفاظ سے آگاہ کیا ہے کہ ا ن کے نطفہ، علقہ (خون کے لوتھڑے ) اور مضغہ (گوشت کی بوٹی سے جو کسی بھی زاویے سے انسان نہیں ہوتا اور جس میں کوئی ترکیب و تعدیل اعضا نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی شکل ہوتی ہے ایک متناسب الاعضاء اور پورے ڈیل ڈول کا انسان پیدا فرما دیا۔ یہ اس امر کی متقاضی ہے کہ مضغہ کو انسان قرار نہ دیا جائے۔ جس طرح نطفہ اور علقہ انسان نہیں کہلا سکتے۔ جب یہ انسان قرار نہیں دیا سکتا تو اسے حمل بھی قرار نہیں دیا جاسکتا … اس لئے گوشت کے اس لوتھڑے کے اسقاط سے عدت کی مدت ختم نہیں ہوسکتی اس لئے کہ اس میں انسانی صورت کا ظہور نہیں ہوتا اور اس طرح اس کی حیثیت نطفہ جیسی ہوتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں حمل نہیں کہلاتیں اور رحم سے ان کے خروج کی بنا پر عدت کی مدت ختم نہیں ہوتی۔ حضرت ابن مسعود کا قول جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اس پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ جب نطفہ رحم میں آ جاتا ہے تو ایک فرشتہ اسے اپنی ہتھیلی پر اٹھا کر کہتا ہے۔ ” پروردگار یہ تام الخلقت ہوگا یا نا تمام۔ “ اگر یہ نا تمام ہوگا تو رحم اسے خون کی شکل میں خارج کر دے گا۔- حضرت ابن مسعود نے بتایا کہ رحم جس خون کو خارج کردیتا ہے وہ حمل نہیں ہوتا خواہ یہ خون لوتھڑے کی شکل میں جم گیا ہو یا اس میں سیلا نپایا جاتا ہو اس سے اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ اس میں جب تک انسانی خلقت کا ظہور نہ ہوجائے اس وقت تک یہ حمل نہیں کہلا سکتا اور اس کے خروج سے عدت کی مدت اختتام پذیر نہیں ہوتی کیونکہ یہ پیدا ہونے والا بچہ نہیں ہوتا جس طرح نطفہ اور علقہ، ولد نہیں کہلا سکتے اور ان کے خروج سے عدت ختم نہیں ہوتی۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بن کثیر نے، انہیں سفیان نے اعمش سے انہیں زید بن وہب نے، انہیں حضرت عبداللہ بن مسعود نے، انہوں نے کہا کہ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور آپ صادق و مصدوق ہیں کہ ” تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اس طرح ہوتی ہے کہ وہ چالیس دنوں تک اپنی ماں کے رحم میں نطفہ کی شکل میں رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک علقہ یعنی خون کے لوتھڑے کی صورت میں رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک گوشت کی بوٹی کی شکل اختیار کئے رہتا ہے۔ پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار باتیں لکھنے کا حکم ملتا ہے چناچہ وہ اس کا رزق، اس کی عمر، اس کا عملی احاطہ تحریر میں لے آتا ہے پھر یہ بھی لکھتا ہے کہ آیا خوش بخت ہوگا یا بدبخت پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتایا کہ انسان کی تخلیق کے مراحل یہ ہیں کہ پہلے چالیس دنوں تک نطفہ کی شکل میں رہتا ہے پھر چالیس دن خون کے لوتھڑے کی شکل میں اور پھر چالیس دن گوشت کی بوٹی کی صورت میں۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اگر عوتر اپنے رحم سے خون کے لوتھڑے کو خارج کر دے تو اس لوتھڑے کو کسی گنتی میں نہیں لایا جاتا اور اس کی وجہ سے عدت ختم نہیں ہوتی اگرچہ خون کے لوتھڑے کو خارج کر دے تو اس لوتھڑے کو کسی گنتی میں نہیں لایا جاتا اور اس کی وجہ سے عدت ختم نہیں ہوتی اگر چہ خون کا یہ لوتھڑا نطفہ ہی سے اگلے مرحلے کے طور پر یہ شکل اختیار کرتا ہے ۔ اسے کسی شمار میں نہ لانے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس میں انسانی صورت کا وجود نہیں ہوتا یعنی کیفیت مضغہ یعنی گوشت کی بوٹی کی ہوتی ہے۔ اس میں انسانی صورت کا وجود نہیں ہوتا اس لئے اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا اور اس کی حیثیت نطفہ اور علقہ جیسی ہوتی ہے۔- اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ وہ بات جس کی بنا پر انسان گدھے اور دوسرے تمام جانوروں سے متمیز ہوتا ہے وہ اس کا وجود ہے جو انسانی ڈھانچہ اور انسانی شکل وصورت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لئے جب تک سقط یعنی وقت سے پہلے گر جانے والا حمل انسانی صورت کا حامل نہیں ہوگا وہ ولد نہیں کہلائے گا۔ اس کی حیثیت نطفہ اور علقہ جیسی ہوگی اور ولد نہ ہونے کی وجہ سے عدت ختم نہیں ہوگی یہ بھی ممکن ہے عوتر کے رحم سے خارج ہونے والا سقط جس میں اسنانی نقش ابھی ابھرا نہ ہو، متجمد خون یا کوئی بیماری یا حیض ہو اس لئے اسے ولد قرار دے کر عدت کی عدت کے اختتام کا فیصلہ دے دینا ہمارے لئے جائز نہ ہ وگا۔ ایسے سقط کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاسکتی تھی وہ یہ تھی کہ اس میں دونوں احتمال موجود تھے یہ بھی احتمال تھا کہ یہ ولد کی شکل اختیار کرلیتا اور یہ بھی احتمال تھا کہ ولد کی شکل اختیار نہ کرتا۔ اس احتمال اور شک کی بنا پر اسے عدت کو ختم کرنے والا سبب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں انقضاء عدت کے لئے ایسی چیز کا اعتبار بےمعنی اور ساقط ہے جس سے بچے کی تشکیل کا امکان بھی ہوتا ہے اور عدم امکان بھی ۔ کیونکہ فی الحال تو اس میں بچے کے نقوش ظاہر نہیں ہوتے اس لئے اس کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی کیفیت علقہ اور نطفہ کی ہوتی ہے کہ ان میں یہ امکان ہوتا ہے کہ یہ فطری مراحل طے کر کے بچے کی شکل اختیار کرے اور یہ بھی امکان ہوتا ہے کہ ان مراحل کو طے کرنے کی نوبت ہی نہ آئے اور اس سے بچے کی تشکیل نہ ہو سکے۔ حالانکہ رحم ان دونوں چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے اندر یہ دونوں چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ نطفہ انسانی رحم مادر میں چالیس دنوں تک نطفہ کی شکل میں اور اگلے چالیس دنوں تک علقہ کی شکل میں رہتا ہے۔ - انقضاء عدت کے لئے علقہ اور مضغہ کا اعتبار نہ ہوگا - اس کے باوجود بھی کسی نے انقضائے عدت کے لئے علقہ کا اعتبار نہیں کیا۔ اس لئے مضغہ کا بھی یہی حکم ہوگا۔- اسماعیل بن اسحاق نے درج بالا صورت کے قائلین پر اعتراض کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اس مسلک کا حامی ہے کہ سقط کے خروج کی بنا پر اس وقت تک عدت ختم نہیں ہوتی اور ام ولد آزاد نہیں ہوتی جب کہ اس میں انسانی خلقت مثلاً ہاتھ پائوں وغیرہ کا ظہور نہ ہوگیا جو اسماعیل کے خیال میں یہ مسلک درست نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتادیا کہ گوشت کی وہ بوٹی یعنی مضغہ جس نے ابھی انسانی شکل نہ پائی ہو وہ بھی انسانی خلقت میں داخل ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے آیت میں ذکر کیا ہے جس طرح وہ بوٹی جس نے انسانی شکل پا لی ہو اس میں داخل ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مضغہ کی صورت میں جو بھی چیز ہو خواہ وہ مخلقہ ہو یا غیر مخلقہ وہ حمل کہلائے گی۔ یہاں تک کہ ماں کے پیٹ سے بچے کی پیدائش ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (واوزات الاحمال احلھن ان یضعن حملھن اور حاملہ عورتوں کی عدت کی مدت وضح عمل ہے) اس لئے ایسے سقط کے خروج کی صورت میں عدت کی مدت ختم ہوجائے گی اور ام ولد آزاد ہوجائے گی۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اسماعیل بن اسحاق کا یہ قول اور اس کا یہ استدلال اس کی کوتاہ بینی اور آیت کے مقتضی سے چشم پوشی کی نشاندہی کرتا ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعہ یہ خبر نہیں دی ہے کہ علقہ اور مضغہ ولد ہوتا ہے یا حمل، اللہ تعالیٰ نے تو صرف اس امر کا ذکر کیا ہے کہ اس نے ہمیں مضغہ اور علقہ سے پیدا فرمایا جس طرح اس بات کی خبر دی کہ اس نے ہمیں نطفہ اور ٹمی سے پیدا کیا ہے اور یہ بات سب کے لئے واضح ہے کہ جب اس نے یہ خبر دی کہ ہمیں مضغہ اور علقہ سے پیدا کیا گیا ہے تو یہ خبر خود اس امر کی مقتضی ہوگئی کہ ولد نہ تو نطفہ ہو نہ علقہ اور نہ ہی مضغہ اس لئے کہ اگر ان تینوں چیزوں کو ولد قرار دیا جاتا تو یہ کہنا درست نہ ہوتا کہ ولد کی تخلیق ان تینوں چیزوں سے ہوتی ہے اس لئے کہ جو چیز پہلے ہی ولد بن چکی ہو اس کے متعلق یہ کہنا درست نہیں ہوتا کہ اس چیز سے ولد کی تخلیق ہوتی ہے جبکہ وہ چیز خود ولد ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مضغہ یعنی گوشت کی وہ بوٹی جس میں ابھی انسانی نقوش ابھرے نہ ہوں ولد نہیں ہوسکتی۔- اسماعیل نے کہا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتادیا کہ گوشت کی وہ بوٹی یعنی مضغہ جس نے ابھی انسانی شکل نہ پائی ہو وہ بھی انسانی خلقت میں داخل ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے آیت میں ذکر کیا ہے جس طرح وہ بوئی جس نے انسانی شکل پا لی ہو اس میں داخل ہے۔ “ اسماعیل کا یہ استدلال اگر درست مان لیا جائے تو اس سے اس پر یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ نطفہ کے بارے میں بھی یہی بات کہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے خلقت انسانی کے ذکر کے ضمن میں نطفہ کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ جس طرح مضغہ کا ذکر کیا ہے اس بنا پر نطفہ کو بھی ولد اور حمل قرار دینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسان کے سلسلے میں اس کا بھی ذکر فرمایا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر کیا ہے کہ اس نے ہمیں مضغہ سے پیدا کیا ہے جو مخلقہ بھی ہوتا ہے اور غیر مخلقہ بھی۔ مخلقہ شکل والے مضغہ کو کہتے ہیں اور غیر مخلقہ، بےشکل مضغہ کا نام ہے۔ جب یہ کہنا درست ہے کہ اس نے تمہیں شکل والے مضغہ سے پیدا کیا یہ جبکہ شکل والا مضغہ ولد ہوتا ہے۔ تو اب بےشکل والے مضغہ کے ولد ہونے میں کوئی امتناع نہیں ہے جب کہ اس نے فرما دیا کہ ” تمہیں اس نے بےشکل والے مضغہ سے پیدا کیا ۔ “- اس کے جوا ب میں کہا جائے گا کہ مخلقہ کے یہ معنی لینا درست ہے کہ گوشت کی وہ بوٹی جس میں انسانی شکل کے بعض گوشے ابھر آئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ ” اس نے تمہیں اس بوٹی سے پیدا کیا “ تخلیق کا اتمام اور اس کی تکمیل مراد لی ہے۔ اس لئے وہ چیز جس میں ابھی تخلیق کا عمل ابھرا نہ ہو اس میں اور نطفہ میں کوئی فرق نہیں ہوتا، اس لئے کہ اس میں بھی صورت گری نہیں ہوتی۔ اس لئے قول باری ” اس نے تمہیں اس بوٹی سے پیدا کیا “ کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس نے اس بوٹی سے بچے کی تخلیق کی اگرچہ اس تخلیق سے پہلے یہ بوٹی بچے کی شکل میں نہیں تھی۔ آیت کے الفاظ کا یہی حقیقی مفہوم اور اس کا ظاہر ہے رہ گیا قول باری (واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن ) تو یہ بات واضح ہے کہ اس سے بچے کو جنم دینا مراد ہے۔ اس لئے پیدا ہونے والا اگر ولد نہیں ہوگا تو وہ مراد نہیں ہوگا جس کے اندر غور و فکر کا ادنیٰ مادہ بھی ہے اے اس بارے میں کوئی اشکال پیش نہیں آسکتا۔- اسماعیل نے کہا ہے ۔” آیت میں مذکورہ مضغہ اور اس سے ماقبل مذکور علقہ یا تو ولد ہوگا یا ولد نہیں ہوگا۔ اگر وہ تخلیق سے پہلے ولد ہے تو اس کا حکم تخلیق سے پہلے اور تخلیق کے بعد یکساں ہوگا اور اگر وہ تخلیق تک ولد نہیں ہوگا تو پھر اسے اپنے باپ کا وارث نہیں ہونا چاہیے۔ جب باپ کا اس وقت انتقال ہوجائے جس وقت ماں کے پیٹ میں اس کا حمل ٹھہر جائے اور ابھی اس کی تخلیق نہ ہوئی ہو۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ کوتاہ بینی کی ایک اور مثال ہے اور فقہاء کے اجماع کی بنا پر یہ ایک متناقض استدلال ہے۔- زیادہ سے زیادہ مدت حمل دو یا چار سال ہے - وہ اس طرح کہ سب کو اس بات کا علم ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی چھوڑ کر وفات پا جائے اور اس کی بیوی دو سال کی مدت پر بچے کو جنم دے جیسا کہ حمل کی زیادہ سے زیادہ سے زیادہ مدت بعض فقہاء کے نزدیک دو سال ہے یا چار سال کی مدت پر بچے کو جنم دے جیسا کہ حمل کی زیادہ سے مدت، دوسرے فقہاء کے نزدیک چار سال ہے تو ان دونوں صورتوں میں وہ بچہ اپنے باپ کا وارث قرار پائے گا۔ اب یہ بات واضح ہے کہ ایسا بچہ اپنے باپ کی وفات کے وقت ماں کے پیٹ میں نطفہ کی شکل میں ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے باپ کا وارث ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ طنفہ نہ تو حمل ہوتا ہے اور نہ ہی ولد اور اس کی وجہ سے عدت کی مدت بھی ختم نہیں ہوتی اور نہ ہی ام ولد آزاد ہوتی ہے۔ اس وضاحت سے اسماعیل کے استدلال کا فساد اور اس کے قول کا انتقاض واضح ہوگیا۔ اس کا ولد ہونا اس کی میراث کی علت نہیں ہوتی اس لئے کہ اگر مردہ بچہ پیدا ہوجائے تو اس کی پیدائش کی بنا پر حاملہ کی عدت ختم ہوجاتی ہے اور ماں کا ولد ہونا ثابت ہوجاتا ہے لیکن مردہ بچہ وارث نہیں بنتا۔ بعض دفعہ بچہ اپنے باپ کے نطفے سے نہیں ہوتا لیکن وہ اس کا وارث بن جاتا ہے جبکہ وہ فراش یعنی نکاح وغیرہ کی بنا پر وہ اس کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ آپ نہیں ہوتا بلکہ وہ صاحب فراش یعنی اس عورت کے شوہر کا بیٹا قرار پاتا ہے اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ میراث کے حکم کا تعلق باپ سے اس کے نسبت کے ثبوت کے ساتھ ہوتا ہے، اس بات کے ساتھ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے باپ کے نطفے سے ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ولد زنا، زانی کا وارث نہیں ہوتا اس لئے کہ اس سے اس کے نسبت کا ثبوت نہیں ہوتا حالانکہ وہ اس کے نطفے سے ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ میراث کے ثبوت کا تعلق اس امر کے ساتھ نہیں ہوتا کہ وہ اس کے نطفے سے ہے بلکہ اس امر کے ساتھ ہے کہ اس کے نسب کا اس سے ثبوت ہوتا ہے جیسا کہ ہم درج بالا سطور میں بیان کر آئے ہیں۔- اسماعیل نے مزید کہا ہے۔” اگر یہ کہا جائے کہ بیٹا اپنے باپ کا صرف اس بنا پر وارث ہوتا ہے کہ اس کا وجود اس اصل سے ہوتا ہے جب وہ زندہ رہ جاتا ہے تو وہ وارث ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی وارث بناتا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا اگر یہ بات ہے تو پھر اس کی وجہ سے عدت کی مدت ختم نہیں ہونی چاہیے خواہ اس کی خلقت کی تکمیل کیوں نہ ہوگئی ہو یہاں تک کہ وہ زندہ پیدا ہوجائے۔ “- مردہ بچے کی پیدائش پر ماں کی عدت ختم ہوجاتی ہے - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اسماعیل نے یہ کہہ کر بات کو گڈ مڈ کردیا ہے اور مسئلہ زیر بحث میں غیر متعلقہ پہلو سے گفتگو کی ہے۔ وہ اس طرح کہ اسماعیل کے مدمقابل نے وجوب میراث کو عدت کے خاتمہ کی علت قرار نہیں دیا ہے نہ یہ کہ اس کی وجہ سے ماں ام ولد بن جاتی ہے۔ اہل اسلام کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس لئے کہ مردہ بچے کی پیدائش کی صورت میں سب کے نزدیک ماں کی عدت ختم ہوجاتی ہے لیکن وہ مردہ بچہ اپنے باپ کا وارث قرار نہیں دیا جاتا بعض دفعہ بچہ وارث ہوجاتا ہے لیکن عدت ختم نہیں ہوتی جبکہ ماں کے پیٹ میں دو بچے ہوں اور وہ ان میں سے ایک کو جنم دے دے اس صورت میں پہلے پیدا ہونے والا بچہ اپنے باپ کا وارث بن جاتا ہے لیکن ماں کی عدت ختم نہیں ہوتی جب تک کہ وہ دوسرے بچے کو جنم نہیں دے دیتی ہے۔ اگر دوسرا بچہ مردہ پیدا ہو تو وہ اپنے باپ کا وارث نہیں ہوتا لیکن ماں کی عدم ختم ہوجاتی ہے ۔ جب صورتحال یہ ہے کہ بچے کے لئے بعض دفعہ میراث ثابت ہوجاتی ہے لیکن اس کی پیدائش کے ساتھ ماں کی عدت ختم نہیں ہوتی اور بعض دفعہ عدت ختم ہوجاتی ہے لیکن پیدا ہونے والا بچہ وارث نہیں ہوتا تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان دونوں میں سے کوئی دوسرے کے لئے اصل نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ اس کا اعتبار درست ہے، اس طرح اسماعیل نے اپنی طرف سے اعتراض کے طور پر جو نکتہ اٹھایا تھا وہ ختم ہوگیا اور اس نکتے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔- اسماعیل نے مزید کہا ” اگر یہ کہا جائے کہ وہ حمل ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک ایسی بات کا مکلف بنائے جس کی معرفت کے لئے ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہ ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ عورتوں کو اس کا علم ہوتا ہے اور وہ اپنے جسم یا رحم سے گرنے والے گوشت کی بوٹی یا خون اور اس علقہ کے درمیان فرق کرلیتی ہیں جس سے حقیقتہ بچے کی تخلیق ہوتی ہے۔ تقریباً تمام عورتوں کو جسم یا رحم سے گرنے والے گوشت کی بوٹی یا خون اور علقہ کے درمیان کوئی التباس نہیں ہوتا عورتوں کے اندر اس بات کی شناخت کرنے والی عورتوں کا ضرور وجود ہوتا ہے اس لئے اگر دو عوتریں یہ گواہی دے دیں کہ اسقاط کی شکل میں رحم سے باہر آ جانے والی چیز علقہ ہے تو ان کی گواہی قبول کرلی جائے ۔ امام شافعی نے بھی کہا ہے کہ اگر عورت کا اسقاط ہوجائے اور باہر آ جانے والی چیز علقہ ہو یا مضغہ جس میں انسانی خلقت کی کوئی چیز نمایاں نہ ہو تو ایسی صورت میں اسے عورتوں کو دکھایا جائے گا اگر اسے دیکھنے کے بعد عورتیں یہ کہہ دیں کہ اگر یہ لوتھڑا رحم مادر میں رہ جاتا تو اس سے بچے کی تخلیق ہوسکتی تھی تو اس صورت میں ماں کی عدت ختم ہوجائے گی اور لونڈی کا ام ولد ہونا ثابت ہوجائے گا لیکن اگر عوتریں یہ کہہ دیں کہ اس لوتھڑے سے بچے کی تخلیق نہیں ہوسکتی تو اس صورت میں عدت ختم نہیں ہوگی اور نہ ہی لونڈی ام ولد بنے گی۔ “- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہاں پہنچ کر اسماعیل کو امام شافعی کے قول کا سہارا لینے کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہیں آیا جبکہ اس قول کا محال اور فاسد ہونا بالکل واضح ہے۔ وہ اس طرح کہ کسی شخص کو ایسے دو علقہ کے درمیان کا فرق کا کوئی علم نہیں ہوتا جن میں سے ایک بچہ بن سکتا ہو اور دوسرے سے نہ بن سکتا ہو۔ اس فرق کا علم اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ کسی نے ایسے علقات کا مشاہدہ کیا ہو جن سے بچے بن سکتے ہوں اور جن سے بچے نہ بن سکتے ہوں اور پھر اپنے تجربے کی بنا پر ان دونوں قسموں کے علقات میں کسی علامت کے ذریعے فرق کرسکتا ہے جو ایک قسم کے علاقت میں پائی جاتی ہو اور دوسری قسم میں نہ پائی جاتی ہو۔ وہ اس سلسلے میں اپنے ظن غالب اور تجربے سے کام لے سکتا ہے ۔ جس طرح عرب کے بہت سے بدویوں کو بارش برسانے والے بادل اور نہ برسنے والے بادلوں کی پوری شناخت ہوتی تھی۔ یہ شناخت انہیں ان نشانیوں کے ذریعے حاصل ہوجاتی تھی جن میں اکثر حالات کے اندر کوئی تخلف نہیں ہوتا تھا ۔ اب رہ گئی علقات کی بات تو بچہ بننے سے پہلے دونوں قسموں کے علقات کے درمیان فرق کا مشاہدہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے مخصوص کرلیا ہے۔ صرف اس فرشتے کو اگٓاہ کیا جاتا ہے جسے پیدا ہونے والے بچے کے کوائف لکھنے کا حکم ملتا ہے یعنی اس کا رزق کتنا ہوگا، یہ کتنے سال جئے گا، اس کا عمل کیسا ہوگا اور خوش قسمت ہوگا یا بدقسمت وغیرہ۔- ارشاد باری ہے (اللہ یعلم ماتحمل کل انثی وما تغیض الارحام ” وما تزداد۔ اللہ کو علم رہتا ہے اس کا جو کچھ کسی عورت کے حمل میں ہوتا ہے اور جو کچھ عورتوں کے رحم میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے) اللہ جل شانہ کو ہی ہر چیز کا علم ہے لیکن اس مقام پر اس نے رحم مادور میں استقرار پانے والے حمل اور اس میں کمی بیشی کے علم کو اپنی ذات کے لئے خاص کر کے ہمیں یہ بتادیا کہ اس کے سوا کسی اور کو اس کا علم نہیں ہے۔ اس کا تعلق غیب کے علم سے ہے جو صرف اس کی ذات تک اور کسی برگزیدہ پیغمبر کی ذات تک محدود ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے (عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احداً الا من رتضی من رسول وہی غیب کا جاننے والا ہے سو وہ غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہاں البتہ کسی برگزیدہ پیغمبر کو)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥) اے مکہ والو اگر تم قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کے متعلق میں شک وشبہ میں ہو تو ذرا اپنی ابتداء آفرینش کے بارے میں غور کرلو، کیوں کہ ابتدا پیدا کرنے سے پھر تمہارا دوبارہ زندہ کرنا زیادہ مشکل نہیں کیوں کہ ہم نے پہلی بار تمہیں بواسطہ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے بنایا، پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں نطفہ سے بنایا اور پھر نطفہ کے بعد خون کے لوتھڑے سے پھر تازہ بوٹی سے جو کہ لوتھڑے میں سختی آنے کے بعد حاصل ہوتا ہے کہ اس بوٹی میں بعض کے پورے اعضا بنا دیتے ہیں اور بعض کو ناتمام ہی گرا دیتے ہیں تاکہ ہم قرآن کریم تمہاری ابتدائی پیدایش اور اس کی حقیقت کو ظاہر کردیں اور ہم رحم مادر میں جس نطفہ کو چاہتے ہیں گرنے سے ایک مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں یا یہ کہ رحم مادر میں ہم جس بچہ کو چاہتے ہیں مہینوں کی ایک مدت معینہ یعنی وضع حمل تک ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر اس مدت معینہ کے بعد ہم بچہ بنا کر ماں کے پیٹ سے باہر لاتے ہیں، تاکہ تم میں سے بعض اپنی بھری جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں یعنی اٹھارہ سال سے لے کر تیس سال تک کے ہوجائیں اور تم میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بلوغت سے پہلے ہی ان کی روح قبض کرلی جاتی ہے۔- اور بعض تم میں وہ ہیں جو بڑھاپے کی عمر تک پہنچا دیے جاتے ہیں، یعنی زیادہ بڑھاپے کی حالت میں وہی سابقہ شیر خوار بچے کی حالت ہوجاتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز کی سمجھ اور اس سے باخبر ہوتے ہوئے پھر اسی چیز سے بےسمجھ اور بیخبر ہوجاتے ہیں۔- اور اے مخاطب تو زمین کو دیکھتا ہے کہ خشک ویران پڑی ہے پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ سبزی کے ساتھ ابھرتی ہے یا ی کہ اس میں حرکت اور پانی سے ایک قسم کی تازگی پیدا ہوتی ہے اور سبزیوں کے ساتھ پھولتی ہے اور پانی کی وجہ سے ہر قسم کے خوش رنگ نباتات اگاتی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ) ” - انسانی جسم کی اصل مٹی ہے۔ اس کی غذا بھی نباتات اور معدنیات کی شکل میں مٹی ہی سے آتی ہے۔ اگر وہ کسی جانور کا گوشت کھاتا ہے تو اس کی پرورش بھی مٹی سے حاصل ہونے والی غذا سے ہی ہوتی ہے۔- (ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ) ” - اور یہ مادہ بھی اسی جسم کی پیدوار ہے جو مٹی سے بنا اور مٹی سے فراہم ہونے والی غذا پر پلا بڑھا۔- (ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ) ” - عام طور پر ” علقہ “ کا ترجمہ ” جما ہوا خون “ کیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔ اس لفظ کی وضاحت سورة المؤمنون کی آیت ١٤ کے ضمن میں آئے گی۔- (ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ ) ” - پہلے مرحلے میں اس لوتھڑے پر کسی قسم کے کوئی نشانات نہیں تھے۔ پھر رفتہ رفتہ مختلف مقامات پر نشانات بننے لگے۔ بازوؤں اور ٹانگوں کی جگہوں پر دو دو نشانات بنے اور اسی طرح دوسرے اعضاء کے نشانات بھی ابھرنا شروع ہوئے۔- (لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ ط) ” - تا کہ رحم مادر میں انسانی جنین پر گزرنے والے مختلف مراحل کے بارے میں پوری وضاحت کے ساتھ تم لوگوں کو بتادیا جائے۔ تعار فِ قرآن (بیان القرآن ‘ جلد اوّل) کے باب پنجم میں علم جنین ( ) کے ماہر سائنسدان کیتھ ایل مور (کینیڈا) کا ذکر گزر چکا ہے۔ اس مضمون پر اس شخص کی ٹیکسٹ بکس دنیا بھر میں مستند مانی جاتی ہیں اور یونیورسٹی کی سطح تک پڑھائی جاتی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ قرآن نے رحم مادر میں جنین کے مختلف مراحل کو جس طرح بیان کیا ہے اس موضوع پر دستیاب معلومات کی اس سے بہتر تعبیر ممکن نہیں ہے۔ مزید برآں وہ اس امر پر حیرت کا اظہار بھی کرتا ہے کہ صدیوں پہلے قرآن میں ان مراحل کا درست ترین تذکرہ کیونکر ممکن ہوا۔- (وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآء الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی) ” - یعنی رحم کے اندر حمل ویسا ہوتا ہے جیسا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ یہ فیصلہ صرف وہی کرتا ہے کہ وہ بچہ مذکر ہوگا یا مؤنث ‘ ذہین وفطین ہوگا یا کند ذہن ‘ خوبصورت ہوگا یا بدصورت ‘ تندرست وسالم ہوگا یا بیمار و معذور۔ اس معاملے میں کسی کی خواہش یا کوشش کا سرے سے کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس مضمون کے بارے میں سورة المؤمنون کے پہلے رکوع میں مزید تفصیل بیان ہوگی۔- (وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ الآی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْم بَعْدِ عِلْمٍ شَیْءًا ط) ” - ” اَرْذَلِ الْعُمُر “ کی کیفیت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ بڑھاپے میں بعض اوقات ایسا مرحلہ بھی آتا ہے کہ انسان کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس حالت میں اس کی ذہنی صلاحیتیں جواب دے جاتی ہیں ‘ یادداشت زائل ہوجاتی ہے اور وہی انسان جو اپنے آپ کو کبھی سقراط اور بقراط کے برابر سمجھتا تھا ‘ بچوں کی سی باتیں کرنے لگتا ہے۔ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کیفیت کو پہنچنے سے پہلے ہی اس دنیا سے اٹھا لے۔ میں نے ذاتی طور پر مولانا امین احسن اصلاحی صاحب مرحوم کو بڑھاپے کی اس کیفیت میں دیکھا ہے۔ آخری عمر میں ان کی کیفیت ایسی تھی کہ نہ زندوں میں تھے ‘ نہ مردوں میں۔ دیکھنے والے کے لیے مقام عبرت تھا کہ ایک ایسا شخص جو اعلیٰ درجے کا خطیب تھا اور اس کے قلم میں بلا کا زور تھا ‘ عمر کے اس حصے میں بےچارگی و بےبسی کی تصویر بن کر رہ گیا تھا اور اپنے پاس بیٹھے لوگوں کو پہچاننے سے بھی عاجز تھا۔ میں اس زمانے میں انہیں ملنے کے لیے ان کے پاس جاتا تھا مگر ایک حسرت لے کر واپس آجاتا تھا۔ - مولانا صاحب کی تفسیر ” تدبر قرآن “ بلاشبہ بہت اعلیٰ پائے کی تفسیر ہے۔ اس میں انہوں نے ” نظام القرآن “ کے حوالے سے اپنے استاد حمید الدین فراحی (رح) کی فکر اور ان کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر اس تفسیر سے بہت استفادہ کیا ہے ‘ لیکن مجھے مولانا سے بہت سی باتوں میں اختلاف بھی تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ رجم کی سزا سے متعلق رائے دینے میں ان سے بہت بڑی خطا ہوئی ہے۔ (وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورة النور ‘ تشریح آیت ٢) اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ مولانا کا ذکر ہوا ہے تو ان کے لیے دعا بھی کیجیے : اللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ وَاَدْخِلْہُ فِی رَحْمَتِکَ وَحَاسِبْہُ حِسَاباً یَسِیْرًا۔ اَلّٰلھُمَّ نَوِّرْ مَرْقَدَہٗ وَاَکْرِمْ مَنْزِلَہٗ وََاَلْحِقْہُ بِعِبَادِکَ الصَّالِحِین۔ آمین یا ربَّ العالَمین - زیر نظر آیت کے الفاظ پر دوبارہ غور کریں۔ یہاں انسانی زندگی کا پورا نقشہ سامنے رکھ کر بعث بعد الموت کے منکرین کو دعوت فکر دی گئی ہے کہ ہماری قدرت کا مشاہدہ کرنا چاہو تو تم اپنی زندگی اور اس کے مختلف مراحل پر غور کرو۔ دیکھو تمہاری ابتدا مٹی سے ہوئی تھی۔ اس مٹی سے پیدا ہو کر تم لوگ کس کس منزل تک پہنچتے ہو ‘ اور پھر آخر مر کر دوبارہ مٹی میں مل جاتے ہو۔ جس اللہ نے تمہیں یہ زندگی بخشی ‘ تمہیں بہترین صلاحیتوں سے نوازا ‘ جس کی قدرت سے انسانی زندگی کا یہ پیچیدہ نظام چل رہا ہے ‘ کیا تم اس کی قدرت اور خلاقی کے بارے میں شک کر رہے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکے گا۔ اپنی زندگی کی اس مثال سے اگر حقیقت تم پر واضح نہیں ہوئی تو ایک اور مثال پر غور کرو :- (وَتَرَی الْاَرْضَ ہَامِدَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ ) ” - اھتزاز کے معنی حرکت اور جنبش کرنے کے ہیں۔ اسی سے لفظ تَھْتَزُّ سورة النمل ‘ آیت ١٠ اور سورة القصص ‘ آیت ٣١ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کے بارے میں آیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اپنا عصا زمین پر رکھا تو اس میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے چلنے لگا۔ چناچہ یہاں ” اِھْتَزَّتْ “ کا مفہوم یہ ہے کہ بارش کے اثرات سے زمین میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ‘ مردہ زمین یکایک زندہ ہوگئی اور اس میں حرکت پیدا ہوگئی۔ مختلف نباتات کی اَن گنت کو نپلیں جگہ جگہ سے زمین کو پھاڑ کر باہر نکلنا شروع ہوگئیں اور پھر وہ سبزہ لمحہ بہ لمحہ نشوونما پانے لگا۔- (وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍم بَہِیْجٍ ) ” - نباتات کی زندگی کا دورانیہ ( ) بہت مختصرہوتا ہے ‘ اس لیے تم اکثر اس کا مشاہدہ کرتے ہو۔ اپنے اسی مشاہدے کی روشنی میں تم لوگ اگر اپنی زندگی کے شب و روز کا جائزہ لو گے تو تمہیں انسانی اور نباتاتی زندگی میں گہری مشابہت نظر آئے گی۔ مردہ زمین میں زندگی کے آثار پیدا ہونے ‘ نباتات کے اگنے ‘ نشوونما پانے ‘ پھولنے پھلنے اور سوکھ کر پھر بےجان ہوجانے کا عمل گویا انسانی زندگی کے مختلف مراحل مثلاً پیدائش ‘ پرورش ‘ جوانی ‘ بڑھاپے اور موت ہی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اس میں صرف دورانیے کا ہی فرق ہے۔ نباتاتی زندگی کا دورانیہ چند ماہ کا ہے جبکہ انسانی زندگی کا دورانیہ عموماً پچاس ‘ ساٹھ ‘ ستر یا اسیّ سال پر مشتمل ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :5 اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان ان مادوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے ۔ یا یہ کہ نوع انسانی کا آغاز آدم علیہ السلام سے کیا گیا جو براہ راست مٹی سے بنائے گئے تھے ، اور پھر آگے نسل انسانی کا سلسلہ نطفے سے چلا ، جیسا کہ سورہ سجدہ میں فرمایا : وَبَدَءَ خَلْقَ الْاِنْسَا نِ مِنْ طِیْنٍ ہ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّھِیْنٍ ( آیات 7 ۔ 8 ) انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی ، پھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :6 یہ اشارہ ہے ان مختلف اطوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے ۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئیں جو آج کل صرف طاقت ور خورد بینوں ہی سے نظر آسکتی ہیں ، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اس زمانے کے عام بدو بھی واقف تھے ۔ یعنی نطفہ قرار پانے کے بعد ابتداءً جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا سا ہوتا ہے ، پھر وہ گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل ہوتا ہے جس میں پہلے شکل صورت کچھ نہیں ہوتی اور آگے چل کر انسانی شکل نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے ۔ اسقاط کی مختلف حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے ، اس لئے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :7 یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا ۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا ، بوڑھا ہو کر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے ۔ جس علم و واقفیت اور تجربہ کاری و جہاں دیدگی پر اس کو ناز تھا وہ ایسی بے خبری میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچے تک اس کی باتوں پر ہنسنے لگتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: جو لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو ناممکن یا مشکل سمجھتے ہیں، اُن سے کہا جارہا ہے کہ خود اپنی تخلیق پر غور کرو کہ اﷲ تعالیٰ نے کس حیرت انگیز طریقے پر کتنے مرحلوں سے گذار کر تمہیں پیدا فرمایا تھا۔ تمہارا کوئی وجود نہیں تھا، اﷲ تعالیٰ نے تمہیں وجود بخشا، تم میں جان نہیں تھی، اﷲ تعالیٰ نے تم میں جان ڈالی۔ جس ذات نے اس حیرت انگیز طریقے سے تمہیں اُس وقت پیدا کیا جب تم کچھ بھی نہیں تھے تو کیا وہ تمہیں مردہ لااش بننے کے بعد دوبارہ زندگی نہیں دے سکتا؟ 2: یعنی بعض اوقات تو اس گوشت کے لوتھڑے سے ماں کے پیٹ میں بچے کے اعضا پورے بن جاتے ہیں، اور بعض اوقات پورے نہیں بنتے۔ پھر بعض اوقات اسی نامکمل حالت میں عورت کو اسقاط ہوجاتا ہے، اور بعض اوقات بچہ ناقص اعضاء کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ 3: یعنی زیادہ بُڑھاپے کی حالت میں اِنسان بچپن کی سی ناسمجھی کی طرف لوٹ جاتا ہے، اور جوانی میں اس نے کتنا علم حاصل کیا ہو، اس بُڑھاپے میں وہ سب یا اکثر حصہ بھول جاتا ہے۔ 4: یہ دوبارہ زندگی دینے کی دوسری دلیل ہے، اور وہ یہ کہ زمین جب خشک ہوتی ہے تو اُس میں زندگی کے آثار ختم ہوجاتے ہیں، پھر اﷲ تعالیٰ بارش برسا کر اُس میں زندگی کی نئی لہر دوڑا دیتا ہے، اور اُسی بے جان زمین سے پودے اُگنے لگتے ہیں۔ جو خدا اس پر قادر ہے، کیا وہ تمہیں دوبارہ زندگی دینے پر قادر نہیں؟