Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شیطان کا تصرف غلط ہے یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبش یہ سمجھ کر کہ مشرکین مکہ اب مسلمان ہوگئے واپس مکے آگئے ۔ لیکن یہ روایت ہرسند سے مرسل ہے ۔ کسی صحیح سند سے مسند مروی نہیں ، واللہ اعلم ۔ چنانچہ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ شریف میں سورۃ النجم کی تلاوت فرمائی جب یہ آیتیں آپ پڑھ رہے تھے آیت ( اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى 19؀ۙ ) 53- النجم:19 ) تو شیطان نے آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ ڈالے کہ ( تلک الغرانیق العلی وان شفاعتہم ترتجعی ) پس مشرکین خوش ہوگئے کہ آج تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے معبودوں کی تعریف کی جو اس سے پہلے آپ نے کبھی نہیں کی ۔ چنانچہ ادھر حضور نے سجدہ کیا ادھر وہ سب بھی سجدے میں گرپڑے اس پر یہ آیت اتری اسے ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے یہ مرسل ہے ۔ مسند بزار میں بھی اس کے ذکرکے بعد ہے کہ صرف اسی سند سے ہی یہ متصلا مروی ہے ۔ صرف امیہ بن خالد ہی اسے وصل کرتے ہیں وہ مشہور ثقہ ہیں ۔ یہ صرف طریق کلبی سے ہی مروی ہے ۔ ابن ابی حاتم نے اسے دو سندوں سے لیا ہے لیکن دونوں مرسل ہیں ، ابن جریر میں بھی مرسل ہے قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آگئی اور شیطان نے آپ کی زبان پر ڈالا عربی ( وان شفاعتہا لترتجی وانہا لمع الغرانیق العلی ) نکلوادیا ۔ مشرکین نے ان لفظوں کو پکڑ لیا اور شیطان نے یہ بات پھیلا دی ۔ اس پر یہ آیت اتری اور اسے ذلیل ہونا پڑا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ سورۃ نجم نازل ہوئی اور مشرکین کہہ رہے تھے کہ اگر یہ شخص ہمارے معبودوں کا اچھے لفظوں میں ذکر کرے تو ہم اسے اور اس کے ساتھیوں کو چھوڑیں مگر اس کا تو یہ حال ہے کہ یہود ونصاری اور جو لوگ اس کے مخالف ہیں اس سب سے زیادہ گالیوں اور برائی سے ہمارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے ۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے اصحاب پر سخت مصائب توڑے جا رہے تھے ۔ آپ کو ان کی ہدایت کی لالچ تھی جب سورۃ نجم کی تلاوت آپ نے شروع کی اور ولہ الانثی تک پڑھا تو شیطان نے بتوں کے ذکر کے وقت یہ کلمات ڈال دئیے عربی ( وانہن لہن الغرانیق العلی وان شفاعتہن لہی التی ترتجی ) یہ شیطان کی مقفی عبارت تھی ۔ ہر مشرک کے دل میں یہ کلمے بیٹھ گئے اور ایک ایک کو یاد ہوگئے یہاں تک کہ یہ مشہور ہوگیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ کے خاتمے پر سجدہ کیا تو سارے مسلمان اور مشرکین بھی سجدے میں گرپڑے ، ہاں ولید بن مغیرہ چونکہ بہت ہی بوڑھا تھا اس لئے اس نے ایک مٹھی مٹی کی بھر کر اونچی لے جا کر اس کو اپنے ماتھے سے لگا لیا ۔ اب ہر ایک کو تعجب معلوم ہونے لگا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دونوں فریق سجدے میں شامل تھے ۔ مسلمانوں کو تعجب تھا کہ یہ لوگ ایمان تو لائے نہیں ، یقین نہیں ، پھر ہمارے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدے پر سجدہ انہوں کیسے کیا ؟ شیطان نے جو الفاظ مشرکوں کے کانوں میں پھونکے تھے وہ مسلمانوں نے سنے ہی نہ تھے ادھر ان کے دل خوش ہو رہے تھے کیونکہ شیطان نے اس طرح آواز میں آواز ملائی کہ مشرکین اس میں کوئی تمیز ہی نہ کرسکتے تھے ۔ وہ تو سب کو اسی یقین پر پکا کرچکا تھا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سورت کی ان دونوں آیتوں کو تلاوت فرمایا ہے ۔ پس دراصل مشرکین کا سجدہ اپنے کو تھا ۔ شیطان نے اس واقعہ کو اتنا پھیلا دیا کہ مہاجرین حبشہ کے کانوں میں بھی یہ بات پہنچی ۔ عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب سنا کہ اہل مکہ مسلمان ہوگئے ہیں بلکہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور ولید بن مغیرہ سجدہ نہ کرسکا تو اس نے مٹی کی ایک مٹھی اٹھا کر اس پر سرٹکالیا ۔ مسلمان اب پورے امن اور اطمینان سے ہیں تو انہوں نے وہاں سے واپسی کی ٹھانی اور خوشی خوشی مکے پہنچے ۔ ان کے پہنچنے سے پہلے شیطان کے ان الفاظ کی قلعی کھل چکی تھی اللہ نے ان الفاظ کو ہٹا دیا تھا اور اپنا کلام محفوظ کردیا تھا یہاں مشرکین کی آتش عداوت اور بھڑک اٹھی تھی اور انہوں نے مسلمانوں پر نئے مصائب کے بادل برسانے شروع کردئے تھے یہ روایت بھی مرسل ہے ۔ بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی یہ روایت ہے امام محمد ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ بھی اسے اپنی سیرت میں لائے ہیں لیکن یہ سندیں مرسلات اور منقطعات ہیں واللہ اعلم ۔ امام بغوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں یہ سب کچھ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کے کلام سے اسی طرح کی روایتیں وارد کی ہیں ۔ پھر خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بچاؤ کا ذمہ دار محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہوگئی ۔ پھر بہت سے جواب دئے ہیں جن میں ایک لطیف جواب یہ بھی ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ لوگوں کے کانوں میں ڈالے اور انہیں وہم ڈالا کہ یہ الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے ہیں حقیقت میں ایسا نہ تھا یہ صرف شیطانی حرکت تھی نہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز ۔ واللہ اعلم ۔ اور بھی اسی قسم کے بہت سے جواب متکلمین نے دئے ہیں ۔ قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے بھی شفا میں اسے چھیڑا ہے اور ان کے جواب کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ کا اپنا فرمان اس بات کا ثبوت ہے کہ شیطان کا تصرف نبی اکرم پر ناممکن ہے ۔ مگر جب کہ وہ آرزو کرتا ہے الخ ، اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی فرمائی گئی ہے کہ آپ اس پر پریشان خاطر نہ ہوں اگلے نبیوں رسولوں پر بھی ایسے اتفاقات آئے ۔ بخاری میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ اس کی آرزو میں جب نبی بات کرتا ہے تو شیطان اس کی بات میں بول شامل کردیتا ہے پس شیطان کے ڈالے ہوئے کو باطل کرکے پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو محکم کرتا ہے مجاہد کہتے ہیں تمنی کا معنی قال کے ہیں امنیتہ کے معنی قرأت ہ کے ہیں الا امانی کا مطلب یہ ہے کہ پڑھتے ہیں لکھتے نہیں ۔ بغوی رحمتہ اللہ علیہ اور اکثر مفسیرین کہتے ہیں تمنی کے معنی تلاکے ہیں یعنی جب کتاب اللہ پڑھتا ہے تو شیطان اس کی تلاوت میں کچھ ڈال دیتا ہے چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدح میں شاعر نے کہا ہے ۔ شعر ( تمنی کتاب اللہ اول لیلتہ واخرہا لاقی حمام المقادر ) ۔ یہاں بھی لفظ تمنی پڑھنے کے معنی میں ہے ۔ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ قول بہت قریب کی تاویل والا ہے ۔ نسخ کے حقیقی معنی لغتا ازلہ اور رفع کے معنی ہٹانے اور مٹادینے کے ہیں یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ شیطان کے القا کو باطل کردیتا ہے ۔ جبرائیل علیہ السلام بحکم الٰہی شیطان کی زیادتی کو مٹا دیتے ہیں اور اللہ کی آیتیں مضبوط رہ جاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کا جاننے والا ہے ۔ کوئی مخفی بات بھی کوئی راز بھی اس پر پوشیدہ نہیں ، وہ حکیم ہے اس کا کام حکمت سے خالی نہیں ۔ یہ اس لئے کہ جن کے دلوں میں شک ، شرک ، کفر اور نفاق ہے ، ان کے لئے یہ فتنہ بن جائے ۔ چنانچہ مشرکین نے اسے اللہ کی طرف سے مان لیا حالانکہ وہ الفاظ شیطانی تھے ۔ لہذا بیمار دل والوں سے مراد منافق ہیں اور سخت دل والوں سے مراد مشرک ہیں ۔ یہ بھی قول ہے کہ مراد یہود ہیں ۔ ظالم حق سے بہت دور نکل گئے ہیں ۔ وہ سیدھے راستے سے گم ہوگئے ہیں اور جنہیں صحیح علم دیا گیا ہے جس سے وہ حق وباطل میں تمیز کرلیتے ہیں انہیں اس بات کے بالکل حق ہونے کا اور منجانب اللہ ہونے کا صحیح یقین ہوجائے اور وہ کامل الایمان بن جائیں اور سمجھ لیں کہ بیشک یہ اللہ کا کلام ہے جبھی تو اس قدر اس کی حفاظت دیانت اور نگہداشت ہے ۔ کہ کسی جانب سے کسی طریق سے اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی ۔ حکیم وحمید اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے پس انکے دل تصدیق سے پر ہوجاتے ہیں ، جھک کر رغبت سے متوجہ ہوجاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ایمان داروں کی رہبری دنیا میں حق اور ہدایت کی طرف کرتا ہے صراط مستقیم سجھا دیتا ہے اور آخرت میں عذابوں سے بچا کر بلند درجوں میں پہنچاتا ہے اور نعمتیں نصیب فرماتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 تمنی کے ایک معنی ہیں آرزو کی یا دل میں خیال آیا۔ دوسرے معنی ہیں پڑھایا تلاوت کی۔ اسی اعتبار سے امنیۃ کا ترجمہ آرزو، خیال یا تلاوت ہوگا پہلے معنی کے اعتبار سے مفہوم ہوگا اس کی آرزو میں شیطان نے رکاوٹیں ڈالیں تاکہ وہ پوری نہ ہوں۔ اور رسول و نبی کی آرزو یہی ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ایمان لے آئیں، شیطان رکاوٹیں ڈال کر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایمان سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مفہوم ہوگا کہ جب بھی اللہ کا رسول یا نبی وحی شدہ کلام پڑھتا اور اس کی تلاوت کرتا ہے۔ تو شیطان اس کی قرأت و تلاوت میں اپنی باتیں ملانے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بابت لوگوں کے دلوں میں شبہ ڈالتا اور میں میخ نکالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شیطان کی رکاوٹوں کو دور فرما کر یا تلاوت میں ملاوٹ کی کوشش ناکام فرما کر شیطان کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا ازالہ فرما کر اپنی بات کو یا اپنی آیات کو محکم (پکا) فرما دیتا ہے۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ شیطان کی یہ کارستانیاں صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہی نہیں ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جو رسول اور نبی آئے، سب کے ساتھ یہی کچھ کرتا آیا ہے۔ تاہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرائیں نہیں شیطان کی ان شرارتوں اور سازشوں سے جس طرح ہم پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کو بچاتے رہے ہیں یقینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی محفوظ رہیں گے اور شیطان کے علی الرغم اللہ تعالیٰ اپنی بات کو پکا کرکے رہے گا۔ یہاں بعض مفسرین نے غرانیق علی کا قصہ بیان کیا ہے جو محققین کے نزدیک ثابت ہی نہیں ہے اس لیے اسے یہاں پیش کرنے کی ضرورت ہی سرے سے نہیں سمجھی کی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اور نبی دو الگ الگ شخصتیں ہوتی ہیں۔ نبی عام ہے اور رسول خاص بالفاظ دیگر ہر رسول نبی تو ہوتا ہے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ ۡ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا 54؀ۚ ) 19 ۔ مریم :54) یعنی موسیٰ رسول بھی تھے اور نبی بھی لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ نبی اور رسول کا فرق پہلے سورة مائدہ کی آیت ٦٧ کے تحت واضح کیا جاچکا ہے۔- [٨١] تمنی کے معنی تمنا یا آرزو کرنا بھی لغوی لحاظ سے درست ہیں اور تلاوت کرنا بھی۔ ترجمہ میں پہلے معنی کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی یا رسول جب کوئی آرزو کرتا ہے (اور نبی یا رسول کی بڑی سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ لوگ اس کی دعوت کو قبول کرلیں اور اس دعوت کو فروغ اور قبول عام حاصل ہو) تو شیطان اس کی خواہش کی تکمیل میں کئی طرح سے رکاوٹیں کھڑی کردیتا ہے۔ اور ایسا وسوسہ بعض دفعہ تو شیطان نبی اور اس کے پیروکاروں کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ جیسے کفار کے کسی حسی معجزہ کے مطالبہ پر خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کے دل میں یہ خیال آنے لگا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھلا دے تو اس سے کئی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں یا مثلاً رؤسائے قریش نے آپ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر آپ ان ناتواں اور حقیر لوگوں (یعنی کمزور مسلمانوں) کو اپنی مجلس سے کسی وقت اٹھا دیں تو ہم آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی دعوت غور سے سننے کو تیار ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کی عدم مخالفت اور اسلام کے غلبہ کی خاطر کافروں کے اس مطالبہ پر غور کرنے کے لئے تیار بھی ہوگئے تھے تو ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بروقت تنبیہ ہوجاتی تھی اور اللہ تعالیٰ ایسی آیات نازل فرما دیتا جو خود اسے منظور ہوتا تھا اور اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ شیطان نبی یا رسول کی خواہش کی تکمیل کی راہ میں دوسرے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنا شروع کردیتا ہے۔ جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے، اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے اور اس کے خلاف سازشیں کرنے لگتے ہیں اور یہ لوگ دو ہی قسم کے ہوسکتے ہیں ایک منافقین اور دوسرے وہ لوگ جن کے دل قبول حق کے سلسلہ میں پتھر کی طرح سخت ہوچکے ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ بالآخر ایسے لوگوں کی تمام تر سازشوں اور کوششوں کو ناکام بنا دیتا ہے۔ اور جس مقصد کی تکمیل کے لئے وہ کسی نبی یا رسول کو مبعوث فرماتا ہے اسے پختہ سے پختہ تر بنا دیتا ہے۔- اور اگر تمنی کا معنی تلاوت کرنا سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی یا رسول کوئی آیت تلاوت کرتا ہے۔ تو اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کے سلسلہ میں شیطان لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر انھیں شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے جب یہ آیت نازل فرمائی کہ (حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ ١٧٣۔ ) 2 ۔ البقرة :173) تو بعض لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ اللہ کا مارا ہوا جانور تو حرام ہو اور انسان کا مارا ہوا (ذبح کیا ہو) حلال ؟ یہ خالصتہ شیطانی وسوسہ تھا۔ اسی طرح جب یہ آیت نازل ہوئی ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98؀) 21 ۔ الأنبیاء :98) (یعنی تم بھی اور اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو سب جہنم کا ایندھن بنیں گے) اور آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی تو کافروں نے فوراً یہ اعتراض جڑ دیا کہ پرستش تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عزیر (علیہ السلام) اور فرشتوں کی بھی کی جاتی رہی ہے تو کیا یہ ہستیاں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گی ؟ یہ بھی خالصتہ شیطانی وسوسہ تھا۔ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ دوسری صریح اور محکم آیات نازل فرما کر شکوک و شبہات اور شیطانی وساوس کو دور فرما کر اپنے حکم کی وضاحت فرما دیتا ہے۔- یہاں یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اس آیت کے شان نزول کے متعلق بعض تفاسیر میں ایک واقعہ مندرج ہے جو یوں ہے کہ ایک دفعہ آپ سورة النجم کی تلاوت فرما رہے تھے اور یہ تلاوت مشرکین مکہ بھی پاس موجود تھے۔ جب آپ نے آیات تلاوت فرمائیں۔ (اَفَرَاَیْتُمُ اللاَّتَ وَالْعُزّٰی وَمَنَات الثَّالِثَۃَ الاُخْرٰی) تو شیطان نے آپ کی آواز میں آواز ملا کر درج ذیل الفاظ یوں پڑھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ الفاظ آپ ہی کی زبان سے ادا ہوئے ہیں۔ (تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنْ شَفَاعَتُھُنَّ لَتُرْجٰی) (یہ اونچی گردنوں والی دیویاں ہیں یعنی لات، عزی اور منات۔ اور اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کی یقیناً توقع کی جاسکتی ہے) چناچہ جب مشرکین مکہ نے جب یہ الفاظ سنے تو ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوگئے کہ ان کے بتوں کا بھلائی کا ذکر کیا گیا ہے۔ چناچہ وہ بڑے غور سے آپ کی تلاوت سننے لگے اور سورة والنجم کے اختتام پر آپ نے اور دیگر مسلمانوں نے سجدہ کیا تو ساتھ ہی مشرکوں نے بھی سجدہ کیا۔- پھر یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اس کا اگلا حصہ یہ ہے کہ پھر یہ خبر مشہور ہوگئی کہ مسلمانوں اور کفار مکہ میں صلح و سمجھوتہ ہوگیا ہے یہ خبر اڑتی اڑتی جب مہاجرین حبشہ کو ملی تو ان میں سے بعض مہاجر مکہ واپس آگئے۔ لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔- یہ واقعہ کئی لحاظ سے غلط ہے مثلاً :- ١۔ ان تمام روایات کی اسناد مرسل اور متقطع ہیں۔ لہذا یہ روایات ساقط الاعتبار ہیں۔ اسی وجہ سے صحاح ستہ میں اس قسم کی کوئی روایت مذکور نہیں۔- ٢۔ ان آیات میں اس شیطانی وسوسہ سے پہلے ہی بتوں اور دیویوں کی مذمت مذکور ہے اور بعد میں بھی۔ لہذا درمیان میں بتوں کا یہ ذکر خیر کسی لحاظ سے بھی فٹ نہیں بیٹھتا۔- ٣۔ تاریخی لحاظ سے یہ روایات اس لئے غلط ہیں کہ ہجرت کا واقعہ ٥ نبوی میں پیش آیا تھا اور جو مہاجر اس غلط افواہ کی بنا پر واپس مکہ آئے تھے وہ صرف تین ماہ بعد آئے تھے۔ جبکہ یہ سورت مدنی ہے اور ہجرت حبشہ سے واپسی اور اس سورة کے نزول کے درمیان کم از کم آٹھ نو سال کا وقفہ ہے۔- [٨٢] ان روایات میں دراصل کافروں کے ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے جو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو بعد میں محکم اور واضح آیات نازل کرکے شکوک و شبہات کو رد کرتا ہے وہ پہلے ہی ایسے واضح احکام کیوں نہیں بھیج دیتا جن سے شکوک و شبہات پیدا ہی نہ ہوں یہ اعتراض بھی دراصل کج رو اور کج فطرت کافروں کی عیاری کا غماز ہے اور اس کا جواب سورة آل عمران کے ابتداء میں آیات متشابہات اور آیات محکمات (آیت نمبر ٧) میں بیان ہوچکا ہے اور یہاں بھی انھیں دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مختصراً یہ کہ :- ١۔ شکوک میں مبتلا صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو منافق ہوں یا ہٹ دھرم کے کافر۔- ٢۔ ایسی آیات سے ہی ایمانداروں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور برحق ہے۔- ٣۔ ایسی آیات دراصل سب لوگوں کے لئے ایک آزمائش اور جانچ ہوتی ہیں۔ جن سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ کون کس مقام پر کھڑا ہے ؟ آیا وہ منافقوں سے تعلق رکھتا ہے یا اللہ پر ایمان لانے والوں سے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ ۔۔ : لغت میں ” تَمَنّٰی یَتَمَنّٰی تَمَنِّیًا “ کا معنی تمنا، آرزو اور خواہش کرنا بھی ہے اور تلاوت کرنا اور پڑھنا بھی ہے، سورة بقرہ کی آیت (٧٨) : (وَمِنْھُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِىَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ ) میں ” اَمَانِیَّ “ ” أُمْنِیَّۃٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی آرزو بھی ہے اور تلاوت کرنا بھی۔ پہلے معنی کی رو سے مطلب یہ ہے کہ آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول یا نبی بھیجا شیطان اس کی ہر آرزو اور خواہش کے راستے میں رکاوٹیں ڈالتا رہا۔ ظاہر ہے پیغمبر کی آرزو لوگوں کے ایمان قبول کرنے اور دین حق کے غلبے کے سوا کیا ہوسکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے انبیاء و رسل کی ہر کوشش کو شیطان ناکام کرنے کی کوشش کرتا رہا، مگر اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے آنے والی تمام رکاوٹوں کو دور کرکے اپنی آیات کو محکم اور اپنے دین کو غالب کرتا رہا، جیسا کہ فرمایا : (هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ ) [ التوبۃ : ٣٣ ] ” وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے۔ “ دوسرے معنی کی رو سے مطلب یہ ہے کہ آپ سے پہلے بھی رسول یا نبی آیا، جب وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کرتا تو شیطان اس کے سننے میں رکاوٹ ڈالتا، جیسا کہ فرمایا : (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ ) [ حٰآ السجدۃ : ٢٦ ] ” اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، اس قرآن کو مت سنو اور اس میں شور کرو، تاکہ تم غالب رہو۔ “ مگر اللہ تعالیٰ اس کی رکاوٹوں کو دور کرکے اپنی آیات کو محکم کردیتا۔ یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ پیغمبروں کے آیات کی تلاوت کے وقت شیطان ان آیات کے معانی کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات ڈال دیتا جنھیں اللہ تعالیٰ بعد میں وضاحت کرکے دور کردیتا، جیسا کہ سورة نحل کی آیت (١١٥) : (اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ ) میں شبہ ڈالا کہ دیکھو اپنا مارا ہوا حلال کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مارے ہوئے کو حرام کہتے ہیں۔ سورة انبیاء کی آیت (٩٨) : ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ) میں شبہ ڈالا کہ پھر تو مسیح (علیہ السلام) بھی نعوذ باللہ جہنم میں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کی وضاحت فرما کر شیطان کے ڈالے ہوئے شبہ کو دور فرما دیا اور اپنی آیات کو محکم کردیا۔ - وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : یعنی اللہ تعالیٰ ان سب شیاطین کو خوب جانتا ہے جو انبیاء کی تمناؤں کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں، یا انبیاء کے آیات کی تلاوت کے وقت لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات ڈالتے ہیں اور ان شکوک و شبہات کو اور ان کے دفاع کے طریقوں کو بھی خوب جانتا ہے اور وہ کمال حکمت والا بھی ہے جس کے پیش نظر اس نے شیاطین کو مہلت دے رکھی ہے کہ خود بھی گمراہ رہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں۔- 3 بعض مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة نجم کی تلاوت کر رہے تھے، جب آپ آیت (٢٠) : (وَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى ) پر پہنچے تو لا شعوری کے عالم میں شیطان نے آپ کی زبان پر یہ کلمات جاری کردیے، یا آپ کے لہجے اور آواز میں پڑھ دیے : ” تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَ إِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجَی “ ” یہ عالی مقام دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے۔ “ اس پر کفار قریش بہت خوش ہوئے کہ آج ہمارے بتوں کی بھی تعریف ہوئی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت غم لاحق ہوا، چناچہ سورة حج کی یہ آیت اتری اور آپ کو تسلی دی گئی کہ پہلے انبیاء کی وحی میں بھی شیطان اس قسم کی دخل اندازیاں کرتا رہا ہے، مگر شیطان کے یہ حربے کامیاب نہیں ہوتے وغیرہ۔ یہ قصہ ان آیات کے صریح متصادم ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ پیغمبروں کے چاروں طرف زبردست پہرا اس وقت تک رکھتا ہے جب تک وہ اللہ کے پیغامات لوگوں تک نہ پہنچا دیں (اتنے کڑے پہرے میں ممکن ہی نہیں کہ شیطان کسی طرح بھی اثر انداز ہو سکے) ۔ دیکھیے سورة جن کی آخری آیات ” عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ “ سے آخر سورت تک۔ محقق علماء نے اس قصے کی پر زور تردید کی ہے۔ بیہقی (رض) کہتے ہیں، یہ قصہ من گھڑت ہے۔ ابن خزیمہ (رض) نے لکھا ہے کہ یہ قصہ زنادقہ (ملحد و بےدین لوگوں) نے گھڑا ہے۔ قاضی عیاض نے ” الشفاء “ میں اس کی تردید کی ہے۔ رازی نے فرمایا کہ یہ قصہ باطل ہے۔ حافظ ابن حجر (رض) نے تین مرسل روایات کی بنا پر اس واقعے کا کچھ اصل ثابت کرنے اور اس کی توجیہ کی کوشش کی ہے مگر محدث البانی (رض) نے اپنے رسالہ ” نَصْبُ الْمَجَانِیْقِ لِنَسْفِ قِصَّۃِ الْغَرَانِیْقِ “ میں مضبوط علمی بحث کے ساتھ اس قصے کا بالکل بےاصل ہونا ثابت فرمایا ہے اور قدیم و جدید محدثین و فقہاء کا حوالہ دیا ہے، جنھوں نے اس واقعہ کی دلائل کے ساتھ تردید فرمائی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ جو شیطان کے اغواء سے آپ سے مجادلہ کرتے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ) ہم نے آپ کے قبل کوئی رسول اور کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس کو یہ قصہ پیش نہ آیا ہو کہ جب اس نے (اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے) کچھ پڑھا (تب ہی) شیطان نے اس کے پڑھنے میں (کفار کے قلوب میں) شبہ (اور اعتراض) ڈالا (اور کفار انہی شبہات اور اعتراضات کو پیش کر کے انبیاء سے مجادلہ کیا کرتے جیسا دوسری آیات میں ارشاد ہے وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا، ۭوَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ ) پھر اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات کو (جوابات قاطعہ و دلائل واضحہ سے) نیست و نابود کردیتا ہے (جیسا کہ ظاہر ہے کہ جواب صحیح کے بعد اعتراض دفع ہوجاتا ہے) پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات (کے مضامین) کو زیادہ مضبوط کردیتا ہے (گو وہ فی نفسہا بھی مستحکم تھیں لیکن اعتراضات کے جواب سے اس استحکام کا زیادہ ظہور ہوگیا) اور اللہ تعالیٰ (ان اعتراضات کے متعلق) خوب علم والا ہے (اور ان کے جواب کے تعلیم میں) خوب حکمت والا ہے (اور یہ سارا قصہ اس لئے بیان کیا ہے) تاکہ اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات کو ایسے لوگوں کے لئے آزمائش (کا ذریعہ) بنا دے جن کے دل میں (شک کا) مرض ہے اور جن کے دل (بالکل ہی) سخت ہیں (کہ وہ شک سے بڑھ کر باطل کا یقین کئے ہوئے ہیں، سو ان کی آزمائش ہوتی ہے کہ دیکھیں بعد جواب کے اب بھی شبہات کا اتباع کرتے ہیں یا جواب کو سمجھ کر حق کو قبول کرتے ہیں) اور واقعی (یہ) ظالم لوگ (یعنی اہل شک بھی اور اہل یقین بالباطل بھی) بڑی مخالفت میں ہیں (کہ حق کو باوجود واضح ہونے کے محض عناد کے سبب قبول نہیں کرتے شیطان کو وسوسہ ڈالنے کا تصرف تو اس لئے دیا گیا تھا کہ آزمائش ہو) اور (ان شبہات کا اجوبہ صحیحہ و نور ہدایت سے ابطال اس لئے ہوتا ہے) تاکہ جن لوگوں کو فہم (صحیح) عطا ہوا ہے وہ (ان اجوبہ و نور ہدایت سے) اس امر کا زیادہ یقین کرلیں کہ یہ (جو نبی نے پڑھا ہے وہ) آپ کے رب کی طرف سے حق ہے سو ایمان پر زیادہ قائم ہوجاویں پھر (زیادہ یقین کی برکت سے اس (پر عمل کرنے) کی طرف ان کے دل اور بھی جھک جاویں اور واقعی ان ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ ہی راہ راست دکھلاتا ہے (پھر کیونکر ان کو ہدایت نہ ہو۔ یہ تو ایمان والوں کی کیفیت ہوئی) اور (رہ گئے) کافر لوگ (سو وہ) ہمیشہ اس (پڑھے ہوئے حکم) کی طرف سے شک ہی میں رہیں گے (جو ان کے دل میں شیطان نے ڈالا تھا) یہاں تک کہ ان پر دفعةً آ جاوے (جس کی ہول ہی کافی ہے گو عذاب نہ بھی ہوتا) یا (اس سے بڑھ کر یہ کہ) ان پر کسی بےبرکت دن کا (کہ قیامت کا دن ہے) عذاب آپہنچے (اور دونوں کا جمع ہونا جو کہ واقع میں ہوگا اور بھی اشد مصیبت ہے مطلب یہ ہے کہ یہ بدون مشاہدہ عذاب کفر سے باز نہ آویں گے مگر اس وقت نافع نہ ہوگا) بادشاہی اس روز اللہ ہی کی ہوگی وہ ان سب (مذکورین) کے درمیان (عملی) فیصلہ فرما دے گا۔ سو جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور اچھے کام کئے ہوں گے وہ چین کے باغوں میں ہوں گے اور جنہوں نے کفر کیا ہوگا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہوگا تو ان کے لئے ذلت کا عذاب ہوگا۔- معارف و مسائل - مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ ، ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اور نبی دو الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں ایک نہیں، ان دونوں میں فرق کیا ہے اس میں اقوال مختلف ہیں مشہور اور واضح یہ ہے کہ نبی تو اس شخص کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوت قوم کی اصلاح کے لئے عطا ہوا ہو اور اس کے پاس اللہ کی طرف سے وحی آتی ہو خواہ اس کو کوئی مستقل کتاب اور شریعت دی جائے یا کسی پہلے نبی ہی کی کتاب اور شریعت کی تبلیغ کے لئے مامور ہو۔ پہلے کی مثال حضرت موسیٰ و عیسیٰ اور خاتم الانبیاء (علیہم السلام) کی ہے اور دوسرے کی مثال حضرت ہارون (علیہ السلام) کی ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب تورات اور انہی کی شریعت کی تبلیغ وتعلیم کے لئے مامور تھے۔ اور رسول وہ ہے جس کو مستقل شریعت اور کتاب ملی ہو۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ہر رسول کا نبی ہونا ضروری ہے مگر ہر نبی کا رسول ہونا ضروری نہیں، یہ تقسیم انسانوں کیلئے ہے۔ فرشتہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لے کر آتا ہے اس کو رسول کہنا اس کے منافی نہیں، اس کی تفصیل سورة مریم میں آ چکی ہے۔- اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْٓ اُمْنِيَّتِهٖ لفظ تمنی اس جگہ بمعنے قراء ہے اور امنیہ کے معنی قراءت کے ہیں۔ عربی لغت کے اعتبار سے یہ معنے بھی معروف ہیں۔ اس آیت کی جو تفسیر اوپر خلاصہ تفسیر میں لکھی ہے وہ بہت صاف بےغبار ہے۔ ابو حیان نے بحر محیط میں اور بہت سے دوسرے حضرات مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ کتب حدیث میں اس جگہ ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے جو غرانیق کے نام سے معروف ہے یہ واقعہ جمہور محدثین کے نزدیک ثابت نہیں ہے۔ بعض حضرات نے اس کو موضوع ملحدین و زنادقہ کی ایجاد قرار دیا ہے اور جن حضرات نے اس کو معتبر بھی قرار دیا ہے تو اس کے ظاہری الفاظ سے جو شبہات قرآن و سنت کے قطعی اور یقینی احکام پر عائد ہوتے ہیں ان کے مختلف جوابات دیئے ہیں لیکن اتنی بات بالکل واضح ہے کہ اس آیت قرآن کی تفسیر اس واقعہ پر موقوف نہیں بلکہ اس کا سیدھا سادہ مطلب وہ ہے جو اوپر بیان ہوچکا ہے بلاوجہ اس کو اس آیت کی تفسیر کا جزء بنا کر شکوک و شبہات کا دروازہ کھولنا اور پھر جوابدہی کی فکر کرنا کوئی مفید کام نہیں اس لئے اس کو ترک کیا جاتا ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ اِلَّآ اِذَا تَـمَنّٰٓي اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْٓ اُمْنِيَّتِہٖ۝ ٠ۚ فَيَنْسَخُ اللہُ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللہُ اٰيٰتِہٖ۝ ٠ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝ ٥٢ۙ- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- تَّمَنِّي :- تقدیر شيء في النّفس وتصویره فيها، وذلک قد يكون عن تخمین وظنّ ، ويكون عن رويّة وبناء علی أصل، لکن لمّا کان أكثره عن تخمین صار الکذب له أملك، فأكثر التّمنّي تصوّر ما لا حقیقة له . قال تعالی: أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم 24] ، فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة 94] ، وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة 7] - والأُمْنِيَّةُ- : الصّورة الحاصلة في النّفس من تمنّي الشیء، ولمّا کان الکذب تصوّر ما لا حقیقة له وإيراده باللفظ صار التّمنّي کالمبدإ للکذب، فصحّ أن يعبّر عن الکذب بالتّمنّي، وعلی ذلک ما روي عن عثمان رضي اللہ عنه :( ما تغنّيت ولا تَمَنَّيْتُ منذ أسلمت) «1» ، وقوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة 78] قال مجاهد : معناه : إلّا کذبا «2» ، وقال غيره إلّا تلاوة مجرّدة عن المعرفة . من حيث إنّ التّلاوة بلا معرفة المعنی تجري عند صاحبها مجری أمنيّة تمنیتها علی التّخمین، وقوله : وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ- [ الحج 52] أي : في تلاوته، فقد تقدم أنّ التّمنّي كما يكون عن تخمین وظنّ فقد يكون عن رويّة وبناء علی أصل، ولمّا کان النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کثيرا ما کان يبادر إلى ما نزل به الرّوح الأمين علی قلبه حتی قيل له : لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه 114] ، ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة 16] سمّى تلاوته علی ذلک تمنّيا، ونبّه أنّ للشیطان تسلّطا علی مثله في أمنيّته، وذلک من حيث بيّن أنّ «العجلة من الشّيطان» «3» . وَمَنَّيْتَني كذا : جعلت لي أُمْنِيَّةً بما شبّهت لي، قال تعالیٰ مخبرا عنه : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ- [ النساء 119] .- ۔ التمنی - کے معنی دل میں کسی خیال کے باندھے اور اس کی تصویرکھنیچ لینے کے ہیں پھر کبھی یہ تقدیر محض ظن وتخمین پر مبنی بر حقیقت مگر عام طور پر تمنی کی بنا چونکہ ظن وتحمین پر ہی ہوتی ہے اس لئے ا س پر جھوٹ کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔ کیونکہ اکثر طور پر تمنی کا لفظ دل میں غلط آرزو میں قائم کرلینے پر بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم 24] کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے ۔ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة 94] تو موت کی آرزو تو کرو ۔ وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة 7] اور یہ ہر گز نہیں کریں گے ۔ - الامنیۃ - کسی چیز کی تمنا سے جو صورت ذہن میں حاصل ہوتی ہے اسے امنیۃ کہا جاتا ہے ۔ اور کزب چونکہ کسی وغیرہ واقعی چیز کا تصور کر کے اسے لفظوں میں بیان کردینے کو کہتے ہیں تو گویا تمنی جھوت کا مبدء ہے مہذا جھوٹ کو تمنی سے تعبیر کر نا بھی صحیح ہے اسی معنی میں حضرت عثمان (رض) کا قول ہے ۔ ماتغنیت ولا منذ اسلمت کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں نہ راگ گایا ہے اور نہ جھوٹ بولا ہے اور امنیۃ کی جمع امانی آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة 78] اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا ( خدا کی ) کتاب سے واقف نہیں ہیں ۔ مجاہد نے الا امانی کے معنی الا کذبا یعنی جھوٹ کئے ہیں اور دوسروں نے امانی سے بےسوچے سمجھے تلاوت کرنا مراد لیا ہے کیونکہ اس قسم کی تلاوت بھی اس منیۃ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہے جس کی بنا تخمینہ پر ہوتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج 52] اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اس کا یہ حال تھا کہ ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آروزو میں ( وسوسہ ) ڈال دیتا تھا ۔ میں - امنیۃ کے معنی تلاوت کے ہیں اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تمنی ظن وتخمین سے بھی ہوتی ہے ۔ اور مبنی بر حقیقت بھی ۔ اور چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر روح الامین جو وحی لے کر اترتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاوت کے لئے مبا ورت کرتے تھے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه 114] اور ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة 16] کے ذریعہ منع فرما دیا گیا ۔ الغرض اس وجہ سے آپ کی تلاوت کو تمنی سے موسوم کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ایسی تلاوت میں شیطان کا دخل غالب ہوجاتا ہے اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے ان العا جلۃ من الشیطان کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے منیتی کذا کے معنی فریب وہی سے جھوٹی امید دلانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن نے شیطان کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] اور ان کو گمراہ کرتا ۔ اور امید دلاتا رہوں گا ۔- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - نسخ - النَّسْخُ : إزالةُ شَيْءٍ بِشَيْءٍ يَتَعَقَّبُهُ ، كنَسْخِ الشَّمْسِ الظِّلَّ ، والظِّلِّ الشمسَ ، والشَّيْبِ الشَّبَابَ. فَتَارَةً يُفْهَمُ منه الإزالة، وتَارَةً يُفْهَمُ منه الإثباتُ ، وتَارَةً يُفْهَم منه الأَمْرَانِ. ونَسْخُ الکتاب : إزالة الحُكْمِ بحکم يَتَعَقَّبُهُ. قال تعالی: ما نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْها - [ البقرة 106] قيل : معناه ما نُزيل العملَ بها، أو نحْذِفها عن قلوب العباد، وقیل : معناه :- ما نُوجِده وننزِّله . من قولهم : نَسَخْتُ الکتابَ ، وما نَنْسأُه . أي : نُؤَخِّرُهُ فلَمْ نُنَزِّلْهُ ، فَيَنْسَخُ اللَّهُ ما يُلْقِي الشَّيْطانُ [ الحج 52] . وَنَسْخُ الکتابِ : نَقْلُ صُورته المجرَّدة إلى کتابٍ آخرَ ، وذلک لا يقتضي إزالةَ الصُّورَةِ الأُولی بل يقتضي إثباتَ مثلها في مادَّةٍ أُخْرَى، كاتِّخَاذِ نَقْشِ الخَاتم في شُمُوعٍ كثيرة، - والاسْتِنْسَاخُ :- التَّقَدُّمُ بنَسْخِ الشیءِ ، والتَّرَشُّح، للنَّسْخ . وقد يُعَبَّر بالنَّسْخِ عن الاستنساخِ. قال تعالی: إِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ ما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ الجاثية 29] . - والمُنَاسَخَةُ- في المیراث : هو أن يموت ورثةٌ بعد ورثةٍ والمیراثُ قائمٌ لم يُقْسَمْ ، وتَنَاسُخُ الأزمنةِ والقرونِ : مُضِيُ قَوْمٍ بعدَ قَوْمٍ يَخْلُفُهُمْ. والقائلون بالتَّناسُخ قومٌ يُنْكِرُونَ البعثَ علی ما أَثْبَتَتْهُ الشَّرِيعةُ ، ويزعُمون أنّ الأرواحَ تنتقلُ إلى الأجسام عَلَى التَّأبِيدِ «1» .- ( ن س خ) النسخ اس کے اصل معنی ایک چیز کو زائل کر کے دوسری کو اس کی جگہ پر لانے کے ہیں ۔ جیسے ۔ دھوپ کا سائے کو۔ اور سائے کا دھوپ کو زائل کر کے اس کی جگہ لے لینا یا جوانی کے بعد بڑھاپے کا آنا و غیرذلک پھر کبھی اس سے صرف ازالہ کے معنی مراد ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَيَنْسَخُ اللَّهُ ما يُلْقِي الشَّيْطانُ [ الحج 52] تو جو دو سوسہ شیطان ڈلتا ہے خدا اس کو دور کردیتا ہے ۔ اور کبھی صرف اثبات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس سے معا دونوں مفہوم ہوتے ہیں ۔ لہذا نسخ الکتاب یعنی کتاب اللہ کے منسوخ ہونے سے ایک حکم نازل کرنا مراد ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ ما نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْها[ البقرة 106] ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا اسے فراموش کردیتے ہیں ۔ تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے نسخ اور انساء کے معنی اس پر عمل سے منع کرنے یا لوگوں کے دلوں سے فراموش کردینے کے لئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نسخت الکتاب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کتاب کو نقل کرنے کے ہیں اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو آیت بھی ہم نازل کرتے ہیں یا اس کے نزدل کو ایک وقت تک کے لئے ملتوی رکھتے ہیں تو اس سے بہتر یاویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں ۔ نسخ الکتاب کے معنی کتاب کی کاپی کرنے کے ہیں یہ پہلی صورت کے ازالہ کو مقتضی نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے مادہ ہیں اس جیسی دوسری صؤرت کے اثبات کو چاہتا ہے جیسا کہ بہت سے شمعوں میں انگوٹھی کا نقض بنا دیا جاتا ہے ۔- الا ستنساخ - کسی چیز کے لکھنے کو طلب کرنے یا لکھنے کے لئے تیار ہونے کے ہیں کبھی استنساخ بمعنی نسخ بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ ما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ الجاثية 29] جو کچھ تم کیا کرتے تھے ہم لکھواتے جاتے تھے ۔ اور علم وراثت میں مفاسخۃ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وراث یکے بعد دیگر مرتے رہیں اور میراث تقسیم نہ ہوئی ہو ۔ تنا سخ لا زمنۃ والقرآن ایک قوم کا گزر جانا اور دوسری کا اس کے قائم مقام ہونا ۔ اور تنا سخیۃ اس فرقے کو کہتے ہیں جو شریعت کے ثابت کرو وہ حشر ونشر کا انکار کرتے ہیں ۔ اور ارواح کے مختلف اجسام میں متفقل ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

تمنائے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ابلیس کی خلل اندازی - قول باری ہے صوما ارسلنا من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیتہ اور اے محمد تم سے پہلے جو رسول اور نبی بھی ہم نے بھیجا ہے (اس کے ساتھ یہ ضرور ہوا ہے کہ) جب اس نے تمنا کی، شیطان اس کی تمنا میں خلل انداز ہوگیا) حضرت ابن عباس، سعید بن جبیر، ضحاک، محمد بن کعب اور محمد بن قیس سے مروی ہے کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ تھا کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت افرایتم اللات والعزی و مناۃ الثالثۃ الاخری بھلا تم نے لات اور عزی اور تیسرے منات کے حالل پر بھی غور کیا ہے) تلاوت کی تو شیطان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت میں ان الفاظ کے ساتھ خلل انداز ہوگیا۔” تلک الغرانیق العلاوان شفاعتھن لترنجی “ (یہ اونچے اونچے آبی پرندے یعنی بت، ان کی شفاعت کی ضرو رامید کی جاسکتی ہے) شیطان کے خلل انداز ہونے کی تفسیر میں اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات کا قول ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت یعنی سورة نجم کی تلاوت کی اور اس میں بتوں کا ذکر ہوا تو کافروں کو علم ہوگیا کہ ان کے بتوں کی مذمت ہو رہی ہے اور ان کے عیوب و نقائص بیان ہو رہے ہیں۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تلاوت کرتے ہوئے آیت (اقرایتم الات والعزی) رپر پہنچے تو ان کافروں میں سے ایک بول اٹھا ” تلک الغرانیق العلی “ یہ بات مسجد حرام میں کفار قریش کے ایک بڑے مجمع کی موجودگی میں کہی گئی ۔ جو کافر ذرادور تھے وہ کہنے لگے کہ محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نے ہمارے معبودوں کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ” تلک الغرانیق العلیٰ “ بھی آپ کی تلاوت کا جز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اس قول کو باطل قرار دیتے ہوئے واضح کردیا کہ آپ نے اس فقرے کو اپنی تلاوت میں شامل نہیں کیا تھا بلکہ مشرکین میں سے کسی نے یہ فقرہ ادا کیا تھا، اللہ نے اس شخص کو شیطان کے نام سے موسوم کیا جس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت کے دوران یہ فقرہ ادا کیا تھا۔ اس لئے کہ وہ انسانی شیطانوں میں سے ایک تھا جس طرح یہ قول باری ہے (شیاطین الانس والجن شیاطین انس (جن) شیطان نام ہے جن وانس میں سے ہر اس فرد کا جو سرکش اور مفسد ہوتا ہے۔ ایک قول کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ وہ شیاطین جن میں سے کوئی شیطان ہو جس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت کے دوران یہ فقرہ کہا ہو۔- ایسی بات ابنیاء (علیہم السلام) کے زمانوں میں ممکن ہوتی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی حکایت اپنے اس قول میں کی ہے (واذا زین لھم الشیطان اعمالھم وقال لاغالب لکم الیوم من الناس وانی جائو لکم، فلما تراء ت الفئتان تکص علی عقبیہ وقال انی بری منکم انی اری مالا ترون۔ ذرا خیال کرو اس وقت کا جب کہ شیطان نے ان لوگوں کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور یہ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ مگر جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ الٹے پائوں پھر گیا اور کہنے لگا کہ میرا تمہارا ساتھ نہیں ہے میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے) یہ بات ابلیس نے ان سے کہی تھی۔ وہ قریش کے پاس سراق بن مالک کے بھیس میں اس وقت آیا تھا جب وہ دارالندوہ میں بیٹھ کر مقام بدر کی طرف جانے کے لئے مشورہ میں مصروف تھے۔ ابلیس ایک مرتبہ نجدی شیخ کے بھیس میں قریش کے پاس آیا تھا جب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف دارالندوہ کے اندر سازش میں مصروف تھے۔ ایسی بات تدبیر الٰہی کے طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ممکن تھی، اس لئے یہ ہوسکتا ہے کہ کسی شیطان نے درج بالا فقرہ کیا ہو اور لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہو کہ یہ فقرہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے ادا ہوا ہے۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے سہو کے طور پر یہ کلمہ نکلا ہو کیونکہ سہو سے کوئی انسان عاری نہیں ہوتا۔ اس کلمہ کی ادائیگی کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو متنبہ کردیا گیا ہو۔- بعض علماء نے اس توجیہ کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ اصل مفہوم یہ ہے کہ شیطان اپنے وساوس کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں خلجان پیدا کردیتا جس کی بنا پر آپ کی توجہ تلاوت کی طرف سے ہٹ جاتی اور آپ یکسانیت رکھنے والے قصص کی قرأت میں غلطی کر جاتے۔ مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعن کو اقعات جن کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ ہوا ہے۔ جب منافقین اور مشرکین اس غلط قرأت کو سنتے تو کہتے کہ محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نے اپنی سابقہ تلاوت سے رجوع کرلیا ہے۔ یہ صورت حال سہو کی بناپر پیدا ہوئی تھی چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے آگاہ کردیا۔ رہ گئی یہ بات کہ آپ نے تلاوت کے دوران غلطی سے فقرہ پڑھ لیا تھا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے اس کا سر زد ہونا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہوسکتا جس طرح یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ قرآن مجید کی تلاوت کرتے کرتے درمیان میں کوئی شعر اس انداز سے پڑھ دیتے کہ یہ بھی قرآن کا حصہ ہے۔ حسن سے مروی ہے کہ جب آپ نے وہ آیات تلاوت کیں جن میں بتوں کا ذکر تھا تو آپ نے مشرکین سے فرمایا کہ تمہارے نزدیک یہ بڑی اونچی حیثیتوں کے مالک ہیں اور تم یہ سمجھتے ہو کہ ا ن کی شفاعت اور سفارش پر اعتماد کیا جاسکتا ہے، آپ نے دراصل ان کی بت پرستی پر کڑی تنقید اور نکتہ چینی کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٢) بلکہ ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کو یہ واقعہ پیش نہ آیا ہو کہ جب اس رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احکام خداوندی میں سے کچھ پڑھا، یا اس نبی نے کچھ بیان کیا تو شیطان نے اس رسول کے پڑھنے اور اس نبی کے بیان کرنے میں کچھ شبہ ڈال دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ان شیطانی شبہات کو اپنی نبی کی زبانی بیان کروا دیا تاکہ ان پر کوئی عمل نہ کرے، پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو بیان کردیتا ہے تاکہ ان پر عمل کیا جائے اور شیطان جو شبہات ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو جاننے والا اور نیست ونابود کردینے میں حکمت والا ہے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ ومآ ارسلنا من قبلک “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) اور ابن جریر (رح) اور ابن منذر (رح) نے سند صحیح کے ساتھ سعید بن جبیر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ میں سورة نجم کی تلاوت فرمائی جس وقت آپ ( آیت) ” افرایتم اللات والعزی ومناۃ الثالثۃ الاخری “۔ (الخ) پر پہنچے تو شیطان نے آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلوا دیے ”۔ تلک الغرانیق العلی، وان شفاعتھن لترتجی “۔ (الخ) (کہ ان بڑے بڑے بتوں کی سفارش قبول کی جائے گی) مشرکین کہنے لگے آج سے پہلے ہمارے بتوں کا اچھائی کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا غرض کہ آپ نے سورت کے اختتام پر سجدہ کیا اور تمام لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔- اور بزار (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے دوسرے طریقے سے سعید بن جبیر (رح) کے ذریعے حضرت ابن عباس (رض) سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ روایت نقل کی ہے اور اس سند کے علاوہ اور دوسری سند سے یہ روایت متصلا مروی نہیں ہے اور صرف امیہ بن خالد اس روایت کو متصلا بیان کر رہے ہیں، باقی وہ ثقہ اور مشہور آدمی ہیں اور نیز اسی روایت کو امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے ایسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے جس میں واقدی (رح) ہے اور ابن مردویہ (رح) نے کلبی (رح)، ابو صالح (رح) کے طریق سے ابن عباس (رض) سے اور ابن جریر (رح) نے عوفی کے ذریعے سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے۔- اور ابن اسحاق (رح) نے اسی روایت کو سیرت میں محمد بن کعب (رح) اور موسیٰ بن عقبہ (رح) کے ذریعے سے ابن شہاب (رح) سے اور ابن جریر (رح) نے محمد بن کعب (رح) اور محمد بن قیس (رح) سے اور ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے اور یہ سب روایات قریب قریب ایک ہی مضمون کی ہیں باقی یہ تمام روایات سعید بن جبیر (رض) کی سند کے علاوہ جو سب سے پہلے روایت کی ہے ضعیف ہیں یا منقطع، حافظ بن حجر عسقلانی (رح) فرماتے ہیں کہ روایت کے کثرت طرق اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ اس واقعہ کی کوئی اصلیت موجود ہے اور پھر جب کہ دو مرسل صحیح طریق بھی اس روایت کے موجود ہیں جنھیں ابن جریر (رح) نے روایت کیا ہے ایک طریق تو ان میں سے زہری عن ابی بکر بن عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام کا طریق ہے اور دوسرا داؤد بن ہند عن ابی العالیہ کا طریق ہے اور شیخ ابن عربی اور قاضی عیاض کے اس قول کا کہ یہ سب روایات باطل ہیں، کی کوئی اصلیت نہیں اور کچھ اعتبار نہیں۔ (یہ واقعہ امام بیہقی (رح)، قاضی عیاض (رح) محمد بن اسحاق (رح)، شیخ ابو منصور، ماتریدی (رح) اور ابن عربی (رح) کی تصریح کے مطابق غیر ثابت، بےسن، موضوع اور گھڑا ہوا ہے، اور اس کی کوئی اصلیت نہیں، واللہ اعلم) (مترجم )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّآ اِذَا تَمَنّٰیٓ اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖ ج) ” - لفظ ” تمنا “ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ لغوی اعتبار سے اس مادہ میں آرزو اور خواہش کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی جس طرح ایک عام آدمی سوچتا ہے ‘ خواہش کرتا ہے اور مختلف امور میں منصوبہ بندی کرتا ہے اسی طرح نبی ( علیہ السلام) اور رسول ( علیہ السلام) بھی سوچتا ہے اور منصوبہ بندی کرتا ہے۔ مثلاً ابو طالب کی وفات کے بعد جب ابو لہب بنو ہاشم کا سردار بن گیا اور اس کی ذاتی دشمنی کے باعث آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے قبیلے کی پشت پناہی حاصل نہ رہی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوچا کہ اب کیا کروں ؟ (ع ” کس طرف جاؤں ‘ کدھر دیکھوں ‘ کسے آواز دوں “ ) چناچہ ان حالات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کا سفر کرنے کا منصوبہ بنایا ‘ لیکن وہاں سے کوئی مثبت جواب نہ ملا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بظاہر ناکام لوٹنا پڑا۔ بلکہ حضرت عائشہ (رض) کی روایت کے مطابق وہ دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا سخت ترین دن (یوم احد سے بھی زیادہ سخت) ثابت ہوا۔ بہر حال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منصوبہ بندی بھی کی اور اس کے مطابق کوشش بھی کی۔ یہ الگ بات تھی کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت میں یہ سعادت اہل طائف کے بجائے اہل یثرب کی قسمت میں لکھی گئی تھی۔ تو جب کوئی نبی اپنی منصوبہ بندی کرتا ہے تو شیطان اپنی طرف سے ان کے خیال میں کچھ نہ کچھ خلل ضرور ڈالتا ہے۔- عصمت انبیاء کے بارے میں تمام اہل ایمان چونکہ بہت حساس ہیں اس لیے آیت زیر مطالعہ کے الفاظ سے جو مفہوم بظاہر سامنے آتا ہے وہ گویا ہر مسلمان کے حلق میں پھنس جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کی تفسیر و تشریح میں بہت سی دور ازکار تاویلات بھی لائی گئی ہیں۔ بہر حال میرے خیال میں یہ بالکل سیدھا سادہ مسئلہ ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ کسی رسول یا نبی کی شخصیت اور خواہشات وتعلیمات کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو وہ ہے جو براہ راست وحی الٰہی کے تابع ہے۔ اس پہلو سے متعلق معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی جلی یا وحی خفی کے ذریعے سے براہ راست واضح ہدایات ملتی رہتی ہیں۔ ان ہدایات یا احکام میں کسی خطا یا غلطی کا کوئی امکان نہیں اور نہ ہی اس میں شیطان یا شیطانی قوتیں کسی قسم کی در اندازی کرسکتی ہیں۔ - دوسری طرف نبی ( علیہ السلام) کی شخصیت کا ایک ذاتی اور نجی پہلو بھی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نبی ( علیہ السلام) کی کوئی ذاتی شخصیت یا سوچ ہوتی ہی نہیں ‘ بلکہ بہت سے معاملات میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کو ایک حکم دے دیا جاتا ہے اور اس حکم پر عمل کرنے کے بارے میں نبی ( علیہ السلام) خود سوچتا ہے ‘ خود منصوبہ بندی کرتا ہے اور خود فیصلہ کرتا ہے۔ مثلاً حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک حکم دے دیا گیا : (وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ) (الشعراء) کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبلیغ شروع کیجیے اور اس سلسلے میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کیجیے۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو ایک ضیافت کا انتظام کرنے کا حکم دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو ہاشم کے تمام مردوں کو مدعو کیا اور سب کو کھانا کھلایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تک اپنا دعوتی پیغام پہنچانے کے لیے یہی طریقہ مناسب خیال کیا۔ گویا ایسے کسی حکم پر عمل کے لیے جزئیات کی منصوبہ بندی کرنے کا تعلق نبی ( علیہ السلام) کے ذاتی اجتہاد سے ہے۔ چناچہ ان تدبیری معاملات کا وہ درجہ نہیں ہوتا جو براہ راست وحی کی ہدایت کا ہوتا ہے۔ - اس فرق کو صحابہ کرام (رض) بہت اچھی طرح سمجھتے تھے اور اس کی بہت سی عملی مثالیں بھی ہمیں سیرت سے ملتی ہیں۔ مثلاً غزوۂ بدر کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جگہ کی تخصیص فرما کر حکم دیا کہ لشکر کا کیمپ اس جگہ پر لگایا جائے۔ اس پر کچھ صحابہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ اگر اس جگہ کے انتخاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص حکم ہے تو سر تسلیم خم ہے لیکن اگر یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے ہے تو ہمیں بھی اپنی رائے پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ صرف انہیں رائے دینے کی اجازت دی بلکہ ان کی رائے کو قبول بھی فرمایا اور لگے لگائے کیمپ کو اکھاڑ کر ان کی تجویز کردہ جگہ پر لگانے کا حکم دیا۔ یہ چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذاتی تدبیر تھی اس لیے صحابہ (رض) کو بھی اس میں اختلاف کی گنجائش محسوس ہوئی اور انہوں نے اپنے عملی تجربات کی روشنی میں رائے دی۔ دوسری طرف اگر یہ فیصلہ وحی کی روشنی میں کیا گیا ہوتا تو کیمپ کے اکھاڑے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔- اسی طرح ” تابیر نخل “ کے معاملے کی مثال بھی بہت واضح ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ وہاں پر کھجور کے درختوں کو بار آور کرنے کے لیے زیرہ پوشی کا مصنوعی طریقہ ( ) اختیار کیا جاتا تھا ‘ یعنی نر درخت کے پھولوں کو مادہ درخت کے پھولوں پر جھاڑا جاتا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو یہ عمل کرتے دیکھا تو فرمایا کہ اگر تم لوگ ایسا نہ کرو تو شایدبہتر ہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایسا فرمانے پر لوگوں نے اس سال وہ عمل نہ کیا تو اس کے نتیجے میں فصل واضح طور پر کم ہوئی۔ اس پر ان لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اس سال ہم نے تابیر نخل کے مروّجہ طریقے پر عمل نہیں کیا تو ہماری فصل کم ہوئی ہے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاَمْرِ دُنْیَاکُمْ ) (١) یعنی آپ لوگ اپنے دنیوی امور کے بارے میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ محدثین عظام پر اپنی خصوصی رحمتیں ‘ برکتیں اور نعمتیں نازل فرمائے۔ ان لوگوں کی محنتوں اور کوششوں سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث محفوظ ہوئیں اور پھر ہم تک پہنچ کر ہماری راہنمائی کا ذریعہ بنیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کا مقصد اور مفہوم یہی ہے کہ دنیوی معاملات کے مختلف شعبوں میں تم لوگوں کو ایسے تجربات حاصل ہیں جو مجھے حاصل نہیں اور میں تم لوگوں کو ان معاملات میں تعلیم دینے کے لیے مبعوث بھی نہیں ہوا۔ میں تم لوگوں کو زراعت کے اصول سکھانے کے لیے نہیں آیا۔ میں تو تم لوگوں کو ہدایت دینے کے لیے آیا ہوں اور یہی میری رسالت کا بنیادی مقصد اور موضوع ہے۔ چناچہ رسالت سے متعلق امور میں آپ لوگوں کے لیے میرا اتباع لازمی ہے ‘ لیکن دنیوی معاملات تم لوگ اپنے تجرباتی علم کی بنیاد پر ہی انجام دو ۔ اگر دیکھا جائے تو اہل مدینہ کا تابیر نخل سے متعلق مذکورہ عمل سائنسی اصولوں پر مبنی تھا۔ سائنس کی بنیاد تجربات پر رکھی گئی ہے اور سائنسی علوم کا ارتقاء ( ) بھی تجربات کے ذریعے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ چناچہ یہ فرما کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تجرباتی یا سائنسی علوم کی گویا حوصلہ افزائی فرمائی کہ اپنے دنیوی معاملات کو تم لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہو اور یہ کہ ان امور کو تم لوگ اپنے تجرباتی علم کی بنیاد پر ہی انجام دیا کرو۔- اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ( علیہ السلام) یا رسول ( علیہ السلام) کی وہ تعلیمات اور وہ ہدایات جو براہ راست وحی الٰہی کے تابع ہوں ان میں نہ تو کسی قسم کی خطا کا امکان ہے اور نہ ہی ان کے اندر شیطانی قوتوں کی در اندازی کا کوئی احتمال ہے ‘ لیکن عام دنیوی امور اور ان کی جزئیات کے بارے میں فیصلے کرتے ہوئے جہاں ایک نبی یا رسول اپنے ذاتی اجتہاد سے کام لے رہا ہو وہاں پر کسی خطا یا شیطانی خلل اندازی کا امکان موجود رہتا ہے۔ میری یہ توجیہہ ” موضح القرآن “ میں بیان کردہ شاہ عبدالقادر (رح) کی رائے کے قریب ترین ہے ‘ لہٰذا مجھے اس پر پورا اطمینان ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :96 رسول اور نبی کے فرق کی تشریح سورہ مریم حاشیہ 30 میں کی جا چکی ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :97 تمنّٰی کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ ایک معنی تو وہی ہیں جو اردو میں لفظ تمنا کے ہیں ، یعنی کسی چیز کی خواہش اور آرزو ۔ دوسرے معنی تلاوت کے ہیں ، یعنی کسی چیز کو پڑھنا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :98 تمنا کا لفظ اگر پہلے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ شیطان نے اس کی آرزو پوری ہونے میں رخنے ڈالے اور رکاوٹیں پیدا کیں ۔ دوسرے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ جب بھی اس نے کلام الہٰی لوگوں کو سنایا ، شیطان نے اس کے بارے میں طرح طرح کے شبہے اور اعتراضات پید ا کیے ، عجیب عجیب معنی اس کو پہنائے ، اور ایک صحیح مطلب کے سوا ہر طرح کے الٹے سیدھے مطلب لوگوں کو سمجھائے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :99 پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شیطان کی خلل اندازیوں کے باوجود آخر کار نبی کی تمنا کو ( اور آخر نبی کی تمنا اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ اس کی مساعی بار آور ہوں اور اس کا مشن فروغ پائے ) پورا کرتا ہے اور اپنی آیات کو ( یعنی ان وعدوں کو جو اس نے نبی سے کیے تھے ) پختہ اور اٹل وعدے ثابت کر دیتا ہے ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ نکلتا ہے کہ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات و اعتراضات کو اللہ رفع کر دیتا ہے اور ایک آیت کے بارے میں جو الجھنیں وہ لوگوں کے ذہنوں میں ڈالتا ہے انہیں بعد کی کسی واضح تر آیت سے صاف کر دیا جاتا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :100 یعنی وہ جانتا ہے کہ شیطان نے کہاں کیا خلل اندازی کی اور اس کے کیا اثرات ہوئے ۔ اور اس کی حکمت ہر شیطانی فتنے کا توڑ کر دیتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

27: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ کے مخالفین کی طرف سے جن شکوک وشبہات کا اظہار ہورہا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ پچھلے انبیائے کرام کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے کہ جب وہ لوگوں کو اﷲ تعالیٰ کا کلام پڑھ کر سناتے تو شیطان کافروں کے دِل میں شکوک وشبہات پیدا کردیتا جس کی بنا پر وہ لوگ اِیمان نہیں لاتے تھے، لیکن چونکہ یہ شکوک وشبہات اصل میں بے بنیاد ہوتے ہیں، اِس لئے اﷲ تعالیٰ ان کا کوئی اثر مخلص مسلمانوں پر باقی نہیں رہنے دیتا، بلکہ اُنہیں نیست ونابود کردیتا ہے۔ اس آیت کا ایک اور ترجمہ اس طرح بھی ممکن ہے کہ: ’’تم سے پہلے ہم نے جو کوئی رسول یا نبی بھیجا، تو اُس کے ساتھ یہی ہوا کہ جب اُس نے کوئی تمنا کی تو شیطان نے اُس کی تمنا میں کوئی کھنڈت ڈال دی، پھر شیطان جو کھنڈت ڈالتا ہے، اﷲ اُسے ختم کردیتا ہے پھر اپنی آیتوں کو اور مضبوط کردیتا ہے۔‘‘ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ انبیائے کرام اپنی قوم کی اصلاح کے لئے کسی بات کی تمنا کرتے تھے، مگر شروع میں شیطان اس تمنا کے پورے ہونے میں کوئی رُکاوٹ پیدا کردیتا تھا، لیکن آخرکار اﷲ تعالیٰ اُس رُکاوٹ کو دُور فرما کر اپنی اُن آیتوں کو مزید مستحکم بنادیتا جن میں انبیائے کرام کی مدد کی بشارت دی گئی تھی، البتہ شیطان نے جو رُکاوٹ ڈالی تھی، وہ کافر لوگ جن کے دِلوں میں روگ ہے، اُسے انبیائے کرام کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کرکے فتنے میں مبتلا ہوجاتے تھے۔