Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 یعنی شیطان یہ حرکتیں اس لئے کرتا ہے کہ لوگوں کو گمراہ کرے اور اس کے جال میں لوگ پھنس جاتے ہیں جن کے دلوں میں کفر و نفاق کا روگ ہوتا ہے گناہ کرکے ان کے دل سخت ہوچکے ہوتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ فِتْنَةً ۔۔ : ” شِقَاقٍ “ باب مفاعلہ کا مصدر ہے، جیسے ” قِتَالٌ“ ہے، مراد آمنے سامنے مقابلہ ہے، جس میں ایک فریق ایک شق میں ہوتا ہے اور دوسرا فریق دوسری شق میں۔ اس آیت میں شیطان کو انبیاء کی دعوت اور آیات الٰہی میں شکوک و شبہات ڈالنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی فرصت دینے کی حکمت بیان فرمائی ہے کہ شیاطین کو جو اس طرح کھل کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے تو اس سے مقصود ابتلا و آزمائش کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے، تاکہ اس کے نتیجے میں اہل باطل اپنا من بھاتا کھا جا پا کر اہل باطل کے علمبرداروں کے ساتھ ہوجائیں اور اہل حق باطل والوں کے تمام شور و غوغا کے باوجود راہ حق پر مزید پختہ ہوجائیں، کیونکہ حق کے مقابلے میں جتنا زیادہ جھگڑا کیا جائے اتنا ہی اس کے دلائل مزید نکھرتے اور واضح ہوتے ہیں اور جن لوگوں کو علم کی روشنی ملی ہوتی ہے ان کو یقین ہوجاتا ہے کہ آپ کو رب کی طرف سے ملنے والا علم کتاب بالکل حق ہے، پھر ان کا یہ یقین ان کے ایمان کو پختہ کرنے اور اس میں اضافے کا باعث بنتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کے دل اپنے رب کے لیے عاجزی اختیار کرتے ہیں اور پورے اطمینان کے ساتھ اس کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ - ” لِّلَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ“ سے مراد منافقین ہیں اور ” وَّالْقَاسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ “ سے مراد پکے کافر ہیں کہ جن کے دل کفر و عناد کی وجہ سے سخت ہوچکے ہیں۔- ” لِّيَجْعَلَ “ کی ضمیر، ” فَيَنْسَخُ اللّٰهُ “ اور ” ثُمَّ يُحْكِمُ اللّٰهُ “ میں مذکور لفظ ” اَللّٰه “ کی طرف جا رہی ہے۔ شیطان کی دخل اندازی اور شکوک و شبہات کو کفار و منافقین کے لیے فتنے کا باعث بنانے کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا ہے کہ وہ شیطان کے اس عمل کو کفار و منافقین کے لیے فتنہ بناتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت کے مطابق ہو رہا ہے۔ کوئی مومن ہو یا کافر یا منافق ہر ایک کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کے ہر فعل کا خالق بھی وہی ہے، اس لیے فتنہ بنانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کردی ہے۔ البتہ کفار و منافقین کو فتنے میں مبتلا کرنے کا باعث ان کے دلوں کے مرض نفاق کو اور ان کے دلوں کی سختی اور عناد کو قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَمَا يُضِلُّ بِهٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ ) [ البقرۃ : ٢٦ ] ” اور وہ اس کے ساتھ فاسقوں کے سوا کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔ “- وَاِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : یعنی شیطان اور اس کے چیلے جتنے شکوک و شبہات پیدا کرلیں اور جتنے اعتراض کرلیں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی سیدھے راستے کی طرف ضرور ہی رہنمائی کردیتا ہے، جس سے انھیں فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں بات فی الواقع وحی الٰہی ہے، وہ اس پر قائم ہوجاتے ہیں اور فلاں بات شیطان کا وسوسہ یا دھوکا ہے، سو وہ اس سے بچ جاتے ہیں۔ اس طرح انھیں دنیا و آخرت دونوں کی سعادت حاصل ہوجاتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ فِتْنَۃً لِّلَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّالْقَاسِـيَۃِ قُلُوْبُہُمْ۝ ٠ۭ وَاِنَّ الظّٰلِـمِيْنَ لَفِيْ شِقَاقٍؚبَعِيْدٍ۝ ٥٣ۙ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - مرض - الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان :- الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ- [ النور 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] .- والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة .- نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] . وذلک نحو قوله : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] ويشبّه النّفاق والکفر ونحوهما من الرذائل بالمرض، إما لکونها مانعة عن إدراک الفضائل کالمرض المانع للبدن عن التصرف الکامل، وإما لکونها مانعة عن تحصیل الحیاة الأخرويّة المذکورة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] ، وإمّا لمیل النّفس بها إلى الاعتقادات الرّديئة ميل البدن المریض إلى الأشياء المضرّة، ولکون هذه الأشياء متصوّرة بصورة المرض قيل : دوي صدر فلان، ونغل قلبه . وقال عليه الصلاة والسلام :- «وأيّ داء أدوأ من البخل ؟» «4» ، ويقال : شمسٌ مریضةٌ: إذا لم تکن مضيئة لعارض عرض لها، وأمرض فلان في قوله : إذا عرّض، والتّمریض القیام علی المریض، وتحقیقه : إزالة المرض عن المریض کالتّقذية في إزالة القذی عن العین .- ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] اور یہ ( قرآن پاک) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر بڑھے گا ۔ اور نفاق ، کفر وغیرہ اخلاق رذیلہ کی ( مجاز ) بطور تشبیہ مرض کہاجاتا ہے ۔ یا تو اس لئے کہ اس قسم کے اخلاق کسب فضائل سے مائع بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ بیماری جسم کو کامل تصرف سے روک دیتی ہے ۔ اور یا اس لئے اخروی زندگی سے محرومی کا سبب بنتے ہیں ۔ جس قسم کی زندگی کا کہ آیت کریمہ : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] اور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے کاش کہ یہ لوگ سمجھتے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور یا رذائل کو اس چونکہ ایسے اخلاق بھی ایک طرح کا مرض ہی ہیں اس لئے قلب وصدر میں کینہ و کدورت پیدا ہونے کے لئے دوی صدر فلان وبخل قلبہ وغیر محاورات استعمال ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے : وای داء ادوء من ا لبخل اور بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے ۔ اور شمس مریضۃ اس وقت کہتے ہیں جب گردہ غبار یا کسی اور عاضہ سے اس کی روشنی ماند پڑجائے ۔ امرض فلان فی قولہ کے معنی تعریض اور کنایہ سے بات کرنے کے ہیں ۔ المتریض تیمار داری کرنا ۔ اصل میں تمریض کے معنی مرض کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ۔ تقذبۃ کی طرح سے جس کے معنی آنکھ سے خاشاگ دور کرنا کے ہیں ۔- قسو - القَسْوَةُ : غلظ القلب، وأصله من : حجر قَاسٍ ، والْمُقَاسَاةُ : معالجة ذلك . قال تعالی:- ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ [ البقرة 74] ، فَوَيْلٌ لِلْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ- [ الزمر 22] ، وقال : وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ [ الحج 53] ، وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة 13] ، وقرئ : قَسِيَّةً «3» أي : ليست قلوبهم بخالصة، من قولهم : درهم قَسِيٌّ ، وهو جنس من الفضّة المغشوشة، فيه قَسَاوَةٌ ، أي : صلابة، قال الشاعر :- صاح القَسِيَّاتُ في أيدي الصيّاریف - ( ق س د ) القسوۃ کے معنی سنگ دل ہونے کے ہیں یہ اصل میں حجر قاس سے ہے جس کے معنی سخت پتھر کے ہیں ۔ المقاساۃ سختی جھیلنا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ [ البقرة 74] پھر ۔۔۔ تمہارے دل سخت ہوگئے ۔ فَوَيْلٌ لِلْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 22] پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہورہے ہیں ۔ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ [ الحج 53] اور جن کے دل سخت ہیں ۔ وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة 13] اور ان کے دلوں کو سخت کردیا ۔ ایک قرات میں قسیۃ ہے یعنی ان کے دل خالص نہیں ہیں یہ درھم قسی سے مشتق ہے جس کے معنی کھوٹے درہم کے ہیں جس میں ( سکہ ) کی ملاوٹ کی وجہ سے صلابت پائی جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 354) صاح القسیات فی ایدی الصیاریف کھوٹے درہم صرافوں کے ہاتھ میں آواز دیتے ہیں ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - شقاق - والشِّقَاقُ : المخالفة، وکونک في شِقٍّ غير شِقِ صاحبک، أو مَن : شَقَّ العصا بينک وبینه . قال تعالی: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء 35] ، فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة 137] ، أي : مخالفة، لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود 89] ، وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة 176] ، مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ- [ الأنفال 13] ، أي : صار في شقّ غير شقّ أولیائه، نحو : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة 63] ، ونحوه : وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء 115] ، ويقال : المال بينهما شقّ الشّعرة، وشَقَّ الإبلمة «1» ، أي : مقسوم کقسمتهما، وفلان شِقُّ نفسي، وشَقِيقُ نفسي، أي : كأنه شقّ منّي لمشابهة بعضنا بعضا، وشَقَائِقُ النّعمان : نبت معروف . وشَقِيقَةُ الرّمل :- ما يُشَقَّقُ ، والشَّقْشَقَةُ : لهاة البعیر لما فيه من الشّقّ ، وبیده شُقُوقٌ ، وبحافر الدّابّة شِقَاقٌ ، وفرس أَشَقُّ : إذا مال إلى أحد شِقَّيْهِ ، والشُّقَّةُ في الأصل نصف ثوب وإن کان قد يسمّى الثّوب کما هو شُقَّةً.- ( ش ق ق ) الشق - الشقاق ( مفاعلہ ) کے معنی مخالفت کے ہیں گویا ہر فریق جانب مخالف کو اختیار کرلیتا ہے ۔ اور یا یہ شق العصابینک وبینہ کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی باہم افتراق پیدا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء 35] اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے ۔ فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة 137] تو وہ تمہارے مخالف ہیں ۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے ۔ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة 176] وہ ضد میں ( آکر نیگی سے ) دور ہوگئے ) ہیں ۔ مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال 13] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے ۔ یعنی اس کے اولیاء کی صف کو چھوڑ کر ان کے مخالفین کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة 63] یعنی جو شخص خدا اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے ۔ وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء 115] اور جو شخص پیغمبر کی مخالفت کرے ۔ المال بیننا شق الشعرۃ اوشق الابلمۃ یعنی مال ہمارے درمیان برابر برابر ہے ۔ فلان شق نفسی اوشقیق نفسی یعنی وہ میرا بھائی ہے میرے ساتھ اسے گونہ مشابہت ہے ۔ شقائق النعمان گل لالہ یا اس کا پودا ۔ شقیقۃ الرمل ریت کا ٹکڑا ۔ الشقشقۃ اونٹ کا ریہ جو مستی کے وقت باہر نکالتا ہے اس میں چونکہ شگاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے شقثقۃ کہتے ہیں ۔ بیدہ شقوق اس کے ہاتھ میں شگاف پڑگئے ہیں شقاق سم کا شگاف فوس اشق راستہ سے ایک جانب مائل ہوکر چلنے والا گھوڑا ۔ الشقۃ اصل میں کپڑے کے نصف حصہ کو کہتے ہیں ۔ اور مطلق کپڑے کو بھی شقۃ کہا جاتا ہے ۔ - بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٣) تاکہ اللہ تعالیٰ نبی کے اس پڑھنے میں شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات کو ایسے لوگوں کے لیے آزمایش کا ذریعہ بنا دے جن کے دل میں شک واختلاف کا مرض ہے اور جن کے دل یاد الہی سے بالکل ہی شقی ہیں تاکہ دیکھیں کہ کس پر عمل کرتے ہیں اور واقعی یہ مشرک لوگ جیسا کہ ولید بن مغیرہ اور اس کے ساتھ حق اور ہدایت کی بڑی مخالفت اور دشمنی میں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani