54۔ 1 یعنی یہ القائے شیطانی، جو دراصل اغوائے شیطانی ہے، اگر اہل مشرکین اور اہل کفر و شرک کے حق میں فتنے کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف جو علم معرفت کے حال ہیں، ان کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اللہ کی نازل کردہ بات یعنی قرآن حق ہے۔ جس سے ان کے دل بارگاہ الٰہی میں جھک جاتے ہیں۔ 3: دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دنیا میں اس طرح کی ان کی راہنمائی حق کی طرف کردیتا ہے اور اس کے قبول اور اتباع کی توفیق سے بھی نواز دیتا ہے باطل کی سمجھ بھی ان کو دے دیتا ہے اور اس سے انھیں بچا بھی لیتا ہے اور آخرت میں سیدھے راستے کی راہنمائی یہ ہے کہ انھیں جہنم کے عذاب الیم و عظیم سے بچا کر جنت میں داخل فرمائے گا اور وہاں اپنی نعمتوں اور دیدار سے انھیں نوازے گا۔ اللھم اجعلنا منہم
[٨٣] یعنی ایمان والے فوراً یہ سمجھ جاتے ہیں کہ فلاں بات تو فی الواقع وحی الٰہی ہے یا ہوسکتی ہے اور فلاں بات شیطان کا وسوسہ یا دھوکا ہے۔ واضح رہے کہ مندرجہ بالا واقعہ میں سے اس کا صرف آخری حصہ ہی ایسا ہے۔ جو درست ہے اور صحیح احادیث میں مذکور ہے۔ یعنی کسی موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة النجم تلاوت فرمائی۔ اس کے اختتام پر آپ نے اور مسلمانوں نے سجدہ کیا تو پاس بیٹھے ہوئے مشرکوں نے بھی سجدہ کیا۔ ماسوائے ایک شخص (امیہ بن خلف) کے کہ اس نے کنکریں ایک مٹھی اٹھائی اور اسے اپنی پیشانی سے لگا کر کہنے لگا کہ بس مجھے اتنا ہی کافی ہے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة والنجم) رہی یہ بات کہ قرآن شریف میں بتوں کی تعریف مذکور ہو یا یہ الفاظ آپ کی زبان مبارک سے ادا ہوئے ہوں، ایمان والے فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بات ناممکنات سے ہے۔ رہا مشرکوں کا مسلمانوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوجاتا تو اس کی وجہ قرآن کی اپنی تاثیر ہے۔ جس کی بنا پر وہ قرآن کو جادو اور آپ کو جادو گر کہا کرتے تھے اور مسلمانوں پر قرآن بلند آواز سے پڑھنے پر پابندی لگا رکھی تھی کہ اس سے ان کی عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی قرآن کی تاثیر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔
وَّلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوْا بِہٖ فَتُخْبِتَ لَہٗ قُلُوْبُہُمْ ٠ۭ وَاِنَّ اللہَ لَہَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ٥٤- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- خبت - الخَبْتُ : المطمئن من الأرض، وأَخْبَتَ الرّجل : قصد الخبت، أو نزله، نحو : أسهل وأنجد، ثمّ استعمل الإخبات استعمال اللّين والتّواضع، قال اللہ تعالی: وَأَخْبَتُوا إِلى رَبِّهِمْ [هود 23] - ( خ ب ت ) الخبت - ۔ نشیبی اور نرم زمین کو کہتے ہیں اور اخبت الرجل کے معنی نشیبی اور نرم زمین کا قصد کرنے یا وہاں اترنے کے ہیں ( جیسے اسھل وانجد ) اس کے بعد لفظ الاخبات ( افعال ) نرمی اور تواضع کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَأَخْبَتُوا إِلى رَبِّهِمْ [هود 23] اپنے پروردگار کے آگے عاجزی کی ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سہدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے
(٥٤) تاکہ جن حضرات کو قرآن کریم اور توریت کا علم دیا گیا وہ اس بات کو اچھی طرح جان لیں کہ یہ حق و باطل کی وضاحت اللہ کی طرف سے ہے اور یہ نبی کی زبان پر جو حق بات ظاہر ہوئی ہے وہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے سو اللہ تعالیٰ کے اس حق کے اظہار کی اور تصدیق کریں اور پھر اس کی طرف ان کے دل اور بھی جھک جائیں اور بسر و چشم قبول کرلیں۔- اور واقعی اللہ تعالیٰ ہی ایسے لوگوں کو جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے راہ راست یعنی دین اسلام دکھاتا ہے۔
آیت ٥٤ (وَّلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ ) ” - ایسے لوگ کسی بھی معاملے میں اللہ کے فیصلے پر پورے شرح صدر کے ساتھ ایمان اور یقین رکھتے ہیں۔- (وَاِنَّ اللّٰہَ لَہَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) ” - یعنی مخلص اہل ایمان سے کسی وقت اگر کہیں کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کا رخ پھیر کر درست سمت کی طرف موڑ دیتا ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :101 یعنی شیطان کی ان فتنہ پردازیوں کو اللہ نے لوگوں کی آزمائش ، اور کھرے کو کھوٹے سے جدا کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے ۔ بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ انہی چیزوں سے غلط نتیجے اخذ کرتے ہیں اور یہ ان کے لیے گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔ صاف ذہن کے لوگوں کو یہی باتیں نبی اور کتاب اللہ کے بر حق ہونے کا یقین دلاتی ہیں اور وہ محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی شرارتیں ہیں اور یہ چیز انہیں مطمئن کر دیتی ہے کہ یہ دعوت یقیناً خیر اور راستی کی دعوت ہے ، ورنہ شیطان اس پر اس قدر نہ تلملاتا ۔ سلسلہ کلام کو نظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو ان آیات کا مطلب صاف سمجھ میں آ جاتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس وقت جس مرحلے میں تھی اس کو دیکھ کر تمام ظاہر بیں نگاہیں یہ دھوکا کھا رہی تھیں کہ آپ اپنے مقصد میں ناکام ہو گئے ہیں ۔ دیکھنے والے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ تو یہ تھا کہ ایک شخص ، جس کی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ اس کی قوم اس پر ایمان لائے ، وہ تیرہ برس معاذ اللہ سر مارنے کے بعد آخر کار اپنے مٹھی بھر پیروؤں کو لے کر وطن سے نکل جانے پر مجبور ہو گیا ہے ۔ اس صورت حال میں جب لوگ آپ کے اس بیان کو دیکھتے تھے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس کی تائید میرے ساتھ ہے ، اور قرآن کے ان اعلانات کو دیکھتے تھے کہ نبی کو جھٹلا دینے والی قوم پر عذاب آ جاتا ہے ، تو انہیں آپ کی اور قرآن کی صداقت مشتبہ نظر آنے لگتی تھی ، اور آپ کے مخالفین اس پر بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے کہ کہاں گئی وہ خدا کی تائید ، اور کیا ہوئیں وہ عذاب کی وعیدیں ، اب کیوں نہیں آجاتا وہ عذاب جس کے ہم کو ڈراوے دیے جاتے تھے ۔ انہی باتوں کا جواب اس سے پہلے کی آیتوں میں دیا گیا تھا اور انہی کے جواب میں یہ آیات بھی ارشاد ہوئی ہیں ۔ پہلے کی آیتوں میں جواب کا رخ کفار کی طرف تھا اور ان آیتوں میں اس کا رخ ان لوگوں کی طرف ہے جو کفار کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے تھے ۔ پورے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ : کسی قوم کا اپنے پیغمبر کی تکذیب کرنا انسانی تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ، پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے ۔ پھر اس تکذیب کا جو انجام ہوا وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے تباہ شدہ قوموں کے آثار قدیمہ کی صورت میں موجود ہے ۔ سبق لینا چاہو تو اس سے لے سکتے ہو ۔ رہی یہ بات کہ تکذیب کرتے ہی وہ عذاب کیوں نہ آگیا جس کی وعیدیں قرآن کی بکثرت آیتوں میں کی گئی تھیں ، تو آخر یہ کب کہا گیا تھا کہ ہر تکذیب فوراً ہی عذاب لے آتی ہے ۔ اور نبی نے یہ کب کہا تھا کہ عذاب لانا اس کا اپنا کام ہے ۔ اس کا فیصلہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ جلد باز نہیں ہے ۔ پہلے بھی وہ عذاب لانے سے پہلے قوموں کو مہلت دیتا رہا ہے اور اب بھی دے رہا ہے ۔ مہلت کا یہ زمانہ اگر صدیوں تک بھی دراز ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ سب وعیدیں خالی خولی دھمکیاں ہی تھیں جو پیغمبر کے جھٹلانے والوں پر عذاب آنے کے متعلق کی گئی تھیں ۔ پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں ہے کہ پیغمبر کی آرزوؤں اور تمناؤں کے بر آنے میں رکاوٹیں واقع ہوں ، یا اس کی دعوت کے خلاف جھوٹے الزامات اور طرح طرح کے شبہات و اعتراضات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہو ۔ یہ سب کچھ بھی تمام پچھلے پیغمبروں کی دعوتوں کے مقابلے میں ہو چکا ہے ۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ ان شیطانی فتنوں کا استیصال کر دیتا ہے ۔ رکاوٹوں کے باوجود دعوت حق فروغ پاتی ہے ، اور محکم آیات کے ذریعے شبہات کے رخنے بھر دیے جاتے ہیں ۔ شیطان اور اس کے چیلے ان تدبیروں سے اللہ کی آیات کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں ، مگر اللہ انہی کو انسانوں کے درمیان کھوٹے اور کھرے کی تمیز کا ذریعہ بنا دیتا ہے ۔ اس ذریعہ سے کھرے آدمی دعوت حق کی طرف کھچ آتے ہیں اور کھوٹے لوگ چھٹ کر الگ ہو جاتے ہیں ۔ یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مفہوم جو سیاق و سباق کی روشنی میں ان آیات سے حاصل ہوا ہے ۔ مگر افسوس ہے کہ ایک روایت نے ان کی تفسیر میں اتنا بڑا گھپلا ڈال دیا کہ نہ صرف ان کے معنی کچھ سے کچھ ہو گئے ، بلکہ سارے دین کی بنیاد ہی خطرے میں پڑ گئی ۔ ہم اس کا ذکر یہاں اس لیے کرتے ہیں کہ قرآن کے طالب علم فہم قرآن میں روایات سے مدد لینے کے صحیح اور غلط طریقوں کا فرق اچھی سمجھ سکیں اور انہیں معلوم ہو جائے کہ روایت پرستی میں ناروا غلو کیا نتائج پیدا کرتا ہے ، اور قرآن کی غلط تفسیر کرنے والی روایات پر تنقید کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے ۔ قصہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش قرآن میں کوئی ایسی بات نازل ہو جائے جس سے اسلام کے خلاف کفار قریش کی نفرت دور ہو اور وہ کچھ قریب آ جائیں ۔ یا کم از کم ان کے دین کے خلاف ایسی سخت تنقید نہ ہو جو انہیں بھڑکا دینے والی ہو ۔ یہ تمنا آپ کے دل ہی میں تھی کہ ایک روز قریش کی ایک بڑی مجلس میں بیٹھے ہوئے آپ پر سورہ نجم نازل ہوئی اور آپ نے اسے پڑھنا شروع کیا ۔ جب آپ :اَفَرَاَیْتُمْ اللَّاتَ وَ الْعُزّٰی ہ وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃ الْاُخْریٰ ، پر پہنچے تو یکایک آپکی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے تلک الغرانقۃ العلی ہ وان شفاعتھن لترجیٰ ( یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں ، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے ) ۔ اس کے بعد آگے پھر آپ سورہ نجم کی آیات پڑھتے چلے گئے ، یہاں تک کہ جب اختتام سورہ پر آپ نے سجدہ کیا تو مشرک اور مسلمان سب سجدے میں گر گئے ۔ کفار قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اختلاف باقی رہ گیا ۔ ہم بھی تو یہی کہتے تھے کہ خالق و رازق اللہ ہی ہے ، البتہ ہمارے یہ معبود اس کے حضور میں ہمارے شفیع ہیں ۔ شام کو جبریل آئے اور انہوں نے کہا یہ آپ نے کیا کیا ؟ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا ۔ اس پر آپ سخت مغموم ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورہ بنی اسرائیل ، رکوع 8 میں ہے کہ : وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہ ........... ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْراً ، یہ چیز برابر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج و غم میں مبتلا کیے رہی یہاں تک کہ سورہ حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی کہ تم سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے ۔ ادھر یہ واقعہ کہ قرآن سن کر آنحضرت کے ساتھ قریش کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا ، مہاجرین حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان صلح ہو گئی ہے ۔ چنانچہ بہت سے مہاجرین مکہ واپس آ گئے ۔ مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ صلح کی خبر غلط تھی ، اسلام اور کفر کی دشمنی جوں کی توں قائم ہے ۔ یہ قصہ ابن جریر اور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں ، ابن سعد نے طبقات میں ، الواحدی نے اسباب النزول میں ، موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں ، ابن اسحاق نے سیرت میں اور ابن ابی حاتم ، ابن النذر ، بَذّار ، ابن مَردویہ اور طبرانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے ۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے وہ محمد بن قیس ، محمد بن کعب قُرظی ، عُروہ بن زبیر ، ابوصالح ، ابوالعالیہ ، سعید بن جبیر ، ضحاک ، ابو بکر بن عبدالرحمٰن بن حارث ، تَتَدہ ، مجاہد ، سُدّی ، ابن شہاب زُہری ، اور ابن عباس پر ختم ہوتی ہیں ( ابن عباس کے سوا ان میں سے کوئی صحابی نہیں ہے ) ۔ یہ قصے کی تفصیلات میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر دو بہت بڑے اختلافات ہیں ۔ ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں جو کلمات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے گئے ہیں وہ قریب قریب ہر روایت میں دوسری روایت سے مختلف ہیں ۔ ہم نے ان کا استقصاء کرنے کی کوشش کی تو 15 عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں ۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت کی رو سے یہ الفاظ دوران وحی میں شیطان نے آپ پر القا کر دیے اور آپ سمجھے کہ یہ بھی جبریل لائے ہیں ۔ کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی اس خواہش کے زیر اثر سہواً آپ کی زبان سے نکل گئے ۔ کسی میں ہے کہ اس وقت آپ کو اونگھ آ گئی تھی اور اس حالت میں یہ الفاظ نکلے ۔ کسی کا بیان ہے کہ آپ نے یہ قصداً کہے مگر استفہام انکاری کے طور پر کہے ۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپ کی آواز ملا کر یہ الفاظ کہہ دیے اور سمجھا یہ گیا کہ آپ نے کہے ہیں ۔ اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی شخص تھا ۔ ابن کثیر ، بیہقی ، قاضی عیاض ، ابن خُزیمہ ، قاضی ابو بکر ابن العزی ، امام رازی ، قُطبی ، بدر الدین عینی ، شو کافی ، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں ۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ جتنی سندوں سے یہ روایت ہوا ہے ، سب مرسل اور منقطع ہیں ، مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا ۔ بیہقی کہتے ہیں کہ از روئے نقل یہ قصہ ثابت نہیں ہے ۔ ابن خزیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ زنادقہ کا گھڑا ہوا ہے ۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ یہ کسی صحیح متصل بے عیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے منقول ہوا ہے ۔ امام رازی ، قاضی ابوبکر جصاص جیسے نامور فقیہ اور زَمخشری جیسے عقلیت پسند مفسر ، اور ابن جریر جیسے امام تفسیر و تاریخ و فقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی کو آیت زیر بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں ۔ ابن حجر کا محدثانہ استدلال یہ ہے کہ : سعید بن جبیر کے طریق کے سوا باقی جن طریقوں سے یہ روایت آتی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع ، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور ۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقہ سے متصلاً بسند صحیح بھی نقل ہوا ہے جسے بذار نے نکالا ہے ( مراد ہے یوسف بن حماد عن اَمَیّہ بن خالد عن شُعْبہ عن ابی بشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس ) اور دو طریقوں سے یہ اگرچہ مرسل ہے مگر اس کے راوی صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں ۔ یہ دونوں روایتیں طبری نے نقل کی ہیں ۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب ، دوسری بطریق معمر بن سلیمان و حماد بن سلمہ عن داؤد بن ابی ہند عن ابی العالیہ ۔ جہاں تک موافقین کا تعلق ہے ، وہ تو اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں ۔ لیکن مخالفین نے بھی بالعموم اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے ۔ ایک گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس کی سند اس کے نزدیک قوی نہیں ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر سند قوی ہوتی تو یہ حضرات اس قصے کو مان لیتے ۔ دوسرا گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوا جاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق شک پیدا ہو جاتا ہے کہ نہ معلوم اور کہاں کہاں شیطانی اغوا یا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہو گیا ہو ۔ حالانکہ اس نوعیت کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمئن کر سکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں ، مگر دوسرے لوگ جو پہلے ہی شکوک میں مبتلا ہیں ، یا جو اب تحقیق کر کے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں ، ان کے دل میں تو یہ جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا کہ جن جن چیزوں سے یہ دین مشتبہ قرار پاتا ہو انہیں رد کر دیں ۔ وہ گو کہیں گے کہ جب کم از کم ایک نامور صحابی اور بکثرت تابعین و تبع تابعین ، اور متعدد و معتبر راویان حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہو رہا ہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کر دیا جائے کہ ان سے آپ کا دین مشتبہ ہوا جاتا ہے ؟ اس کے بجائے آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جائے جب کہ یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کر ہی رہا ہے ؟ اب دیکھنا چاہیے کہ تنقید کا وہ صحیح طریقہ کیا ہے جس سے اگر اس قصے کو پرکھ کر دیکھا جائے تو یہ ناقابل قبول قرار پاتا ہے ، چاہے اس کی سند کتنی ہی قوی ہو ، یا قوی ہوتی ۔ پہلی چیز خود اس کی اندرونی شہادت ہے جو اسے غلط ثابت کرتی ہے ۔ قصے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہجرت حبشہ واقع ہو چکی تھی ، اور اس واقعے کی خبر پا کر مہاجرین حبشہ میں سے ایک گروہ مکہ واپس آگیا ۔ اب ذرا تاریخوں کا فرق ملاحظہ کیجیے : ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہجرت حبشہ معتبر تاریخی روایتوں کی رو سے رجب 5 نبوی میں واقع ہوئی ، اور مہاجرین حبشہ کا ایک گروہ مصالحت کی غلط خبر سن کر تین مہینے بعد ( یعنی اسی سال تقریباً شوال کے مہینے میں ) مکے واپس آگیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ لا محالہ 5 نبوی کا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ بنی اسرائیل جس کی ایک آیت کے متعلق بیان کیا جارہا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل پر بطور عتاب نازل ہوئی تھی ، معراج کے بعد اتری ہے ، اور معراج کا زمانہ معتبر ترین روایات کی رو سے 11 یا 12 نبوی کا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس فعل پر پانچ چھ سال جب گزر چکے تب اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زیر بحث آیت ، جیسا کہ اس کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے 1 ہجری میں نازل ہوئی ہے ۔ یعنی عتاب پر بھی جب مزید دو ڈھائی سال گزر لیے تب اعلان کیا گیا کہ یہ آمیزش تو القائے شیطانی سے ہو گئی تھی ، اللہ نے اسے منسوخ کر دیا ہے ۔ کیا کوئی صاحب عقل آدمی باور کر سکتا ہے کہ آمیزش کا فعل آج ہو ، عتاب چھ سال بعد ، اور آمیزش کی تنسیخ کا اعلان 9 سال بعد؟ پھر اس قصے میں بیان کیا گیا کہ یہ آمیزش سورہ نجم میں ہوئی تھی اور اس طرح ہوئی کہ ابتدا سے آپ اصل سورۃ کے الفاظ پڑھتے چلے آ رہے تھے ، یکایک مَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْریٰ پر پہنچ کر آپ نے بطور خود یا شیطانی اغوا سے یہ فقرہ ملایا ، اور آگے پھر سورہ نجم کی اصل آیات پڑھتے چلے گئے ۔ اس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ کفار مکہ اسے سن کر خوش ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ اب ہمارا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اختلاف ختم ہو گیا ۔ مگر سورۂ نجم کے سلسلہ کلام میں اس الحاقی فقرے کو شامل کر کے تو دیکھیے : پھر تم نے کچھ غور بھی کیا ان لات اور عزیٰ پر اور تیسری ایک اور ( دیوی ) مناۃ پر؟ یہ بلند پایہ دیویاں ہیں ، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے ۔ کیا تمہارے لیے تو ہوں بیٹے اور اس ( یعنی اللہ ) کے لیے ہوں بیٹیاں ؟ یہ تو بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے ۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی ۔ لوگ محض گمان اور من مانے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں ، حالانکہ ان کے رب کی طرف سے صحیح رہنمائی آگئی ہے ۔ دیکھیے ، اس عبارت میں خط کشیدہ فقرے نے کیسا صریح تضاد پیدا کر دیا ہے ۔ ایک سانس میں کہا جاتا ہے کہ واقعی تمہاری یہ دیویاں بلند مرتبہ رکھتی ہیں ، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے ۔ دوسرے ہی سانس میں پلٹ کر ان پر چوٹ کی جاتی ہے کہ بے وقوفو ، یہ تم نے خدا کے لیے بیٹیاں کیسی تجویز کر رکھی ہیں ؟ اچھی دھاندلی ہے کہ تمہیں تو ملیں بیٹے اور خدا کے حصے میں آئیں بیٹیاں َ ۔ یہ سب تمہاری من گھڑت ہے جسے خدا کی طرف سے کوئی سند اعتبار حاصل نہیں ہے ۔ تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو جانے دیجیے کہ یہ صریح بے تکی باتیں کسی مرد عاقل کی زبان سے نکل بھی سکتی ہیں یا نہیں ۔ مان لیجیے کہ شیطان نے غلبہ پا کر یہ الفاظ زبان سے نکلوا دیے ۔ مگر کیا قریش کا وہ سارا مجمع جو اسے سن رہا تھا ، بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا کہ بعد کے فقروں میں ان تعریفی کلمات کی کھلی کھلی تردید سن کر بھی وہ یہی سمجھتا رہا کہ ہماری دیویوں کی واقعی تعریف کی گئی ہے ؟ سورہ نجم کے آخر تک کا پورا مضمون اس ایک تعریفی فقرے کے بالکل خلاف ہے ۔ کس طرح باور کیا جا سلتا ہے کہ قریش کے لوگ اسے آخر تک سننے کے بعد یہ پکار اٹھے ہونگے کہ چلو آج ہمارا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اختلاف ختم ہو گیا ؟ یہ تو ہے اس قصے کی اندرونی شہادت جو اس کے سراسر لغو اور مہمل ہونے کی گواہی دے رہی ہے ۔ اس کے بعد دوسری چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ اس میں تین آیتوں کی جو شان نزول بیان کی جا رہی ہے آیا قرآن کی ترتیب بھی اس کو قبول کرتی ہے ؟ قصے میں بیان یہ کیا جا رہا ہے کہ آمیزش سورہ نجم میں کی گئی تھی ، جو 5 نبوی میں نازل ہوئی ۔ اس آمیزش پر سورہ بنی اسرائیل والی آیت میں عتاب فرمایا گیا ، اور پھر اس کی تنسیخ اور واقعہ کی توجیہ سورہ حج کی زیر بحث آیت میں کی گئی ۔ اب لامحالہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی سورت پیش آئی ہو گی ۔ یا تو عتاب اور تنسیخ والی آیتوں کی اس زمانے میں نازل ہوئی ہوں جبکہ آمیزش کا واقعہ پیش آیا ، یا پھر عتاب والی آیت سورہ بنی اسرائیل کے ساتھ اور تنسیخ والی آیت سورہ حج کے ساتھ نازل ہوئی ہو ۔ اگر پہلی صورت ہے تو یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ دونوں آیتوں سورہ نجم ہی میں نہ شامل کی گئیں بلکہ عتاب والی آیت والی آیت کو چھ سال تک یوں ہی ڈالے رکھا گیا اور سورہ بنی اسرائیل جب نازل ہوئی تب کہیں اس میں لا کر چپکا دیا گیا ۔ پھر تنسیخ والی آیت مزید دو ڈھائی برس تک پڑی رہی اور سورہ حج کے نزول تک اسے کہیں نہ چسپاں کیا گیا ۔ کیا قرآن کی ترتیب اسی طرح ہوئی ہے کہ ایک موقع کی نازل شدہ آیتیں الگ الگ بکھری پڑی رہتی تھیں اور برسوں کے بعد کسی کو کسی سورت میں اور کسی کو کسی دوسری سورت میں ٹانک دیا جاتا تھا ؟ لیکن اگر دوسری صورت ہے کہ عتاب والی آیت واقعہ کے 6 سال بعد اور تنسیخ والی آیت آٹھ نو سال بعد نازل ہوئی ، تو علاوہ اس بے تکے پن کے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں ، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورہ بنی اسرائیل اور سورہ حج میں ان کے نزول کا موقع کیا ہے ۔ یہاں پہنچ کر نقد صحیح کا تیسرا قاعدہ ہمارے سامنے آتا ہے ، یعنی یہ کہ کسی آیت کی جو تفسیر بیان کی جا رہی ہو اسے دیکھا جائے کہ آیا قرآن کا سیاق و سباق بھی اسے قبول کرتا ہے یا نہیں ۔ سورہ بنی اسرائیل کا آٹھواں رکوع پڑھ کر دیکھیے ، اور اس سے پہلے اور بعد کے مضمون پر بھی نگاہ ڈال لیجیے اس سلسلہ کلام میں آخر کیا موقع اس بات کا نظر آتا ہے کہ چھ سال پہلے کے ایک واقعہ پر نبی کو ڈانٹ بتائی جائے ( قطع نظر اس سے کہ آیت : اِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ میں نبی پر کوئی ڈانٹ ہے بھی یا نہیں ، اور آیت کے الفاظ کفار کے فتنے میں نبی کے مبتلا ہو جانے کی تردید کر رہے یا تصدیق ) ۔ اسی طرح سورہ حج آپ کے سامنے موجود ہے ۔ آیت زیر بحث سے پہلے کا مضمون بھی پڑھیے اور بعد کا بھی دیکھیے ۔ کیا کوئی معقول وجہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سیاق و سباق میں یکایک یہ مضمون کیسے آگیا کہ اے نبی ، 9 سال پہلے قرآن میں آمیزش کر بیٹھنے کی جو حرکت تم سے ہو گئی تھی اس پر گھبراؤ نہیں ، پہلے انبیاء سے بھی شیطان یہ حرکتیں کراتا رہا ہے ، اور جب کبھی انبیاء اس طرح کا فعل کر جاتے ہیں تو اللہ اس کو منسوخ کر کے اپنی آیات کو پھر پختہ کر دیتا ہے ۔ ہم اس سے پہلے بھی بار ہا کہہ چکے ہیں ، اور یہاں پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ کوئی روایت ، خواہ اس کی سند آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہو ، ایسی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتی جبکہ اس کا متن اس کے غلط ہونے کی کھلی کھلی شہادت دے رہا ہو اور قرآن کے الفاظ ، سیاق و سباق ، ترتیب ، ہر چیز اسے قبول کرنے سے انکار کر رہی ہو ۔ یہ دلائل تو ایک مشکک اور بے لاگ محقق کو بھی مطمئن کر دیں گے کہ یہ قصہ قطعی غلط ہے ۔ رہا مومن ، تو وہ سے ہرگز نہیں مان سکتا جب کہ وہ علانیہ یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ روایت قرآن کی ایک نہیں بیسیوں آیتوں سے ٹکراتی ہے ۔ ایک مسلمان کے لیے یہ مان لینا بہت آسان ہے کہ خود اس روایت کے راویوں کو شیطان نے بہکا دیا ، بہ نسبت اس کے کہ وہ یہ مان لے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اپنی خواہش نفس سے قرآن میں ایک لفظ بھی ملا سکتے تھے ، یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال آ سکتا تھا کہ توحید کے ساتھ شرک کی کچھ آمیزش کر کے کفار کو راضی کیا جائے ، یا آپ اللہ تعالیٰ کے فرامین کے بارے میں کبھی یہ آرزو کر سکتے تھے کہ کاش اللہ میاں ایسی کوئی بات نہ فرما بیٹھیں جس سے کفار ناراض ہو جائیں ، یا یہ کہ آپ اسی غلط فہمی میں رہیں کہ یہ بھی جبریل ہی لائے ہیں ۔ ان میں سے ایک ایک بات قرآن کی کھلی کھلی تصریحات کے خلاف ہے اور ان ثابت شدہ عقائد کے خلاف ہے جو ہم قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں رکھتے ہیں ۔ خدا کی پناہ اس روایت پرستی سے جو محض سند کا اتصال یا راویوں کی ثقاہت یا طرق روایت کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں بھی تسلیم کرنے پر آمادہ کر دے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس شک کو بھی دور کر دیا جائے جو راویان حدیث کی اتنی بڑی تعداد کو اس قصے کی روایت میں مبتلا ہوتے دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتا ہے ۔ ایک شخص سوال کر سکتا ہے کہ اگر اس قصے کی کوئی اصلیت نہیں ہے ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر اتنا بڑا بہتان حدیث کے اتنے راویوں کے ذریعہ سے ، جن میں بعض بڑے نامور ثقہ بزرگ ہیں ، اشاعت کیسے پا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے اسباب کا سراغ ہم کو خود حدیث ہی کے ذخیرے میں مل جاتا ہے ۔ بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی اور مسند احمد میں اصل واقعہ اس طرح آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم کی تلاوت فرمائی ، اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین ، مسلم اور مشرک سب ، سجدے میں گر گئے ۔ واقعہ بس اتنا ہی تھا ۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی ۔ اول تو قرآن کا زور کلام اور انتہائی پر تاثیر انداز بیان ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس کا ایک ملہمانہ شان کے ساتھ ادا ہونا ، اس کو سن کر اگر پورے مجمع پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی ہو اور آپ کے ساتھ سارا مجمع سجدے میں گرگیا ہو تو کچھ بعید نہیں ہے ۔ یہ تو وہ چیز تھی جس پر قریش کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ شخص جادوگر ہے ۔ البتہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں قریش کے لوگ اپنے اس وقتی تأثر پر کچھ پشیمان سے ہوئے ہوں گے اور ان میں سے کسی نے یا بعض لوگوں نے اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کی ہو گی کہ صاحب ، ہمارے کانوں نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اپنے معبودوں کی تعریف میں کچھ کلمات سنے تھے اس لیے ہم بھی ان کے ساتھ سجدے میں گر گئے ۔ دوسری طرف یہی واقعہ مہاجرین حبشہ تک اس شکل میں پہنچا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان صلح ہو گئی ہے ، کیونکہ دیکھنے والے نے آپ کو اور مشرکین و مومنین سب کو ایک ساتھ سجدہ کرتے دیکھا تھا ۔ یہ افواہ ایسی گرم ہوئی کہ مہاجرین میں سے تقریباً 33 آدمی مکے میں واپس آ گئے ۔ ایک صدی کے اندر یہ تینوں باتیں ، یعنی قریش کا سجدہ اس سجدے کی یہ توجیہ ، اور مہاجرین حبشہ کی واپسی ، مل جل کر ایک قصے کی شکل اختیار کر گئیں اور بعض ثقہ لوگ تک اس کی روایت میں مبتلا ہو گئے ۔ انسان آخر انسان ہے ۔ بڑے سے بڑے نیک اور ذی فہم آدمی سے بھی بسا اوقات لغزش ہو جاتی ہے اور اس کی لغزش عام لوگوں کی لغزش سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔ عقیدت میں بے جا غلو رکھنے ولے ان بزرگوں کی صحیح باتوں کے ساتھ ان کی غلط باتوں کو بھی آنکھیں بند کر کے ہضم کر جاتے ہیں ۔ اور بد طینت لوگ چھانٹ چھانٹ کر ان کی غلطیاں جمع کرتے ہیں اور انہیں اس بات کے لیے دلیل بناتے ہیں کہ سب کچھ جو ان کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے ، نذر آتش کر دینے کے لائق ہے ۔