Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 پیدائش کے لحاظ سے بھی، ملکیت کے اعتبار سے بھی اور تصرف کرنے کے اعتبار سے بھی۔ اس لئے سب مخلوق اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ کیونکہ وہ غنی بےنیاز ہے۔ اور جو ذات سارے کمالات اور اختیارات کا منبع ہے، ہر حال میں تعریف کی مستحق بھی وہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٣] چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ومالک ہے۔ لہذا ہر چیز اپنی ہستی اور اس کی بقاء تک کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہوئی۔ جبکہ وہ خود کسی کا محتاج نہیں۔ تمام کائنات کے وجود سے پہلے بھی اس کی ہستی قائم و دوائم تھی اور وجود کے بعد بھی وہ اس سے بےنیاز ہے۔ لہذا کوئی اس کی حمد و ثنا بیان کرے یا نہ کرے اس سے اسے کچھ فرق نہیں پڑا (البتہ حمد و ثنا بیان کرنے والے کی اپنی ذات کو ضرور فائدہ پہنچ جاتا ہے) کیونکہ وہ اپنی ذات میں خود ہی محمود ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ : یہ دوسری دلیل ہے، یعنی وہ صرف آسمان سے بارش برسانے اور زمین سے سبزہ اگانے ہی کا مالک نہیں بلکہ آسمانوں میں جو کچھ ہے اور زمین میں جو کچھ ہے سب کا وہ اکیلا مالک ہے، بارش برسانا اور سبزہ اگانا تو اس کے اختیار کا معمولی سا حصہ ہے۔ ” لَهٗ “ کو پہلے لانے سے قصر کا مفہوم پیدا ہوا۔ تو جب ہر چیز کا مالک وہی ہے تو عبادت کسی اور کی کیوں ہو ؟- وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ : یہ عام مشاہدہ ہے کہ انسان جن چیزوں کا مالک ہوتا ہے ان کا محتاج بھی ہوتا ہے، کیونکہ وہ اس کی ضرورت ہوتی ہیں، اس لیے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہونے کے ذکر کے ساتھ وضاحت فرمائی کہ وہ آسمان و زمین اور ان میں موجود کسی چیز کا محتاج نہیں، بلکہ سب سے بےپروا اور غنی ہے، حتیٰ کہ حمد کرنے والوں کی حمد سے بھی غنی ہے۔ اس وصف کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ حمید یعنی تمام تعریفوں والا ہے، ہر حمد اور تعریف خواہ کسی کی ہو، دراصل وہ اس اکیلے ہی کی ہے، کیونکہ مخلوق میں تعریف کے لائق جو خوبی بھی ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ جب سب اسی کے محتاج ہیں تو پھر مخلوق کی عبادت کیوں ہو جو خود اپنے وجود میں بھی اس کی محتاج ہے۔ - ” اِنَّ “ کے اسم ” اللّٰهَ “ اور اس کی خبر ” الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ “ کے درمیان ضمیر فصل ” ھُوَ “ لانے سے اور ” اِنَّ “ کی خبر ” الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ “ پر الف لام لانے سے کلام میں دو وجہوں سے حصر پیدا ہوگیا، جس سے ترجمہ یہ ہوگا کہ بلاشبہ اللہ ہی یقیناً بڑا بےپروا، تمام تعریفوں والا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ۭ وَاِنَّ اللہَ لَہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ۝ ٦٤ۧ- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - حمید - إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد،- ( ح م د ) حمید - اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٤) جو کچھ آسمانوں و زمین میں مخلوقات وغیرہ ہیں وہ سب اسی کی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی ایسا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہیں اور وہ اپنے کارخانہ قدرت میں ہر طرح کی تعریف کے لائق ہے یا یہ کہ جو بھی اس کی تعریف کرے ہر قسم کی تعریفوں کے لائق ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَاِنَّ اللّٰہَ لَہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ) ” - اسے کوئی احتیاج نہیں ‘ وہ ستودہ صفات ہے ‘ اپنی ذات میں خود محمود ہے ‘ اسے کسی حمد کی ضرورت نہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :112 وہی غنی ہے ، یعنی صرف اسی کی ذات ایسی ہے جو کسی کی محتاج نہیں ۔ اور وہی حمید ہے ، یعنی تعریف اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے ، خواہ کوئی حمد کرے یا نہ کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani