Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مناسک کے معنی اصل میں عربی زبان میں منسک کا لفظی ترجمہ وہ جگہ ہے ، جہاں انسان جانے آنے کی عادت ڈال لے ۔ احکام حج کی بجاآوری کو اس لئے مناسک کہا جاتا ہے کہ لوگ بار بار وہاں جاتے ہیں اور ٹھیرتے ہیں ۔ منقول ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ ہر امت کے پیغمبر کے لئے ہم نے شریعت مقرر کی ہے ، اس امر میں لوگ نہ لڑے ، سے مراد یہ مشرک لوگ ہیں ۔ اور اگر مراد ہر امت کے بطور قدرت کے ان کے افعال کا تقرر کرنا ہے ۔ جیسے سورۃ بقرہ میں فرمان ہے کہ ہر ایک لئے ایک سمت ہے جدھر وہ متوجہ ہوتا ہے یہاں بھی ہے کہ وہ اس کے بجالانے والے ہیں تو ضمیر کا اعادہ بھی خود ان پر ہی ہے یعنی یہ اللہ کی قدرت اور ارادے سے کررہے ہیں ان کے جھگڑنے سے تو بددل نہ ہو اور حق سے نہ ہٹ ۔ اپنے رب کی طرف بلاتا رہ اور اپنی ہدایت واستقامت پر مکمل یقین رکھ ۔ یہی راستہ حق سے ملانے والا ہے ، کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ہے ۔ جیسے فرمایا ہے ( وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَيْكَ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ 87؀ۚ ) 28- القصص:87 ) خبردار کہیں تجھے اللہ کی آیتوں کے تیرے پاس پہنچ جانے پر بھی ان سے روک نہ دیں ، اپنے رب کے راستے کی دعوت عام برابر دیتا رہ ۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی حق قبول کرنے سے جائے تو اس سے کنارہ اختیار کیجئے اور کہہ دیجئے اللہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے ۔ جیسے کئی جگہ اسی مضمون کو دہرایا ہے ۔ ایک اور جگہ ہے کہ اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو ان سے کہہ دے کہ میرے لئے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے بری ہو میں تمہارے کرتوت سے بیزار ہوں ۔ پس یہاں بھی ان کے کان کھول دیئے کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے وہ تمہاری ادنیٰ سی ادنیٰ حرکت کو بھی جانتا ہے اور وہی ہے تم میں کافی شاہد ہے قیامت کے دن ہم تم میں فیصلہ اللہ خود کردے گا اور اس وقت سارے اختلافات مٹ جائیں گے جیسے فرمان ہے تو اسی کی دعوت دیتا رہ اور ہمارے حکم پر ثابت قدم رہ اور کسی کی خواہش کے پیچھے نہ لگ اور صاف اعلان کردے کہ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب پر میرا ایمان ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 یعنی ہر زمانے میں ہم نے لوگوں کے لئے ایک شریعت مقرر کی، جو بعض چیزوں میں سے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی، جس طرح تورات، امت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے، انجیل امت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے شریعت تھی اور اب قرآن امت محمدیہ کے لئے شریعت اور ضابطہ حیات ہے۔ 67۔ 2 یعنی اللہ نے آپ کو جو دین اور شریعت عطا کی ہے، یہ بھی مذکورہ اصول کے مطابق ہی ہے، ان سابقہ شریعت والوں کو چاہیے کہ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت پر ایمان لے آئیں، نہ کہ اس معاملے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑیں۔ 67۔ 3 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے جھگڑے کی پرواہ نہ کریں، بلکہ ان کو اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہیں، کیونکہ اب صراط مستقیم پر صرف آپ ہی گامزن ہیں، یعنی پچھلی شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٦] منسک کا لفظ اگرچہ حج کے شعائر و احکام اور ادائیگی سے مختص ہوگیا ہے اور مناسک حج سے مراد اعمال اور ارکان حج ادا کرنے کے مقامات، قاعدے اور طریقے ہے اور نسک اس قربانی کو کہتے ہیں جو حج کے دوران کی جاتی ہے۔ تاہم اس لفظ کے معانی میں یہ وسعت ہے کہ اس کا اطلاق تمام عبادات کے طریق کار پر ہوتا ہے اور یہ لفظ منہاج سے اخص ہے۔ منہاج کے معنی میں تمام شرعی احکام کی ادائیگی کا طریق کار شامل ہے اور یہ طریق کار بھی اللہ ہی کی طرف سے بتلایا جاتا ہے اور منسک کا اطلاق صرف عبادات کے طریقے کار پر ہوتا ہے۔- [٩٧] عبادات کا طریق کار ہر نبی اور اس کی امت کے لئے مختلف رہا ہے اور اس میں وقت کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھا جاتا رہا ہے۔ اور چونکہ یہ طریق کار بھی اللہ ہی طرف سے ہوتا ہے لہذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس بارے میں آپ سے بحث یا جھگڑا کرے۔ کیونکہ اس زمانہ میں یہی طریق کار درست اور برحق ہے۔ جو آپ کو بتلایا جارہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ : ” مَنْسَكًا “ ” نَسَکَ یَنْسُکُ “ (ن، ک) سے مصدر میمی ہے، عبادت، قربانی، عبادت کا طریقہ یا قربانی کا طریقہ، یا یہ ظرف ہے، یعنی عبادت یا قربانی کی جگہ۔ ” نَسْکٌ“ اور ” نُسُکٌ“ عبادت، ذبیحہ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عید الاضحی کی نماز پڑھائی، پھر لوگوں کی طرف رخ کرکے فرمایا : ( إِنَّ أَوَّلَ نُسُکِنَا فِيْ یَوْمِنَا ھٰذَا أَنْ نَّبْدَأَ بالصَّلَاۃِ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ ) [ بخاري، العیدین، باب استقبال الإمام الناس في خطبۃ العید : ٩٧٦، عن البراء۔ ] ” ہمارے آج کے دن میں ہماری پہلی عبادت یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر واپس جائیں اور قربانی کریں۔ “ یہاں نماز کو ” نُسُکٌ“ کہا گیا ہے۔ ” لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا “ کا جملہ اس سے پہلے آیت (٣٤) میں بھی گزرا ہے، وہاں اس کا معنی قربانی کا طریقہ کیا گیا ہے، کیونکہ وہاں آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ پالتو مویشیوں پر اللہ کا نام لینے یعنی ذبح کرنے کا ذکر ہے۔- 3 آیات کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب حج کے بعض مناسک میں تبدیلی کی، اسی طرح جیسے پہلی امتوں کے لیے مقرر کردہ بعض احکام منسوخ بھی کیے اور بعض میں تبدیلی فرمائی تو کفار مکہ نے، جو دین ابراہیم کے پیروکار ہونے کے دعوے دار تھے اور یہود و نصاریٰ سب نے جھگڑنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اصل دین ایک ہے جو توحید ہے، مگر ہم نے ہر زمانے کے لوگوں کے لیے اس زمانے کے احوال و ضروریات کے مطابق عبادت کا ایک طریقہ مقرر فرمایا، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے تھے۔ جس میں بعض چیزیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی تھیں، جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کے لیے تورات اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت کے لیے تورات کے ساتھ انجیل تھی۔ اب قیامت تک دنیا کے تمام لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہیں اور ان کا ضابطۂ حیات قرآن مجید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا : ( شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ) [ المائدۃ : ٤٨ ] ” تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے۔ “- فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ اگر بعد میں آنے والے نبی کے زمانے میں کسی عبادت کے طریقے میں کوئی تبدیلی کر دے تو بندوں کا کام یہ ہے کہ وہ دل و جان سے اسے قبول کریں نہ کہ اس معاملے میں پیغمبر سے جھگڑا شروع کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا کہ یہ لوگ ہرگز آپ سے اس معاملے میں جھگڑا نہ کریں، یعنی آپ بھی ان سے جھگڑا نہ کریں اور نہ انھیں جھگڑے کا موقع دیں اور آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیتے چلے جائیں اور یقین رکھیں کہ آپ بالکل سیدھے راستہ پر ہیں۔ سورة جاثیہ میں فرمایا : (ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ الجاثیۃ : ١٨ ] ” پھر ہم نے تجھے (دین کے) معاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سو اسی پر چل اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چل جو نہیں جانتے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (جتنی امتیں اہل شرائع گزری ہیں ان میں) ہم نے ہر امت کے واسطے ذبح کرنے کا طریق مقرر کیا ہے کہ وہ اسی طریقہ پر ذبح کیا کرتے تھے تو (اعتراض کرنے والے) لوگوں کو چاہئے کہ اس امر (ذبح) میں آپ سے جھگڑا نہ کریں (ان کو تو آپ سے بحث اور جھگڑا کرنے کا حق نہیں مگر آپ کو حق ہے اس لئے) آپ (ان کو) اپنے رب (یعنی اس کے دین) کی طرف بلاتے رہے آپ یقینا صحیح راستہ پر ہیں۔ (صحیح راستہ پر چلنے والے کو حق ہوتا ہے کہ غلط راستے پر چلنے والے کو اپنی طرف بلائے غلط راستہ والے کو یہ حق نہیں ہوتا) اور اگر (اس پر بھی) یہ لوگ آپ سے جھگڑا کرتے رہیں تو آپ یہ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے (وہی تم کو سمجھے گا آگے اسی کی توضیح یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان قیامت کے دن (عملی) فیصلہ فرما دے گا جن چیزوں میں تم اختلاف کرتے تھے (آگے اسی کی تائید ہے کہ) اے مخاطب کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے (اور علم الٰہی میں محفوظ ہونے کے ساتھ یہ بھی) یقینی بات ہے کہ یہ (یعنی ان کے سب اقوال و اعمال) نامہ اعمال میں (بھی محفوظ) ہے (پس) یقینا (ثابت ہوگیا کہ) یہ (فیصلہ کرنا) اللہ تعالیٰ کے نزدیک آسان ہے۔- معارف و مسائل - لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا، یہی مضمون تقریباً انہیں الفاظ کے ساتھ اسی سورت کی آیت نمبر ٣٤ میں گزر چکا ہے مگر دونوں جگہ لفظ منسک کے معنے اور مراد میں فرق ہے۔ وہاں نسک اور منسک قربانی کے معنے میں بضمن احکام حج آیا تھا اور اس لئے وہاں واؤ کے ساتھ وَلِكُلِّ اُمَّةٍ فرمایا گیا۔ یہاں منسک کے دوسرے معنے (یعنی احکام ذبائح یا علم احکام شرعیہ) اور دوسرا مفہوم مراد ہے اور یہ ایک مستقل حکم ہے اس لئے اس کو عطف کر کے نہیں بیان کیا گیا۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے کہ بعض کفار مسلمانوں سے ان کے ذبائح کے متعلق فضول بحث وجدال کرتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہارے مذہب کا یہ حکم عجیب ہے کہ جس جانور کو تم خود اپنے ہاتھ سے قتل کرو وہ تو حلال اور جس کو اللہ تعالیٰ براہ راست مار دے یعنی عام مردار جانور وہ حرام۔ ان کے اس جدال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی (کما رواہ الحاکم و صححہ و البیہقی فی الشعب عن علی بن حسن و ابن عباس انہا نزلت بسبب قول الخزاعیین، روح المعانی) تو یہاں منسک کے معنی طریقہ ذبح کے ہوں گے اور حاصل جواب کا یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک امت اور شریعت کے لئے ذبیحہ کے احکام الگ الگ رکھے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت ایک مستقل شریعت ہے اس کے احکام کا معارضہ کسی پہلی شریعت کے احکام سے کرنا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ تم اس کا معارضہ خالص اپنی رائے اور خیال باطل سے کر رہے ہو یعنی مردار جانور کا حلال نہ ہونا تو اس امت و شریعت کے ساتھ مخصوص نہیں سب پچھلی شریعتوں میں بھی حرام رہا ہے تو تمہارا یہ قول تو بالکل ہی بےبنیاد ہے اس بےبنیاد خیال کی بنا پر صاحب شریعت نبی سے مجادلہ اور معارضہ کرنا حماقت ہی حماقت ہے (ہکذا بین فی روح المعانی معنی الایة) اور جمہور مفسرین نے اس جگہ لفظ منسک عام احکام شریعت کے معنے میں لیا ہے کیونکہ اصل لغت میں منسک کے معنی ایک معین جگہ کے ہیں جو کسی خاص عمل خیر یا شر کے لئے مقرر ہو اور اسی لئے احکام حج کو مناسک الحج کہا جاتا ہے کہ ان میں خاص خاص مقامات خاص احکام و اعمال کے لئے مقرر ہیں (ابن کثیر) اور قاموس میں لفظ نسک کے معنی عبادت کے لکھے ہیں قرآن میں اَرِنَا مَنَاسِكَنَا اسی معنے کے لئے آیا ہے مناسک سے مراد عبادت کے احکام شرعیہ ہیں۔ حضرت ابن عباس سے یہ دوسری تفسیر بھی روایت کی گئی ہے۔ ابن جریر، ابن کثیر، قرطبی، روح المعانی وغیرہ میں اسی معنی عام کی تفسیر کو اختیار کیا گیا ہے اور آیت کا سیاق وسباق بھی اسی کا قرینہ ہے کہ منسک سے مراد شریعت اور اس کے احکام عام ہیں اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مشرکین اور مخالفین اسلام جو شریعت محمدیہ کے احکام میں جدال اور جھگڑے کرتے ہیں اور بنیاد یہ ہوتی ہے کہ ان کے آبائی مذہب میں وہ احکام نہ تھے تو وہ سن لیں کہ پچھلی کسی شریعت و کتاب سے نئی شریعت و کتاب کا معارضہ مجادلہ کرنا باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کو اس کے وقت میں ایک خاص شریعت اور کتاب دی ہے جس کا اتباع اس امت پر اس وقت تک درست تھا جب تک کوئی دوسری امت اور دوسری شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ آگئی۔ اور جب دوسری شریعت آگئی تو اتباع اس جدید شریعت کا کرنا ہے اگر اس کا کوئی حکم پہلی شریعتوں کے مخالف ہے تو پہلے حکم کو منسوخ اور اس کو ناسخ سمجھا جائے گا اس لئے اس صاحب شریعت سے کسی کو مجادلہ اور منازعت کی اجازت نہیں ہو سکتی۔ آیت کے آخری الفاظ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ کا یہی حاصل ہے کہ موجودہ زمانہ میں جبکہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مستقل شریعت لے کر آگئے تو کسی کو اس کا حق نہیں کہ ان کی شریعت کے احکام میں جدال اور نزاع پیدا کرے۔- اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ پہلی تفسیر اور اس دوسری تفسیر میں درحقیقت کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا ہے کہ آیت کا نزول کسی خاص نزاع دربارہ ذبائح کے سبب سے ہوا ہو مگر آیت کے عام الفاظ تمام احکام شرعیہ پر مشتمل ہیں اور اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے خصوص مورد کا نہیں ہوتا۔ تو حاصل دونوں تفسیروں کا یہی ہوجائے گا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہر امت کو الگ الگ شریعت دی ہے جن میں احکام جزئیہ مختلف بھی ہوتے ہیں تو کسی پچھلی شریعت پر عمل کرنے والے کو نئی شریعت سے معارضہ اور نزاع کا کوئی حق نہیں بلکہ اس پر اس نئی شریعت کا اتباع واجب ہے اسی لئے آخر آیت میں فرمایا گیا، وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ ۭ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِيْمٍ ، یعنی آپ ان لوگوں کی چہ میگوئیوں اور نزاع وجدال سے متاثر نہ ہوں بلکہ برابر اپنے منصبی فریضہ دعوت الی الحق میں مشغول رہیں کیونکہ آپ حق اور صراط مستقیم پر ہیں آپ کے مخالف ہی راستہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔- ایک شبہ کا جواب :- اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ شریعت محمدیہ کے نزول کے بعد کسی پہلی شریعت پر ایمان رکھنے والے مثلاً یہودی نصرانی وغیرہ کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ خود قرآن نے ہمارے لئے اس آیت میں یہ کہہ کر گنجائش دی ہے کہ ہر شریعت اللہ ہی کی طرف سے ہے اس لئے اگر زمانہ اسلام میں بھی ہم شریعت موسویہ یا عیسویہ پر عمل کرتے رہیں تو مسلمانوں کو ہم سے اختلاف نہ کرنا چاہئے کیونکہ آیت میں ہر امت کو شریعت خاصہ دینے کا ذکر کرنے کے بعد پوری دنیا کے لوگوں کو یہ حکم بھی دے دیا گیا ہے کہ شریعت محمدیہ کے قائم ہوجانے کے بعد وہ اس شریعت کی مخالفت نہ کریں۔ یہ نہیں فرمایا کہ مسلمان ان کی سابقہ شریعت کے کسی حکم کے خلاف نہ بولیں اور اس آیت کے بعد کی آیات سے یہ مضمون اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے جن میں شریعت اسلام کے خلاف مجادلہ کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ان حرکتوں کو خوب جانتا ہے وہی اس کی سزا دے گا۔ وَاِنْ جٰدَلُوْكَ فَقُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا ہُمْ نَاسِكُوْہُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ۝ ٠ۭ اِنَّكَ لَعَلٰى ہُدًى مُّسْتَقِيْمٍ۝ ٦٧- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - نسك - النُّسُكُ : العبادةُ ، والنَّاسِكُ : العابدُ واختُصَّ بأَعمالِ الحجِّ ، والمَنَاسِكُ : مواقفُ النُّسُك وأعمالُها، والنَّسِيكَةُ : مُخْتَصَّةٌ بِالذَّبِيحَةِ ، قال : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة 196] ، فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة 200] ، مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج 67] .- ( ن س ک ) النسک کے معنی عبادک کے ہیں اور ناسک عابد کو کہا جاتا ہے ، مگر یہ لفظ ارکان حج کے ادا کرنے کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے ۔ المنا سک اعمال حج ادا کرنے کے مقامات النسیکۃ خاص کر ذبیحہ یعنی قربانی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں سے : ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صد قے دے یا قر بانی کرے ۔ فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة 200] پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کر چکو ۔ مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج 67] ایک شریعت مقرر کردی جس پر وہ چلتے ہیں ۔- نزع - نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی:- وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] - ( ن زع ) نزع - الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سہدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

منسک کسے کہتے ہیں ؟- قول باری ہے (لکل امۃ جعلنا منسکا ھم ناسکرہ فلاینازعنک فی الامر۔ ہر امت کے لئے ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے۔ پس اے محمد وہ اس معاملہ میں تم سے جھگڑا نہ کریں) ایک قول کے مطابق منسک اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی عمل خیر یا شر کے لئے عام ہو اور اس بنا پر لوگ اس سے مانوس ہوں۔ حج کے مناسک و ہ مقامات ہیں جہاں حج کے دوران عبادتیں کی جاتی ہیں اس لئے یہ مقامات حج کی عبادات ادا کرنے کے مقامات قرار پائے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ منسک عید کو کہتے ہیں۔ مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ منیٰ وغیرہ میں قربانی کے جانور کا خون بہا کر اظہار بندگی کا نام منسلک ہے۔ عطار، مجاہد اور عکرمہ کا قول ہے کہ ہر امت کے لئے جانوروں کی ذبح کی عبادت مقرر کی گئی ہے جس کے لئے وہ جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق منسک ان تمام عبادات کا نام ہے جنہیں بجا لانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ ابوبکر جصاص ان اقوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت برنا بن عازب کی روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید قربان کے دن باہر تشریف لائے اور فرمایا (ان اول نسکنا فی یومنا ھذا الصلوۃ ثم الذبح۔ آج ہماری پہلی عبادت نماز ہوگی اور اس کے بعد قربانی) آپ نے نماز اور ذبح یعنی قربانی دونوں کو نسک قرار دیا یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے۔ ہے کہ نسک کے اسم کا اطلاق تمام عبادات پر ہوتا ہے تاہم تقرب الٰہی کی جہت سے ذبح ہونے والے جانور پر اس کا اطلاق عرف عام کے لحاظ سے زیادہ غالب اور واضح ہے۔- قول باری ہے (ففدیۃ من صیام او صدقۃ اونسک تو فدیہ ادا کرے روزوں یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں۔ اگر نسک سے تمام عبادات مراد ہوں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے اس صورت میں ذبح بھی آیت کی مراد میں داخل ہوگی اور یہ چیز اس امر کی موجب ہوگی کہ لوگوں کو جانور کی قربانی دینے کا پابند کردیا گیا ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (فلا ینا زعناک فی الامر) جب ہم جانور کی قربانی دینے کے پابند ہوگئے تو اس صورت میں اضحیہ کے وجوب پر اس سے استدلال کی گنجائش پیدا ہوجائے گی۔ اس لئے کہ زکوۃ کی ادائیگی کی طرح خوش حال لوگوں کی طرف سے عام طور پر قربانی دی جاتی ہے۔ اگر ہم اس سے حج کے موقعہ پر واجب ذبح مراد لیں تو پھر سا کا تعلق قران اور تمتع کی قربانیوں کے ساتھ خاص ہوگا اس لئے کہ حج کے اندر یہی دونوں قربانیاں نسک ہیں، باقی قربانیاں نسک نہیں کہلاتی ہیں۔ اس لئے کہ حج کے دوران ان کا وجوب کسی کمی کی تلافی یا جرم کی سزا کے طور پر ہوتا ہے۔ اس بنا پر ان کا وجوب بنیادی طور پر عبادت کے سلسلے میں نہیں ہوتا۔ جبکہ ظاہر قول ہے (جعلنا منسکا ھم ناسکوہ) اس امر کا مقتضی ہے کہ اس کے ساتھ شروع ہی سے عبادت کا ایجاب ہوا ہے۔- آیا قربانی واجب، سنت یا مستحب ہے ؟- سلف اور فقہاء مصار کے مابین اضحیہ یعنی عید قربان کے موقع پر کی جانے والی قربانی کے وجوب کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ شعبی نے ابو سریحہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو دیکھا تھا کہ یہ حضرات قربانی نہیں دیتے تھے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ حضرت بن عباس انہیں عید قربان کے دن دو درہم دے کر گوشت خریدنے کے لئے بھیج دیتے اور فرماتے کہ راستے میں جو شخص تم سے ملے اس سے کہہ دینا کہ یہ ابن عباس کا اضیحہ ہے۔ حضرت ابن عمر کا قول ہے کہ قربانی کوئی لازمی چیز نہیں ہے البتہ سنت اور نیکی ہے۔ حضرت ابو مسعود نصاری کہا کرتے تھے کہ میں خوشحال ہونے کے باوجود قربانی نہیں کرتا، اس کی وجہ صرف یہ اندیشہ ہے کہ کہیں میرے پڑوسی سے دیکھ کر یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ قربانی مجھ پر لازم ہے۔ “ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ مسافر کے سوا دوسروں پر قربانی واجب ہے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ لوگ جب موجود ہوتے یعنی مقیم ہوتے تو قربانی کرتے اور اگر مسافر ہوتے تو قربانی نہ کرتے ۔ یحییٰ بن الیمان نے سعید بن عبدلاعزیز سے اور انہوں نے محکول سے روایت کی ہے کہ قربانی واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ جو لوگ مقیم اور خوشحال ہوں خواہ وہ شہری باشندے ہوں یا دیہاتی ، ان پر قربانی واجب ہے ۔ مسافروں پر واجب نہیں۔ خواہ مسافر خوشحال ہی کیوں نہ ہو۔ اس سلسلے میں یسار یعنی خوشحالی کی حدود ہے جس پر پہنچ کر صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے۔ امام ابو یوسف سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ امام ابو یوسف سے ایک اور روایت کے مطابق قربانی واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ تمام لوگوں پر خواہ وہ مقیم ہوں یا مسافر قربانی ہے ۔ جس شخص نے بلا عذر قربانی نہ کی اس نے بہت برا کیا۔ سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے۔ سفیان نے یہ بھی کہا ہے کہ قربانی نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عبداللہ بن الحسن کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ کو قربانی کا جانور دے دے تو میرے نزدیک اس کا یہ فعل قربانی دینے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔- ان آراء پر ابوبکر جصاص رائے زنی کرتے ہئے کہتے ہیں کہ جو لوگ قربانی کے وجوب کے قائل ہیں وہ آیت زیر بحث سے استدلال کرتے ہیں نیز قول باری (قل ان صلوتی ونسکی و محیای و مباتی للہ رب العالمین لا شریک لہ و بذلک امرت کہہ دو میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے) سے بھی ان کا استدلال ہے۔ یہ آیت اضحیہ کے امر کی مقتضی ہے اس لئے کہ اس مقام پر نسک سے اضحیہ یعنی عید قربان پر دی جانے والی قربانی مراد ہے ۔ اس س پر سعید بن جبیر کی وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے حضرت عمران بن حصین سے کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ سے فرمایا تھا (یا فاطمۃ اشھدی اضحیتک فانہ یغفرلک یا ول قطرۃ من دمھا کل ذنب عملتیہ و قولی (ان صلوتی ونسکی ومعیای و مسماتی للہ رب العالمین) اے فاطمہ اپنی قربانی کو ذبح ہوتا ہوا دیکھو اس لئے کہ اس کے خون کے پہلے قطرے کے ساتھ تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے اور اس وقت یہ پڑھو (بیشک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موث سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے ) ایک روایت کے مطابق حضرت علی قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت یہی آیت تلاوت کرتے تھے۔- حضرت ابوبردہ بن نیار نے عید قربان کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ” اللہ کے رسول میں نے اپنے نسک یعنی قربانی کے سلسلے میں تعجیل کرلی ہے۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اشراد ہے (ان اول نسکنا فی یومنا ھذا الصلوۃ ثم الذبح۔ آج کے دن ہماری پہلی عبادت نماز ہے اور اس کے بعد قربانی ہے) یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ نسک سے کبھی اضحیہ بھی مراد ہتا ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتایا کہ آپ کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بات قول باری (وبذلک امرت اور مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے) سے معلوم ہوتی ہے اور امر ایجاب کا مقتضی ہوتا ہے۔ اس بارے میں قول باری (فصل لربک وانحو پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی دو ) سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس آیت میں نماز سے نماز عید اور نحر سے قربانی مراد ہے۔ امر وجوب کا مقتضی ہوتا ہے جب ایک چیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واجب ہوگئی تو وہ ہم پر بھی واجب ہوگی۔ کیونکہ قول باری ہے (فاتبعوہ اس کی یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرو) نیز ارشاد ہے (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ تمہارے لئے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے)- روایات کی جہت سے قربانی کے وجوب کے قائلین اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جو زید بن الحساب نے عبداللہ بن عیاش سے نقل کی ہے۔ انہیں اعرج نے حضرت ابوہریرہ سے انہوں نے کہا کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من کان لہ یسار فلم یضح فلا یقرین مصلانا جس شخص کو وسعت اور فراخی میسر ہو اور پھر وہ قربانی نہ دے تو وہ ہماری نمازگاہ کے قریب بھی نہ آئے) اس حدیث کو زید بن الحساب کے علاوہ ایک جماعت نے مرفوعاً روایت کی ہے جس میں یحییٰ بن سعید بھی شامل ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں عباس بن الولید نے، انہیں الہیشم خارجہ نے، انہیں یحییٰ بن سعید نے عبداللہ بن عیاش سے، انہوں نے الاعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من قدر علیٰ سعۃ فلم یضح فلا یقربن مصلانا جس شخص کو کشائش اور فراخی حاصل ہو اور پھر وہ قربانی نہ دے تو وہ ہماری نماز گاہ کے قریب بھی نہ آئے) اس حدیث کو یحییٰ بن یعلیٰ نے بھی مرفوعاً روایت کی ہے۔ ہمیں نے روایت بیان کی، انہیں حسین بن اسحاق نے انہیں احمد بن النعمان الفراء نے ، انہیں یحییٰ بن یعلی نے حضرت عبداللہ بن عباس سے یا عباس نے الاعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من وجد سعۃ فلم یضع فلا یقربن مسجدنا ) جس شخص کو کشائش اور فراخی حاصل ہو اور پھر وہ قربانی نہ دے تو وہ ہماری مسجد کے قریب بھی نہ آئے) اسی حدیث کو عبید اللہ بن ابی جعفر نے الاعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ ” جس شخص کو کشائش اور فراخی میسر ہو اور وہ قربانی نہ دے تو وہ ہماری نمازگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ “ ایک قول کے مطابق عبید اللہ بن ابی جعفر ضبط حدیث اور جلالت روایت میں ابن عیاش سے بڑھ کر ہیں۔ انہوں نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ پر موقوف کیا ہے، اسے مرفوعاً بیان نہیں کیا۔ ایک قول کے مطابق اس بارے میں درست بات یہ ہے کہ یہ روایت مرفوع نہیں ہے بلکہ حضرت ابوہریرہ پر جا کر موقوف ہوگئی ہے۔- قربانی کا حکم باقی ہے اور عتیرہ منسوخ ہے - اضیحہ کے ایجاب پر ابور رملہ الحنفی کی حدیث سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے۔ یہ حدیث انہوں نے مخنف بن سلیم سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (علی کل اھل بیت فی عامر اضحیۃ وعتیرۃ ہر خاندان پر ہر سال ایک قربانی اور ایک عتیرہ ہے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ عتیرہ بالاتفاق منسوخ ہ، اس کی صورت یہ تھی کہ لوگ رجب کے مہینے میں روزہ رکھتے پھر بکری ذبح کرتے اسے رجبیہ بھی کہتے ہیں۔ ابن سیرین اور ابن عون دونوں اس پر عمل پیرا رہے۔ عتیرہ تو بالانفاق منسوخ ہے لیکن اضحیہ کے نسخ پر کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی اس لئے اس حدیث کے مقتضی کی روشنی میں یہ واجب ہے تاہم اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ ہر خاندان پر ایک قربانی ہے یہ بات تو معلوم ہے کہ ایک واجب قربانی پورے خاندان کے لئے کافی نہیں ہوتی بلکہ صرف ایک فرد کی طرف سے ادا ہوتی ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے ایجاب مراد نہیں لیا ہے۔ قربانی کے ایجاب کے قائلین اس روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی۔ انہیں احمد بن ابی عون البزوری نے ، انہیں ابو معمر اسماعیل بن ابراہیم نے ، انہیں ابو اسماعیل المودب نے مجالد سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے حضرت جابر اور حضرت براء بن عازب سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عید قربان کے دن منبر پر ارشاد فرمایا (من صلی معنا ھذہ الصلوۃ فلیذ بح بعد الصلوۃ جس شخص نے ہمارے ساتھ یہ نماز پڑھی ہے وہ اب نماز کے بعد قربانی کرے) یہ سن کر حضرت ابوبردہ بن نیار کھڑے ہوگئے اور عرض کیا ” اللہ کے رسول میں نے پہلے ہی جانور ذبح کرلیا تھا خیال یہ تھا کہ جب عید کی نماز سے فارغ ہو کر آئیں گے تو دوستوں کے ساتھ مل کر گوشت کھائیں گے۔ آپ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا (لیس منک تمہاری قربانی نہیں ہوئی) انہوں نے پھر عرض کیا۔” میرے پاس بکری کا ایک بچہ ہے۔ “ آپ نے فرمایا۔” اس کی قربانی دے دو ، تمہاری طرف سے قربانی ادا ہوجائے گی لیکن تمہارے سوا کسی اور کی طرف سے اس کی قربانی ادا نہیں ہوگی۔ ‘ ‘ اس روایت سے کئی وجوہ کی بنا پر قربانی کے وجوب پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اول حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ (من صلی معنا ھذہ الصلوۃ فلیذ حج بعد الصلوۃ) اس میں ذبح کا حکم ہے جس کا ظاہر وجوب کا مقتضی ہے ۔ دوسری وجہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ (تجزی عنک ولا تجزی عن غیرک) اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس بکری کے بچے کی قربانی کے ذریعے تمہاری قربانی ادا ہوجائے گی اس لئے کہ محاورہ ہے ” جزی عنی کذا “ جس کے معنی ہیں۔” اس نے میری طر ف سے فلاں چیز ادا کردی “ اور ادائیگی واجب چیز کی ہوتی ہے یہ بات وجوب کی مقتضی ہے۔- اسے ایک اور جہت سے دیکھیے، اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ آئے ہیں (فمن ذبح قبل الصلوۃ فلیعد اضحیۃ جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی دی ہے وہ دوبارہ قربانی کرے) بعض طرق میں یہ ذکر ہے آپ نے حضرت ابوبردہ سے فرمایا (اعد اضحیتک اپنی قربانی دوبارہ کرو) جو حضرات اس بات کو تسلیم نہیں کرتے وہ یہ کہتے ہیں کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد (من صلی معنا ھذہ الصلوۃ وشھد معنا فلیذبح جس شخص نے ہمارے ساتھ عید کی نماز پڑھی اور ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوا وہ قربانی کرے) اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ایجاب مراد نہیں لیا ہے اس لئے کہ سب کے نزدیک قربانی کے وجوب کا نماز میں شمولیت کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ جب یہ بات سب کے لئے عام ہے اور اس میں مال داروں کی تخصیص نہیں ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدب اور استحباب مراد لیا ہے۔ رہ گیا آپ کا یہ ارشاد کہ (تجزی عنک بکری کے بچے کی قربانی تمہاری طرف سے ادا ہوجائے گی) تو اس سے آپ سے آپ نے اس عبادت کا جو ازمراد لیا ہے۔ جو از اور قضاء یعنی ادائیگی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک جواز قربت یعنی عبادت کا جواز اور دوسرا جواز فرض۔ لفظ جواز اور قضاء کا اطلاق ظاہراً وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت ابو بردہ نے نذر کے طور پر اپنے اوپر قربانی واجب کرلی ہو۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں دوبارہ قربانی دینے کا حکم دیا ۔ اس لئے آپ نے جن الفاظ کے ذریعے حضرت ابوبردہ کو خطاب کیا ہے وہ وجوب پر دلالت نہیں کرتے۔ اس لئے کہ یہ ایک معین شخص کے لئے حکم تھا ہر شخص پر عموم لفظ کے ذریعے قربانی کا ایجاب نہیں تھا۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر واجب کی ادائیگی مراد لیتے تو آپ حضرت ابوبردہ سے اس قربانی کی قیمت ضرور پوچھتے تاکہ ان پر اس کے مثل کا ایجاب ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت ابوبردہ نے یہ عرض کیا تھا کہ ” میرے پاس بکری کا بچہ ہے جس میں دو بکریوں سے زیادہ گوشت ہے۔ “ اس طرح بکری کا بچہ اس جانور سے بہتر تھا جو انہوں نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا تھا۔- قربانی کے وجوب پر نظر اور قیاس سے استدلال کیا جاسکتا ہے وہ اس طرح کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ نذر کی صورت میں قربانی لازم ہوجاتی ہے۔ اگر وجوب کے حکم کے اندر قربانی کے لئے اصل موجود نہ ہوتی تو نذر کی بنا پر یہ ہرگز لازم نہ ہوتی جس طرح دوسری تمام چیزوں کا حکم ہے کہ اگر وجوب کے حکم کے اندر ان کی اصل موجود نہ ہو تو وہ نذر کی بنا پر واجب نہیں ہوتیں۔- قربانی کے وجوب پر اس روایت سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جسے جابر الحنفی نے نقل کی ہے انہوں نے ابو جعفر سے اس کی روایت سے کی ہے وہ کہتے ہیں۔ اضحیہ نے ہر اس ذبح کو منسوخ کردیا جو اس سے قبل ہوتی تھی، زکوۃ نے ہر اس زکوۃ کو منسوخ کردیا جو اس سے پہلے ادا کی جاتی تھی۔ رمضان کے روزے نے ہر اس روزے کو منسوخ کردیا جو اس سے پہلے رکھا جاتا تھا اور غسل جنایت نے ہر اس غسل کو منسوخ کردیا جو اس سے پہلے عمل میں آتا تھا۔ “ یہ بات اضحیہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ اس کی وجہ سے ماقبل کی قربانی کی تمام صورتیں منسوخ ہوگئیں۔ اس کی وجہ سے جو چیز منسوخ ہوئی ہے وہ واجب کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ہر وہ حکم جس کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہو کہ یہ اپنے ماقبل کے لئے ناسخ ہے وہ فرض یا واجب ہوتا ہے۔- ابوبکر جصاص اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے نزدیک وجوب پر دلالت نہیں کرتی، اس لئے کہ واجب کا نسخ دراصل وجوب کی مدت کا بیان ہوتا ہے۔ جب نسخ کے ذریعے یہ بیان کردیا جائے کہ ایجاب کی مدت اس وقت تک کے لئے تھی تو اس میں ایسی بات نہیں پائی جائے گی جو کسی اور حکم کے ایجاب کی مقتضی بن سکتی ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ فرماتے کہ تم لوگوں سے عتیرہ (رجب کے مہینے میں ذبح ہونے والی بکری) اور عقیقہ بچے کی پیدائش کے سات دن بعد ذبح کیا جانے والا جانور) نیز دوسرے تمام ذبائح کا حکم منسوخ ہوچکا ہے تو اس ارشاد میں کسی اور ذبیحہ کے وجوب پر دلالت نہ ہوتی۔ اس بنا پر درج بالا قول میں کہ ” اضحیہ نے ماقبل کے ہر ذبیحہ کو منسوخ کردیا ہے۔ “ اضحیہ کے وجوب پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس مقام پر نسخ کے ذکر کا فائدہ صرف یہ ہے کہ جب ہمیں اضحیہ کی ترغیب دلائی گئی تو اس کے بعد اب کوئی واجب ذبیحہ باقی نہیں رہا۔- قربانی کے وجوب کی نفی پر اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی، انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے، انہیں عبدالعزیز بن الخطاب نے، انہیں مندل بن علی نے ابوحباب سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الاضحی علی فریضۃ وھو علیکم سنۃ قربانی مجھ پر فرض ہے لیکن تمہارے لئے سنت ہے) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں سعید بن محمد ابو عثمان الا نجدانی نے، انہیں الحسن بن حماد نے، انہیں عبدالرحیم بن سلیم نے عبداللہ بن محرز سے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے حضرت انس سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (امرت بالاضحی والو ترولم تعزم علی۔ مجھے قربانی کرنے اور وتر پڑھنے کا حکم ملا ہے لیکن یہ مجھ پر لازم نہیں کئے گئے ہیں۔ )- ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن علی بن العباس الفقیہ نے، انہیں عبد اللہ بن عمر نے۔ انہیں محمد بن عبدالوارث نے، انہیں ابان نے عکرمہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (ثلاث ھن علی فریضۃ ولکم تطرع الاضحی والو تر والضحی تین باتیں میرے لئے فرض ہیں اور تمہارے لئے نفل ہیں۔ قربانی، و تر کی نماز اور چاشت کی نماز) ان روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قربانی ہم پر واجب نہیں ہے۔ تاہم اگر روایات میں کسی حکم کی نفی اور اثبات میں تعاضر ہوجائے تو اثبات و ایجاب کی روایات اولیٰ ہوں گی۔ ان پر دو وجوہ کی بنا پر عمل کرنا اولیٰ ہوگا۔ ایک تو یہ کہ اباحت ترک پر ایجاب وارد ہوتا ہے دوسری یہ کہ ایجاب کی روایات میں ترک کی ممانعت ہے اور نفی کی روایات میں ترک کی اباحت ہے اور ممانعت اباحت اولیٰ ہوتی ہے۔- نفی وجوب پر اس روایت سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابو دائود نے انہیں ہارون بن عبداللہ نے ، انہیں عبداللہ بن یزید نے، انہیں سعید بن ایوب نے، انہیں عیاش القتبانی نے عیسیٰ بن ہلال ا لصدفی سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (امرت بیوم الاضحی عیداً جعلہ اللہ لھذہ الا مۃ مجھے عید قربان کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے مقرر کیا ہے) ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا۔” اگر میرے پاس صرف ایک اونٹنی ہو جو مجھے اس کے دودھ سے فائدہ اٹھانے کے لئے ملی ہو تو آیا میں اس کی قربانی کر دوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” نہیں، اگر تم اپنے بال اتروا لو، ناخن ترشوا لو، مونچھیں کتروا لو اور موئے زیر ناف صاف کرلو تو اللہ کے نزدیک اس سے تمہاری قربانی کی تکمیل ہوجائے گی۔ “ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درج بالا امور کو بمنزلہ اضحیہ قرار دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ اضحیہ واجب نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان افعال کو سرانجام واجب نہیں ہے۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے انہیں ابراہیم بن موسیٰ الرازی نے ، انہیں عیسیٰ نے ، انہیں محمد بن اسحاق نے یزید بن ابی حبیب سے، انہوں نے ابو عیش سے انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم النحر کو دو خوبصورت خصی شدہ اور سینگوں والے مینڈھے ذبح فرمائے۔ جب آپ نے ذبح کرنے کے لئے ان دونوں کو لٹایا تو یہ دعا پڑھی (انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض علی ملۃ ابراہیم حنیفا وما انا من المشرکین ان صلوتی ونسکی و محیای و مباتی للہ رب العالمین لا شریک لہ و بذلک امرت وانا اول المسلمین، اللھم منک ولک عن محمد و امتہ باسم اللہ واللہ اکبر۔ میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں ملت ابراہیمی پر ہوں سب سے یک سو ہو کر، میں مشرکین میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز، میری قربانی، میری زنگدی اور میری موت سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اطاعت کرنے والوں میں سے ہوں۔ اے اللہ یہ تیری ہی طرف سے عطا ہوئی ہے اور تیرے ہی لئے ہے، یہ قربانی محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اور اس کی امت کی طرف سے ہے، اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ سب سے بڑا ہے ) اس کے بعد آپ نے دونوں جانوروں کو ذبح کردیا۔ ان حضرات کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ غیر واجب ہے اس لئے کہ اگر قربانی واجب ہوتی تو ایک مینڈھا پوری امت کی طرف سے قربانی کے لئے کافی نہ ہوتا۔- ابوبکر جصاص اس استدلال کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ بات وجوب کی نفی نہیں کرتی۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کی طرف سے تطوع اور رضا کارانہ طور پر یہ قربانی دی تھی اور یہ بات جائز ہے کہ ایک شخص جس پر قربانی واجب ہو اس کی طرف سے کوئی رضا کارانہ طور پر قربانی دے دے جس طرح ایک شخص جس پر قربانی واجب ہوتی ہو اگر وہ نفلی قربانی دے گا تو اس کی یہ قربانی جائز ہوگی لیکن یہ چیز اس پر لازم شدہ قربانی کے وجوب کو ساقط نہیں کرے گی۔ ہم نے سلف سے قربانی کے ایجاب کی نفی میں جو روایتیں نقل کی ہیں ان سے دو وجوہ کی بنا پر فنی وجوب پر استدلال ہوسکتا ہے ایک تو یہ کہ ان حضرات کے ہم چشموں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں گزرا جس سے نفی وجوب کے خلاف روایت منقول ہو، جبکہ ان حضرات سے ہماری مذکورہ نفی ایجاب کی روایتیں پوری طرح پھیلی ہوئی اور مشہور تھیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر قربانی واجب ہوتی تو لوگوں کو اس حکم کی عمومی طور پر ضرورت ہوتی جس سے یہ بات لازم ہوجاتی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے صحابہ کرام کو اس کے وجوب کے حکم سے ضرور آگاہ کردیا جاتا ہے۔ اگر آپ کی طرف سے صحابہ کرام کو آگاہ کردیا جاتا تو یہ حکم استفاضہ اور تواتر کی صورت میں امت کے اندر نقل ہوتا اور کچھ نہ ہوتا تو کم از کم اس حکم کی روایت اسی درجے کی ہوتی جس درجے کی صدقہ فطر کے حکم کی روایت ہے اس لئے کہ لوگوں کو عمومی طور پر اس حکم کے جاننے کی ضرورت تھی۔ جب امت کے اندر استفاضہ کی صورت میں اس حکم کی روایت موجود نہیں ہے تو یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے ۔ ا سلسلے میں یہ استدلال بھی کیا جاسکتا ہے اگر قربانی واجب ہوتی جو کہ مال کو لاحق ہونے والا حق ہے تو مقیم اور مسافر کا حکم یکساں ہوتا ۔ اس کا وجوب دونوں پر ہوتا جس طرح صدقہ فطر کا وجوب دونوں پر ہے۔ لیکن جب امام ابوحنیفہ مسافر پر اس کے وجوب کے قائل نہیں ہیں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ یہ سرے سے واجب نہیں ہے۔ ایک استدلال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر یہ واجب ہوتا جبکہ یہ مال کو لاحق ہونے والا حق ہے تو وقت کا گزر جانا اس کے وجوب کو ساقط نہ کرسکتا۔ اب جبکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ایام النحر گزر جانے کے ساتھ قربانی ساقط ہوجاتی ہے تو یہ امر اس کے عدم وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ ایسے تمام حقوق جو مال کے اندر واجب ہوتے ہیں مثلاً زکوۃ، صدقہ فطر اور عشر وغیرہ وہ وقت کے گزر جانے کی بنا پر ساقط نہیں ہوتے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٧) کیوں کہ ہم نے ہر ایک دین والے کے لیے ذبح اور یہ کہ عبادت کا طریقہ متعین کردیا ہے وہ اپنے دین کے طریقہ پر ذبح کیا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا ہُمْ نَاسِکُوْہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ ) ” - یعنی بنی اسرائیل کے لیے قربانی کا طریقہ اور تھا ‘ بنی اسماعیل کسی اور طریقے سے قربانی کرتے تھے ‘ جبکہ مسلمانوں کو ان دونوں سے مختلف طریقہ بتایا گیا ہے۔ یہ ہر امت کی اپنی اپنی شریعت کا معاملہ ہے ‘ اس میں جھگڑنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ مضمون اس سے پہلے آیت ٣٤ میں اس طرح آچکا ہے : (وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْم بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِط فَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْاط وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ ) ” اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ بنایا ہے تاکہ وہ اللہ کا نام لیاکریں ان مویشیوں پر جو اس نے انہیں عطا کیے ہیں۔ تو (جان لو کہ) تمہارا معبود ایک ہی ہے ‘ چناچہ تم اس کے سامنے سرتسلیم خم کرو ‘ اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بشارے دے دیجیے عاجزی اختیار کرنے والوں کو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :115 یعنی ہر نبی کی امت ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :116 یہاں مَنْسَک کا لفظ قربانی کے معنی میں نہیں بلکہ پورے نظام عبادت کے معنی میں ہے ۔ اس سے پہلے اسی لفظ کا ترجمہ قربانی کا قاعدہ کیا گیا تھا ، کیونکہ وہاں بعد کا فقرہ تاکہ لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں اس کے وسیع معنی میں سے صرف قربانی مراد ہونے کے تصریح کر رہا تھا ۔ لیکن یہاں اسے محض قربانی کے معنی میں لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ بلکہ عبادت کو بھی اگر پرستش کے بجائے بندگی کے وسیع تر مفہوم میں لیا جائے تو مدعا سے قریب تر ہو گا ۔ اس طرح منسک ( طریق بندگی ) کے وہی معنی ہو جائیں گے جو شریعت اور منہاج کے معنی ہیں ، اور یہ اسی مضمون کا اعادہ ہوگا جو سورہ مائدہ میں فرمایا گیا ہے کہ : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجاً ، ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی ( آیت 48 ) سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :117 یعنی جس طرح پہلے انبیاء اپنے اپنے دور کی امتوں کے لیے ایک منسک لائے تھے ، اسی طرح اس دور کی امت کے لیے تم ایک منسک لائے ہو ۔ اب کسی کو تم سے نزاع کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ، کیونکہ اس دور کے لیے یہی منسک حق ہے ۔ سورہ جاثیہ میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے : ثَمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھا وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ( آیت 18 ) پھر ( انبیاء بنی اسرائیل کے بعد ) اے محمد ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک شریعت ( طریقے ) پر قائم کیا ، پس تم اسی کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ۔ ( مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الشوریٰ ، حاشیہ 20 ) سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :118 یہ فقرہ اس مطلب کو پوری طرح واضح کر رہا ہے جو پچھلے فقرے کی تفسیر میں ابھی ہم بیان کر آئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

30: بعض لوگ اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو احکام دئیے ہیں، ان میں سے کچھ ان احکام سے مختلف ہیں جو پچھلے انبیائے کرام کی امتوں کو دئیے گئے تھے اس آیت میں اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے یعنی مختلف انبیائے کرام کی شریعتوں میں اللہ نے عبادت کے مختلف طریقے مقرر فرمائے تھے اور ہر دور کے مناسب شریعت کے مختلف احکام دئیے تھے۔ لہذا اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے کچھ احکام پچھلی شریعتوں سے الگ ہیں تو اس میں نہ کوئی اعتراض کی بات ہے، اور نہ بحث مباحثے کا کوئی موقع۔