[٧] ان آیات میں چند در چند حقائق بیان ہوئے ہیں جو یہ ہیں :- (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ وہ علیم وخبیر ہستی ہے۔ کائنات میں جملہ تصرفات اسی کی حکمت اور قدرت کے تحت واقع ہو رہے ہیں۔- (٢) وہ مردہ اشیاء سے زندہ اشیا کو پیدا کرسکتا ہے۔ پھر زندہ اشیاء کو مردہ اشیاء میں تبدیل کرتا ہے اور پھر انھیں زندگی بخش سکتا ہے مثلاً انسان کو اس نے ایک مشت خاک سے پیدا کیا ہے۔ پھر انسان کا نطفہ بھی بےجان اشیاء سے بنتا ہے۔ جس میں زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں انسان کا جسم اور اس کی غذائیں جن مادوں سے مرکب ہیں وہ سب بےجان مادے ہیں۔ مثلاً انسانی جسم اور اس کی غذائیں سب کچھ نمکیات لوہا، چونا، کوئلہ اور چند گیسوں سے مرکب ہے۔ انھیں ہی ترکیب دے کر اللہ نے جاتے جاگتے انسان پیدا کردیئے۔ پھر مرنے کے بعد یہی انسانی جسم مٹی میں تحلیل ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس بات پر پوری قدرت رکھتا ہے کہ انھیں بےجان مادوں سے انسان کو نئے سرے سے پیدا کر دے۔- (٣) تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ اگر اسے اسی قدرت حاصل نہ ہوگی تو وہ ہرگز ایسے کام نہیں کرسکتا تھا۔ پھر ان کاموں میں اس کی حکمت کو بھی خاصا دخل ہے۔ مثلاً اس نے اگر نطفہ کے جراثیم میں انسان بننے کی استعداد رکھی ہے تو اس کے ساتھ ہی ساتھ پیدا ہونے والے بچہ میں اپنے والدین کی شکل، عقل اور قوت جسمانی کا بھی عکس موجود ہوتا ہے۔ اور ان باتوں میں نومولود کی اپنے والدین سے کافی حد تک مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔ گویا مادہ کے علاوہ والدین کی پوشیدہ قوتیں بھی جنس میں منقل ہوجاتی ہیں اور ان کا ظہور بچہ کے بالغ ہونے پر ہوتا ہے۔- (٤) اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کائنات میں بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت ارادہ و اختیار اور قوت تمیز و عقل اس لئے عطا کی ہے کہ آیا وہ اس کائنات میں اللہ کا فرمانبردار بندہ بن کر رہتا ہے یا نافرمان اور باغی بن کر زندگی گزارتا ہے۔ انسان کی اپنی یہ حالت ہے کہ جب وہ کسی کو کوئی ذمہ داری سونپتا ہے یا اجرت پر کوئی مزدور یا غلام رکھتا ہے تو اس کا محاسبہ بھی کرتا ہے لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا بھی محاسبہ کرے کہ کون شخص اس کا حکم بجا لاتا ہے اور کون اس کی حکم عدولی کرتا ہے۔ اسی محاسبہ کے لئے اخروی زندگی کا قیام ضروری ہے اور یہی عقل و حکمت اور عدل کا تقاضا ہے اور دنیا کی مختصر سی زندگی چونکہ اعمال کی جزا و سزا کے لئے بالکل ناکافی ہے۔ لہذا اس لحاظ سے بھی قیامت اور روز جزا کا قیام ضروری ہے۔
وَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِيَۃٌ لَّا رَيْبَ فِيْہَا ٠ۙ وَاَنَّ اللہَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُوْرِ ٧- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - قبر - القَبْرُ : مقرّ الميّت، ومصدر قَبَرْتُهُ : جعلته في القَبْرِ ، وأَقْبَرْتُهُ : جعلت له مکانا يُقْبَرُ فيه . نحو : أسقیته : جعلت له ما يسقی منه . قال تعالی: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس 21] ، قيل : معناه ألهم كيف يدفن، والْمَقْبَرَةُ والْمِقْبَرَةُ موضع الْقُبُورِ ، وجمعها : مَقَابِرُ. قال : حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر 2] ، كناية عن الموت . وقوله : إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات 9] ، إشارة إلى حال البعث . وقیل : إشارة إلى حين كشف السّرائر، فإنّ أحوال الإنسان ما دام في الدّنيا مستورة كأنّها مَقْبُورَةٌ ، فتکون القبور علی طریق الاستعارة، وقیل : معناه إذا زالت الجهالة بالموت، فكأنّ الکافر والجاهل ما دام في الدّنيا فهو مَقْبُورٌ ، فإذا مات فقد أنشر وأخرج من قبره . أي : من جهالته، وذلک حسبما روي : ( الإنسان نائم فإذا مات انتبه) «2» وإلى هذا المعنی أشار بقوله : وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ- [ فاطر 22] ، أي : الذین هم في حکم الأموات .- ( ق ب ر ) القبر کے معنی میت کو دفن کرنے جگہ کے ہیں اگر یہ قبرتہ ( ضرب ونصر ) کا مصدر ہو تو اس کے میت کو قبر میں دفن کر نیکے ہوتے ہیں ۔ اوراقبرتہ کے معنی کیس کیلئے قبر مہیا کرنے کے ہیں تاکہ اسے دفن کیا جائے جیسے اسقینہ کے معنی پینے کے لئے پانی مہیا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس 21] پھر اس کو موت دی ۔ پھر قبر میں دفن کرایا ۔ بعض نے اقبرہ کے معنی یہ کئے ہیں کہ اسے الہام کردیا کہ کس طرح میت کو دفن کیا جائے ۔ المقبرۃ والمقبرۃ ( قبر ستان ) جمع مقابر قرآن میں سے : ۔ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر 2] یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ۔ یہ موت سے کنایہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات 9] کہ جو مردے قبروں میں ہیں وہ باہر نکال لئے جائیں گے ۔ میں حیات بعد الممات یعنی موت کے بعد زندہ ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ دلوں کے اسرار ظاہر کردینے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب تک انسان دنیا میں رہتا ہے اس کے بھید مستور رہتے ہیں گویا قبر میں مدفون ہیں تو یہاں قبور سے مجازا دل مراد ہیں بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جب موت کی وجہ سے جہالت کا پردہ اٹھ جائے گا گو یا کا فر اور جاہل جب تک دنیا میں رہتے ہیں جہالت کی قبروں میں مدفون رہتے ہیں چونکہ مرنے کے بعد وہ جہالت دور ہوجاتی ہے ۔ تو گویا وہ قبر جہالت سے دوبارہ زندہ کر کے نکالے گئے ہیں ۔ جیسا کہ مروی ہے الانسان نائم اذا مات کہ انسان دنیامیں سویا رہتا ہے جب موت آکر دستک دیتی ہے تو اس کی آنکھیں کھلتی ہیں اور اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر 22] اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ۔ یعنی جو لوگ جہالت کے گڑھے میں گرنے کی وجہ سے مردوں کے حکم میں ہیں ۔
(٧) اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے اور اس کے آنے اور قائم ہونے میں ذرا بھی شبہ نہیں اور اللہ تعالیٰ قیامت میں جزا و سزا کے لیے قبروں میں پڑے لوگوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔
آیت ٧ (وَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْہَالا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ) ” - بعث بعد الموت کا یہ واقعہ لازماً ہو کر رہے گا۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :9 ان آیات میں انسان کی پیدائش کے مختلف اطوار ، زمین پر بارش کے اثرات ، اور نباتات کی پیداوار کو پانچ حقیقتوں کی نشان دہی کرنے والے دلائل قرار دیا گیا ہے : 1 : یہ کہ اللہ ہی حق ہے ، 2 : یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے ، 3 : یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ، 4 : یہ کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی ، اور 5: یہ کہ اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اٹھائے گا جو مر چکے ہیں ۔ اب دیکھیے کہ یہ آثار ان پانچوں حقیقتوں کی کس طرح نشان دہی کرتے ہیں ۔ پورے نظام کائنات کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو معلوم ہو جائے کہ ایک ایک انسان کی ہستی میں اللہ کی حقیقی اور واقعی تدبیر ہر وقت بالفعل کار فرما ہے اور ہر ایک کے وجود اور نشو و نما کا ایک ایک مرحلہ اس کے ارادی فیصلے پر ہی طے ہوتا ہے ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک لگے بندھے قانون پر ہو رہا ہے جس کو ایک اندھی بہری بے علم و بے ارادہ فطرت چلا رہی ہے ۔ لیکن وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ ایک ایک فرد انسانی جس طرح وجود میں آتا ہے اور پھر جس طرح وہ وجود کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اس میں ایک حکیم و قادر مطلق ہستی کا ارادی فیصلہ کس شان سے کام کر رہا ہے ۔ آدمی جو غذا کھاتا ہے اس میں کہیں انسانی تخم موجود نہیں ہوتا ، نہ اس میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو نفس انسانی کے خواص پیدا کرتی ہو ۔ یہ غذا جسم میں جا کر کہیں بال ، کہیں گوشت اور کہیں ہڈی بنتی ہے ، اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہی اس نطفے میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کے اندر انسان بننے کی استعداد رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں ۔ ان تخموں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں مرد سے جتنا نطفہ خارج ہوتا ہے اس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضۂ انثٰی سے مِل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ مگر یہ کسی حکیم و قدیر اور حاکم مطلق کا فیصلہ ہے جو ان بے شمار امیدواروں میں سے کسی ایک کو کسی خاص وقت پر چھانٹ کر بیضۂ انثٰی سے ملنے کا موقع دیا ہے اور اس طرح استقرار حمل رونما ہوتا ہے ۔ پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضیٰ خلیے ( ) کے ملنے سے جو چیز ابتداءً بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خورد بین کے بغیر نہیں دیکھی جا سکتی ۔ یہ حقیر سی چیز 9 مہینے اور چند روز میں رحم کے اندر پرورش پا کر جن بے شمار مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل اختیار کرتی ہے ان میں سے ہر مرحلے پر غور کرو تو تمہارا دل گواہی دے گا کہ یہاں ہر آن ایک حکیم فعال کا ارادی فیصلہ کام کرتا رہا ہے ۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تکمیل کو پہنچانا ہے اور کسے خون کے لوتھڑے ، یا گوشت کی بوٹی ، یا ناتمام بچے کی شکل میں ساقط کر دینا ہے ۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو زندہ نکالنا ہے اور کس کو مردہ ۔ کس کو معمولی انسان کی صورت و ہیئت میں نکالنا ہے اور کسے ان گنت غیر معمولی صورتوں میں سے کوئی صورت دے دینی ہے ۔ کس کو صحیح و سالم نکالنا ہے اور کسے اندھا ، بہرا ، گونگا یا ٹنڈا اور لنجا بنا کر پھینک دینا ہے ۔ کس کو خوبصورت بنانا ہے اور کسے بد صورت ۔ کس کو مرد بنانا ہے اور کس کو عورت ۔ کس کو اعلیٰ درجے کی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے اور کسے کودن اور کند ذہن پیدا کرنا ہے ۔ یہ تخلیق و تشکیل کا عمل ، جو ہر روز کروڑوں عورتوں کے رحموں میں ہو رہا ہے ، اس کے دوران میں کسی وقت کسی مرحلے پر بھی ایک خدا کے سوا دنیا کی کوئی طاقت ذرہ برابر اثر انداز نہیں ہو سکتی ، بلکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پیٹ میں کیا چیز بن رہی ہے اور کیا بن کر نکلنے والی ہے ۔ حالانکہ انسانی آبادیوں کی قسمت کے کم از کم 90 فی صدی فیصلے ان ہی مراحل میں ہو جاتے ہیں اور یہیں افراد ہی کے نہیں ، قوموں کے ، بلکہ پوری نوع انسانی کی مستقبل کی شکل بنائی اور بگاڑی جاتی ہے ۔ اس کے بعد بچے دنیا میں آتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسے زندگی کا پہلا سانس لیتے ہی ختم ہو جانا ہے ، کسے بڑھ کر جوان ہونا ہے ، اور کس کو قیامت کے بوریے سمیٹنے ہیں ؟ یہاں بھی ایک غالب ارادہ کار فرما نظر آتا ہے اور غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی کارفرمائی کسی عالمگیر تدبیر و حکمت پر مبنی ہے جس کے مطابق وہ افراد ہی کی نہیں ، قوموں اور ملکوں کی قسمت کے بھی فیصلے کر رہا ہے ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کسی کو اس امر میں شک ہے کہ اللہ حق ہے اور صرف اللہ ہی حق ہے تو بے شک وہ عقل کا اندھا ہے ۔ دوسری بات جو پیش کردہ آثار سے ثابت ہوتی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے ۔ لوگوں کو تو یہ سن کر اچنبھا ہوتا ہے کہ اللہ کسی وقت مردوں کو زندہ کرے گا ، مگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ وہ تو ہر وقت مردے جلا رہا ہے ۔ جن مادوں سے آپ کا جسم بنا ہے اور جن غذاؤں سے وہ پرورش پاتا ہے ان کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے ۔ کوئلہ ، لوہا ، چونا ، کچھ نمکیات ، کچھ ہوائیں ، اور ایسی ہی چند چیزیں اور ہیں ۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی حیات اور نفس انسانی کے خواص موجود نہیں ہیں ۔ مگر ان ہی مردہ ، بے جان مادوں کو جمع کر کے آپ کو جیتا جاگتا وجود بنا دیا گیا ہے ۔ پھر انہی مادوں کی غذا آپ کے جسم میں جاتی ہے اور وہاں اس سے مردوں میں وہ تخم اور عورتوں میں وہ بیضی خلیے بنتے ہیں جن کے ملنے سے آپ ہی جیسے جیتے جاگتے انسان روز بن بن کر نکل رہے ہیں ۔ اس کے بعد ذرا اپنے گرد و پیش کی زمین پر نظر ڈالیے ۔ بے شمار مختلف چیزوں کے بیج تھے جن کو ہواؤں اور پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا ، اور بے شمار مختلف چیزوں کی جڑیں تھیں جو جگہ جگہ پیوند خاک ہو ئی پڑی تھیں ۔ ان میں کہیں بھی بناتی زندگی کا کوئی ظہور موجود نہ تھا ۔ آپ کے گرد و پیش کی سوکھی زمین ان لاکھوں مردوں کی قبر بنی ہوئی تھی ۔ مگر جونہی کہ پانی کا ایک چھینٹا پڑا ، ہر طرف زندگی لہلہانے لگی ، ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اٹھی ، اور ہر بے جان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا ۔ یہ احیائے اموات کا عمل ہر برسات میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے ۔ تیسری چیز جو ان مشاہدات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ساری کائنات کو چھوڑ کر صرف اپنی اسی زمین کو لے لیجیے ، اور زمین کے بھی تمام حقائق و واقعات کو چھوڑ کر صرف انسان اور نباتات ہی کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیجیے ۔ یہاں اس کی قدرت کے جو کرشمے آپ کو نظر آتے ہیں کیا انہیں دیکھ کر کوئی صاحب عقل آدمی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خدا بس وہی کچھ کر سکتا ہے جو آج ہم اسے کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ اور کل اگر وہ کچھ اور کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا ؟ خدا تو خیر بہت بلند و برتر ہستی ہے ، انسان کے متعلق پچھلی صدی تک لوگوں کے یہ اندازے تھے کہ یہ صرف زمین ہی پر چلنے والی گاڑیاں بنا سکتا ہے ، ہوا پر اڑنے والی گاڑیاں بنانا اس کی قدرت میں نہیں ہے ۔ مگر آج کے ہوائی جہازوں نے بتا دیا کہ انسان کے امکانات کی حدیں تجویز کرنے میں ان کے اندازے کتنے غلط تھے ۔ اب اگر کوئی شخص خدا کے لیے اس کے صرف اپنے ہی ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے ، خدا کی قدرت بہرحال اس کی باندھی ہوئی حدوں میں بند نہیں ہو سکتی ۔ چوتھی اور پانچویں بات ، یعنی یہ کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی اور یہ کہ اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اٹھائے گا جو مر چکے ہیں ، ان تین مقدمات کا عقلی نتیجہ ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں ۔ اللہ کے کاموں کو اس کی قدرت کے پہلو سے دیکھیے تو دل گواہی دے گا کہ وہ جب چاہے قیامت برپا کر سکتا ہے اور جب چاہے ان سب مرنے والوں کو پھر سے زندہ کر سکتا ہے جن کو پہلے وہ عدم سے وجود میں لایا تھا ۔ اور اگر اس کے کاموں کو اس کی حکمت کے پہلو سے دیکھیے تو عقل شہادت دے گی کہ یہ دونوں کام بھی وہ ضرور کر کے رہے گا کیونکہ ان کے بغیر حکمت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور ایک حکیم سے یہ بعید ہے کہ وہ ان تقاضوں کو پورا نہ کرے ۔ جو محدود سی حکمت و دانائی انسان کو حاصل ہے اس کا یہ نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی اپنا مال یا جائیداد یا کاروبار جس کے سپرد بھی کرتا ہے اس سے کسی نہ کسی وقت حساب ضرور لیتا ہے ۔ گویا امانت اور محاسبے کے درمیان ایک لازمی عقلی رابطہ ہے جس کو انسان کی محدود حکمت بھی کسی حال میں نظر انداز نہیں کرتی ۔ پھر اسی حکمت کی بنا پر آدمی ارادی اور غیر ارادی افعال کے درمیان فرق کرتا ہے ، ارادی افعال کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری کا تصور وابستہ کرتا ہے ، افعال میں نیک اور بد کی تمیز کرتا ہے ، اچھے افعال کا نتیجہ تحسین اور انعام کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے ، اور برے افعال پر سزا کا تقاضا کرتا ہے ، حتیٰ کہ خود ایک نظام عدالت اس غرض کے لیے وجود میں لاتا ہے ۔ یہ حکمت جس خالق نے انسان میں پیدا کی ہے ، کیا باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود اس حکمت سے عاری ہوگا ۔ کیا مانا جا سکتا ہے کہ اپنی اتنی بڑی دنیا اتنے سر و سامان اور اس قدر اختیارات کے ساتھ انسان کے سپرد کر کے وہ بھول گیا ہے ، اس کا حساب وہ کبھی نہ لے گا ؟ کیا کسی صحیح الدماغ آدمی کی عقل یہ گواہی دے سکتی ہے کہ انسان کے جو برے اعمال سزا سے بچ نکلے ہیں ، یا جن برائیوں کی متناسب سزا اسے نہیں مل سکی ہے ان کی باز پرس کے لیے کبھی عدالت قائم نہ ہو گی ، اور جو بھلائیاں اپنے منصفانہ انعام سے محروم رہ گئی ہیں وہ ہمیشہ محروم ہی رہیں گی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قیامت اور زندگی بعد موت خدائے حکیم کی حکمت کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کا پورا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا سراسر بعید از عقل ہے ۔
6: انسان کی جس پیدائش کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، وہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے مرنے کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرسکتا ہے، اور دوسری طرف اسی سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جن لوگوں کو دنیا میں پیدا کیا گیا ہے، ان کی پیدائش ہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انہیں ایک اور زندگی دی جائے، کیونکہ اگر دوسری زندگی نہ ہو تو دنیا میں نیکی کرنے والے اور بدی کرنے والے، ظالم اور مظلوم سب برابر ہوجائیں گے، اور اللہ تعالیٰ ایسی نا انصافی کے لیے انسانوں کو پیدا نہیں کرسکتا کہ جو چاہے دوسروں پر ظلم کرتا رہے، یا گناہوں کا طومار لگا دے، اور اسے اپنے عمل کی کوئی سزا نہ ملے، اور اسی طرح دنیا میں کوئی شخص کتنی پاکباز زندگی گذارے، اس کو کوئی انعام نہ ملے، لہذا اللہ تعالیٰ کی حکمت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ جب انسانوں کو دنیا میں پیدا کیا ہے تو آخرت میں انہیں دوسری زندگی دے کر انہیں انعام یا سزا ضرور دے۔