Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

گمراہ جاہل مقلدلوگ چونکہ اوپر کی آیتوں میں گمراہ جاہل ملقدوں کا حال بیان فرمایا تھا یہاں ان کے مرشدوں اور پیروں کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ وہ بےعقلی اور بےدلیلی سے صرف رائے قیاس اور خواہش نفسانی سے اللہ کے بارے میں کلام کرتے رہتے ہیں ، حق سے اعراض کرتے ہیں ، تکبر سے گردن پھیرلیتے ہیں ، حق کو قبول کرنے سے بےپراوہی کے ساتھ انکار کرجاتے ہیں جیسے فرعونیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کھلے معجزوں کو دیکھ کر بھی بےپراوہی کی اور نہ مانے ۔ اور آیت میں ہے جب ان سے اللہ کی وحی کی تابعداری کو کہا جاتا ہے اور رسول اللہ کے فرمان کی طرف بلایا جاتا ہے تو تو دیکھے گا کہ اے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ منافق تجھ سے دور چلے جایا کرتے ہیں ۔ سورۃ منافقون میں ارشاد ہوا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اور اپنے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرواؤ تو وہ اپنے سرگھما کر گھمنڈ میں آکر بےنیازی سے انکار کرجاتے ہیں حضرت لقمان رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے صاحبزادے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا آیت ( وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ 18؀ۚ ) 31- لقمان:18 ) لوگوں سے اپنے رخسار نہ پھلادیا کر یعنی اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر ان سے تکبر نہ کر ۔ اور آیت میں ہے ہماری آیتیں سن کر یہ تکبر سے منہ پھیرلیتا ہے ۔ لیضل کا لام یہ تولام عاقبت ہے یا لام تعلیل ہے اس لئے کہ بسا اوقات اس کا مقصود دوسروں کو گمراہ کرنا نہیں ہوتا اور ممکن ہے کہ اس سے مراد معاند اور انکار ہی ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ مطلب ہو کہ ہم نے اسے ایسا بداخلاق اس لئے بنا دیا ہے کہ یہ گمراہوں کا سردار بن جائے ۔ اس کے لئے دنیا میں بھی ذلت وخواری ہے جو اس کے تکبر کا بدلہ ۔ یہ یہاں تکبر کرکے بڑا بننا چاہتا تھا ہم اسے اور چھوٹا کردیں گے یہاں بھی اپنی چاہت میں ناکام اور بےمراد رہے گا ۔ اور آخرت کے دن بھی جہنم کی آگ کا لقمہ ہوگا ۔ اسے بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے کا کہ یہ تیرے اعمال کا نتیجہ ہے اللہ کی ذات ظلم سے پاک ہے جیسے فرمان ہے کہ فرشتوں سے کہا جائے گا کہ اسے پکڑ لو اور گھسیٹ کر جہنم میں لے جاؤ اور اس کے سر پر آگ جیسے پانی کی دھار بہاؤ ۔ لے اب اپنی عزت اور تکبر کا بدلہ لیتا جا ۔ یہی وہ ہے جس سے عمربھر شک شبہ میں رہا ۔ حضرت حسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ ایک دن میں وہ ستر ستر مرتبہ آگ میں جل کر بھرتا ہوجائے گا ۔ پھر زندہ کیا جائے گا پھر جلایا جائے گا ( اعاذنا اللہ ) ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] اس آیت میں علم کے لفظ کا اطلاق شرعی زبان میں عموماً وحی الٰہی پر ہوتا ہے مگر یہاں علم سے مراد فطری یا پیدائشی یا بدیہی علم ہے جو ہر انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ہر جاندار کو اپنی زندگی کے بقاء کے لئے کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے یا یہ کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ یا یہ کہ کل ہمیشہ اپنے جزء سے جڑا ہوتا ہے یا یہ کہ آگ میں جو چیز ڈالی جائے، آگ اسے جلا دیتی ہے یہ ایسے امور ہیں جن کے لئے کسی عقلی یا نقلی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ ہی کوئی شخص ایسے امور کے لئے دلیل کا مطالبہ کرتا ہے اور ھدی سے مراد عقلی دلیل ہے۔ مثلاً اسی کائنات کا مربوط نظام اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کو پیدا کرنے والی اور اسے کنٹرول میں رکھنے والی کوئی مقتدر علیم اور خبیر ہستی ہو۔ یا یہ کہ ہر چیز کا کوئی بنانے والا ہونا ضروری ہے۔ یا یہ کہ اگر کہیں راستہ میں اونٹ کی مینگنی پڑی ہوئی ہے تو وہ اس بات پر عقلی دلیل ہوتی ہے کہ یہاں سے کوئی اونٹ گزرا ہے اور کتاب منیر سے مراد کوئی نقلی یا سمعی دلیل ہے۔ یعنی ایسی دلیل جو کسی الہامی کتاب میں مذکور ہو۔ مثلاً یہ کہ اس کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے تصرف و اختیار میں یا اس کی ذات وصفات میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں اور قرآن کریم و احادیث ایسے سمعی یا نقلی دلائل سے بھرے پڑے ہیں۔- اب جو لوگ اللہ کی ذات یا اس کے اختیارات و تصرفات یا اس کی دوسری صفات کے بارے میں بحث یا کج بحثی یا جھگڑے کرتے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو کوئی بدیہی یا تجرباتی دلیل (علم) ہوتا ہے۔ نہ کوئی عقلی دلیل (ھدی) ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی سمعی، نقلی (کتاب منیر) دلیل ہوتی ہے۔ ان کی بحث فقط برائے بحث یا کج بحثی ہوتی ہے۔ ان کے پاس یہ بات کہنے کے سوا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ چونکہ ہمارے آباء و اجداد ایسا کرتے آئے ہیں۔ لہذا ہم بھی ایسا کرتے ہیں یا کرتے رہیں گے اور ظاہر ہے کہ یہ دلیل کوئی قسم نہیں اور اس جواب کا ماحصل یہی ہے کہ اگر بزرگوں نے گمراہی کی راہ اختیار کی تھی تو ان کی یہ گمراہی نسلاً بعد نسل ان کی اولاد در اولاد میں منتقل ہوتی چلی جائے۔ ان لوگوں کا اس جھگڑے سے اصل مقصد یہ ہوتا کہ دوسرے لوگوں کو بھی ایمان و یقین کی راہ سے دور رکھیں اور اپنی طرح ان کو بھی گمراہ کرکے چھوڑیں۔ ایسے بغض وعناد رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ذلیل اور رسوا کرے گا اور اخروی عذاب تو بہرحال اس سے شدید تر ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ ۔۔ : یہاں ایک سوال ہے کہ یہی الفاظ اس سے پہلے آیت (٣) میں گزرے ہیں، پھر انھیں دوبارہ لانے میں کیا حکمت ہے ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ وہاں قیامت کے قیام پر اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے متعلق ان کج بحث جھگڑالوؤں کا ذکر ہے جو علم سے سراسر عاری اور محض مقلد ہیں اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے چلتے ہیں۔ جبکہ یہاں ان جھگڑالوؤں کا ذکر ہے جو گمراہی کے پیشوا ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں، دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ جس طرح پہلی آیت : ” وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ “ میں واؤ سے پہلے کچھ لوگوں کا ذکر محذوف ہے (آیت : ٣ کی تفسیر ایک بار پھر دیکھ لیں) اسی طرح موقع کی مناسبت سے یہاں بھی ” وَمِنَ النَّاسِ “ کی واؤ سے پہلے کچھ لوگوں کا ذکر محذوف ہے، یعنی جو لوگ انسان کی پیدائش اور مردہ زمین کو زندہ کرنے کے دلائل سے پہلے قیامت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان نہیں لا رہے تھے ان قطعی دلائل کے بعد ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو ایمان لے آتے ہیں اور کچھ ایسے ہٹ دھرم اور عقل و شعور سے عاری ہیں جو کسی بھی دلیل کے بغیر محض تکبر کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ خود ایمان نہیں لاتے، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔- بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًى ۔۔ : علم سے مراد بدیہی اور فطری دلیل ہے جو کسی غور و فکر کے بغیر ہر ایک کی سمجھ میں آتی ہے۔ ” هُدًى“ سے مراد غور و فکر اور نظر و استدلال سے حاصل ہونے والی عقلی دلیل ہے اور ” كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ “ سے مراد آسمان سے نازل ہونے والی کتابوں میں صحیح ثابت ہونے والی کوئی دلیل نقلی ہے۔ یعنی اس کے پاس قیامت کے انکار یا اللہ تعالیٰ کے وجود یا اس کی قدرت کے انکار کی کوئی فطری دلیل ہے نہ عقلی اور نہ نقلی۔ اس کے جھگڑے کا باعث صرف تکبر ہے۔- ثَانِيَ عِطْفِهٖ : ” ثَنٰی یَثْنِیْ ثَنْیًا “ بروزن ” لَوَی یَلْوِیْ لَیًّا “ (ض) موڑنے کے معنی میں آتا ہے۔ ” ثَنٰی عِنَانَ فَرَسِہِ “ اس نے اپنے گھوڑے کی باگ موڑی۔ جھکانے کے معنی میں بھی آتا ہے : (اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ ) [ ھود : ٥ ] ” سن لو بلاشبہ وہ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں۔ “ ” عِطْفٌ“ کا معنی کندھا بھی ہے اور پہلو بھی۔ یہ اس کے تکبر کی تصویر ہے کہ وہ کس طرح پہلو موڑتے ہوئے اور گردن کشی کرتے ہوئے حق سے اعراض کرتا ہے۔- لَهٗ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ : مراد مسلمانوں کے ہاتھوں قتل، شکست، اسیری یا محکومی ہے، جیسا کہ بدر، احد، خندق، فتح خیبر، فتح مکہ اور فتح طائف اور دوسری بیشمار جنگوں میں ہوا۔ مزید ذلت و رسوائی یہ کہ مال و اولاد کی فراوانی کے باوجود ” مَعِيْشَةً ضَنْكًا “ (طٰہٰ : ١٢٤) اور اموال و اولاد کے ذریعے سے مسلسل عذاب ہے۔ دیکھیے سورة توبہ (٥٥) جو دنیا میں کفار کا اور حق تعالیٰ کی یاد سے منہ موڑنے والے ہر شخص کا مقدر ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ۝ ٨ۙ- جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨) اور بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ دین الہی اور کتاب خداوندی میں بدون واقفیت علم ضروری بغیر دلیل اور بغیر کسی روشن کتاب کے اپنے گردن مٹکاتے ہوئے اور آیات خداوندی سے اعراض اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کو جھٹلاتے ہوئے جھگڑا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ ) ” - ایسے لوگ بغیر کسی علمی دلیل اور الہامی رہنمائی کے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :10 یعنی وہ ذاتی واقفیت جو براہ راست مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوئی ہو ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :11 یعنی وہ واقفیت جو کسی دلیل سے حاصل ہوئی ہو یا کسی علم رکھنے والے کی رہنمائی سے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :12 یعنی وہ واقفیت جو خدا کی نازل کردہ کتاب سے حاصل ہوئی ہو ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :13 اس میں تین کیفیتیں شامل ہیں : جاہلانہ ضد اور ہٹ دھرمی ۔ تکبر اور غرور نفس ۔ اور کسی سمجھانے والے کی بات کی طرف التفات نہ کرنا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani