Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دس آیتیں اور جنت کی ضمانت نسائی ، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی ، بھینی بھینی ، ہلکی ہلکی سی آواز آپ کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے ۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اترچکی تو آپ نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر ، کم نہ کر ، ہمارا اکرام کر ، اہانت نہ کر ، ہمیں انعام عطافرما ، محروم نہ رکھ ، ہمیں دوسروں پر کے مقابلے میں فضیلت دے ، ہم پردوسروں کو پسند نہ فرما ، ہم سے خوش ہو جا اور ہمیں خوش کر دے ۔ عربی کے الفاظ یہ ہیں ۔ دعا ( الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثرعلینا وارض عناوارضنا ۔ ) پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں ، جو ان پر جم گیا وہ جنتی ہوگیا ۔ پھر آپ نے مندرجہ بالا دس آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں ، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں ۔ نسائی میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات واخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا ، پھر ان آیتوں کی ( یحافظون ) ۔ تک تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا یہی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تھے ۔ مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول ۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں ۔ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے ۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے ، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے ۔ اور روایت میں ہے اس کا گارہ مشک کا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ، نہ کسی دل میں سمائیں ۔ اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہوسکتا ۔ اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز زبرجد کی ۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے ۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت ( وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ Ḍ۝ۚ ) 59- الحشر:9 ) پڑھی الغرض فرمان ہے کہ مومن مراد کو پہنچ گئے ، وہ سعادت پاگئے ، انہوں نے نجات پالی ۔ ان مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔ دل حاضر رکھتے ہیں ، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں ، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں ۔ محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے ۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہوگئیں ، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے ۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جائے نماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑگئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے پس یہ خضوع و خشوع اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے ، جس کا دل فارغ ہو ، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچپسی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے ( نسائی ) ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری ۔ آپ نے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے تھے ۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ ۔ مومنوں کے اوصاف پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل ، شرک ، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بےفائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا 72؀ ) 25- الفرقان:72 ) وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بےسود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں ۔ اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اسکا بیان کیسے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہو چکی تھی ہاں اس کی مقدار ، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے ۔ دیکھئے سورۃ انعام بھی مکی ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے آیت ( وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا ١٤١؀ۙ ) 6- الانعام:141 ) یعنی کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰ ۃ ادا کردیا کرو ۔ ہاں یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک وکفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا Ḍ۝۽ ) 91- الشمس:9 ) ، جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اس نے فلاح پالی ۔ اور جس نے اسے خراب کرلیا وہ نامراد ہوا ۔ یہی ایک قول آیت ( وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ Č۝ۙ ) 41- فصلت:6 ) میں بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکاتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں ۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی ۔ فی الواقع مومن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے واللہ اعلم ۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے دوسری عورتوں سے اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں ۔ یعنی حرام کاری سے بچتے ہیں ۔ زنا لواطت وغیرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں ۔ ہاں ان کی بیویاں جو اللہ نے ان پر حلال کی ہیں اور جہاد میں ملی ہوئی لونڈیاں جو ان پر حلال ہیں ۔ ان کے ساتھ ملنے میں ان پر کوئی ملامت اور حرج نہیں ۔ جو شخص ان کے سوا دوسرے طریقوں سے یا کسی دوسرے سے خواہش پوری کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے غلام کو لے لیا اور اپنی سند میں یہی آیت پیش کی ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ معلوم ہوا تو آپ نے صحابہ کے سامنے اس معاملے کو پیش کیا ۔ صحابہ نے فرمایا اس نے غلط معنی مراد لئے ۔ اس پر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلام کا سر منڈوا کر جلاوطن کردیا اور اس عورت سے فرمایا اس کے بعد تو ہر مسلمان پر حرام ہے ، لیکن یہ اثر منقطع ہے ۔ اور ساتھ ہی غریب بھی ہے ۔ امام ابن جریر نے اسے سورۃ مائدہ کی تفسیر کے شروع میں وارد کیا ہے لیکن اس کے وارد کرنے کی موزوں جگہ یہی تھی ۔ اسے عام مسلمانوں پر حرام کرنے کی وجہ اس کے ارادے کے خلاف اسکے ساتھ معاملہ کرنا تھا واللہ اعلم ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے موافقین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اپنے ہاتھ سے اپنا خاص پانی نکال ڈالنا حرام ہے کیونکہ یہ بھی ان دونوں حلال صورتوں کے علاوہ ہے اور مشت زنی کرنے والا شخص بھی حد سے آگے گزرجانے والا ہے ۔ امام حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جز میں ایک حدیث وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالموں کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے پہلے جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل کرے گا یہ اور بات ہے کہ وہ توبہ کرلیں توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ مہربانی سے رجوع فرماتا ہے ایک تو ہاتھ سے نکاح کرنے والا یعنی مشت زنی کرنے والا اور اغلام بازی کرنے اور کرانے والا ۔ اور نشے باز شراب کا عادی اور اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنے والا یہاں تک کہ وہ چیخ پکار کرنے لگیں اور اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت بھیجنے لگے اور اپنی پڑوسن سے بدکاری کرنے والا ۔ لیکن اس میں ایک راوی مجہول ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اور وصف ہے کہ وہ اپنی امانتیں اور اپنے وعدے پورے کرتے ہیں امانت میں خیانت نہیں کرتے بلکہ امانت کی ادائیگی میں سبقت کرتے ہیں وعدے پورے کرتے ہیں اس کے خلاف عادتیں منافقوں کی ہوتی ہیں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔ ( ١ ) جب بات کرے ، جھوٹ بولے ( ٢ ) جب وعدہ کرے خلاف کرے ( ٣ ) جب امانت دیا جائے خیانت کرے ۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ نمازوں کی ان اوقات پر حفاظت کرتے ہیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے؟ آپ نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا ۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا ماں باپ سے حسن سلوک کرنا ۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا اللہ کے راہ میں جہاد کرنا ( بخاری ومسلم ) حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں وقت ، رکوع ، سجدہ وغیرہ کی حفاظت مراد ہے ۔ ان آیات پر دوبارہ نظر ڈالو ۔ شروع میں بھی نماز کا بیان ہوا اور آخر میں بھی نماز کا بیان ہوا ۔ جس سے ثابت ہوا کہ نماز سب سے افضل ہے حدیث شریف میں ہے سیدھے سیدھے رہو اور تم ہرگز احاطہ نہ کرسکو گے ۔ جان لو کہ تمہارے تمام اعمال میں بہترین عمل نماز ہے ۔ دیکھو وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرسکتا ہے ۔ ان سب صفات کو بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ یہی لوگ وارث ہیں جو جنت الفردوس کے دائمی وارث ہونگے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اللہ سے جب مانگو جنت الفردوس مانگو ، وہ سب سے اعلی اور اوسط جنت ہے ۔ وہیں سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے ( بخاری ومسلم ) فرماتے ہیں تم میں ہر ایک کی دو دو جگہیں ہیں ۔ ایک منزل جنت میں ایک جہنم میں ، جب کوئی دوزخ میں گیا تو اس کی منزل کے وارث جنتی بنتے ہیں ۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنتی تو اپنی جنت کی جگہ سنوار لیتا ہے اور جہنم کی جگہ ڈھا دیتا ہے ۔ اور دوزخی اس کے خلاف کرتا ہے ، کفار جو عبادت کے لئے پیدا کئے گئے تھے ، انہوں نے عبادت ترک کردی تو ان کے لئے جو انعامات تھے وہ ان سے چھین کر سچے مومنوں کے حوالے کر دئیے گئے ۔ اسی لئے انہیں وارث کہا گیا ۔ صحیح مسلم میں ہے کچھ مسلمان پہاڑوں کے برابر گناہ لے کر آئیں گے ، جنہیں اللہ تعالیٰ یہود ونصاری پر ڈال دے گا اور انہیں بخش دے گا ۔ اور سند سے مروی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ایک ایک یہودی یا نصرانی دے گا کہ یہ تیرا فدیہ ہے ، جہنم سے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے جب یہ حدیث سنی تو راوی حدیث ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قسم دی انہوں نے تین مرتبہ قسم کھا کر حدیث کو دوہرا دیا ۔ اسی جیسی آیت یہ بھی ہے ( تِلْكَ الْجَــــنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا 63؁ ) 19-مريم:63 ) اسی جیسی آیت یہ بھی ( وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْٓ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 72؀ ) 43- الزخرف:72 ) فردوس رومی زبان میں باغ کو کہتے ہیں بعض سلف کہتے کہ اس باغ کو جس میں انگور کی بیلیں ہوں ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11فَلَاح کے لغوی معنی ہیں چیرنا، کاٹنا، کاشت کار کو فَلَاح کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیج بوتا ہے، شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کرلے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جائے۔ اس کے ساتھ دنیا کی سعادت و کامرانی بھی میسر آجائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ گو دنیا والے اس کے برعکس دنیاوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔ آیت میں ان مومنوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جن میں ذیل کی صفات ہوں گی۔ مثلًا اگلی آیات ملاحظہ ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] افلح (مادہ۔۔ ف ل ح) میں تین باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (١) پھاڑنا (٢) کامیابی اور (٣) بقا (مقائیس اللغۃ) اور فلاح بمعنی کسان جو بیج بونے کے لئے زمین کو پھاڑتا، فصل پکنے پر کامیابی سے ہمکنار ہونا اور اس سے فائدہ اٹھانے پر اپنی مراد پاتا ہے۔ گویا افلح کے معنی ایسا کامیاب ہونا ہے جو کسی کے اپنے عمل اور محنت کے نتیجہ میں ہو۔ - یہ سورت بالاتفاق مکی ہے اور اس دور میں نازل ہوئی جب مسلمانوں کے کامیابی ہونے کا تصور بھی محال تھا اور ان پر عرصہ حیات ہی تنگ کردیا گیا تھا اور اگر اسلام لانے سے پہلے کسی مسلمان کا کوئی کاروبار یا شغل تھا بھی تو اسلام لانے کے بعد وہ ختم ہوچکا تھا۔ دوسری طرف قریش مکہ تھے جن کے ہاں مال و دولت کی ریل پیل تھی۔ تجارت ان کے ہاتھ میں تھی اور صاحب اختیار و اقتدار تھے۔ کعبہ کے متولی ہونے کی بناء پر تمام قبائل عرب ان کی عزت بھی کرتے تے اور ان سے ڈرتے بھی تھے۔ ان حالات میں ایمانداروں کی کامیابی کا اعلان جہاں مسلمانوں کے لئے ایک بشارت تھی وہاں اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ایک دنیا دار انسان کے نزدیک کامیابی کا جو تصور اور معیار ہے وہ تصور ہی سرے سے غلط ہے۔ دنیوی اور اخروی کی کامیابی کے لئے جن صفات کا ہونا لازمی ہے۔ وہ وہی چھ صفات ہیں جن کا آئندہ آیات میں ذکر ہو رہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ : ” قَدْ “ حرف ” لَمَّا “ کی نقیض ہے۔ ” لَمَّا “ کا مفہوم یہ ہے کہ متوقع کام ماضی میں ابھی تک نہیں ہوا، جیسا کہ فرمایا : (كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ اَمَرَهٗ ) [ عبس : ٢٣ ] ” ہرگز نہیں، ابھی تک اس (انسان) نے وہ کام پورا نہیں کیا جس کا اس نے اسے حکم دیا تھا۔ “ جب کہ ” قَدْ “ ماضی کو حال کے قریب کردیتا ہے اور جملہ فعلیہ میں تاکید کا وہی فائدہ دیتا ہے جو جملہ اسمیہ میں ”إِنَّ “ اور ” لام تاکید “ دیتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کام کی توقع تھی وہ ماضی قریب میں یقیناً واقع ہوچکا ہے۔ یعنی آگے ذکر کردہ صفات والے مومن یقیناً فلاح پاچکے ہیں۔ مستقبل میں حاصل ہونے والی کامیابی کو یقینی ہونے کی وجہ سے ” قَدْ “ اور ماضی کے صیغہ ” اَفْلَحَ “ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ (بقاعی وابن عاشور)- ” قَدْ “ کے ساتھ تاکید کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بہت سی آیات میں ایمان والوں کو فلاح کی امید دلائی گئی تھی، جیسا کہ پچھلی سورت کے آخر میں فرمایا : (وَافْعَلُوا الْخَــيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) [ الحج : ٧٧ ] ” اور نیکی کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ “ تو اس توقع کے پورا کرنے کی خوش خبری ” قَدْ اَفْلَحَ “ کے ساتھ بیان فرمائی۔ شاید نماز کی اقامت ” قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ “ میں حرف ” قَدْ “ اسی وجہ سے ہے کہ نمازی شوق سے جماعت کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ ” قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ “ اسی انتظار کا اثبات میں جواب ہے، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا بِلَالُ أَقِمِ الصَّلَاۃَ أَرِحْنَا بِھَا ) [ أبو داوٗد، الأدب، باب في صلاۃ العتمۃ : ٤٩٨٥ ] ” بلال نماز کھڑی کرو، ہمیں اس کے ساتھ راحت دلاؤ۔ “ (ابن عاشور)- اَفْلَحَ : ” اَلْفَلَحُ “ لام کے فتحہ کے ساتھ اور ” اَلْفَلَاحُ “ کا معنی بھلائی کے کام میں کامیابی ہے اور ” اَلْفَلْحُ “ لام کے سکون کے ساتھ ” پھاڑنا۔ “ دونوں باب ” مَنَعَ “ سے آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : ” اَلْحَدِیْدُ بالْحَدِیْدِ یُفْلَحُ “ ” لوہا، لوہے کے ساتھ کاٹا جاتا ہے۔ “ کسان کو اسی لیے ” اَلْفَلَّاحُ “ کہتے ہیں کہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے۔ گویا فلاح وہ کامیابی ہے جو محنت و مشقت کے نتیجے میں حاصل ہو۔ کامیابی دنیا کی بھی ہے اور آخرت کی بھی۔ - ” قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ “ میں یہ بتایا ہے کہ بعد میں ذکر کردہ صفات والے مومن یقیناً کامیاب ہوگئے، مگر یہ نہیں بتایا کہ کس چیز میں کامیاب ہوگئے۔ یہ بات ان آیات کے آخر میں بیان فرمائی ہے، فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ 10 ۝ ۙالَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ) [ المؤمنون : ١٠، ١١ ] ” یہی لوگ ہیں جو وارث ہیں۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے۔ “ یعنی کامیابی سے مراد آخرت کی کامیابی ہے، کیونکہ حقیقی زندگی وہی ہے، فرمایا : (وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ) [ العنکبوت : ٦٤ ] ” اور بیشک آخری گھر، یقیناً وہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔ “ دنیا کی زندگی نہ حقیقی زندگی ہے اور نہ اس کی کامیابی حقیقی کامیابی، فرمایا : (فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ) [ آل عمران : ١٨٥ ] ” پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔ “- 3 کامیاب ہونے والوں کے اوصاف میں سب سے پہلے ایمان کا ذکر فرمایا، کیونکہ ایمان ہی کامیابی کا اصل سبب ہے، پھر بعد کی آیات میں اہل ایمان کی چند مزید صفات بیان فرمائیں جو ایمان کے درست اور پختہ ہونے کی دلیل ہیں اور جن کے بغیر ایمان بےمعنی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سورة مومنون مکہ میں اتری اور اس کی ایک سو اٹھارہ آیتیں ہیں اور چھ رکوع - فضائل و خصوصیات سورة مومنون :- مسند احمد میں حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب کی روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو پاس والوں کے کان میں ایسی آواز ہوتی جیسے شہد کی مکھیوں کی آواز ہوتی ہے۔ ایک روز آپ کے قریب ایسی ہی آواز سنی گئی تو ہم ٹھہر گئے کہ تازہ آئی ہوئی وحی سن لیں۔ جب وحی کی خاص کیفیت سے فراغت ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبلہ رخ ہو کر بیٹھ گئے اور یہ دعا کرنے لگے اللھم زدنا ولا تنقصنا و اکرمنا ولاتھنا واعطنا ولا تحرمنا واثرنا ولا توثر علینا وارض عنا و ارضنا (یعنی یا اللہ ہمیں زیادہ دے کم نہ کر اور ہماری عزت بڑھا ذلیل نہ کر اور ہم پر بخشش فرما، محروم نہ کر اور ہمیں دوسروں پر ترجیح دے ہم پر دوسروں کو ترجیح نہ دے اور ہم سے راضی ہو اور ہمیں بھی اپنی رضا سے راضی کر دے) اس کے بعد فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس آیتیں ایسی نازل ہوئی ہیں کہ جو شخص ان پر پورا پورا عمل کرے تو وہ (سیدھا) جنت میں جائے گا۔ پھر یہ دس آیتیں جو اوپر لکھی گئی ہیں پڑھ کر سنائی۔ (ابن کثیر)- اور نسائی نے کتاب التفسیر میں یزید بن بابنوس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے سوال کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق کیسا اور کیا تھا، انہوں نے فرمایا آپ کا خلق یعنی طبعی عادت وہ تھی جو قرآن میں ہے اس کے بعد یہ دس آیتیں تلاوت کر کے فرمایا کہ بس یہی خلق و عادت تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ (ابن کثیر) - خلاصہ تفسیر - بالتحقیق ان مسلمانوں نے (آخرت میں) فلاح پائی جو (تصحیح عقائد کے ساتھ صفات ذیل کے ساتھ بھی موصوف ہیں یعنی وہ) اپنی نماز میں (خواہ فرض ہو یا غیر فرض) خشوع کرنے والے ہیں اور جو لغو (یعنی فضول) باتوں سے (خواہ قولی ہوں یا فعلی) برکنار رہنے والے ہیں اور جو (اعمال و اخلاق میں) اپنا تزکیہ کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی (حرام شہوت رانی سے) حفاظت رکھنے والے ہیں لیکن اپنی بیبیوں سے یا اپنی (شرعی) لونڈیوں سے (حفاظت نہیں کرتے) کیونکہ ان پر (اس میں) کوئی الزام نہیں۔ ہاں جو اس کے علاوہ (اور جگہ شہوت رانی کا) طلبگار ہو ایسے لوگ حد (شرعی) سے نکلنے والے ہیں اور جو اپنی (سپردگی میں لی ہوئی) امانتوں اور اپنے عہد کا (جو کسی عقد کے ضمن میں کیا ہو یا ویسے ہی ابتداءً کیا ہو) خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی (فرض) نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں جو فردوس (بریں) کے وارث ہوں گے (اور) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔- معارف و مسائل - فلاح کیا چیز ہے اور کہاں اور کیسے ملتی ہے :- قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤ ْمِنُوْنَ ، لفظ فلاح قرآن و سنت میں بکثرت استعمال ہوا ہے اذان و اقامت میں پانچ وقت ہر مسلمان کو فلاح کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ فلاح کے معنے یہ ہیں کہ ہر مراد حاصل ہو اور ہر تکلیف دور ہو (قاموس) یہ لفظ جتنا مختصر ہے اتنا ہی جامع ایسا ہے کہ کوئی انسان اس سے زیادہ کسی چیز کی خواہش کر ہی نہیں سکتا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ مکمل فلاح کہ ایک مراد بھی ایسی نہ رہے جو پوری نہ ہو اور ایک بھی تکلیف ایسی نہ رہے جو دور نہ ہو، یہ دنیا میں کسی بڑے سے بڑے انسان کے بس میں نہیں چاہے دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہفت اقلیم ہو یا سب سے بڑا رسول اور پیغمبر ہو۔ اس دنیا میں کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ کوئی چیز خلاف طبع پیش نہ آئے اور جو خواہش جس وقت دل میں پیدا ہو بلا تاخیر پوری ہوجائے۔ اگر اور بھی کچھ نہیں تو ہر نعمت کے لئے زوال اور فنا کا کھٹکا اور ہر تکلیف کے واقع ہوجانے کا خطرہ، اس سے کون خالی ہوسکتا ہے ؟- اس سے معلوم ہوا کہ فلاح کامل تو ایسی چیز ہے جو اس ملک دنیا میں دستیاب ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ دنیا تو دار التکلیف و المحنت بھی ہے اور اس کی کسی چیز کو بقاء وقرار بھی نہیں۔ یہ متاع گرانمایہ ایک دوسرے عالم میں ملتی ہے جس کا نام جنت ہے۔ وہ ہی ایسا ملک ہے جس میں انسان کی ہر مراد ہر وقت بلا انتظار حاصل ہوگی وَّلَهُمْ مَّا يَدَّعُوْنَ (یعنی ان کو ملے گی ہر وہ چیز جو وہ چاہیں گے) اور وہاں کسی ادنیٰ رنج و تکلیف کا گزر نہ ہوگا اور ہر شخص یہ کہتا ہوا وہاں داخل ہوگا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۭ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُ ، الَّذِيْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖ یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم دور کردیا بلاشبہ ہمارا رب معاف کرنے والا قدر دان ہے جس نے ہمیں اپنے فضل سے ایک مقام میں پہنچا دیا جس کی ہر چیز قائم و دائم ہے اس آیت میں یہ بھی اشارہ موجود ہے کہ دار دنیا میں کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جس کو کبھی کوئی رنج و غم نہ پہنچا ہو۔ اس لئے جنت میں قدم رکھتے ہوئے ہر شخص یہ کہے گا کہ اب ہمارا غم دور ہوا۔ قرآن کریم نے سورة اعلیٰ میں جہاں فلاح حاصل کرنے کا یہ نسخہ بتلایا کہ اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى اس کے ساتھ ہی یہ بھی اشارہ فرمایا کہ کامل فلاح کی جگہ اصل میں آخرت ہے صرف دنیا سے دل لگانا طالب فلاح کا کام نہیں۔ فرمایا بَلْ تُـؤ ْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا، وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى، یعنی تم لوگ دنیا ہی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر بھی ہے کہ اسی میں ہر مراد حاصل اور ہر تکلیف دور ہو سکتی ہے اور وہ باقی رہنے والی بھی ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ کامل و مکمل فلاح تو صرف جنت ہی میں مل سکتی ہے دنیا اس کی جگہ ہی نہیں۔ البتہ اکثری حالات کے اعتبار سے فلاح یعنی بامراد ہونا اور تکلیفوں سے نجات پانا یہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتے ہیں۔ آیات مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے فلاح پانے کا وعدہ ان مومنین سے کیا ہے جن میں وہ سات صفات موجود ہوں جن کا ذکر ان آیات کے اندر آیا ہے۔ یہ فلاح عام اور شامل ہے جس میں آخرت کی کامل مکمل فلاح بھی داخل ہے اور دنیا میں جس قدر فلاح حاصل ہونا ممکن ہے وہ بھی۔- یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ صفات مذکور کے حامل مومنین کو آخرت کی کامل فلاح ملنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن دنیا میں فلاح تو بظاہر کفار فجار کا حصہ بنی ہوئی ہے اور ہر زمانے کے انبیاء اور ان کے بعد صلحا امت عموماً تکلیفوں میں مبتلا رہے ہیں۔ مگر جواب اس کا ظاہر ہے کہ دنیا میں مکمل فلاح کا تو وعدہ نہیں کہ کوئی تکلیف پیش ہی نہ آوے بلکہ کچھ نہ کچھ تکلیف تو یہاں پر صالح و متقی کو بھی اور ہر کافر فاجر کو بھی پیش آنا ناگزیر ہے اور یہی حال حصول مراد کا ہے کہ کچھ نہ کچھ یہ مقصد بھی ہر انسان کو خواہ وہ صالح و متقی ہو خواہ کافر و بدکار ہو حاصل ہوتا ہی ہے۔ پھر ان دونوں میں فلاح پانے والا کس کو کہا جائے تو اس کا اعتبار عواقب اور انجام پر ہے۔- دنیا کا تجربہ اور مشاہدہ شاہد ہے کہ جو اہل صلاح ان سات اوصاف کے حامل اور ان سے متصف اور ان پر قائم ہیں گو دنیا میں وقتی تکلیف ان کو بھی پیش آجائے مگر انجام کار ان کی تکلیف جلد دور ہوتی ہے اور مراد حاصل ہوجاتی ہے ساری دنیا ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور دنیا میں نیک نام انہی کا باقی رہتا ہے۔ جتنا دنیا کے حالات کا غور و انصاف سے مطالعہ کیا جائے گا ہر دور ہر زمانے ہر خطہ میں اس کی شہادتیں ملتی چلی جائیں گی۔- مومن کامل کے وہ سات اوصاف جن پر آیات مذکورہ میں فلاح دنیا و آخرت کا وعدہ ہے : - سب سے پہلا وصف تو مومن ہونا ہے مگر وہ ایک بنیادی چیز اور اصل الاصول ہے اس کو الگ کر کے سات اوصاف جو یہاں بیان کئے گئے ہیں یہ ہیں۔- اول نماز میں خشوع، خشوع کے لغوی معنے سکون کے ہیں اصطلاح شرع میں خشوع یہ ہے کہ قلب میں بھی سکون ہو۔ یعنی غیر اللہ کے خیال کو قلب میں بالقصد حاضر نہ کرے اور اعضاء بدن میں بھی سکون ہو کہ عبث اور فضول حرکتیں نہ کرے (بیان القرآن) خصوصاً وہ حرکتیں جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں منع فرمایا ہے اور فقہاء نے ان کو مکروہات نماز کے عنوان سے جمع کردیا ہے۔ تفسیر مظہری میں خشوع کی یہی تعریف حضرت عمرو بن دینار سے نقل کی ہے اور دوسرے بزرگوں سے جو خشوع کی تعریف میں مختلف چیزیں نقل کی گئی ہیں وہ دراصل اسی سکون قلب وجوارح کی تفصیلات ہیں۔ مثلاً حضرت مجاہد نے فرمایا کہ نظر اور آواز کو پست رکھنے کا نام خشوع ہے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ دائیں بائیں التفات یعنی گوشتہ چشم سے دیکھنے سے بچنا خشوع ہے۔ حضرت عطاء نے فرمایا کہ بدن کے کسی حصہ سے کھیل نہ کرنا خشوع ہے۔ حدیث میں حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نماز کے وقت اپنے بندے کی طرف برابر متوجہ رہتا ہے جب تک وہ دوسری طرف التفات نہ کرے جب دوسری طرف التفات کرتا ہے یعنی گوشہ چشم سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے رخ پھیر لیتے ہیں۔ (رواہ احمد والنسائی و ابو داؤد وغیرہم۔ مظہری) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت انس کو حکم دیا کہ اپنی نگاہ اس جگہ رکھو جس جگہ سجدہ کرتے ہو اور یہ کہ نماز میں دائیں بائیں التفات نہ کرو (رواہ البیہقی فی السنن الکبریٰ و مظہری)- اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا ہے تو فرمایا لو خشع قلب ھذا الخشعت جوارحہ (رواہ الحاکم والترمذی بسند ضعیف) یعنی اگر اس شخص کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی سکون ہوتا۔ (مظہری)- نماز میں خشوع کی ضرورت کا درجہ :- امام غزالی و قرطبی اور بعض دوسرے حضرات نے فرمایا کہ نماز میں خشوع فرض ہے اگر پوری نماز خشوع کے بغیر گزر جائے تو نماز ادا ہی نہ ہوگی۔ دوسرے حضرات نے فرمایا کہ اس میں شبہ نہیں کہ خشوع روح نماز ہے اس کے بغیر نماز بےجان ہے مگر اس کو رکن نماز کی حیثیت سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خشوع نہ ہوا تو نماز ہی نہ ہوئی اور اس کا اعادہ فرض قرار دیا جائے۔- حضرت سیدی حکیم الامة نے بیان القرآن میں فرمایا کہ خشوع صحت نماز کیلئے موقوف علیہ تو نہیں اور اس درجہ میں وہ فرض نہیں مگر قبول نماز کا موقوف علیہ اور اس مرتبہ میں فرض ہے حدیث میں طبرانی نے معجم کبیر میں بسند حسن حضرت ابوالدرداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو چیز اس امت سے اٹھ جائے گی یعنی سلب ہوجائے گی وہ خشوع ہے یہاں تک کہ قوم میں کوئی خاشع نظر نہ آئے گا۔ کذا فی مجمع الزوائد (بیان)- مومن کامل کا دوسرا وصف، لغو سے پرہیز کرنا ہے والَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ لغو کے معنے فضول کلام یا کام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو۔ لغو کا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ ہے جس میں فائدہ دینی نہ ہونے کے ساتھ دینی ضرر و نقصان ہے اس سے پرہیز واجب ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو نہ مضر، اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من حسن اسلام المرا ترکہ مالا یعنیہ یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہوسکتا ہے جبکہ وہ بےفائدہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ اسی لئے آیت میں اس کو مومن کامل کی خاص صفت قرار دیا ہے۔- تیسرا وصف، زکوٰة ہے لفظ زکوٰة کے معنے لغت میں پاک کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں شرح مال کا ایک خاص حصہ کچھ شرائط کے ساتھ صدقہ کرنے کو زکوٰة کہا جاتا ہے اور قرآن کریم میں عام طور پر یہ لفظ اسی اصطلاحی معنے میں استعمال ہوا ہے۔ اس آیت میں یہ معنے بھی مراد ہو سکتے ہیں اور اس پر جو شبہ کیا جاتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے مکہ میں زکوٰة فرض نہ ہوئی تھی ہجرت مدینہ کے بعد فرض ہوئی، اس کا جواب ابن کثیر وغیرہ مفسرین کی طرف سے یہ ہے کہ زکوٰة کی فرضیت مکہ ہی میں ہوچکی تھی سورة مزمل جو بالاتفاق مکی ہے اس میں بھی اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ کے ساتھ اٰتُوا الزَّكٰوةَ کا ذکر موجود ہے مگر سرکاری طور پر اس کے وصول کرنے کا عام انتظام اور نصابات وغیرہ کی تفصیلات مدینہ طیبہ جانے کے بعد جاری ہوئیں۔ جن لوگوں نے زکوٰة کو مدنی احکام میں شمار کیا ہے ان کا یہی منشاء ہے۔ اور جن حضرات نے فرضیت زکوٰة کو مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد حکم قرار دیا ہے انہوں نے اس جگہ زکوٰة کا مضمون عام لغوی معنی میں اپنے نفس کو پاک کرنا قرار دیا ہے خلاصہ تفسیر میں بھی یہی لیا گیا ہے اس معنے کا قرینہ اس آیت میں یہ بھی ہے کہ عام طور پر قرآن کریم میں جہاں زکوٰة فرض کا ذکر آیا ہے تو اس کو (آیت) ایتاء الزکوٰة یوتون الزکوٰة اور اتوا الزکوة کے عنوان سے بیان کیا گیا، یہاں عنوان بدل کر للزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ فرمایا اس کا قرینہ ہے کہ یہاں زکوٰة کے وہ اصطلاحی معنے مراد نہیں اس کے علاوہ فاعلون کا بےتکلف تعلق فعل سے ہوتا ہے اور زکوٰة اصطلاحی فعل نہیں بلکہ ایک حصہ مال ہے اس حصہ مال کیلئے فاعلون کہنا بغیر تاویل کے نہیں ہو سکتا۔ اگر آیت میں زکوٰة کے معنی اصطلاحی زکوٰة کے لئے جاویں تو اس کا فرض ہونا اور مومن کے لئے لازم ہونا کھلا ہوا معاملہ ہے اور اگر مراد زکوٰة سے تزکیہ نفس ہے یعنی اپنے نفس کو رذائل سے پاک کرنا تو وہ بھی فرض ہی ہے کیونکہ شرک، ریا، تکبر، حسد، بغض، حرص، بخل جن سے نفس کو پاک کرنا تزکیہ کہلاتا ہے یہ سب چیزیں حرام اور گناہ کبیرہ ہیں۔ نفس کو ان سے پاک کرنا فرض ہے۔- چوتھا وصف، شرمگاہوں کی حفاظت حرام سے والَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ ، اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ ، یعنی وہ لوگ جو اپنی بیویوں اور شرعی لونڈیوں کے علاوہ سب سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ان دونوں کے ساتھ شرعی ضابطہ کے مطابق شہوت نفس پوری کرنے کے علاوہ اور کسی سے کسی ناجائز طریقہ پر شہوت رانی میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اس آیت کے ختم پر ارشاد فرمایا فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ ، یعنی شرعی قاعدے کے مطابق اپنی بیوی یا لونڈی سے شہوت نفس کو تسکین دینے والوں پر کوئی ملامت نہیں اس میں اشارہ ہے کہ اس ضرورت کو ضرورت کے درجہ میں رکھنا ہے مقصد زندگی بنانا نہیں۔ اس کا درجہ اتنا ہی ہے کہ جو ایسا کرے وہ قابل ملامت نہیں واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۝ ١ۙ- فلح - الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، - ( ف ل ح ) الفلاح - کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ - أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نماز میں خشوع وخضوع - قول باری ہے (قد افلح المومنون الذین ھم فی صلوتھم خاشعون) یقینافلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں) ابن عون نے محمد بن سیرین سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز پڑھتے تو اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھاتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سرجھکا لیا۔ ہشام نے مجھ سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔ ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی نگاہ اس کی سجدے کی جگہ سے آگے نہ جائے۔ ایک جماعت سے مروی ہے کہ نماز میں خشوع سے مراد یہ ہے کہ نگاہ سجدے کی جگہ سے آگے نہ جائے۔ ابراہیم، مجاہد اور زہری سے مروی ہے کہ خشوع کے معنی سکون کے ہیں۔ المسعودی نے ابوسنان سے اور انہوں نے اپنے ایک آدمی سے روایت کی ہے کہ حضرت علی سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی۔ آپ نے فرمایا۔ خشوع کا تعلق دل سے ہے نیز یہ کہ تم مسلمان شخص کے لئے اپنا کندھا نرم رکھا اور نماز میں دائیں بائیں نہ دیکھو۔ “ حسن کا قول ہے کہ خاشعون بمعنی خائفون ہے یعنی ڈرنے والے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ خشوع کا لفظ ان تمام معانی کو شامل ہے یعنی نماز میں سکون اختیار کرنا، عاجزی کا اظہار کرنا۔ دائیں بائیں نہ یدکھنا ، حرکت نہ کرنا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ ارشاد منقول ہے (اسکنوا فی الصلوۃ و کفوا ایدیکم فی الصلوۃ نماز میں سکون اختیار کرو اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو) نیز فرمایا (امرت ان اسجد علی سبعۃ اعضاء وان لااکف شعرا ولا ثوباً مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سات اعضاء کے بل سجدوں کروں، اور بالوں اور کپڑے کو نہ سمیٹوں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں کنکریوں کو ہاتھ لگانے سے منع فرمایا ہے۔- آپ کا ارشاد ہے (اذا قام الرجل یصلی فان الرحمۃ تواجھہ فاذا التفت انصوفت عنہ، جب ایک شخص کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے ۔ جب وہ دائیں بائیں دیکھتا ہے تو رحمت منہ موڑ کر چلی جاتی ہے) زہری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں نگاہ اٹھاتے تھے لیکن دائیں بائیں نہیں دیکھتے تھے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابوء دائود نے، انہیں ابو توبہ نے ، انہیں معاویہ بن سلام نے زید بن سلام سے کہ انہوں نے ابو سلام کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ مجھے السلولی نے روایت بیان کی، اور انہیں سہل بن الحنظلیہ نے کہ صحابہ کرام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ حنین کی طرف روانہ ہوگئے۔ سہل نے سلسلہ حدیث جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے پوچھا۔” آج رات پہرہ دینے کے فرائض کون سر انجام دے گا ؟ “ حضرت انس بن ابی مرثد الغنوی نے عرض کیا۔” میں سرانجام دوں گا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔” پھر گھوڑے پر سوار ہو جائو۔ “ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا۔” اس گھاٹی کی طرف چلے جائو یہاں تک کہ اس کی بلندی پر پہنچ جائو اور ہو شیار رہنا کہ کہیں رات کی وجہ سے دھوکا نہ جائو۔ “ جب صبح ہوئی تو حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز گاہ کی طرف چل پڑے اور وہاں پہنچ کر دو رکعت نماز ادا کی پھر فرمایا ” کیا تم نے اپنے سوار کی موجودگی کو محسوس کیا ؟ “ صحابہ نے نفی میں جواب دیا۔ اس کے بعد جماعت کے لئے صفیں درست ہوئیں اور اقامت کہی گئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے دوران گھاٹی کی طرف بار بار دیکھتے رہے یہاں تک کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا تو فرمایا۔ تمہیں بشارت ہو، تمہارا سوار آگیا ہے۔ “ اس روایت میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے اندر بار بار گھاٹی کی طرف دیکھتے رہے۔ ہمارے نزدیک یہ بات دو وجوہ سے عذر پر محمول ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ کو اس گھاٹی کی طرف سے دشمن کے اچانک حملے کا خطرہ تھا اور دوسری یہ کہ آپ سوار کے متعقل فکر مند تھے جب تک کہ اس کی آمد نہ ہوگئی۔- ابراہیم نخعی کے متعلق مروی ہے کہ وہ نماز میں دزدیدہ نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا کرتے تھے۔ حماد بن سلمہ نے حمید سے انہوں نے معاویہ بن قرہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عمر سے استفسار کیا گیا کہ عبداللہ بن الزبیر نماز میں فلاں فلاں حرکت نہیں کرت ییعنی دائیں بائیں نہیں دیکھتے یہ سن کر حضرت ابن عمر نے فرمایا۔” لیکن ہم تو کرتے ہیں اور ہم لوگوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں۔ “ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ نماز میں دائیں بائیں التفات نہیں کرتے تھے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ جس التفات سے روکا گیا ہے یہ وہ التفات ہے جس میں نمازی اپنا چہرہ دائیں یا بائیں موڑ لے۔ لیکن اگر آنکھوں کے کناروں سے دائیں بائیں دیکھ لے تو اس کی ممانعت نہیں ہے۔ سفیان نے اعمش سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ زمین پر پڑا ہوا کپڑا ہے۔ ابومجلز نے ابو عبیدہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنی آواز پست رکھتے، اپنا جسم اور اپنی نظریں جھکائے رکھتے۔ علی بن صالح نے زبیر الیامی کے متعلق روایت کی ہے کہ جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ گویا لکڑی ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) بیشک ان مومنوں نے کامیابی اور نجات پائی اور ان موحدین نے توحید خداوندی کی وجہ سے مقام سعادت کو حاصل کرلیا اور یہی لوگ جنت کے وارث ہوں گے کافر جنت کے وارث نہیں ہوں گے یا یہ کہ ان مومنوں نے جو ایمان کے ذریعے تصدیق خدا وندی کرنے والے ہیں، فلاح اور کامیابی پائی اور فلاح کی دو قسمیں ہیں ایک کامیابی اور دوسرے اس کامیابی کی بقاء اور دوام (اور یہ دونوں اہل ایمان کو حاصل ہوں گی) اب اللہ تعالیٰ ان مومنین کے اوصاف بیان فرما رہے ہیں کہ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں، دائیں بائیں التفات نہیں کرتے اور تکبیر تحریمہ کے بعد نماز میں اپنے ہاتھ نہیں اٹھاتے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ الذین ھم فی صلاتھم خشعون “۔ (الخ)- امام حاکم (رح) نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس وقت نماز پڑھتے تو اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھاتے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی یعنی جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں، اس کے نزول کے بعد سے آپ نے اپنا سر مبارک جھکا لیا اور اسی روایت کو ابن مردویہ (رح) نے انھیں الفاظ میں روایت کیا ہے کہ آپ اپنی نماز میں التفات فرماتے تھے اور سعید بن منصور (رح) نے ابن سیرین سے اسی کو بایں طور روایت کیا ہے کہ آپ اپنی نظر گھمایا کرتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن سیرین سے مرسلا روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) حالت نماز میں اپنی نگاہوں کو آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے تب یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ) ” - اس آیت کا یہ ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا ہے۔ مگر خود حضرت شیخ الہند (رح) کا کہنا ہے کہ انہوں نے ” موضح القرآن “ میں شاہ عبدالقاد ردہلوی کا ترجمہ ہی اختیار کیا ہے اور اس میں کہیں کہیں زبان کی تبدیلیوں کے علاوہ کوئی اور تبدیلی نہیں کی۔ گویا بنیادی طور پر یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) کا ہے اور میرے نزدیک لفظ فلح کی اصل روح کے قریب ترین ہے۔ ” فَلَاح “ کا ترجمہ بالعموم ” کامیابی “ سے کیا جاتا ہے ‘ لیکن اس کے مفہوم کو درست انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ لفظ ” فلاح “ کے حقیقی اور لغوی معنی کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔ اس مادہ کے لغوی معنی ہیں : ” پھاڑنا “۔ اسی معنی میں کسان کو عربی میں ” فلّاح “ کہا جاتا ہے ‘ اس لیے کہ وہ اپنے ہل کی نوک سے زمین کو پھاڑتا ہے۔ عربی کی ایک کہاوت ہے : اِنَّ الحَدِید بالحَدِید یفلَحُ یعنی لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ اس طرح فَلَح کا مفہوم گویا فلقَ کے قریب تر ہے۔ سورة الانعام کی آیت ٩٥ میں لفظ ” فلق “ اسی مفہوم میں آیا ہے : (اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ط) ” یقیناً اللہ تعالیٰ گٹھلیوں اور بیجوں کو پھاڑنے والا ہے “۔ اس سے اگلی آیت میں یہی لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے نمود صبح کے حوالے سے اس طرح استعمال ہوا ہے : (فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ج) یعنی وہ تاریکی کا پردہ چاک کر کے صبح کو نمودار کرنے والا ہے۔ چونکہ فلح اور فلق دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں اور دونوں کے معنی پھاڑنا ہے اس لیے آیت زیر نظر میں فلح کا مفہوم سمجھنے کے لیے (فٰلِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی) کے حوالے سے گٹھلی کے پھٹنے اور اس کے اندر سے کو نپلیں برآمد ہونے کے عمل کو ذہن میں رکھیں۔ جس طرح گٹھلی کے اندر پورا پودا بالقوہّ ( ) موجود ہے ‘ اسی طرح انسان کے اندر بھی اس کی انا یا روح اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ موجود ہے۔ اور جس طرح گٹھلی کے پھٹنے (فلق) سے دو کو نپلیں برآمد ہوتی ہیں اور پھر ان سے پورا درخت بنتا ہے اسی طرح جب انسانی وجود کے اندر موجود مادیت کے پردے چاک (فلح) ہوتے ہیں تو اس کی انا یا روح بےنقاب ہوتی ہے اور اس کی نشوونما سے اس کی معنوی شخصیت ترقی پاتی ہے۔ انسان کی اسی انا یا روح کو اقبال نے خودی کا نام دیا ہے اور اس کو اجاگر ( ) کرنے کے تصور پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے خصوصی طور پر آئیڈیل یا آدرش کے فلسفہ کے حوالے سے (اس ضمن میں گزشتہ صفحات میں سورة الحج کی آیت ٧٣ کی تشریح بھی مدنظر رہے) اپنی معرکۃ الآراء کتاب میں اقبال کے فلسفہ خودی کی بہترین تعبیر کی ‘ ہے۔- انسان بظاہر ایک مادی وجود کا نام ہے۔ اس وجود میں ہڈیاں ہیں ‘ گوشت ہے اور دیگر اعضاء ہیں۔ لیکن اس مادی وجود کے اندر اس کی انا اور روح بھی ہے جو اس کی اصل شخصیت ہے۔ انسان کہتا ہے میرا ہاتھ ‘ میرا پاؤں ‘ میری آنکھ ‘ میری ٹانگ ‘ میرا سر ‘ میرا جسم لیکن اس ” میرا “ اور ” میری “ کی تکرار میں ” میں “ کہاں ہے اور کون ہے ؟ یہ ” میں “ دراصل انسان کی انایا روح ہے۔ یعنی انسان کو حیوانوں کے مقابلے میں صرف عقل و شعور کی دولت سے ہی نہیں نوازا گیا بلکہ اسے روح ربانی کی نورانیت بھی عطا کی گئی ہے۔ بقول علامہ اقبال ؂- دم چیست ؟ پیام است شنیدی نشنیدی ؟- در خاک تو یک جلوۂ عام است ندیدی ؟- دیدن دگر آموز شنیدن دگر آموز - انسانی جسم کے اندر اس کی روح مادی غلافوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ گویا یہ ایک مخفی خزانہ ہے جسے کھود کر نکالنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس خزانے کو کام میں لانا ہے تو ” فلّاحی “ کے عمل سے مادیت کے پردوں کو چاک کرنا ہوگا اور آیت زیر نظر میں قَدْ اَفْلَحَ کے الفاظ اسی مفہوم میں آئے ہیں کہ مؤمنین صادقین نے اپنی روحوں پر پڑے ہوئے مادیت کے پردوں کو چاک کر کے اصل خزانے یعنی روح کو بےنقاب کرنے اور اس کی نشوونما ( ) کرنے کا مشکل کام کر دکھایا ہے۔ جبکہ عام انسان کی تمام تر توجہ اپنے حیوانی وجود پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ نہ وہ اپنی روح کی خبر لیتا ہے اور نہ ہی اس کی غذا اور نشوونما کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے انسان کی روح سسک سسک کر مرجاتی ہے اور اس کا جسم اس کی روح کا مقبرہ بن جاتا ہے۔ بظاہر ایسے شخص کا شمار زندہ انسانوں میں ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ مردہ ہوتا ہے۔ مثلاً ابوجہل زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ تھا۔ وہ اندھا اور بہرا تھا ‘ اسی لیے نہ تو وہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچان سکا اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو سن سکا۔ اس کے برعکس ایک بندۂ مؤمن ہے جو حقیقت میں زندہ ہے ‘ اس لیے کہ اس کی روح زندہ ہے۔ جیسے کہ سورة النحل کی آیت ٩٧ میں ارشاد ہوا : (فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ج) ” تو ہم ضرور اسے عطا کریں گے ایک پاکیزہ زندگی “۔ چناچہ جو شخص بھی اپنی خودی کے ارتقاء ( ) اور اپنے کردار کی تعمیر ( ) کا مشکل کارنامہ سرانجام دے پائے گا وہی حقیقت میں کامیاب قرار پائے گا اور وہی آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے قَدْ اَفْلَحَ کا مصداق ٹھہرے گا۔ اور یہ کامیابی ہر انسان کی پہنچ میں ہے ‘ کیونکہ روح کی دولت تو ہر انسان کو عطا ہوئی ہے۔ ہندی شاعر بھیکؔ کے بقول : ع ” بھیکاؔ بھوکا کوئی نہیں ‘ سب کی گدڑی لال “ یعنی بھوکا یا نادار کوئی بھی نہیں ہے ‘ ہر انسان کی گٹھڑی میں لعل موجود ہے ‘ بس اس گٹھڑی کی گرہ کھول کر اس ” لعل “ یا دولت کو دریافت کرنے اور اسے کام میں لانے کا فن اسے آنا چاہیے۔ یہی نکتہ اس خوبصورت فارسی شعر میں ایک دوسرے انداز میں پیش کیا گیا ہے : ؂ - ستم است گر ہو ست کشد کہ بہ سیرسرو وسمن درآ - تو زغنچہ کم نہ دمیدۂ درِدل کشا بہ چمن در آ - یعنی تمہارے اندر بھی ایک مہکتا ہوا چمن موجود ہے ‘ تم اپنے دل کے دروازے سے داخل ہو کر اس چمن کی سیر سے لطف اندوز ہوسکتے ہو۔ - اسی حقیقت کو قرآن حکیم میں اس طرح واضح کیا گیا ہے : (وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ) (الذّٰرٰیت) یعنی خود تمہارے اندرمعرفت کا سامان موجود ہے مگر تم لوگ اس سے غافل ہو۔ اپنشد کے ایک جملے کا انگریزی ترجمہ اس طرح ہے :- " . "- یعنی انسان اپنی جہالت کے باعث ان مادی غلافوں ہی کو اپنی ذات سمجھ بیٹھتا ہے جو اس کی ذات (انا یا روح) کے گرداگرد لپٹے ہوئے ہیں۔ اور یوں وہ نہ خود کو پہچان پاتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت اسے حاصل ہوتی ہے۔ چناچہ اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات کی معرفت ضروری ہے ‘ جیسے کہ صوفیاء کا قول ہے : مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ” جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا “۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اپنی ” انا “ ( ) سے غافل رہا وہ معرفت الٰہی سے بھی محروم رہا۔ یہی نکتہ ہے جو سورة الحشر کی آیت ١٩ میں اس طرح واضح فرمایا گیا ہے : (وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْ ط) ” ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا “۔ چناچہ لفظ فلحکا یہ مفہوم ذہن میں رکھ کر اس آیت کو پڑھیں تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ اپنی شخصیت اور ذات کے مادی غلافوں کو پھاڑ کر اپنی معنوی شخصیت اور روح کو اجاگر کرنے اور اس کے ذریعے سے عرفان ذات اور پھر معرفتِ الٰہی تک پہنچنے جیسے مشکل مراحل ‘ اہل ایمان کامیابی سے طے کرلیتے ہیں۔ اور وہ کون سے اہل ایمان ہیں :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :1 ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرلی آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا ، اور اس طریق زندگی کی پیروی پر راضی ہو گئے جسے آپ نے پیش کیا ہے ۔ فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی ۔ یہ لفظ خسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا ، اپنی مراد کو پہنچا ، آسودہ و خوشحال ہو گیا ، اس کی کو شش بار آور ہوئی ۔ اس کی حالت اچھی ہو گئی ۔ قَدْ اَفْلَحَ یقیناً فلاح پائی آغاز کلام ان الفاظ سے کرنے کی معنویت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی ۔ اس وقت ایک طرف دعوت اسلامی کے مخالف سرداران مکہ تھے جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں ، جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی ، جن کو دنیوی خوشحالی کے سارے لوازم میسر تھے ۔ اور دوسری طرف دعوت اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے ، اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے ، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بد حال کر دیا تھا ۔ اس صورت حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے ، تمہارے اندازے غلط ہیں ، تمہاری نگاہ دور رس نہیں ہے ، تم اپنی جس عارضی و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و با مراد ہیں ۔ اس دعوت حق کو مان کر انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی ۔ اور اسے رد کر کے دراصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے برے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے ۔ یہ اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani