2 1خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔ اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔
[٢] خَشَعَ کے معنی ایسی عاجزی ہے جو دل میں ڈر اور ہیبت طاری ہونے کی وجہ سے ہو۔ پھر اس ڈر اور عاجزی کے اثرات اعضا وجوارح ہے پر بھی ظاہر ہونے لگیں۔ آنکھیں مرعوب ہو کر جھک جائیں اور آواز پست ہوجائے چناچہ ایسے مقامات پر بھی قرآن نے یہی لفظ استعمال فرمایا ہے، پھر اسی خشوع کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ انسان نماز میں باادب کھڑا ہو۔ ادھر ادھر نہ دیکھے، نہ اپنے کپڑوں کو سنوارتا رہے نہ اپنی داڑھی وغیرہ سے کھیلتا رہے۔ اور نہ دل میں نماز پر توجہ کے علاوہ دوسرے خیالات آنے دے۔ اور خیالات آنے بھی لگیں تو فوراً ادھر سے توجہ ہٹا کر یہ سوچنے لگے کہ وہ نماز میں اپنے مالک کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے اور اس بات پر توجہ دے کہ وہ زبان سے کیا کہہ رہا ہے۔ خشوع اگرچہ اجزائے صلوۃ کے لئے شرط نہیں تاہم حسن قبول کے لئے لازمی شرط ہے۔
الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ : طبری نے اپنی حسن سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے ” خٰشِعُوْنَ “ کی تفسیر ” خَاءِفُوْنَ سَاکِنُوْنَ “ روایت کی ہے۔ (طبری : ٢٥٦٢٧) یعنی وہ نماز میں دل سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں اور اس خوف کا ان کے جسم پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ نماز کے منافی کسی بھی حرکت سے اجتناب کرتے ہیں، نہ ادھر ادھر نگاہ پھیرتے ہیں، نہ اپنے کپڑے یا ڈاڑھی سے کھیلتے ہیں اور نہ انگلیاں چٹخاتے ہیں۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز میں ادھر ادھر جھانکنے کے متعلق پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ھُوَ اخْتِلَاسٌ یَخْتَلِسُہُ الشَّیْطَانُ مِنْ صَلَاۃِ الْعَبْدِ ) [ بخاري، الأذان، باب الالتفات في الصلاۃ : ٧٥١ ] ” یہ شیطان کا آدمی کی نماز سے اچک کرلے جانا ہے، جو شیطان بندے کی نماز سے اچک کرلے جاتا ہے۔ “ - 3 اس آیت کی تفسیر میں بہت سے مفسرین نے ایک روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو نماز میں اپنی ڈاڑھی سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ” اگر اس کا دل خشوع کرتا تو اس کے دوسرے اعضا بھی خشوع کرتے۔ “ شیخ البانی نے ” سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ (١١٠) “ میں اس کا موضوع (خود بنائی ہوئی) ہونا دلائل سے ذکر فرمایا ہے۔ - تنبیہ : نماز میں ڈاڑھی، کپڑے یا کسی بھی چیز سے کھیلنے اور بےمقصد حرکت کرنے کا خشوع، یعنی دل کے خوف اور جسم کے سکون کے منافی ہونا واضح بات ہے، مگر یہ ہرگز جائز نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے وہ الفاظ لگائے جائیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ) [ بخاري، العلم، باب إثم من کذب۔۔ : ١١٠۔ مسلم : ٣ ]” جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔ “ - 3 امام بخاری (رض) نے اپنی صحیح میں ایک باب باندھا ہے : ” نماز میں ہاتھ سے مدد لینے کا باب، جب وہ کام نماز ہی سے متعلق ہو۔ “ پھر اس عنوان کے تحت ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ” آدمی نماز میں اپنے جسم سے جس طرح چاہے مدد حاصل کرے۔ “ پھر لکھتے ہیں کہ ابو اسحاق نے نماز میں اپنی ٹوپی نیچے رکھی اور اسے اٹھایا اور علی (رض) نے اپنی ہتھیلی اپنی بائیں کلائی کے جوڑ پر رکھے رکھی، سوائے اس کے کہ اپنی جلد کو کھجلی کریں یا اپنا کپڑا درست کریں۔ “ اس کے بعد امام صاحب نے ابن عباس (رض) سے وہ حدیث نقل کی ہے جس میں انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھڑے ہو کر رات کی نماز پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے : ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے (یعنی مجھے کان سے پکڑ کر دائیں طرف کیا) ۔ “ [ بخاري، العمل في الصلاۃ، باب استعانۃ الید في الصلاۃ إذا کان من أمر الصلاۃ : ١١٩٨ ]
الَّذِيْنَ ہُمْ فِيْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ ٢ۙ- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- خشع - الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» «2» . قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] .- ( خ ش ع ) الخشوع - ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )
آیت ٢ (الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ ) ” - کامیاب ‘ بامراد اور فائز المرام اہل ایمان وہ ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ان کی توجہ رکعتوں کی گنتی پوری کرنے پر ہی مرکوز نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی نمازوں میں عاجزی اور فروتنی اختیار کرتے ہیں۔ ان کی نمازیں حقیقی خشوع و خضوع کا منظر پیش کرتی ہیں۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :2 یہاں سے آیت 9 تک ایمان لانے والوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ گویا دلیلیں ہیں اس دعوے کی کہ انہوں نے ایمان لا کر درحقیقت فلاح پائی ہے ۔ بالفاظ دیگر گویا یوں کہا جا رہا ہے کہ ایسے لوگ آخر کیوں کر فلاح یاب نہ ہوں جن کی یہ اور یہ صفات ہیں ۔ ان اوصاف کے لوگ ناکام و نامراد کیسے ہو سکتے ہیں ۔ کامیابی انہیں نصیب نہ ہو گی تو اور کنھیں ہو گی ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :3 خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک جانا ، دب جانا ، اظہار عجز و انکسار کرنا ۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی ۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو ۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے ، اعضاء ڈھیلے پڑ جائیں ، نگاہ پست ہو جائے ، آواز دب جائے ، اور ہیبت زدگی کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہو جائیں جو اس حالت میں فطرتاً طاری ہو جایا کرتے ہیں جبکہ آدمی کسی زبردست با جبروت ہستی کے حضور پیش ہو ۔ نماز میں خشوع سے مراد دل اور جسم کی یہی کیفیت ہے اور یہی نماز کی اصل روح ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے ۔ اس پر آپ نے فرمایا : لو خشع قلبہ خشعت جوارحہ ، اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا ۔ اگرچہ خشوع کا تعلق حقیقت میں دل سے ہے اور دل کا خشوع آپ سے آپ جسم پر طاری ہوتا ہے ، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ابھی معلوم ہوا ۔ لیکن شریعت میں نماز کے کچھ ایسے آداب بھی مقرر کر دیے گئے ہیں جو ایک طرف قلبی خشوع میں مدد گار ہوتے ہیں اور دوسری طرف خشوع کی گھٹتی بڑھتی کیفیات میں فعل نماز کو کم از کم ظاہری حیثیت سے ایک معیار خاص پر قائم رکھتے ہیں ۔ ان آداب میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی دائیں بائیں نہ مڑے اور نہ سر اٹھا کر اوپر کی طرف دیکھے ( زیادہ سے زیادہ صرف گوشہ چشم سے ادھر ادھر دیکھا جا سکتا ہے ۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک نگاہ سجدہ گاہ سے متجاوز نہ ہونی چاہیے ، مگر مالکیہ اس بات کے قائل ہیں کہ نگاہ سامنے کی طرف رہنی چاہیے ) ۔ نماز میں ہلنا اور مختلف سمتوں میں جھکنا بھی ممنوع ہے ۔ کپڑوں کو بار بار سمیٹنا ، یا ان کو جھاڑنا ، یا ان سے شغل کرنا بھی ممنوع ہے ۔ اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ یا سجدے کی جگہ صاف کرنے کی کوشش کرے ۔ تن کر کھڑے ہونا بہت بلند آواز سے کڑک کر قرأت کرنا ، یا قرأت میں گانا بھی آداب نماز کے خلاف ہے ۔ زور زور سے جمائیاں لینا اور ڈکاریں مارنا بھی نماز میں بے ادبی ہے ۔ جلدی جلدی مارا مار نماز پڑھنا بھی سخت نا پسندیدہ ہے ۔ حکم یہ ہے کہ نماز کا ہر فعل پوری طرح سکون اور اطمینان سے ادا کیا جائے اور ایک فعل ، مثلاً رکوع یا سجود یا قیام یا قعود جب تک مکمل نہ ہو لے دوسرا فعل شروع نہ کیا جائے ۔ نماز میں اگر کوئی چیز اذیت دے رہی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے دفع کیا جا سکتا ہے ، مگر بار بار ہاتھوں کو حرکت دینا ، یا دونوں ہاتھوں کو استعمال کرنا ممنوع ہے ۔ ان ظاہر آداب کے ساتھ یہ چیز بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آدمی نماز میں جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے سے پرہیز کرے ۔ بلا ارادہ خیالات ذہن میں آئیں اور آتے رہیں تو یہ نفس انسانی کی ایک فطری کمزوری ہے ۔ لیکن آدمی کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو اور جو کچھ وہ زبان سے کہہ رہا ہو وہی دل سے بھی عرض کرے ۔ اس دوران میں اگر بے اختیار دوسرے خیالات آجائیں تو جس وقت بھی آدمی کو انکا احساس ہو اسی وقت اسے اپنی توجہ ان سے ہٹا کر نماز کی طرف پھیر لینی چاہیے ۔
1: یہ خشوع کا ترجمہ ہے۔ عربی میں خضوع کے معنی ہیں ظاہری اعضاء کو جھکانا، اور خشوع کے معنی ہیں دل کو عاجزی کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رکھنا۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان نماز میں جو کچھ زبان سے پڑھ رہا ہو، اس کی طرف دھیان رکھے، اور اگر غیر اختیاری طور پر کوئی خیال آجائے تو وہ معاف ہے، لیکن جونہی یاد آئے، دوبارہ نماز کے الفاظ کی طرف متوجہ ہوجانا چاہیے۔