Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31لَغْو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا اس میں دینی یا دنیاوی نقصانات ہوں، ان سے پرہیز مطلب ہے ان کی طرف خیال بھی نہ کیا جائے۔ چہ جائیکہ انھیں اختیار یا ان کا ارتکاب کیا جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] لغو سے مراد فضول اور بیکار مشغلے اور کھیل بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ اگر تفریح طبع کے لئے یا جسمانی کسرت کے طور پر کوئی کھیل کھیلتے ہیں تو ایسے کھیل نہیں کھیلتے جن میں محض وقت کا ضیاع ہو بلکہ ایسے کھیل کھیلتے ہیں جن سے کوئی دینی فائدہ بھی حاصلہوتا ہو۔ جیسے جہاد کی غرض سے تیراکی، نیزہ بازی، تیراندازی، اور نشانہ بازی وغیرہ۔ اور لغو سے مراد بیہودہ اور فضول باتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ جیسے فضل گپیں، غیبت، بکواس، تمسخر، فحش گفتگو اور فحش قسم کے گانے وغیرہ۔ ان باتوں سے وہ صرف خود ہی پرہیز نہیں کرتے۔ بلکہ جہاں ایسی سوسائٹی پر وہاں سے وہ اٹھ کر چلے جاتے ہیں اور وہاں رہنا قطعاً گوارا نہیں کرتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن :” لغو “ ہر وہ بات یا کام جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ اس میں شرک اور ہر گناہ، بلکہ ہر بےفائدہ اور بےمقصد قول و فعل آجاتا ہے۔ یعنی کوئی لغو بات یا کام خود کرنا تو دور کی بات ہے، وہ کوئی لغو کام ہوتا ہوا دیکھتے یا سنتے بھی نہیں، بلکہ ان کی عادت ہی لغو سے منہ موڑے رکھنا ہے۔ ” یُعْرِضُوْنَ “ کے بجائے ” مُعْرِضُوْن “ (اسم فاعل) کا مطلب ہے کہ لغو سے اعراض ان کی عادت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیْہِ ) [ ترمذي، الزھد، باب حدیث من حسن إسلام المرء ۔۔ : ٢٣١٧، عن أبي ہریرہ (رض) ]” آدمی کے اسلام کے حسن میں سے اس کا ان چیزوں کو چھوڑ دینا ہے جو اس کے مقصد کی نہیں ہیں۔ “ عباد الرحمان کی صفت بیان فرمائی : (وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا) [ الفرقان : ٧٢ ] ” اور جب بےہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت گزر جاتے ہیں۔ “ جنت کی ایک خوبی یہ ہوگی : (لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا ) [ الواقعۃ : ٢٥ ] ” وہ اس میں نہ بےہودہ گفتگو سنیں گے اور نہ گناہ میں ڈالنے والی بات۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۝ ٣ۙ- لغو - اللَّغْوُ من الکلام : ما لا يعتدّ به، وهو الذي يورد لا عن رويّة وفكر، فيجري مجری اللَّغَا، وهو صوت العصافیر ونحوها من الطّيور، قال أبو عبیدة : لَغْوٌ ولَغًا، نحو : عيب وعاب وأنشدهم :- 407-- عن اللّغا ورفث التّكلّم - «5» يقال : لَغِيتُ تَلْغَى. نحو : لقیت تلقی، وقد يسمّى كلّ کلام قبیح لغوا . قال : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ 35] ، وقال : وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص 55] ، لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة 25] ، وقال : وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون 3] ، وقوله : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] ، أي : كنّوا عن القبیح لم يصرّحوا، وقیل : معناه : إذا صادفوا أهل اللّغو لم يخوضوا معهم . ويستعمل اللغو فيما لا يعتدّ به، ومنه اللَّغْوُ في الأيمان . أي : ما لا عقد عليه، وذلک ما يجري وصلا للکلام بضرب من العادة . قال : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] ومن هذا أخذ الشاعر فقال :- 408-- ولست بمأخوذ بلغو تقوله ... إذا لم تعمّد عاقدات العزائم - «1» وقوله : لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية 11] أي : لغوا، فجعل اسم الفاعل وصفا للکلام نحو : کاذبة، وقیل لما لا يعتدّ به في الدّية من الإبل : لغو، وقال الشاعر :- 409 ۔ كما أَلْغَيْتَ في الدّية الحوارا - «2» ولَغِيَ بکذا . أي : لهج به لهج العصفور بِلَغَاه . أي : بصوته، ومنه قيل للکلام الذي يلهج به فرقة فرقة : لُغَةٌ. - ( ل غ و ) اللغو - ۔ ( ن ) کے معنی بےمعنی بات کے ہے جو کسی گنتی شمار میں نہ ہو یعنی جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے گویا وہ پرندوں کی آواز کی طرح منہ سے نکال دی جائے ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس میں ایک لغت لغا بھی ہے ۔ جیسے عیب وعاب شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 394) عن اللغ اور فث التکم جو بہیودہ اور فحش گفتگو سے خاموش ہیں ۔ اس کا فعل لغیث تلغیٰ یعنی سمع سے ہے ۔ اور کبھی ہر قبیح بات کو لغو کہہ دیا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ 35] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے نہ جھوٹ اور خرافات وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون 3] اور جو بہیودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔ وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص 55] اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة 25] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ الزام تراشی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے باس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفا نہ انداز سے گرزتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ فحش بات کبھی صراحت سے نہیں کہتے ۔ بلکہ ہمیشہ کنایہ سے کام لیتے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ اگر کہیں اتفاق سے وہ ایسی مجلس میں چلے جاتے ہیں ۔ جہاں بیہودہ باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو اس سے دامن بچاکر نکل جاتے ہیں ۔ پس لغو ہر اس بات کا کہاجاتا ہے جو کسی شمار قطار میں نہ ہو ۔ اور اسی سے لغو فی الایمان ہے ۔ یعنی وہ قسم جو یونہی بلا ارادہ زبان سے نکل جائے چناچہ قرآن میں ہے : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا اور شاعر نے کہا ہے ( البسیط) (395) ولست بماخود بلغو تقولہ اذالم تعمد عاقدات العزائم لغو قسم کھانے پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا بشرطیکہ قصدا غرم قلب کے ساتھ قسم نہ کھائی جائے ۔ اور آیت کریمہ لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية 11] وہاں کسی طرح کی بکواس نہیں سنیں گے ۔ میں لاغیۃ بمعنی لغو کے ہے اور یہ ( اسم فاعل ) کلام کی صفت واقع ہوا ہے جیسا کہ کاذبۃ وغیرہ ۔ اور خونبہا میں لغو اونٹ کے ان بچوں کو کہا جاتا ہے جو گنتی میں شمار نہ کئے جائیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (396) کما الغیت فی الدابۃ الحوارجیسا کہ اونٹ کے چھوٹے بچے کو خونبہا میں ناقابل شمار سمجھا جاتا ہے لغی بکذا کے معنی چڑیا کے چہچہانے کی طرح کسی چیز کا بار بار تذکرہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور اسی سے ہر گز وہ کی زبان اور بولی جس کے ذریعے وہ بات کرتا ہ لغۃ کہلاتی ہے ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (والذین ھم عن اللغومعرضون اور لغوب بات سے دور رہتے ہیں) لغو بےفائدہ کام کو کہتے ہیں جس فعل اور قول کی یہ صفت ہو وہ ممنوع ہے ۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ لغو باطل کو کہتے ہیں جس قومل کا کوئی فائدہ نہ ہو وہ باطل ہے اگرچہ باطل کے ذریعے کبھی فوری طور پر حاصل ہونے والے فوائد کی تلاش ہوتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣۔ ٧) اور جو بیہودہ باتوں اور جھوٹی قسموں سے کنارہ کشی کرنے والے ہیں اور جو اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں اور جو اپنی شرم گاہوں کو حرام شہوت رانی سے پاک رکھنے والے ہیں لیکن اپنی چاروں بیویوں سے یا اپنی شرعی لونڈیوں سے کیوں کہ ان پر اس حلال طریقہ میں کوئی الزام نہیں، البتہ جو حلال راستہ کے علاوہ اور مقام پر شہوت رانی کا طلب گار ہو تو ایسے حلال اور پاکیزہ طریقہ سے حرام اور گندے راستہ کی طرف بڑھنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ) ” - یعنی ان کا دوسرا وصف ہے بےکار باتوں سے احتراز کرنا ‘ بچنا ‘ دامن بچائے رکھنا۔ لغو سے مراد گناہ یا معصیت کا کام نہیں ‘ بلکہ ہر ایسا عمل یا کام ہے جو بےفائدہ اور فضول ہو۔ جیسے لوگ محفل جما کر تاش کھیلتے ہیں اور وقت کو ایسے ضائع کرتے ہیں جیسے یہ کوئی بوجھ ( ) ہو اور اسے سر سے اتار پھینکنا ناگزیز ہو۔ انہیں احساس نہیں ہو تاکہ یہ وقت ہی تو انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ( ) ہے۔ اس وقت سے فائدہ اٹھا کر ہی انسان اپنی عاقبت کو سنوار سکتا ہے اور جو اس وقت کو فضول میں ضائع کرتا ہے وہ گویا اپنی عاقبت کو ضائع کرتا ہے۔ اس آیت میں مؤمنین صادقین کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ مہلت زندگی کو اپنا قیمتی سرمایہ سمجھتے ہیں۔ انہیں زندگی میں ایک ایک لمحے کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ صرف ایک دفعہ ” سبحان اللہ “ کہنے سے اللہ کے ہاں ان کے درجات کس قدر بلند ہوجاتے ہیں۔ چناچہ وہ اپنا وقت فضول اور بےمقصد مصروفیات میں ضائع نہیں کرتے۔ وہ زندگی کے ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھا تے ہیں اور اسے اپنی شخصیت کی تعمیر اور آخرت کے اجر وثواب کے حصول کے لیے صرف کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :4 لغو ہر اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول ، لایعنی اور لا حاصل ہو ۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو ، جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو ، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو ، جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو ، وہ سب لغویات ہیں ۔ معرضون کا ترجمہ ہم نے دور رہتے ہیں کیا ہے ۔ مگر اس سے بات پوری طرح ادا نہیں ہوتی ۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ ان کی طرف رخ نہیں کرتے ۔ ان میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے ۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں ، ان میں حصہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں ، اور اگر کہیں ان سے سابقہ پیش آ ہی جائے تو ٹل جاتے ہیں ، کترا کر نکل جاتے ہیں ، یا بہ درجہ آخر بے تعلق ہو رہتے ہیں ۔ اسی بات کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ: وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَاماً ( الفرقان ۔ آیت 72 ) یعنی جب کسی ایسی جگہ سے ان کا گزر ہوتا ہے جہاں لغو باتیں ہو رہی ہوں ، یا لغو کام ہو رہے ہوں وہاں سے مہذب طریقے پر گزر جاتے ہیں ۔ یہ چیز ، جسے اس مختصر سے فقرے میں بیان کیا گیا ہے ، دراصل مومن کی اہم ترین صفات میں سے ہے ۔ مومن وہ شخص ہوتا ہے جسے ہر وقت اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور جس چیز کو زندگی اور عمر اور وقت کے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک نپی تلی مدت ہے جو اسے امتحان کے لیے دی گئی ہے ۔ یہ احساس اس کو بالکل اس طالب علم کی طرح سنجیدہ اور مشغول اور منہمک بنا دیتا ہے جو امتحان کے کمرے میں بیٹھا اپنا پرچہ حل کر رہا ہو ۔ جس طرح اس طالب علم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ امتحان کے یہ چند گھنٹے اس کی آئندہ زندگی کے لیے فیصلہ کن ہیں ، اور اس احساس کی وجہ سے وہ ان گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ اپنے پرچے کو صحیح طریقے سے حل کرنے کی کوشش میں صرف کر ڈالنا چاہتا ہے اور ان کو کوئی سیکنڈ فضول ضائع کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ، ٹھیک اسی طرح مومن بھی دنیا کی اس زندگی کو ان ہی کاموں میں صرف کرتا ہے جو انجام کار کے لحاظ سے مفید ہوں ۔ حتیٰ کہ وہ تفریحات اور کھیلوں میں سے بھی ان چیزوں کا انتخاب کرتا ہے جو محض تضیع وقت نہ ہوں بلکہ کسی بہتر مقصد کے لیے اسے تیار کرنے والی ہوں ۔ اس کے نزدیک وقت کاٹنے کی چیز نہیں ہوتی بلکہ استعمال کرنے کی چیز ہوتی ہے ۔ علاوہ بریں مومن ایک سلیم الطبع ، پاکیزہ مزاج ، خود ذوق انسان ہوتا ہے ۔ بیہودگیوں سے اس کی طبیعت کو کسی قسم کا لگاؤ نہیں ہوتا ۔ وہ مفید باتیں کر سکتا ہے ، مگر فضول گپیں نہیں ہانک سکتا ۔ وہ ظرافت اور مزاح اور لطیف مذاق کی حد تک جا سکتا ہے ، مگر ٹھٹھے بازیاں نہیں کر سکتا ، گندہ مذاق اور مسخرہ پن برداشت نہیں کر سکتا ، تفریحی گفتگوؤں کو اپنا مشغلہ نہیں بنا سکتا ۔ اس کے لیے تو وہ سوسائٹی ایک مستقل عذاب ہوتی ہے جس میں کان کسی وقت بھی گالوں سے ، غیبتوں اور تہمتوں اور جھوٹی باتوں سے ، گندے گانوں اور فحش گفتگوؤں سے محفوظ نہ ہوں ۔ اس کو اللہ تعالیٰ جس جنت کی امید دلاتا ہے اس کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی بیان کرتا ہے کہ لَا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیہ ، وہاں تو گوئی لغو بات نہ سنے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: لغو کا مطلب ہے بیکار مشغلہ جس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہو، نہ آخرت کا