Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1001یہ آرزو، ہر کافر موت کے وقت، دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت، بارگاہ الٰہی میں قیامت کے وقت اور جہنم میں دھکیل دیئے جانے کے وقت کرتا ہے اور کرے گا، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قرآن کریم میں اس مضمون کو متعدد، جگہ بیان کیا گیا ہے۔ 1002کَلَّا، ڈانٹ ڈپٹ کے لئے ہے یعنی ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ انھیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے۔ 1003اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ایسی بات ہے کہ جو ہر کافر نزع (جان کنی) کے وقت کہتا ہے۔ دوسرے معنی ہیں کہ یہ صرف بات ہی بات ہے عمل نہیں، اگر انھیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو ان کا یہ قول، قول ہی رہے گا عمل اصلاح کی توفیق انھیں پھر نصیب نہیں ہوگی، کافر دنیا میں اپنے خاندان اور قبیلے کے پاس جانے کی آرزو نہیں کرے گا، بلکہ عمل صالح کے لئے دنیا میں آنے کی آرزو کرے گا۔ اس لئے زندگی کے لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عمل صلاح کر لئے جائیں تاکہ کل قیامت کو یہ آرزو کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے (ابن کثیر) 1004دو چیزوں کے درمیان حجاب اور آڑ کو برزخ کہا جاتا ہے۔ دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان جو وقفہ ہے، اسے یہاں برزخ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مرنے کے بعد انسان کا تعلق دنیا کی زندگی سے ختم ہوجاتا ہے اور آخرت کی زندگی کا آغاز اس وقت ہوگا جب تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ درمیان کی زندگی ہے۔ انسان کا وجود جہاں بھی اور جس شکل میں بھی ہوگا، بظاہر وہ مٹی میں مل کر مٹی بن چکا ہوگا، یا راکھ بنا کر ہواؤں میں اڑا دیا یا دریاؤں میں بہا دیا ہوگا یا کسی جانور کی خوراک بن گیا ہوگا، مگر اللہ تعالیٰ سب کو ایک نیا وجود عطا فرما کر میدان محشر میں جمع فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٦] کلا یہاں دو معنی دے رہا ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ چونکہ مرنے کے بعد دوبارہ کسی انسان کو اس دنیا میں واپس بھیجنا میرے قانون اور میری مشیت کے خلاف ہے۔ لہذا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اور دوسرا یہ کہ یہ جو مرنے والا کہہ رہا ہے کہ میں اب دنیا میں جاکر برے اعمال کے بجائے نیک اعمال بجا لاؤں گا تو یہ ایک بےکار سی بات ہے۔ کیونکہ موت کے وقت کے حالات کا مشاہدہ کرلینے اور فرشتوں کو دیکھ لینے کے بعد تو ایمان بالغیب رہتا ہی نہیں۔ اور مطلوب ایمان بالغیب ہے نہ کہ ایمان بالشہادۃ موجود اور دیکھی ہوئی چیز کا اقرار تو ہر شخص کرلیتا ہے اور اسے ایمان یا ایمان بالغیب نہیں کہہ سکتے نہ ہی اس عورت میں یہ دنیا دارالامتحان رہتی ہے۔- اور دوسری صورت یہ ہے کہ انسان کی عادت ہے کہ مصیبت کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے پھر جب وہ مصیبت دور ہوجائے اور خوشحالی میسر ہو تو وہ مصیبت کے اوقات اور اس مصیبت میں اللہ کے کئے ہوئے وعدہ وغیرہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اور اس صورت کی عام مشاہدہ سے بھی تائید ہوجاتی ہے۔ اور قرآن کریم کی کئی آیات سے بھی۔ اس لحاظ سے بھی کسی مرنے والے انسان کو دوبارہ دنیا میں بھیجنا بےکار ہے۔ لہذا موت کے وقت جو کچھ وہ مرنے والا کہہ رہا ہے محض ایک بکواس ہی ہوگی جس کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔- [٩٧] یہاں برزخ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی پردہ، آڑ، روک وغیرہ ہے اور بعض کے نزدیک یہ لفظ فارسی لفظ پردہ ہی کا معرب ہے۔ لیکن، روک یا پردہ ایسا نہیں جیسے دو چیزوں کے درمیان کوئی کپڑا لٹکا کر یا دیوار بنا کر ہر چیز کو دوسری سے اوجھل کردیا جاتا ہے۔ جبکہ اس روک میں ایک طویل مدت زمانی بھی شامل ہے۔ اور یہ برزخ کسی انسان کی موت کے وقت سے لے کر اس کے دوبارہ جی اٹھنے تک کے زمانہ کو محیط ہے۔ اہل برزخ سے عالم دنیا بھی اوجھل ہوتا ہے اور عالم عقبیٰ سے بھی۔ اس عالم برزخ کو اللہ تعالیٰ نے موت کے زمانہ سے تعبیر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس عرصہ کے دوران موت کے اثرات غالب ہوتے ہیں۔ تاہم روح چونکہ زندہ ہی رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتی ہے۔ لہذا اس عرصہ میں ہی زندگی کے تھوڑے بہت آثار پائے جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں بہت کو عذاب وثواب بھی ہوتا ہے لیکن عذاب وثواب قیامت کے عذاب وثواب کی نسبت بہت ہلکا ہوتا ہے اسی عرصہ کے عذاب کو عذاب قبر کہتے ہیں خواہ میت کا جسم قبر میں موجود ہو یا گل سڑ گیا ہو یا درندوں نے کھالیا ہو یا پانی کی تہہ میں چلا گیا ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ : تاکہ میں جو کچھ مال و متاع چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں، یا اس دنیا میں جا کر کوئی نیک عمل کرلوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے : ” قتادہ نے آیت : (حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ ) کے متعلق کہا کہ علاء بن زیاد فرمایا کرتے تھے کہ آدمی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اس مرنے والے کی جگہ رکھ کر سوچے کہ گویا اس کی موت آپہنچی تھی اور اس نے رب تعالیٰ سے مہلت مانگی تو اسے مل گئی، سو وہ اس مہلت میں جس قدر ہو سکے اللہ تعالیٰ کی بندگی کرلے۔ اور قتادہ نے فرمایا، اللہ کی قسم نہ وہ گھر والوں کی طرف جانے کی تمنا کرے گا، نہ اولاد کی طرف، بلکہ یہی تمنا کرے گا کہ واپس جا کر اللہ کی اطاعت کرلے۔ سو کوتاہی کرنے والے کافر کی آرزو دیکھو اور ملی ہوئی مہلت سے فائدہ اٹھا کر اس پر عمل کرلو۔ “- كَلَّا : اس کے دو معنی ہیں اور دونوں مراد ہیں، ایک یہ کہ ہرگز ایسا نہ ہوگا کہ تم دنیا میں واپس جاؤ اور دوسرا یہ کہ تمہارا کہنا کہ میں واپس جا کر نیک عمل کروں گا، ہرگز درست نہیں۔- اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا : یعنی یہ صرف ایک بات ہوگی جو وہ کہے گا، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا، بلکہ وہ صاف جھوٹ کہہ رہا ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ) [ الأنعام : ٢٨ ] ” اور اگر انھیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ “ دوسرا مطلب یہ کہ یہ صرف اس کے منہ کی بات ہوگی جو وہ بار بار کہے گا، مگر اسے اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسی بات ہے جو ہر کافر مرتے وقت ضرور ہی کہنے والا ہے۔ - وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ : ” وَرَاءٌ“ کا معنی آگے بھی ہے اور پیچھے بھی، یہاں دونوں معنی مراد ہیں کہ آگے ایک اور عالم برزخ آ رہا ہے، جسے قبر کی زندگی بھی کہا جاتا ہے، جہاں پہنچ کر دنیا والوں سے پردہ ہوجاتا ہے اور آخرت بھی سامنے نہیں آتی۔ ہاں کافر کے لیے آخرت کے عذاب کا تھوڑا سا نمونہ سامنے آتا ہے، جس کا مزہ قیامت تک چکھتا رہے گا۔ اسی طرح اہل ایمان کے لیے راحت و نعمت میسر ہوتی ہے۔ دونوں کا احادیث میں ذکر ہے اور آیات میں بھی۔ دیکھیے سورة مؤمن (٤٥، ٤٦) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ، برزخ کے لفظی معنے حاجز اور فاصل کے ہیں۔ دو حالتوں یا دو چیزوں کے درمیان جو چیز فاصل ہو اس کو برزخ کہتے ہیں اسی لئے موت کے بعد قیامت اور حشر تک کے زمانے کو برزخ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیاوی حیات اور آخرت کی حیات کے درمیان حد فاصل ہے اور معنے آیت کے یہ ہیں کہ جب مرنے والا کافر، فرشتوں سے دوبارہ دنیا میں بھیجنے کو کہتا ہے تو یہ کلمہ تو اس کو کہنا ہی تھا کیونکہ اب عذاب سامنے آ چکا ہے مگر اس کلمہ کا اب کوئی فائدہ اس لئے نہیں کہ وہ اب برزخ میں پہنچ چکا ہے جس کا قانون یہ ہے کہ برزخ سے لوٹ کر کوئی دنیا میں نہیں آتا اور قیامت اور بعث و نشر سے پہلے دوسری زندگی نہیں ملتی۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا۝ ٠ۭ اِنَّہَا كَلِمَۃٌ ہُوَقَاۗىِٕلُہَا۝ ٠ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۝ ١٠٠- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله :- وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- وراء - ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی:- وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] ،- ( و ر ی ) واریت - الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ - برزخ - البَرْزَخ : الحاجز والحدّ بين الشيئين، وقیل : أصله برزه فعرّب، وقوله تعالی: بَيْنَهُما بَرْزَخٌ لا يَبْغِيانِ [ الرحمن 20] ، والبرزخ في القیامة : الحائل بين الإنسان وبین بلوغ المنازل الرفیعة في الآخرة، وذلک إشارة إلى العقبة المذکورة في قوله عزّ وجل : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ [ البلد 11] ، قال تعالی: وَمِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [ المؤمنون 100] ، وتلک العقبة موانع من أحوال لا يصل إليها إلا الصالحون . وقیل : البرزخ ما بين الموت إلى القیامة .- ( ب ر ز خ ) البرزخ کے معنی دو چیزوں کے درمیان حد فاصل اور روک کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ دراصل یہ برزۃ ( پردہ ) سے معرب ہے قرآن میں ہے بَيْنَهُما بَرْزَخٌ لا يَبْغِيانِ [ الرحمن 20] دونوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کہہ سکتے ۔ اور برزخ اس کا وٹ کو بھی کہا گیا ہے جو آخرت میں انسان اور اس کے منازل رفیقہ تک پہنچنے کے درمیان حائل ہوگی جسے قرآن نے آیت : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ [ البلد 11] مگر وہ گھاٹی پر سے ہوکر نہ گزرا ۔ میں عقبۃ کہا ہے چناچہ فرمایا وَمِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [ المؤمنون 100] اور ان کے پیچھے برزخ ہے ( جہاں وہ ) اس دن تک کہ ( دوبارہ ) اٹھائے جائیں گے ( رہنیگے ) 23 ۔۔۔۔ ا ) لہذا عقبۃ سے مراد وہ موانع ہیں جو بلند درجات تک پہنچنے سے روک لیتے ہیں جن تک کہ نیک لوگ ہی پہنچ سکتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں برزخ سے موت اور حشر کے مابین کی مدت مراد ہے ۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] ،- فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] ، أي : توجههم ومضيّهم .- ( ب ع ث ) البعث - ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا رکی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے - پس بعث دو قسم پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا - دوم بعث الہی - یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٠) تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں اور وہاں آپ کی تکذیب کی ہے تو پھر وہاں جاکر نیک کام کروں اور آپ پر ایمان لاؤں، اللہ تعالیٰ تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہرگز اس کو دنیا کی طرف واپس نہیں کیا جائے گا، یہ واپس ہونے کی درخواست اس کی ایک بات ہے جس کو یہ کہے جارہا ہے اور یہ اسے کوئی سودمند نہ ہوگی اور ان لوگوں کے آگے ایک چیز آڑ کی آنے والی ہے یعنی قبر یہاں تک کہ ان کو قبروں سے اٹھایا جائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٠ (لَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا ط) ” - اے میرے پروردگار اب اگر تو مجھے واپس دنیا میں بھیج دے تو میں اپنے مال و اسباب کو تیرے راستے میں اور تیرے دین کی خدمت میں لٹا دوں گا - (وَمِنْ وَّرَآءِہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ) ” - موت کے بعد تو اب بعث بعد الموت تک ان کے لیے عالم برزخ کی زندگی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :90 یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل بجہنم ہونے تک ، بلکہ اس کے بعد بھی ، بار بار یہی درخواستیں کرتے رہیں گے کہ ہمیں بس ایک دفعہ دنیا میں اور بھیج دیا جائے ، اب ہماری توبہ ہے ، اب ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے ، اب ہم سیدھی راہ چلیں گے ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الانعام ، آیات 27 ۔ 28 ۔ الاعراف ، 53 ۔ ابراہیم ، 44 ، 45 ۔ مومنون ، 105 تا 115 ۔ الشعراء ، 102 ۔ السجدہ ، 12 تا 14 ۔ فاطر ، 37 ۔ الزمر ، 58 ۔ 59 ۔ المومن ، 10 تا 12 ۔ الشوریٰ ، 44 ۔ مع حواشی ) ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :91 یعنی اس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا ۔ از سرنو عمل کرنے کے لیے کوئی دوسرا موقع اب اسے نہیں دیا جا سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ امتحان کے لیے آدمی کو اگر واپس بھیجا جائے تو لامحالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی صورت اختیار کرنی ہو گی ۔ یا تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے محفوظ ہوں جو مرنے کے بعد اس نے کیے ۔ یا ان سب کو محو کر کے اسے پھر ویسا ہی خالی الذہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا ۔ اول الذکر سورت میں امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اس دنیا میں تو آدمی کا امتحان ہے ہی اس بات کا کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر اپنی عقل سے حق کو پہچان کر اسے مانتا ہے یا نہیں ، اور طاعت و معصیت کی آزادی رکھتے ہوئے ان دونوں راہوں میں سے کس راہ کو انتخاب کرتا ہے ۔ اب اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ بھی کرا دیا جائے اور معصیت کا انجام عملاً دکھا کر معصیت کے انتخاب کی راہ بھی اس پر بند کر دی جائے تو پھر امتحان گاہ میں اسے بھیجنا فضول ہے اس کے بعد کون ایمان نہ لائے گا اور کون طاعت سے منہ موڑ سکے گا ۔ رہی دوسری صورت ، تو یہ آزمودہ را آزمودن کا ہم معنی ہے جو شخص ایک دفعہ اسی امتحان میں ناکام ہو چکا ہے اسے پھر بعینہ ویسا ہی ایک اور امتحان دینے کے لیے بھیجنا لاحاصل ہے ، کیونکہ وہ پھر وہی کچھ کرے گا جیسا پہلے کر چکا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 228 ۔ الانعام ، حواشی 6 ۔ 139 ۔ 140 ۔ جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 26 ) ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :92 یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تو اب اسے کہنا ہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی یہ بات قابل التفات نہیں ہے ۔ شامت آ جانے کے بعد اب وہ یہ نہ کہے گا تو اور کیا کہے گا ۔ مگر یہ محض کہنے کی بات ہے ۔ پلٹے گا تو پھر وہی کچھ کرے گا جو کر کے آیا ہے ۔ لہٰذا اسے بکنے دو ۔ واپسی کا دروازہ اس پر نہیں کھولا جا سکتا ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :93 برزخ فارسی لفظ پردہ کا معرب ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے اور دنیا کے درمیان ایک روک ہے جو انہیں واپس جانے نہیں دے گی ، اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان کی اس حد فاصل میں ٹھہرے رہیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

31: مرنے کے بعد سے قیامت تک مردہ جس عالم میں رہتا ہے، اسے عالم برزخ کہا جاتا ہے، اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد تمہارا دنیا میں واپس جانا اب ممکن نہیں، کیونکہ تمہارے سامنے عالم برزخ ہے، جو قیامت تک باقی رہے گا۔