Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111ان صفات مذکورہ کے حامل مومن ہی فلاح یاب ہونگے جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے۔ جنت بھی جنت الفردوس، جو جنت کا اعلٰی حصہ ہے۔ جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین، فی سبیل اللہ، و کتاب التوحید، باب وکان عرشہ علی ماء)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠] فردوس بمعنی سرسبز وادی (منجد) اور بمعنی اودبار میں واقع باغ جس میں ہر قسم کے پھل اور پوھل موجود ہوں (منتہی الادب) گویا جنت الفردوس سے مراد جنت کا وہ حصہ ہے جس میں گسی اور ٹھندی چھاؤں والے سرسبز درخت بکثرت ہوں۔ پھولوں کی خوشبو سے معطر ہو اور اس میں ہر قسم کے پھل باافراط ہوں۔ اور جنت الفردوس جنت کا سب سے بلند طبقہ اور عین وسط میں ہوگا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ربیع بن نضر کا بیٹا حارثہ بن سراقہ بدر کے دن ایک غیبی تیر سے شہید ہوگیا۔ وہ آپ کے آکر کہنے لگے : مجھے حارثہ کا حال بتلائیے اگر وہ خیر کو پہنچا تو میں ثواب کی امید رکھوں اور صبر کرو اور اگر نہیں پہچنا تو میں اس کے لئے دعا کرتا رہوں آپ نے فرمایا : ام حارثہ جنت میں بہت سے باغ ہیں اور تیرا بیٹا تو فردوس بریں میں داخل ہوا ہے جو جنت کے وسط میں بلند زمین اور سبے بلند مقام ہے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- اسی جنت کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی : اَللّٰھُمَّ اِنِیْ اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ الْفِرْدُوْسَ نیز آپ نے فرمایا کہ جب اللہ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو۔ - (نیز جنت کی وراثت کے سلسلہ میں سورة اعراف آیت نمبر ٤٣ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے)- مندرجہ بالا آیات کے نزول کے وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی اور ان آیات کے نزول پر آپ نے مسلمانوں کے حق میں جو دعا فرمائی۔ مندرجہ ذیل حدیث سے اس حالت کا پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے :- حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب آپ پر وحی اترتی تو آپ کے چہرے کے آس پاس شہد کی مکھی کی گنگناہٹ جیسی آواز آنے لگتی تھی۔ ایک دن آپ پر وحی نازل ہوئی تو تھوڑی ہی دیر بعد آپ نے قبلہ کی طرف منہ کرکے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی : اے اللہ ہمیں زیادہ کر، تھوڑے نہ رہنے دے، ہمیں عزت عطا فرما، ذلیل نہ رہنے دے ہمیں عطا کر اور محروم نہ رکھ، ہمیں دوسروں پر مقدم کر، دوسروں کو ہم پر مقدم نہ رکھ، ہمیں خوش کردے اور ہم سے خوش ہوجا اس دعا کے بعد آپ نے فرمایا کہ : مجھے پر دس آیات نازل ہوئی ہیں جو ان پر عمل کرے گا، جنت میں داخل ہوگا۔ پھر آپ نے ( قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۝ ۙ ) 23 ۔ المؤمنون :1) سے لے کر دس آیات پڑھیں۔ (ترمذی۔ کتاب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ۝ ٠ۭ ہُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝ ١١- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :10 فردوس ، جنت کے لیے معروف ترین لفظ ہے جو قریب قریب تمام انسانی زبانوں میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے ۔ سنسکرت میں پَردِیْشَا ، قدیم کلدانی زبان میں پردیسا ، قدیم ایرانی ( ژند ) میں پیری وائزا ، عبرانی میں پردیس ، ارضی میں پرویز ، سُریانی میں فردیسو ، یونانی میں پارا دئسوس ، لاطینی میں پاراڈائسس ، اور عربی میں فردوس ۔ یہ لفظ ان سب زبانوں میں ایک ایسے باغ کے لیے بولا جاتا ہے جس کے گرد حصار کھنچا ہوا ہو ، وسیع ہو ، آدمی کی قیام گاہ سے متصل ہو ، اور اس میں ہر قسم کے پھل ، خصوصاً انگور پائے جاتے ہوں ۔ بلکہ بعض زبانوں میں تو منتخب پالتو پرندوں اور جانوروں کا بھی پایا جانا اس کے مفہوم میں شامل ہے ۔ قرآن سے پہلے عرب کے کلام جاہلیت میں بھی لفظ فردوس مستعمل تھا ۔ اور قرآن میں اس کا اطلاق متعدد باغوں کے مجموعے پر کیا گیا ہے ، جیسا کہ سورہ کہف میں ارشد ہوا : کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً ، ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہیں ۔ اس سے جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ فردوس ایک بڑی جگہ ہے جس میں بکثرت باغ اور چمن اور گلشن پائے جاتے ہیں ۔ اہل ایمان کے وارث فردوس ہونے پر سورہ طٰہٰ ( حاشیہ 83 ) ، اور سورہ انبیاء ( حاشیہ 99 میں کافی روشنی ڈالی جا چکی ہے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :11 ان آیات میں چار اہم مضمون ادا ہوئے ہیں : اول یہ کہ جو لوگ بھی قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان کر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کرلیں گے اور اس رویے کے پابند ہو جائیں گے وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں گے ، قطع نظر اس سے کہ کسی قوم ، نسل یا ملک کے ہوں ۔ دوم یہ کہ فلاح محض اقرار ایمان ، یا محض اخلاق اور عمل کی خوبیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ دونوں کے اجتماع کا نتیجہ ہے جب آدمی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے ، پھر اس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لے ، تب وہ فلاح سے ہمکنار ہو گا ۔ سوم یہ کہ فلاح محض دنیوی اور مادی خوش حالی اور محدود وقتی کامیابیوں کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک وسیع تر حالت خیر کا نام ہے جس کا اطلاق دنیا اور آخرت میں پائدار و مستقل کامیابی و آسودگی پر رہتا ہے ۔ یہ چیز ایمان و عمل صالح کے بغیر نصیب نہیں ہوتی ۔ اور اس کلیے کو نہ تو گمراہوں کی وقتی خوش حالیاں اور کامیابیاں توڑتی ہیں ، نہ مومنین صالحین کے عارضی مصائب کو اس کی نقیب ٹھہرا یاجا سکتا ہے ۔ چہارم یہ کہ مومنین کے ان اوصاف کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متن کی صداقت کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، اور یہی مضمون آگے کی تقریر سے ان آیات کا ربط قائم کرتا ہے ۔ تیسرے رکوع کے خاتمے تک کی پوری تقریر کا سلسلہ استدلال اس طرح پر ہے کہ آغاز میں تجربی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ اس نبی کی تعلیم نے خود تمہاری ہی سوسائٹی کے افراد میں یہ سیرت و کردار اور یہ اخلاق و اوصاف پیدا کر کے دکھائے ہیں ، اب تم خود سوچ لو کہ یہ تعلیم حق نہ ہوتی تو ایسے صالح نتائج کس طرح پیدا کر سکتی تھی ۔ اس کے بعد مشاہداتی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ انسان کے اپنے وجود میں اور گرد و پیش کی کائنات میں جو آیات نظر آتی ہیں وہ سب توحید اور آخرت کی اس تعلیم کے بر حق ہونے کی شہادت دے رہی ہیں جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتے ہیں ۔ پھر تاریخی دلائل آتے ہیں ، جن میں بتایا گیا ہے کہ نبی اور اس کے منکرین کی کشمکش آج نئی نہیں ہے بلکہ ان ہی بنیادوں پر قدیم ترین زمانے سے چلی آ رہی ہے اور اس کشمکش کا ہر زمانے میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا رہا ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ فریقین میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: جنت کو مومنوں کی میراث اس لئے کہا گیا ہے کہ ملکیت کے اسباب میں سے میراث ہی ایک ایسا طریقہ ہے جس میں ایک چیز خود بخود اس طرح انسان کی ملکیت میں آجاتی ہے کہ اس ملکیت کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ اشارہ اس طرف ہے کہ جنت کے مل جانے کے بعد اس کے چھن جانے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوگا۔