Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انسان کی پیدائش مرحلہ وار اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی ابتدا بیان کرتا ہے کہ اصل آدم مٹی سے ہیں ، جو کیچڑ کی اور بجنے والی مٹی کی صورت میں تھی پھر حضرت آدم علیہ السلام کے پانی سے ان کی اولاد پیدا ہوئی ۔ جیسے فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کرکے پھر انسان بنا کر زمین پر پھیلادیا ہے ۔ مسند میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو خاک کی ایک مٹھی سے پیدا کیا ، جسے تمام زمین پر سے لیا تھا ۔ پس اسی اعتبار سے اولاد آدم کے رنگ روپ مختلف ہوئے ، کوئی سرخ ہے ، کوئی سفید ہے ، کوئی سیاہ ہے ، کوئی اور رنگ کا ہے ۔ ان میں نیک ہیں اور بد بھی ہیں ۔ آیت ( ثم جعلنہ ) ۔ میں ضمیر کا مرجع جنس انسان کی طرف ہے جیسے ارشاد ہے آیت ( ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ Ď۝ۚ ) 32- السجدة:8 ) ۔ اور آیت میں ہے ( اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ 20؀ۙ ) 77- المرسلات:20 ) پس انسان کے لئے ایک مدت معین تک اس کی ماں کا رحم ہی ٹھکانہ ہوتا ہے جہاں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف اور ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے ۔ پھر نطفے کی جو ایک اچھلنے والا پانی ہے جو مرد کی پیٹ سے عورت کے سینے سے نکلتا ہے شکل بدل کر سرخ رنگ کی بوٹی کی شکل میں بدل جاتا ہے پھر اسے گوشت کے ایک ٹکڑے کی صورت میں بدل دیا جاتا ہے جس میں کوئی شکل اور کوئی خط نہیں ہوتا ۔ پھر ان میں ہڈیاں بنادیں سر ہاتھ پاؤں ہڈی رگ پٹھے وغیرہ بنائے اور پیٹھ کی ہڈی بنائی ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انسان کا تمام جسم سڑ گل جاتا ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے ۔ اسی سے پیدا کیا جاتا ہے اور اسی سے ترکیب دی جاتی ہے ۔ پھر ان ہڈیوں کو وہ گوشت پہناتا ہے تاکہ وہ پوشیدہ اور قوی رہیں ۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے جس سے وہ ہلنے جلنے چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے اور ایک جاندار انسان بن جائے ۔ دیکھنے کی سننے کی سمجھنے کی اور حرکت وسکون کی قدرت عطا فرماتا ہے ۔ وہ بابرکت اللہ سب سے اچھی پیدائش کا پیدا کرنے والا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب نطفے پر چار مہنیے گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھجتا ہے جو تین تین اندھیریوں میں اس میں روح پھونکتا ہے یہی معنی ہے کہ ہم پھر اسے دوسری ہی پیدائش میں پیدا کرتے ہیں یعنی دوسری قسم کی اس پیدائش سے مراد روح کا پھونکا جانا ہے پس ایک حالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی طرف ماں کے پیٹ میں ہی ہیر پھیر ہونے کے بعد بالکل ناسمجھ بچہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ جوان بن جاتا ہے پھر ادھیڑپن آتا ہے پھر بوڑھا ہوجاتا ہے پھر بالکل ہی بڈھا ہوجاتا ہے الغرض روح کا پھونکا جانا پھر ان کے انقلابات کا آنا شروع ہوجاتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ صادق ومصدوق آنحضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی ہے پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت میں رہتا ہے پھر چالیس دن تک وہ گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور بحکم الہٰی چار باتیں لکھ لی جاتی ہیں روزی ، اجل ، عمل ، اور نیک یا بد ، برا یا بھلا ہونا پس قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ ایک شخص جنتی عمل کرتا رہتا یہاں تک کہ جنت سے ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے لیکن تقدیر کا وہ لکھا غالب آجاتا ہے اور خاتمے کے وقت دوزخی کام کرنے لگتا ہے اور اسی پر مرتا ہے اور جہنم رسید ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک انسان برے کام کرتے کرتے دوزخ سے ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے لیکن پھر تقدیر کا لکھا آگے بڑھ جاتا ہے اور جنت کے اعمال پر خاتمہ ہو کر داخل فردوس بریں ہوجاتا ہے ۔ ( بخاری ومسلم وغیرہ ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نطفہ جب رحم میں پڑتا ہے تو وہ ہر ہر بال اور ناخن کی جگہ پہنچ جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد اس کی شکل جمے ہوئے خون جیسی ہوجاتی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے باتیں بیان کررہے تھے کہ ایک یہودی آگیا تو کفار قریش نے اس سے کہا یہ نبوت کے دعویدار ہیں اس نے کہا اچھا میں ان سے ایک سوال کرتا ہوں جسے نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ آپ کی مجلس میں آکر بیٹھ کر پوچھتا ہے کہ بتاؤ انسان کی پیدائش کس چیز سے ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا مرد عورت کے نطفے سے ۔ مرد کا نطفہ غلیظ اور گاڑھا ہوتا ہے اس سے ہڈیاں اور پٹھے بنتے ہیں اور عورت کا نطفہ رقیق اور پتلا ہوتا ہے اس سے گوشت اور خون بنتا ہے ۔ اس نے کہا ۔ آپ سچے ہیں اگلے نبیوں کا بھی یہی قول ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب نطفے کو رحم میں چالیس دن گزر جاتے ہیں تو ایک فرشتہ آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتا ہے کہ اے اللہ یہ نیک ہوگا یا بد؟ مرد ہوگا یا عورت؟ جو جواب ملتا ہے وہ لکھ لیتا ہے اور عمل ، عمر ، اور نرمی گرمی سب کچھ لکھ لیتا ہے پھر دفتر لپیٹ لیا جاتا ہے اس میں پھر کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں رہتی بزار کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہے جو عرض کرتا ہے اے اللہ اب نطفہ ہے ، اے اللہ اب لوتھڑا ہے ، اے اللہ اب گوشت کا ٹکڑا ہے ۔ جب جناب باری تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پوچھتا ہے اے اللہ مرد ہو یا عورت ، شکی ہو یا سعید؟ رزق کیا ہے ؟ اجل کیا ہے؟ اس کا جواب دیا جاتا ہے اور یہ سب چیزیں لکھ لی جاتی ہیں ان سب باتوں اور اتنی کامل قدرتوں کو بیان فرما کر فرمایا کہ سب سے اچھی پیدائش کرنے والا اللہ برکتوں والا ہے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب کی موافقت چار باتوں میں کی ہے جب یہ آیت اتری کہ ہم نے انسان کو بجتی مٹی سے پیدا کیا ہے تو بےساختہ میری زبان سے فتبارک اللہ احسن الخالقین نکلا اور وہی پھر اترا ۔ زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر والی آیتیں لکھوا رہے تھے اور آیت ( ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14؀ۭ ) 23- المؤمنون:14 ) تک لکھوا چکے تو حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کیسے ہنسے ؟ آپ نے فرمایا اس آیت کے خاتمے پر بھی یہی ہے اس حدیث کی سند کا ایک راوی جابر جعفی ہے جو بہت ہی ضعیف ہے اور یہ روایت بالکل منکر ہے ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتب وحی مدینے میں تھے نہ کہ مکے میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کا واقعہ بھی مدینے کا واقعہ ہے اور یہ آیت مکے میں نازل ہوئی ہے پس مندرجہ بالا روایت بالکل منکر ہے واللہ اعلم ۔ اس پہلی پیدائش کے بعد تم مرنے والے ہو ، پھر قیامت کے دن دوسری دفعہ پیدا کئے جاؤگے ، پھر حساب کتاب ہوگا خیروشر کا بدلہ ملے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121مٹی سے پیدا کرنے کا مطلب، ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) کی مٹی سے پیدائش ہے یا انسان جو خوراک بھی کھاتا ہے وہ سب مٹی سے ہی پیدا ہوتی ہیں، اس اعتبار سے اس نطفے کی اصل، جو خلقت انسانی کا باعث بنتا ہے، مٹی ہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] ضَلاَلَۃٌ بمعنی خلاصہ، نچوڑ، ست، جوہر، کسی بھی چیز سے نکالا ہوا کارآمد حصہ (مفردات القرآن) اور انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا پتلا مٹی سے بنایا گیا۔ پہلے یہ خشک مٹی تھی۔ پھر اس میں پانی ملایا گیا تو یہ گاڑا بن گیا۔ پھر اس کا خمیر اٹھایا گیا جس میں بدبو پیدا ہوگئی۔ پھر اسے گوندھ کر اس کا چیکدار اور لیسدار حصہ لیا گیا اور اسے خشک کرلیا گیا۔ پھر اسے حرارت پہنچائی گئی حتیٰ کہ وہ ٹن کی طرح بجنے لگا۔ جبکہ مٹی کے برتن اور ان کی مختلف شکلیں بنائی اور آگ میں پکائی جاتی ہیں۔ اور ان میں مٹی کا صرف چیکدار اور کارآمد حصہ ہی استعمال ہوتا ہے۔ اسی مٹی سے آدم کا پتلا تیار ہوا جس میں اللہ نے اپنی روح سے پھونکا تو جیتا جاگتا انسان وجود میں آگیا۔ پھر آئندہ آدم کی نسل توالد و تناسل اور نطفہ سے چلی۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے نطفہ بذات خود انسان کے جسم میں انھیں غذاؤں سے بنتا ہے جو زمین سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے نطفہ بھی بالآخر زمین ہی کا جوہر ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ : ” سُلٰـلَـةٍ “ ” سَلَّ یَسُلُّ “ کوئی چیز نرمی کے ساتھ کھینچتے ہوئے نکالنا۔ ” سَلَلْتُ السَّیْفَ “ ” میں نے میان سے تلوار نکالی۔ “ ” اَلسُّلَالَۃُ “ بمعنی ” اَلشَّيْ ءُ الْمَسْلُوْلُ “ یعنی کسی چیز کا خلاصہ۔ ” فُعَالَۃٌ“ کے وزن میں قلت کا مفہوم پایا جاتا ہے، جیسے ” قُلَامَۃٌ“ قلم کا تراشہ اور ” صُبَابَۃٌ“ تھوڑا سا گرا ہوا پانی۔- 3 ان آیات کی پچھلی آیات کے ساتھ مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاح پانے والے مومنوں کے فردوس کے وارث ہونے کا ذکر فرمایا، تو ظاہر ہے کہ یہ قیامت کے دن ہی ہوگا، اس لیے قیامت اور موت کے بعد زندگی کی دلیل کے طور پر انسان کی پہلی دفعہ پیدائش کا ذکر فرمایا، پھر کائنات میں اس سے بھی بڑی مخلوقات آسمان و زمین اور ان میں موجود نعمتوں کا ذکر دلیل کے طور پر فرمایا کہ جس نے یہ سب کچھ پہلی دفعہ پیدا کیا وہ دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ پھر اللہ کی توحید اور دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کے منکروں کے انجام بد سے ڈرایا، چناچہ سب سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم کے انکار اور ان پر آنے والے عذاب کا ذکر فرمایا۔ واللہ اعلم (نظم الدرر للبقاعی)- مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ : ” طِيْنٍ “ کی تنوین تحقیر کے لیے ہے اور ” سُلٰـلَـةٍ “ میں بھی قلت کا مفہوم موجود ہے، یعنی یہ انسان جسے تم چلتے پھرتے اور ہنستے مسکراتے دیکھتے ہو اس کی ابتدا حقیر مٹی کے تھوڑے سے خلاصے کے ساتھ ہوئی۔ ابوموسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَھَا مِنْ جَمِیْعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْھُمُ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ وَ بَیْنَ ذٰلِکَ وَالسَّھْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ ) [ أبو داوٗد، السنۃ، باب في القدر : ٤٦٩٣ ] ” اللہ عزو جل نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا ہے، جسے اس نے تمام روئے زمین سے جمع فرمایا تھا۔ چناچہ آدم کی اولاد اس مٹی کے لحاظ سے ہوئی ہے، کئی سرخ ہیں اور کئی سفید، کئی سیاہ ہیں اور کئی ان کے بین بین۔ کئی نرم خو ہیں اور کئی سخت طبیعت۔ کئی بری طبیعت کے مالک ہوتے ہیں اور کئی اچھی اور عمدہ طبیعت والے۔ “ اس آیت میں آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کا ذکر ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اول بیان ہے ایجاد انسان کا) اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ (یعنی غذا) سے بنایا (یعنی اول مٹی ہوتی ہے پھر اس سے بذریعہ نباتات کے غذا حاصل ہوتی ہے) پھر ہم نے اس کو نطفہ سے بنایا جو کہ (ایک مدت معینہ تک) ایک محفوظ مقام (یعنی رحم) میں رہا (اور وہ غذا سے حاصل ہوا تھا) پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنایا پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کو (گوشت کی) بوٹی بنادیا پھر ہم نے اس بوٹی (کے بعض اجزاء) کو ہڈیاں بنادیا پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا (جس سے وہ ہڈیاں ڈھک گئیں) پھر (ان سب انقلابات کے بعد) ہم نے (اس میں روح ڈال کر) اس کو ایک دوسری ہی (طرح کی) مخلوق بنادیا (جو حالات سابقہ سے نہایت ہی متمائز و متبائن ہے کیونکہ اس سے پہلے سب انقلابات ایک جماد بےجان میں ہو رہے تھے اور اب یہ ایک ذی حیات زندہ انسان بن گیا) سو کیسی شان ہے اللہ کی جو تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے (کیونکہ دوسرے صناع تو اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں جوڑ توڑ کر کے ہی بنا سکتے ہیں۔ زندگی پیدا کرنا یہ خاص اللہ ہی کا کام ہے اور نطفہ پر مذکورہ انقلاب کی تفصیل اسی ترتیب کے ساتھ قانون وغیرہ کتب طبیہ میں بھی مذکور ہے آگے انسان کے آخری انجام فنا کا بیان ہے) پھر تم بعد اس (تمام قصہ عجیبہ) کے ضرور ہی مرنے والے ہو (آگے بیان ہے اعادہ کا یعنی) پھر تم قیامت کے روز دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے (اور جس طرح ہم نے تم کو ابتداء وجود عطا فرمایا اسی طرح تمہاری بقا کا سامان بھی کیا کہ) ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان (جن میں ملائکہ کے آمد و رفت کیلئے راہیں ہیں) بنائے (کہ اس سے تمہاری بھی بعض مصلحتیں متعلق ہیں) اور ہم مخلوق (کی مصلحتوں) سے بیخبر نہ تھے۔ (بلکہ ہر مخلوق کو مصالح و حکم کی رعایت کر کے بنایا) اور ہم نے (انسان کی بقاء اور نشو و نما کے لئے آسمان سے (مناسب) مقدار کے ساتھ پانی برسایا پھر ہم نے اس کو (مدت تک) زمین میں ٹھہرایا (چنانچہ کچھ پانی تو زمین کے اوپر رہتا ہے اور کچھ اتر جاتا ہے جو وقتاً فوقتاً نکلتا رہتا ہے) اور ہم (جس طرح اس کے برسانے پر قادر ہیں اسی طرح) اس (پانی) کے معدوم کردینے پر (بھی) قادر ہیں (خواہ ہوا کی طرف مستحیل کر کے خواہ اتنی دور زمین کی گہرائی میں اتار کر کہ آلات کے ذریعہ سے نہ نکال سکو مگر ہم نے باقی رکھا) پھر ہم نے اس (پانی) کے ذریعہ سے باغ پیدا کئے کھجوروں کے انگوروں کے تمہارے واسطے ان (کھجوروں انگوروں) میں بکثرت میوے بھی ہیں (جبکہ ان کو تازہ تازہ کھایا جاوے تو میوہ سمجھا جاتا ہے) اور ان میں سے (جو بچا کر خشک کر کے رکھ لیا جاتا ہے اس کو بطور غذا کے) کھاتے بھی ہو اور (اسی پانی سے) ایک (زیتون کا) درخت بھی (ہم نے پیدا کیا) جو کہ طور سینا میں (بکثرت) پیدا ہوتا ہے جو اگتا ہے تیل لئے ہوئے اور کھانے والوں کے لئے سالن لئے ہوئے (یعنی اس کے پھل سے دونوں فوائد حاصل ہوتے ہیں خواہ روشن کرنے والوں کے لئے سالن لئے ہوئے (یعنی اس کے پھل سے دونوں فوائد حاصل ہوتے ہیں خواہ روشن کرنے کے اور مالش کرنے کے کام میں لاؤ خواہ اس میں روٹی ڈبو کر کھاؤ یہ سامان مذکور پانی اور نباتات سے تھا) اور (آگے حیوانات کے ذریعہ انسان کے منافع اور آسانیوں کا بیان ہے کہ) تمہارے لئے مواشی میں (بھی) غور کرنے کا موقع ہے کہ ہم تم کو ان کے جوف میں کی چیز (یعنی دودھ) پینے کو دیتے ہیں اور تمہارے لئے ان میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں (کہ ان کے بال اور اون کام آتی ہے) اور (نیز) ان میں سے بعض کو کھاتے بھی ہو اور ان (میں جو باربرداری کے قابل ہیں ان) پر اور کشتی پر لدے لدے پھرتے (بھی) ہو۔ - معارف و مسائل - پچھلی آیات میں انسان کی فلاح دنیا و آخرت کا طریقہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی تعمیل میں اپنے ظاہر و باطن کو پاک رکھنے اور تمام انسانوں کے حقوق ادا کرنے سے بیان کیا گیا تھا۔ آیات مذکورہ میں اللہ جل شانہ کی قدرت کاملہ اور بنی نوع انسان کی تخلیق میں اس کے مظاہر خاص کا ذکر ہے جس سے واضح ہوجائے کہ انسان جس کو عقل و شعور ہو وہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیار کر ہی نہیں سکتا۔- وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ ، سلالہ بمعنے خلاصہ اور طین، گیلی مٹی، جس کے معنے یہ ہیں کہ زمین کی مٹی کے خاص اجزاء نکال کر اس سے انسان کو پیدا کیا گیا۔ انسان کی تخلیق کی ابتداء حضرت آدم (علیہ السلام) سے اور ان کی تخلیق اس مٹی کے خلاصہ سے ہوئی اس لئے ابتدائی تخلیق کو مٹی کی طرف منسوب کیا گیا۔ اس کے بعد ایک انسان کا نطفہ دوسرے انسان کی تخلیق کا سبب بنا۔ اگلی آیت میں اسی کا بیان ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً سے فرمایا ہے مطلب یہ ہے کہ ابتدائی تخلیق مٹی سے ہوئی پھر آگے سلسلہ تخلیق اسی مٹی کے جزء لطیف یعنی نطفہ سے جاری کردی گئی۔ جمہور مفسرین نے آیت مذکورہ کی تفسیر یہی لکھی ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ سے مراد بھی نطفہ انسانی ہو کیونکہ وہ غذا سے پیدا ہوتا ہے اور غذا انسانی مٹی سے بنتی ہے۔ واللہ اعلم۔- تخلیق انسانی کے سات مدارج :- آیات مذکورہ میں انسان کی تخلیق کی سات دور ذکر کئے گئے ہیں۔ سب سے پہلے سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ ، دوسرے درجہ میں نطفہ، تیسرے میں علقہ، چوتھے میں مضغہ پانچویں میں عظام یعنی ہڈیاں، چھٹے دور میں ہڈیوں پر گوشت چڑھانا، ساتواں دور تکمیل تخلیق کا ہے یعنی روح پھونکنا۔- ایک لطیفہ عجیبہ از حضرت ابن عباس :- تفسیر قرطبی میں اس جگہ حضرت عبداللہ بن عباس سے اسی آیت سے استدلال کر کے ایک عجیب لطیفہ شب قدر کی تعیین میں نقل کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ اکابر صحابہ کے مجمع سے سوال کیا کہ شب قدر رمضان کی کون سی تاریخ میں ہے ؟ سب نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ اللہ اعلم کوئی تعیین بیان نہیں کی۔ حضرت ابن عباس ان سب میں چھوٹے تھے ان سے خطاب فرمایا کہ آپ کیا کہتے ہیں تو ابن عباس نے فرمایا کہ امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے آسمان سات پیدا کئے، زمینیں سات پیدا کیں، انسان کی تخلیق سات درجات میں فرمائی۔ انسان کی غذا سات چیزیں بنائیں اس لئے میری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ شب قدر ستائیسویں شب ہوگی۔ فاروق اعظم نے یہ عجیب استدلال سن کر اکابر صحابہ سے فرمایا کہ آپ سے وہ بات نہ ہوسکی جو اس لڑکے نے کی جس کے سر کے بال بھی ابھی مکمل نہیں ہوئے۔ یہ حدیث طویل ابن ابی شیبہ کے مسند میں ہے۔ حضرت ابن عباس نے تخلیق انسانی کے سات درجات سے مراد وہی لیا ہے جو اس آیت میں ہے اور انسان کی غذا کی سات چیزیں سورة عبس کی آیت میں ہیں فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا حَبًّا، وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا، وَّزَيْتُوْنًا وَّنَخْلًا، وَّحَدَاۗىِٕقَ غُلْبًا، وَّفَاكِهَةً وَّاَبًّا، اس آیت میں آٹھ چیزیں مذکور ہیں جن میں پہلی سات انسان کی غذا ہے اور آخری یعنی اب یہ جانوروں کی غذا ہے۔ (قرطبی)- پھر تخلیق انسانی پر جو سات دور گزرتے ہیں قرآن کریم کی بلاغت دیکھئے کہ ان سب کو ایک ہی انداز سے بیان نہیں فرمایا بلکہ کہیں ایک دور سے دوسرے دور تک انقلاب کو لفظ ثم سے تعبیر کیا ہے جو تراخی یعنی کچھ دیر سے ہونے پر دلالت کرتا ہے کہیں اس انقلاب کا ذکر حرف فاء سے کیا ہے جو بلا تاخیر ہونے پر دلالت کرتا ہے اس میں اشارہ اس ترتیب کی طرف ہے جو ایک انقلاب سے دوسرے انقلاب کے درمیان فطرةً ہوتی ہے کہ بعض انقلابات انسانی عقل کے لحاظ سے بہت مشکل اور بہت دیر طلب ہوتے ہیں۔ بعض اتنے دیر طلب نہیں ہوتے چناچہ قرآن کریم نے ابتدائی تین دور کو لفظ ثم کے ساتھ بیان کیا ہے اول سلالہ طین پھر اس کو نطفہ کی صورت میں تبدیل کرنا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـۃٍ مِّنْ طِيْنٍ۝ ١٢ۚ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سل - سَلُّ الشیء من الشیء : نزعه، كسلّ السّيف من الغمد، وسَلُّ الشیء من البیت علی سبیل السّرقة، وسَلُّ الولد من الأب، ومنه قيل للولد : سَلِيلٌ. قال تعالی: يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، وقوله تعالی: مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ [ المؤمنون 12] ، أي : من الصّفو الذي يُسَلُّ من الأرض، وقیل : السُّلَالَةُ كناية عن النطفة تصوّر دونه صفو ما يحصل منه . والسُّلُّ «1» : مرض ينزع به اللّحم والقوّة، وقد أَسَلَّهُ الله، وقوله عليه السلام : «لا إِسْلَالَ ولا إغلال» «2» . وتَسَلْسَلَ الشیء اضطرب، كأنه تصوّر منه تَسَلُّلٌ متردّد، فردّد لفظه تنبيها علی تردّد معناه، ومنه السِّلْسِلَةُ ، قال تعالی: فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُها سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة 32] ، وقال تعالی: سَلاسِلَ وَأَغْلالًا وَسَعِيراً [ الإنسان 4] ، وقال : وَالسَّلاسِلُ يُسْحَبُونَ [ غافر 71] ، وروي : «يا عجبا لقوم يقادون إلى الجنّة بالسّلاسل» «3» . وماء سَلْسَلٌ:- متردّد في مقرّه حتی صفا، قال الشاعر :۔ أشهى إليّ من الرّحيق السَّلْسَلِ- «4» وقوله تعالی: سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، أي : سهلا لذیذا سلسا حدید الجرية، وقیل : هو اسم عين في الجنّة، وذکر بعضهم أنّ ذلک مركّب من قولهم : سل سبیلا «5» ، نحو : الحوقلةوالبسملة ونحوهما من الألفاظ المرکّبة، وقیل : بل هو اسم لكلّ عين سریع الجرية، وأسلة اللّسان : الطّرف الرّقيق .- ( س ل ل ) سل ( ن ) الشی من الشی کے معنی ایک چیز کے دوسری سے کھینچ لینے کے ہیں جیسے تلوار کا نیام سے سونتنا ۔ یا گھر سے کوئی چیز چوری کھسکا لینا ۔ قرآن میں ہے ۔ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ۔ اسی مناسبت سے باپ کے نطفہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے : ۔ جیسے فرمایا :۔ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ [ المؤمنون 12] خلاصے سے ( یعنی ) حقیر پانی سے پیدا کی ۔ یعنی وہ ہر جوہر جو غذا کا خلاصہ ہوتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں بطور کنایہ نطفہ مراد ہے ۔ اور نطفہ پر اس کا اطلاق اس جوہر کے لحاظ سے ہے جس سے نطفہ بنتا ہے ۔ السل : سل کی بیماری کیونکہ یہ انسان سے گوشت اور قوت کو کھینچ لیتی ہے اور اسلہ اللہ کے معنی ہیں " اللہ تعالیٰ نے اسے سل کی بیماری میں مبتلا کردیا " ۔ حدیث میں ہے لا اسلال ولا اغلال کہ چوری اور خیانت نہیں ہے ۔ تسلسل الشئی کے معنی کسی چیز کے مضطرب ہونے کے ہیں گویا اس میں بار بار کھسک جانے کا تصور کر کے لفظ کو مکرر کردیا ہے تاکہ تکرار لفظ تکرار معنی پر دلالت کرے اسی سے سلسلۃ ہے جس کے معنی زنجیر کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُها سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة 32]( پھر ) زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے ( جکڑ دو ) ۔ سلسلہ کی جمع سلاسل آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَلاسِلَ وَأَغْلالًا وَسَعِيراً [ الإنسان 4] زنجیریں اور طوق اور دہکتی آگ ( تیار کر رکھی ہے ) وَالسَّلاسِلُ يُسْحَبُونَ [ غافر 71] اور زنجیر میں ہوں گی اور گھسیٹے جائیں گے ۔ ایک حدیث میں ہے «يا عجبا لقوم يقادون إلى الجنّة بالسّلاسل» اس قوم پر تعجب ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف کھینچنے جا رہے ہیں ۔ اور ماء سلسل اس پانی کو کہتے ہیں جو اپنی قرار گاہ میں مضطرب ہو کر صاف ہوجائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 232 ) أشهى إليّ من الرّحيق السَّلْسَلِ اور آیت سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] میں سلسبیل کے معنی تیزی سے بہتے ہوئے صاف لذیذ اور خوشگوار پانی کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ جنت کے ایک چشمہ کا نام ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ سل اور سبیل سے بنا ہے اور حوقلۃ و بسملۃ وغیرہ کی طرح الفاظ مرکبہ کے قبیل سے ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ ہر تیز رو چشمے کو سلسبیل کہا جاتا ہے ۔ اور زبان کے باریک سرے کو اسلۃ اللسان کہتے ہیں ۔- طين - الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] .- ( ط ی ن ) الطین - ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢۔ ١٤) اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ یعنی غذا سے بذریعہ آدم (علیہ السلام) پیدا کیا پھر ہم نے اس خلاصہ یعنی غذا کو منی بنادیا جو چایس دن تک ایک محفوظ مقام یعنی رحم میں رہا پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنادیا جو چالیس روز تک اسی حالت میں رہا پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کی بوٹی بنادی جو چالیس دن تک اسی حالت میں رہی، پھر ہم نے اس بوٹی کے بعض اجزا کو ہڈیاں بنادیا پھر ہم نے ان بوٹیوں پر گوشت اور رگ اور پٹھے چڑھائے، پھر ہم نے اس میں روح ڈال کر ایک دوسری طرح کی مخلوق بنا دیا، سو کیسی بڑی شان ہے اللہ کی جو تمام ہنرمندوں سے بڑھ کر ہے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ ولقد خلقنا الانسان “۔ (الخ)- اور ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت عمر (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے چار باتوں میں اپنے رب کے ساتھ موافقت کی چناچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے کہا کہ ہم بھی لوٹائے جائیں گے، ( آیت) ” فتبارک اللہ احسن الخالقین “۔ تو یہی الفاظ قرآن کریم میں نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب جو مضمون آ رہا ہے وہ اس سے پہلے سورة الحج کی آیت ٥ میں بھی آچکا ہے ‘ مگر وہاں اختصار کے ساتھ آیا تھا ‘ جبکہ یہاں زیادہ وضاحت اور جامعیت کے ساتھ آیا ہے۔ اس سے سورة الحج کے ساتھ اس سورت کی مشابہت کا پہلو بھی نظر آتا ہے۔- آیت ١٢ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ) ” - تلوار کو نیام سے باہر کھینچنے کے عمل کو ” سَلَّ یَسُلُّ “ جبکہ نیام سے باہر نکلی ہوئی ننگی تلوار کو ” مَسْلُوْل “ کہا جاتا ہے۔ کسی بھی چیز کا اصل جوہر جو اس میں سے کشید کیا گیا ہو ” سُلَالَۃ “ کہلاتا ہے۔ چناچہ اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو براہ راست مٹی کے جوہر سے تخلیق کیا گیا اور پھر پوری نسل انسانی چونکہ ان کی اولاد تھی اس لیے اپنی تخلیق کے حوالے سے ہر انسان کو گویا اسی مادہ تخلیق یعنی مٹی سے نسبت ٹھہری۔ لیکن میرے نزدیک اس کی زیادہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ مرد کے جسم میں بننے والا نطفہ دراصل مٹی سے کشید کیا ہوا جوہر ہے۔ اس لیے کہ انسان کو خوراک تو مٹی ہی سے حاصل ہوتی ہے ‘ چاہے وہ معدنیات اور نباتات کی شکل میں اسے براہ راست زمین سے ملے یا نباتات پر پلنے والے جانوروں سے حاصل ہو۔ اس خوراک کی صورت میں گارے اور مٹی کے جوہر کشید ہو کر انسانی جسم میں جاتے ہیں اور اس سے وہ نطفہ بنتا ہے جس سے بالآخر بچے کی تخلیق ممکن ہوتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: انسان کا مٹی سے پیدا ہونا یا تو اس اعتبار سے ہے کہ تمام انسانوں کے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، پھر تمام انسان ان کی پشت سے پیدا ہوئے، اس لیے بالواسطہ تمام انسانوں کی اصل مٹی ہے، یا پھر اس کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان کی تخلیق منی کے قطرے سے ہوتی ہے، اور وہ غذا سے پیدا ہوتی ہے جس کے اگنے اور بننے میں مٹی کا دخل واضح ہے۔