11 1 1دنیا میں اہل ایمان کے لئے ایک صبر آزما مرحلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب دین و ایمان پر عمل کرتے ہیں تو دین سے ناآشنا اور ایمان سے بیخبر لوگ انھیں ہنسی مذاق و ملامت کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ کتنے ہی کمزور ایمان والے ہیں کہ وہ ان ملامتوں سے ڈر کر بہت سے احکام اللہ پر عمل کرنے سے کرتے ہیں، جیسے ڈاڑھی ہے، پردے کا مسئلہ ہے، شادی بیاہ کی ہندوانہ رسومات سے اجتناب ہے وغیرہ وغیرہ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو کسی بھی ملامت کی پروا نہیں کرتے اور اللہ و رسول کی اطاعت سے کسی بھی موقع پر انحراف نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن انھیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے گا اور انھیں کامیابی سے سرفراز کرے گا۔ جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے۔ اللَّھُمَّ اَجْعَلْنَا مِنْھُمْ ۔
[١٠٤] لیکن تمہارے اس تمسخر اور مذاق کے مقابلہ میں میرے مخلص بندے دنیا میں صبر ہی کرتے رہے۔ آج میں تمہیں تمہاری کرتوتوں کی پوری سزا دوں گا اور انھیں ان کے صبر کی پوری پوری جزاء دے رہا ہوں۔ میں انھیں ایسا مقام عطا کر رہا ہوں جہاں وہ ہر طرح کی لذتوں اور مسرتوں سے ہمکنار ہوں گے اور یہی صبر کرنے والے لوگ ہیں جو ہر طرح سے کامیاب رہے۔
اِنِّىْ جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ ۔۔ : دنیا میں اہل ایمان کے لیے ایک صبر آزما مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ دین پر عمل کرتے ہیں تو دین سے جاہل اور ایمان سے بیخبر لوگ انھیں ہنسی مذاق اور ملامت کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ کتنے ہی کمزور ایمان والے ہیں جو ان ملامتوں سے ڈر کر بہت سے احکام الٰہی پر عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں، جیسے مشرکانہ رسوم سے کنارہ کشی اور ان کا رد ہے، ڈاڑھی ہے، پردے کا مسئلہ ہے، شادی بیاہ اور موت وغیرہ کی ہندوانہ رسوم سے اجتناب ہے وغیرہ وغیرہ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو کسی بھی ملامت کی پروا نہیں کرتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے کسی بھی موقع پر انحراف نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انھیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے گا اور انھی کو کامیابی سے سرفراز فرمائے گا۔ یا اللہ تو ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرما۔ (آمین) سورة مطففین کی آیات (٢٩ تا ٣٦) بھی ملاحظہ فرمائیں۔
اِنِّىْ جَزَيْتُہُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوْٓا ٠ۙ اَنَّہُمْ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ ١١١- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - فوز - الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] ، - ( ف و ز ) الفوز - کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔
(١١١) میں نے انھیں آج ان کے صبر کا بدلہ جنت کی صورت میں دیا کیوں کہ وہ میری اطاعت پر ثابت قدم رہے اور تمہاری تکالیف پر انہوں نے صبر کیا اور یہی حضرات جنت کے ملنے اور دوزخ سے نجات حاصل ہونے کی وجہ سے کامیاب ہوئے۔- یہ آیت مبارکہ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ وہ لوگ حضرت سلمان فارسی (رض) اور ان کے ساتھیوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :99 پھر اسی مضمون کا اعادہ ہے کہ فلاح کا مستحق کون ہے اور خسران کا مستحق کون ۔