Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مختصر زندگی طویل گناہ بیان ہو رہا ہے کہ دنیا کی تھوڑی سے عمر میں یہ بدکاریوں میں مشغول ہوگئے اگر نیکوں کار رہتے تو اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ ان نیکیوں کا بڑا اجر پاتے آج ان سے سوال ہوگا کہ تم دنیا میں کس قدر رہے جواب دیں گے کہ بہت ہی کم ایک دن یا اس بھی کم حساب داں لوگوں سے دریافت کرلیا جائے جواب ملے گا کہ اتنی مدت ہو یا زیادہ لیکن واقع میں وہ آخرت کی مدت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے اگر تم اسی کو جانتے ہوتے تو اس فانی کو اس جاودانی پر ترجیح نہ دیتے اور برائی کرکے اس تھوڑی سی مدت میں اس قدر اللہ کو ناراض نہ کردیتے وہ ذرا سا وقت اگر صبر وضبط سے اطاعت الہٰی میں بسر کردیتے تو آج راج تھا ۔ خوشی ہی خوشی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب جنتی دوزخی اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے تو جناب باری عزوجل مومنوں سے پوچھے گا کہ تم دنیا میں کتنی مدت رہے ؟ وہ کہیں گے یہی کوئی ایک آدھ دن اللہ فرمائے گا پھر تو بہت ہی اچھے رہے کہ اتنی سی دیر کی نیکیوں کا یہ بدلہ پایا کہ میری رحمت رضامندی اور جنت حاصل کر لی ۔ جہاں ہمیشگی ہے پھر جہنمیوں سے یہ سوال ہوگا وہ بھی اتنی ہی مدت بتائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہاری تجارت بڑی گھاٹے والی ہوئی کہ اتنی سی مدت میں تم نے میری ناراضگی غصہ اور جہنم خرید لیا ، جہاں تم ہمیشہ پڑے رہوگے کیا تم لوگ یہ سمجھے ہوئے ہو کہ تم بیکار بےقصد ارادہ پیدا کئے گے ہو؟ کوئی حکمت تمہاری پیدائش میں نہیں ؟ محض کھیل کے طور پر تمہیں پیدا کردیا گیا ہے ؟ کہ مثل جانوروں کے تم اچھلتے کودتے پھرو ثواب عذاب کے مستحق ہو یہ گمان غلط ہے تم عبادت کے لئے اللہ کے حکموں کی بجا آوری کے لئے پیدا کیے گئے ہو ۔ کیا تم یہ خیال کرکے بے فکر ہوگے ہوگئے ہو کہ تمہیں ہماری طرف لوٹنا ہی نہیں؟ یہ بھی غلط خیال ہے جیسے فرمایا آیت ( اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى 36؀ۭ ) 75- القيامة:36 ) کیا لوگ یہ گماں کرتے ہیں کہ وہ مہمل چھوڑ دئیے جائیں گے اللہ کی بات اس سے بلندوبرتر ہے کہ وہ کوئی عبث کام کرے بیکار بنائے بگاڑے وہ سچا بادشاہ اس سے پاک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے وہ بہت بھلا اور عمدہ ہے خوش شکل اور نیک منظر ہے جیسے فرمان ہے زمین میں ہم نے ہرجوڑا عمدہ پیدا کردیا ہے خلیفۃ المسلمین امیر المومنین حضرت عمربن عبداالعزیر رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے آخری خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو تم بیکار اور عبث پیدا نہیں کئے گئے اور تم مہمل چھوڑ نہیں دئے گئے یاد رکھو کہ وعدے کا ایک دن ہے جس میں خود اللہ تعالیٰ فیصلے کرنے اور حکم فرمانے کیلئے نازل ہوگا ۔ وہ نقصان میں پڑا اس نے خسارہ اٹھایا وہ بےنصیب اور بدبخت ہوگیا ، وہ محروم اور خالی ہاتھ رہا ، جو اللہ کی رحمت سے دور ہوگیا اور جنت سے روک دیا گیا ، جس کی چوڑائی مثل کل زمینوں اور آسمانوں کے ہے ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کل قیامت کے دن عذاب الٰہی سے وہ بچ جائے گا ، جس کے دل میں اس دن کا خوف آج ہے اور جو اس فانی دنیا کو اس باقی آخرت پر قربان کر رہا ہے ، اس تھوڑے کو اس بہت کے حاصل کرنے کیلئے بےتکان خرچ کر رہا ہے اور اپنے اس خوف کو امن سے بدلنے کے اسباب مہیا کر رہا ہے ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم سے گزشتہ لوگ ہلاک ہوئے ، جن کے قائم مقام اب تم ہو ۔ اسی طرح تم بھی مٹا دیئے جاؤ گے اور تمہارے بدلے آئندہ آنے والے آئیں گے یہاں تک کہ ایک وقت آئے گا کہ ساری دنیا سمٹ کر اس خیرالوراثین کے دربار میں حاضری دے گی ۔ لوگو خیال تو کرو کہ تم دن رات اپنی موت سے قریب ہو رہے ہو اور اپنے قدموں سے اپنی گور کی طرف جا رہے ہو ، تمہارے پھل پک رہے ہیں ، تمہاری امیدیں ختم ہو رہی ہیں ، تمہاریں عمریں پوری ہو رہی ہیں ۔ تمہاری اجل نزدیک آگئی ہے ، تم زمین کے گڑھوں میں دفن کردیئے جاؤ گے ، جہاں نہ کوئی بستر ہوگا ، نہ تکیہ ، دوست احباب چھوٹ جائیں گے ، حساب کتاب شروع ہو جائے گا ، اعمال سامنے آ جائیں گے ، جو چھوڑ آئے وہ دوسروں کا ہو جائے گا ۔ جو آگے بھیج چکے ، اسے سامنے پاؤ گے ، نیکیوں کے محتاج ہوگے ، بدیوں کی سزائیں بھگتو گے ۔ اے اللہ کے بندو اللہ سے ڈرو ، اس کی باتیں سامنے آ جائیں اس سے پہلے موت تم کو اچک لے جائے ۔ اس سے پہلے جواب دہی کیلئے تیار ہو جاؤ ، اتنا کہا تھا کہ رونے کے غلبہ نے آواز بلند کردی ۔ منہ پر چادر کا کونہ ڈال کر رونے لگے اور حاضرین کی بھی آہ و زاری شروع ہوگئی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک بیمار شخص جسے کوئی جن ستا رہا تھا ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے افحسبتم سے سورت کے ختم تک کی آیتیں اس کے کان میں تلاوت فرمائیں وہ اچھا ہوگیا ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم نے اس کے کان میں کیا پڑھا تھا ؟ آپ نے بتایا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے یہ آیتیں اس کے کان میں پڑھ کر اسے جلا دیا ۔ واللہ ان آیتوں کو اگر کوئی باایمان اور بایقین شخص کسی پہاڑ پر پڑھے تو وہ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائے ۔ ابو نعیم نے روایت کی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر میں بھیجا اور حکم فرمایا کہ ہم صبح شام آیت ( اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ١١٥؁ ) 23- المؤمنون:115 ) پڑھتے رہیں ہم نے برابر اس کی تلاوت دونوں وقت جاری رکھی ۔ الحمدللہ ہم سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کا ڈوبنے سے بچاؤ کشتیوں میں سوار ہونے کے وقت یہ کہنا ہے ۔ دعاو آیت ( بسم اللہ الملک الحق و ماقدرو واللہ حق قدرہ والارض جمعیا قبضتہ یوم القیامتہ والسموت مطویات بیمینہ سبحانہ و تعالیٰ عما یشرکون بسم اللہ مجریھا و مرسھا ان ربی لغفور رحیم ) ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِيْنَ : کفار قیامت کا انکار کرتے تھے اور دنیا کی زندگی کے علاوہ کسی زندگی کو نہیں مانتے تھے۔ ان کے خیال میں مٹی اور ہڈیاں ہوجانے کے بعد زندہ ہونا ممکن نہ تھا، اس لیے انھوں نے دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھا، اسے آخرت پر ترجیح دی اور اسے اس طرح گزارا جیسے انھیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے، حالانکہ یہ تھوڑا سا وقت غنیمت جان کر اگر آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتے اور اسے اللہ کی فرماں برداری میں گزارتے تو اس کے صلے میں ہمیشہ ہمیشہ جنت کی نہ ختم ہونے والی نعمتوں کے مالک بنتے۔ لیکن انھوں نے یہ تھوڑا سا وقت بہت لمبا زمانہ سمجھ کر اللہ کی نافرمانی میں گزارا تو اس کے بدلے میں ہمیشہ ہمیشہ جہنم کے مستحق ٹھہرے۔ قیامت کے دن جب وہ اس عذاب میں مبتلا ہوں گے جو ختم ہونے والا ہی نہیں، تو اللہ تعالیٰ انھیں اس زندگی کی حقیقت یاد دلانے کے لیے، جسے وہ سبھی کچھ سمجھتے تھے، ان سے سوال کریں گے کہ تم زمین میں کتنے سال رہے ہو ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِيْنَ۝ ١١٢- كم - كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم الذي يميّز به . نحو :- كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال :- وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة .- کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔- لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- عد - العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ- [يونس 5] ، وقوله تعالی: فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً- [ الكهف 11] ، فَذِكْرُهُ للعَدَدِ تنبيه علی کثرتها .- والعَدُّ ضمُّ الأَعْدَادِ بعضها إلى بعض . قال تعالی: لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا - [ مریم 94] ، فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] ، أي : أصحاب العَدَدِ والحساب . وقال تعالی: كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] ، وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] ،- ( ع د د ) العدد - ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ہم نے غار میں کئی سال تک ان کانوں پر ( نیند کا ) بردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ کے لفظ سے کثرت تعداد کی طرف اشارہ ہے ۔ العد کے معنی گنتی اور شمار کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم 94] اس نے ان سب کا اپنے علم سے احاطہ اور ایک ایک کو شمار کر رکھا ہے ۔ اور آیت ۔ فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] کے معنی یہ ہیں کہ حساب دانوں سے پوچھ دیکھو ۔ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] زمین میں کتنے برس رہے ۔ وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] بیشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے :

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٢) ارشاد خداوندی ہوگا کہ اچھا یہ تو بتلاؤ کہ تم مہینوں اور دنوں کے اعتبار سے کتنی مدت قبروں میں رہے ہو گے ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani