Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1131اس سے مراد فرشتے ہیں، جو انسانوں کے اعمال اور عمریں لکھنے پر مامور ہیں یا وہ انسان مراد ہیں جو حساب کتاب میں مہارت رکھتے ہیں۔ قیامت کی ہولناکیاں، ان کے ذہنوں سے دنیا کی عیش و عشرت کو محو کردیں گی اور دنیا کی زندگی انھیں ایسے لگے گی جیسے دن یا آدھا دن۔ اس لئے وہ کہیں گے کہ ہم تو ایک دن یا اس سے بھی کم وقت دنیا میں رہے۔ بیشک تو فرشتوں سے یا حساب جاننے والوں سے پوچھ لے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٥] ان مذاق اڑانے والوں اور دوزخ میں داخل ہونے والوں سے اللہ تعالیٰ یا اس کے فرشتے سوال کریں گے : بھلا بتلاؤ تو کہ تم زمین میں کتنے سال مقیم رہے ؟ اس سوال میں زمین سے مراد صرف دنیا کی زندگی بھی ہوسکتی ہے اور قبر کی زندگی سمیت مجموعی زندگی بھی۔ جس کے جواب میں وہ کہیں گے کہ ہمیں تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم زمین میں بھی کوئی ایک آدھ دن مقیم رہے ہیں اور ٹھیک ٹھیک مدت تو شمار کرنے والے ہی بتلا سکتے ہیں۔ ان سے پوچھ لیجئے۔ اس جملہ میں حادین یا شمار کرنے والوں سے مراد اعمال نامہ مرتب کرنے والے بھی فرشتے بھی ہوسکتے ہیں۔ جو ایک ایک دن بلکہ ایک ایک گھڑی کے اعمال ساتھ ہی ساتھ ریکارڈ کرتے جارہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۔۔ : وہ جواب میں کہیں گے کہ ہم وہاں ایک دن یا اس کا کچھ حصہ رہے ہیں۔ گویا وہ عذاب کی مصیبت میں ایسے پھنسے ہوں گے کہ انھیں اچھی طرح وہ عرصہ بھی یاد نہیں رہے گا جو انھوں نے دنیا میں گزارا، اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں یہ کہہ کر کہ ہم نے وہاں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ گزارا ہے، یہ کہیں گے کہ ہمیں تو وہ مدت اچھی طرح یاد نہیں، اس لیے آپ شمار کرنے والوں سے پوچھ لیں، جنھوں نے ہماری زندگی کے ایک ایک سانس کے عمل کو شمار کر رکھا ہے۔ مراد فرشتے ہیں۔- 3 انھیں دنیا کی زندگی اتنی مختصر کیوں دکھائی دے گی، اس لیے کہ گزرا ہوا وقت ایسے ہی دکھائی دیتا ہے اور اس لیے کہ جو ختم ہوجائے وہ باقی رہنے والے کے مقابلے میں کالعدم ہوتا ہے اور اس لیے کہ جہنم کے ایک غوطے کے بعد ہی انھیں یہ محسوس ہوگا کہ انھوں نے کبھی راحت و آرام دیکھا ہی نہیں۔ [ دیکھیے مسلم : ٢٨٠٧ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَسْـَٔـــلِ الْعَاۗدِّيْنَ۝ ١١٣- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- عد - العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ- [يونس 5] ، وقوله تعالی: فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً- [ الكهف 11] ، فَذِكْرُهُ للعَدَدِ تنبيه علی کثرتها .- والعَدُّ ضمُّ الأَعْدَادِ بعضها إلى بعض . قال تعالی: لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا - [ مریم 94] ، فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] ، أي : أصحاب العَدَدِ والحساب . وقال تعالی: كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] ، وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] ،- ( ع د د ) العدد - ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ہم نے غار میں کئی سال تک ان کانوں پر ( نیند کا ) بردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ کے لفظ سے کثرت تعداد کی طرف اشارہ ہے ۔ العد کے معنی گنتی اور شمار کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم 94] اس نے ان سب کا اپنے علم سے احاطہ اور ایک ایک کو شمار کر رکھا ہے ۔ اور آیت ۔ فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] کے معنی یہ ہیں کہ حساب دانوں سے پوچھ دیکھو ۔ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] زمین میں کتنے برس رہے ۔ وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] بیشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے :

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٣) وہ جواب دیں گے بہت رہے ہوں گے تو ایک دن، پھر اس میں بھی ان کو شک ہوجائے گا تو بولیں گے یا ایک دن سے بھی کم ہم رہیں ہوں گے اور سچ یہ ہے کہ ہمیں کچھ یاد نہیں فرشتوں سے یا ملک الموت اور ان کے مددگاروں سے پوچھ لیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :100 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 80 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

34: آخرت کا عذاب اتنا سخت یوگا کہ اس کے مقابلے میں دنیا کی ساری زندگی اور اس میں جو عیش و عشرت کیے تھے وہ ان دوزخیوں کو ایک دن یا اس سے بھی کم معلوم ہوں گے۔