11 4 1اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی دائمی زندگی کے مقابلے میں یقینا دنیا کی زندگی بہت ہی قلیل ہے۔ لیکن اس نکتے کو دنیا میں تم نے نہیں جانا کاش تم دنیا میں اس کی حقیقت سے دنیا کی بےثباتی سے آگاہ ہوجاتے، تو آج تم بھی اہل ایمان کی طرح کامیاب و کامران ہوتے۔
[١٠٦] یعنی یہی بات تو اللہ تعالیٰ نے فرمائی تھی کہ تمہاری یہ زندگی چند روزہ اور ناپائیدار ہے۔ لہذا دنیا اور اس کے ساز و سامان پر مست نہ ہوجاؤ بلکہ آخرت کی فکر کرو۔ لیکن اس وقت تو تم ہماری اس بات کا بھی مذاق اڑایا کرتے تھے اور یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ بس یہ دنیا ہی دنیا اصل حقیقت ہے۔ لہذا ہم جتنے مزے اڑاسکتے ہیں اڑا لیں۔ پھر کب ایسا موقع ملے گا ؟ اور آج تم خود اس بات کا اقرار کر رہے ہو۔ کاش یہی بات تمہیں دنیا کی زندگی میں معلوم ہوجاتی۔
قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا ۔۔ : اللہ تعالیٰ ان کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے فرمائیں گے کہ واقعی تم دنیا میں بہت تھوڑا ٹھہرے ہو، کیونکہ دنیا اور اس کا سازو سامان فانی ہونے کی وجہ سے ہے ہی بہت تھوڑا، جیسا کہ فرمایا : (قُلْ مَتَاع الدُّنْيَا قَلِيْلٌ ۚ وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى ۣ ) [ النساء : ٧٧ ] ” کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو متقی ہے۔ “ مگر اب اس اعتراف کا کچھ فائدہ نہیں، کاش تم اس وقت یہ جانتے ہوتے تو اس مختصر سے وقت میں اپنے مالک کی فرماں برداری کر کے ہمیشہ کی جنتوں کے وارث بن جاتے۔
قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا لَّوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ١١٤- لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔
(١١٤) ارشاد خداوندی ہوگا خیر بہ نسبت دوزخ کے قیام کے تم قبروں میں تھوڑی ہی مدت رہے ہو کیا خوب ہوتا اگر تم میرے حکم کی تصدیق کرتے۔
آیت ١١٤ (قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا لَّوْ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) ” - آیت ٨٤ سے شروع ہونے والے سلسلۂ کلام میں یہ آخری چار آیات خصوصی طور پر بہت جامع اور پرجلال ہیں۔ جیسا کہ آیت ٨٤ کے ضمن میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ سورت کے اس حصے کی تلاوت قاری محمد صدیق المنشاوی نے بہت پر تاثیر انداز میں کی ہے۔ ان کی یہ تلاوت سننے سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے سننے سے دل پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے :
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :101 یعنی دنیا میں ہمارے نبی تم کو بتاتے رہے کہ یہ دنیا کی زندگی محض امتحان کی چند گنی چنی ساعتیں ہیں ، ان ہی کو اصل زندگی اور بس ایک ہی زندگی نہ سمجھ بیٹھو ۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے ۔ یہاں کے وقتی فائدوں اور عارضی لذتوں کی خاطر وہ کام نہ کرو جو آخرت کی ابدی زندگی میں تمہارے مستقبل کو برباد کر دینے والے ہوں ۔ مگر اس وقت تم نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی ۔ تم اس عالم آخرت کا انکار کرتے رہے ۔ تم نے زندگی بعد موت کو ایک من گھڑت افسانہ سمجھا ۔ تم اپنے اس خیال پر بضد رہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے بس اسی دنیا میں ہے ، اور جو کچھ مزے لوٹنے ہیں یہیں لوٹ لینے چاہئیں ۔ اب پچھتانے سے کیا ہوتا ہے ۔ ہوش آنے کا وقت تو وہ تھا جب تم دنیا کی چند روزہ زندگی کے لطف پر یہاں کی ابدی زندگی کے فائدوں کو قربان کر رہے تھے ۔
35: یعنی اب تو تم نے خود دیکھا لیا کہ دنیا کا عیش ایک دن کا نہ سہی، مگر آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا سا تھا۔ یہی بات تم سے دنیا میں کہی جاتی تھی تو تم اسے ماننے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ کاش یہ حقیقت تم نے اس وقت سمجھ لی ہوتی تو آج تمہارا یہ حشر نہ ہوتا۔