Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] یعنی تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم اس دنیا میں عیش و آرام کرنے اور مزے لوٹنے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ اسی دنیا میں نہ ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ ملتا ہے نہ اپنے خیال کے مطابق نیک اعمال کرنے والوں کو ان کی نیکی کا بدلہ ملتا ہے اور نہ ہی کوئی انسان دوبارہ زندہ ہو کر واپس آیا ہے۔ جو یہ خبر دے کہ ظالموں کو اس کے ظلم کی سزا ملی ہے۔ لہذا تم نے یقین کرلیا کہ یہی دنیا ہی دنیا ہے جیسے ہی بن پڑے یہاں عیش و عشرت کا سامان اکٹھا کرلو حالانکہ اگر تم اس کائنات کے نظام عدل میں ذرا بھی غور کرتے تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ یہ کائنات اور اس میں انسان کو محض ایک کھیل تماشہ کے طور پر نہیں بنایا گیا لیکن ہر سبب ایک نتیجہ پیدا کر رہا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تمہارے اچھے اور برے اعمال کا کوئی نتیجہ مرتب نہ ہو۔ اور چونکہ دنیا کی زندگی اعمال کے نتیجہ بھگتنے کے لحاظ سے بہت قلیل ہے۔ لہذا مرنے کے بعد اب طویل زندگی کا قیام ضروری ہوا۔ تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیا جاسکیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا ۔۔ : یعنی پھر کیا تم نے سمجھ رکھا تھا کہ ہم اس دنیا میں عیش کرنے اور مزے لوٹنے ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ (دیکھیے قیامہ : ٣٦) تم نے دیکھا کہ اس دنیا میں نہ ظالموں کو ان کے ظلم کا پورا بدلا ملتا ہے، نہ اپنے خیال میں نیک اعمال کرنے والوں کو ان کی نیکی کا بدلا ملتا ہے اور نہ کوئی انسان دوبارہ زندہ ہو کر آیا جو تمہیں بتاتا کہ اچھے اعمال والوں کو ان کی جزا اور ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا ملی ہے۔ لہٰذا تم نے یقین کرلیا کہ یہی دنیا ہی دنیا ہے، جس قدر ہو سکے یہاں عیش و عشرت کا سامان جمع کرلو۔ اس کے سوا زندگی کا کوئی مقصد نہیں، نہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے، نہ کسی کے سامنے پیش ہونا ہے، حالانکہ اگر تم اس کائنات کے نظام عدل میں ذرا بھی غور کرتے، یا رسول کی بات پر یقین کرتے تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ اس کائنات اور اس میں انسان کو محض کھیل تماشے کے طور پر اور بےمقصد نہیں بنایا گیا، بلکہ ہر کام کا ایک نتیجہ ہے، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمہارے اچھے اور برے اعمال کا کوئی نتیجہ نہ نکلے اور چونکہ دنیا کی زندگی اعمال کا نتیجہ بھگتنے کے لیے بہت تھوڑی ہے، اس لیے مرنے کے بعد ہم نے ہمیشہ کی زندگی رکھی ہے، تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝ ١١٥- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - عبث - العَبَثُ : أن يَخْلُطَ بعمله لعبا، من قولهم : عَبَثْتُ الأَقِطَ «3» ، والعَبَثُ : طعامٌ مخلوط بشیء، ومنه قيل : العَوْبَثَانِيُّ «4» لتمرٍ وسمن وسویق مختلط . قال تعالی: أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ [ الشعراء 128] ، ويقال لما ليس له غرض صحیح : عَبَثٌ. قال : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً [ المؤمنون 115] .- ( ع ب ث ) العبث دراصل اس کے معنی ہیں کسی کام کے ساتھ کھیل کود کو ملا دینا اور یہ عبثت الاقط کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے پنیز کے ساتھ اور چیز کو ملادیا اور العبث وہ کھانا جو کسی چیز کے ساتھ خلط ملط کیا گیا ہو اسی اعتبار سے کھجور ۔ گھی اور ستو کے آمیزہ کو عوبثانی کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ [ الشعراء 128] تم ہر بلند مقام پر بےمقصد پڑی عمارتیں تعمیر کرتے ہو نیز العبث مہر اس کام کو کہتے ہیں جس کی کوئی صحیح غرض نہ ہو قرآن میں ہے : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً [ المؤمنون 115] کیا تم یہ خیال کئے بیٹھے ہو کہ ہم نے تم کو یونہی بےغرض وغایت پیدا کردیا ہے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٥) یا یہ کہ ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا خوب ہوتا اگر تم دنیان میں اس چیز کو سمجھتے اور میرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تصدیق کرتے تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ تم قبروں میں کم ہی رہے ہو۔- مکہ والو خصوصا کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں یوں ہی مہمل پیدا کردیا ہے کہ اوامرو نواہی اور ثواب و عذاب کا تم سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ تم مرنے کے بعد ہمارے پاس نہیں لائے جاؤ گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٥ (اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ) ” - گزشتہ آیات کے سیاق وسباق میں اس آیت کا ترجمہ صیغہ ماضی میں ہوگا اور اس مفہوم میں اس کے مخاطب وہی جہنمی لوگ ہوں گے جن کا ذکر پیچھے سے چلا آ رہا ہے۔ اور اگر اسے گزشتہ سلسلہ کلام سے علیحدہ پڑھا جائے تو اس کا ترجمہ صیغہ حال میں کیا جائے گا اور پھر اس کا مخاطب ہر پڑھنے سننے والا اور دنیا کے ہر زمانے کا ہر انسان ہوگا کہ اے لوگو کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہیں بےمقصد اور بیکار پیدا کیا ہے اور تمہیں ہمارے پاس واپس آکر اپنے ایک ایک عمل کا حساب نہیں دینا ہے ؟- عقلی اور منطقی طور پر یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ آخرت کے تصور کے بغیر انسانی تخلیق کا مقصد سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اگر انسان عام حیوانات جیسا حیوان ہوتا تو پھر واقعی حیات بعد الممات اور آخرت کی کوئی ضرورت نہیں تھی ‘ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ حیوانات کے برعکس انسان کے اندر فطری طور پر اخلاقی حس اور نیکی و بدی کی تمیز ( ) پیدا کی گئی ہے۔ اس اخلاقی حس کے نتیجے میں انسانی سطح پر جو اخلاقی اقدار ( ) وجود میں آئی ہیں وہ کسی قوم ‘ کسی علاقے یا زمانے تک محدود نہیں ‘ بلکہ مستقل ) اور آفاقی ( ) ہیں۔ چناچہ ” گندم از گندم بروید جوز جو “ (گندم سے گندم اگتی ہے اور جو سے جو) کے اصول کے مطابق اچھائی کا نتیجہ اچھا نکلنا چاہیے اور برائی کا برا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ اور ہمیشہ لازمی طور پر ایسا نہیں ہوتا بلکہ عام طور پر اس کے برعکس ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ صورت حال منطقی طور پر تقاضا کرتی ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا وجود میں آئے ‘ جہاں ہر انسان کی موجودہ زندگی کے ایک ایک فعل اور ایک ایک عمل کا احتساب کر کے مصدقہ آفاقی اصولوں کے مطابق عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا اہتمام ہو۔ یہی نکتہ ہے جسے قرآن مجید مختلف مواقع پر ایمان بالآخرت کے لیے بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ بہر حال ایک ذی شعور انسان بالآخر اس منطقی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے اور بےاختیار پکار اٹھتا ہے : (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً ج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ ) ( آل عمران) ۔ ” اے ہمارے پروردگار تو نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا ‘ تو پاک ہے ‘ پس تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :102 اصل میں لفظ عَبَثاً کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، جس کا ایک مطلب تو ہے کھیل کے طور پر ۔ اور دوسرا مطلب ہے کھیل کے لیے پہلی صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے ۔ کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بطور تفریح بنا دیا ہے ، تمہاری تخلیق کی کوئی غرض و غایت نہیں ہے ، محض ایک بے مقصد مخلوق بنا کر پھیلا دی گئی ہے ۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہو گا : کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ تم بس کھیل کود اور تفریح اور ایسی لاحاصل مصروفیتوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو جن کا کبھی کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36: جو لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، ان کے موقف کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بے مقصد پیدا کردی ہے۔ یہاں جس کے جو جی میں آئے کرتا رہے۔ اس کا کوئی بدلہ کسی اور زندگی میں ملنے والا نہیں ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی حکمت پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی غلط بات منسوب کرے، لہذا آخرت پر ایمان اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا منطقی تقاضا ہے۔