Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1161یعنی وہ اس سے بہت بلند کہ وہ تمہیں بغیر کسی مقصد کے یوں ہی ایک کھیل کے طور پر بےکار پیدا کیا اور وہ ہے اس کی عبادت کرنا۔ اسی لئے آگے فرمایا وہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ 1162عرش کی صفت کریم بیان فرمائی کہ وہاں سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٨] یعنی اللہ تعالیٰ ہی حقیقی خالق ومالک اور بادشاہ ہے۔ اس کی شان اس بات سے بہت بلند ہے کہ وہ کوئی چیز بےکار و بےفائدہ پیدا کرے۔ اس نے جس چیز کو بھی پیدا کیا ہے۔ متعدد اغراض و مصالح کے تحت پیدا کیا ہے۔ اور جو نتائج اس سے مطلوب ہیں وہ حاصل ہو رہے ہیں اور ہو کے رہیں گے اس کی ذات اس چیز سے بھی بلند ہے کہ ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا نہ دے۔ یا مخلص بندوں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ نہ دے۔ اس کے علاوہ کوئی ایسا حاکم نہیں جو اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوسکے یا سفارش کرکے اس کے فیصلوں میں رد و بدل کروا سکے۔ وجہ یہ ہے کہ کائنات کی سب سے بڑی چیز یعنی عرش عظیم کا بھی وہی مالک ہے پھر کوئی دوسری چیز کس شمار میں ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَتَعٰلَى اللّٰهُ ۔۔ : ” تَعَالٰی “ ” عَلَا یَعْلُوْ “ (ن) سے باب تفاعل ہے، جس میں مبالغہ ہوتا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” پس بہت بلند ہے اللہ “ یعنی اللہ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ تمہیں بےکار اور بےمقصد پیدا کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی تین صفات بیان فرمائیں، جن میں سے ہر صفت کا تقاضا ہے کہ وہ کوئی کام عبث اور بےمقصد نہ کرے۔ - الْمَلِكُ الْحَقُّ : پہلی صفت یہ ہے کہ وہ سچا بادشاہ ہے، اس کی بادشاہی حق اور ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔ دوسرے بادشاہ نہ اپنی بادشاہی کے حقیقی مالک ہیں اور نہ ان کی بادشاہی حق اور باقی رہنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ) [ آل عمران : ٢٦ ] ” کہہ دے اے اللہ بادشاہی کے مالک تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے۔ “ جب کوئی عقل مند آدمی بےمقصد کام نہیں کرتا تو سچا بادشاہ جو ساری کائنات کا اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے، اس کے متعلق تم نے کیسے گمان کرلیا کہ اس نے تمہیں عبث اور بےمقصد پیدا کردیا ہے ؟ - قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ : یہ دوسری صفت ہے، جس میں پیدا کرنے کی حکمت کی طرف بھی اشارہ ہے۔ یعنی صرف یہی نہیں کہ وہ بادشاہی میں یکتا ہے، بلکہ اس کے سوا کوئی معبود ہے ہی نہیں، عبادت صرف اسی کا حق ہے، کس قدر نادان ہو کہ اس وحدہ لا شریک لہ معبود نے تمہیں اپنی توحید اور عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور تم نے گمان کرلیا کہ ہمیں پیدا کرنے کا کوئی مقصد ہی نہیں۔ - رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ : عرش کا معنی تخت ہے۔ کسی چیز کے کریم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اس کی جنس کی اشیاء کی تمام خوبیاں اور کمالات موجود ہوں اور وہ ان سب سے بلند اور باشرف ہو، جیسے فرمایا : (اِنِّىْٓ اُلْقِيَ اِلَيَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ ) [ النمل : ٢٩ ] ” بیشک میری طرف ایک عزت والا خط پھینکا گیا ہے۔ “ اور فرمایا : (وَّزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ كَرِيْمٍ ) [ الدخان : ٢٦ ] ” اور کھیتیاں اور عمدہ مقام۔ “ اور فرمایا : (كَمْ اَنْۢبَـتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ ) [ الشعراء : ٧ ] ” ہم نے اس میں کتنی چیزیں ہر عمدہ قسم میں سے اگائی ہیں۔ “ اور فرمایا : (وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا) [ بني إسرائیل : ٢٣ ] ” اور ان سے بہت کرم والی بات کہہ۔ “ (ابن عاشور و راغب) اس آیت میں یہ اللہ تعالیٰ کی تیسری صفت ہے کہ وہ کائنات کی سب سے بڑی مخلوق عرش الٰہی کا مالک ہے، جو زمین و آسمان اور اس میں موجود ساری مخلوق کو محیط ہے اور سب سے بلند ہے، تو وہ باقی مخلوقات کا مالک کیوں نہ ہوگا۔- 3 عرش الٰہی کو کریم (عزت و شرف والا) اس لیے فرمایا کہ کسی جگہ کی عزت اس کے رہنے والے کی وجہ سے ہوتی ہے، جیسے کہتے ہیں ” فُلَانٌ مِنْ بَیْتٍ کَرِیْمٍ “ کہ فلاں شخص باعزت گھر کا فرد ہے۔ کیونکہ اس گھر کے رہنے والے معزز ہوتے ہیں۔ عرش کی سب سے بڑی عزت اور اس کا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ اس پر رب کریم مستوی ہے اور اس عرش ہی سے تمام احکامات اور ساری رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔- 3 پورے قرآن مجید میں ”ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ “ اسی مقام پر آیا ہے۔ ”ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ “ دو جگہ آیا ہے، سورة توبہ (١٢٩) اور نمل (٢٦) میں۔ یہاں عرش کی صفت کریم اس لیے آئی ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کے عیب سے منزہ ہونے اور دنیا اور آخرت میں اس کی صفت عدل کا بیان مقصود ہے، جب کہ سورة توبہ اور نمل میں اس کی صفت قہر و جبروت کا بیان مقصود ہے۔ (بقاعی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اور یہ سب مضامین جب معلوم ہوچکے) سو (اس سے یہ کامل طور پر ثابت ہوگیا کہ) اللہ تعالیٰ بہت ہی عالیشان ہے جو کہ بادشاہ (ہے اور بادشاہ بھی) حقیقی ہے اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں (اور وہ) عرش عظیم کا مالک ہے اور جو شخص (اس امر پر دلائل قائم ہونے کے بعد) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی بھی عبادت کرے کہ جس (کے معبود ہونے) پر اس کے پاس کوئی بھی دلیل نہیں سو اس کا حساب اس کے رب کے یہاں ہوگا (جس کا نتیجہ لازمی یہ ہے کہ) یقینا کافروں کو فلاح نہ ہوگی (بلکہ ابد الآباد معذب رہیں گے) اور (جب حق تعالیٰ کی یہ شان ہے تو آپ (اور دوسرے لوگ بدرجہ اولیٰ ) یوں کہا کریں کہ اے میرے رب (میری خطائیں) معاف کر اور (ہر حالت میں مجھ پر) رحم کر (معاش میں بھی، توفیق طاعات میں بھی، نجات آخرت میں بھی، عطائے جنت میں بھی) اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔- معارف و مسائل - یہ سورة مومنون کی آخری آیتیں اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ سے آخر سورت تک خاص فضیلت رکھتی ہیں۔ بغوی اور ثعلبی نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ ان کا گزر ایک ایسے بیمار پر ہوا جو سخت امراض میں مبتلا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس کے کان میں سورة مومنون کی یہ آیتیں اَفَحَسِبْتُمْ سے آخر تک پڑھ دی وہ اسی وقت اچھا ہوگیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے اس کے کان میں کیا پڑھا ؟ عبداللہ بن مسعود نے عرض کیا کہ یہ آیتیں پڑھی ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر کوئی آدمی جو یقین رکھنے والا ہو یہ آیتیں پہاڑ پر پڑھ دے تو پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے۔ (قرطبی و مظھری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَتَعٰلَى اللہُ الْمَلِكُ الْحَقُّ۝ ٠ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ۝ ١١٦- علي - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] - ( ع ل و ) العلو - العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت - واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔- ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٦) سو اللہ تعالیٰ بہت ہی عالی شان ہے اور جو اولاد اور شریک سے منزہ اور بادشاہ حقیقی ہے اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٦ (فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ ج) ” - اللہ اس کائنات کا حقیقی بادشاہ ہے۔ وہ کلی اختیارات کا مالک ہے اور اس کی یہ حیثیت بھی سزا و جزا کے نظام کا تقاضا کرتی ہے۔ دنیا کے بادشاہوں میں کوئی بادشاہ ایسا نہیں جو اپنے غداروں اور باغیوں کو سزا نہ دے اور وفاداروں کو انعام و اکرام اور خلعتوں سے نہ نوازے۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ بادشاہ حقیقی اپنے جاں نثاروں کی قدر افزائی نہ کرے ‘ ان کی قربانیوں کا انہیں کوئی صلہ نہ دے اور اپنے نافرمانوں اور باغیوں کو سزانہ دے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :103 یعنی بالا و برتر ہے اس سے کہ فعل عبث کا ارتکاب اس سے ہو ، اور بالا و برتر ہے اس سے کہ اس کے بندے اور مملوک اس کی خدائی میں اس کے شریک ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani