Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آسمان سے نزول بارش اللہ تعالیٰ کی یوں تو بیشمار اور ان گنت نعمتیں ہیں ۔ لیکن چند بڑی بڑی نعمتوں کا یہاں ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آسمان سے بقدر حاجت وضرورت بارش برساتا ہے ۔ نہ تو بہت زیادہ کہ زمین خراب ہوجائے اور پیداوار گل سڑ جائے ۔ نہ بہت کم کہ پھل اناج وغیرہ پیدا ہی نہ ہو ۔ بلکہ اس اندازے سے کہ کھیتی سرسبز رہے ، باغات ہرے بھرے رہیں ۔ حوض ، تالاب ، نہریں ندیاں ، نالے ، دریا بہہ نکلیں نہ پینے کی کمی ہو نہ پلانے کی ۔ یہاں تک کہ جس جگہ زیادہ بارش کی ضرورت ہوتی ہے زیادہ ہوتی ہے اور جہاں کم کی ضرورت ہوتی ہے کم ہوتی ہے اور جہاں کی زمین اس قابل ہی نہیں ہوتی وہاں پانی نہیں برستا لیکن ندیوں اور نالوں کے ذریعہ وہاں قدرت برساتی پانی پہنچا کر وہاں کی زمین کو سیراب کردیتی ہے ۔ جیسے کہ مصر کے علاقہ کی زمین جو دریائے نیل کی تری سے سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے ۔ اسی پانی کے ساتھ سرخ مٹی کھیچ کر جاتی ہے جو حبشہ کے علاقہ میں ہوتی ہے وہاں کی بارش کے ساتھ مٹی بہہ کر پہنچتی ہے جو زمین پر ٹھہرجاتی ہے اور زمین قابل زراعت ہوجاتی ہے ورنہ وہاں کی شور زمین کھیتی باڑی کے قابل نہیں ۔ سبحان اللہ اس لطیف خبیر ، اس غفور رحیم اللہ کی کیا کیا قدرتیں اور حکمتیں زمین میں اللہ پانی کو ٹھیرا دیتا ہے زمین میں اس کو چوس لینے اور جذب کرلینے کی قابلیت اللہ تعالیٰ پیدا کردیتا ہے تاکہ دانوں کو اور گٹھلیوں کو اندر ہی اندر وہ پانی پہنچا دے پھر فرماتا ہے ہم اس کے لے جانے اور دور کردینے پریعنی نہ برسانے پر بھی قادر ہیں اگرچاہیں شور ، سنگلاخ زمین ، پہاڑوں اور بیکار بنوں میں برسادیں ۔ اگر چاہیں تو پانی کو کڑوا کردیں نہ پینے کے قابل رہے نہ پلانے کے ، نہ کھیت اور باغات کے مطلب کار ہے ، نہ نہانے دھونے کے مقصد کا ۔ اگرچاہیں زمین میں وہ قوت ہی نہ رکھیں کہ وہ پانی کو جذب کرلے چوس لے بلکہ پانی اوپر ہی اوپر تیرتا پھرے یہ بھی ہمارے اختیار میں ہے کہ ایسی دوردراز جھیلوں میں پانی پہنچا دیں کہ تمہارے لے بیکار ہوجائے اور تم کوئی فائدہ اس سے نہ اٹھا سکو ۔ یہ خاص اللہ کا فضل وکرم اور اس کا لطف ورحم ہے کہ وہ بادلوں سے میٹھا عمدہ ہلکا اور خوش ذائقہ پانی برساتا ہے پھر اسے زمین میں پہنچاتا ہے اور ادھر ادھر ریل پیل کردیتا ہے کھیتیاں الگ پکتی ہیں باغات الگ تیار ہوتے ہیں ، خود پیتے ہو اپنے جانوروں کو پلاتے ہو نہاتے دھوتے ہو پاکیزگی اور ستھرائی حاصل کرتے ہو فالحمدللہ ۔ آسمانی بارش سے رب العالمین تمہارے لئے روزیاں اگاتا ہے ، لہلہاتے ہوئے کھیت ہیں ، کہیں سرسبز باغ ہیں جو خوش نما اور خوش منظر ہونے کے علاوہ مفید اور فیض والے ہیں ۔ کھجور انگور جو اہل عرب کا دل پسند میوہ ہے ۔ اور اسی طرح ہر ملک والوں کے لئے الگ الگ طرح طرح کے میوے اس نے پیدا کردیے ہیں ۔ جن کے حصول کے عوض اللہ کے شکرگزاری بھی کسی کے بس کی نہیں ۔ بہت میوے تمہیں اس نے دے رکھے ہیں جن کی خوبصورتی بھی تم دیکھتے ہو اور ان کے ذائقے سے بھی کھا کر فائدہ اٹھاتے ہو ۔ پھر زیتوں کے درخت کا ذکر فرمایا ۔ طورسیناوہ پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بات چیت کی تھی اور اس کے ارد گرد کی پہاڑیاں طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جو ہرا اور درختوں والا ہو ورنہ اسے جبل کہیں گے طور نہیں کہیں گے ۔ پس طورسینا میں جو درخت زیتوں پیدا ہوتا ہے اس میں سے تیل نکلتا ہے جو کھانے والوں کو سالن کا کام دیتا ہے ۔ حدیث میں ہے زیتوں کا تیل کھاؤ اور لگاؤ وہ مبارک درخت میں سے نکلتا ہے ( احمد ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ایک صاحب عاشورہ کی شب کو مہمان بن کر آئے تو آپ نے انہیں اونٹ کی سری اور زیتون کھلایا اور فرمایا یہ اس مبارک درخت کا تیل ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے چوپایوں کا ذکر ہو رہا ہے اور ان سے جو فوائد انسان اٹھا رہے ہیں ، ان پر سوار ہوتے ہیں ان پر اپنا سامان اسباب لادتے ہیں اور دوردراز تک پہنچتے ہیں کہ یہ نہ ہوتے تو وہاں تک پہچنے میں جان آدھی رہ جاتی ۔ بیشک اللہ تعالیٰ بندوں پر مہربانی اور رحمت والا ہے جیسے فرمان ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَآ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ 71؀ ) 36-يس:71 ) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ خود ہم نے انہیں چوپایوں کا مالک بنا رکھا ہے کہ یہ ان کے گوشت کھائیں ان پر سواریاں لیں اور طرح طرح کہ نفع حاصل کریں کیا اب بھی ان پر ہماری شکر گزاری واجب نہیں ؟ یہ خشکی کی سواریاں ہیں پھر تری کی سواریاں کشتی جہاز وغیرہ الگ ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181یعنی نہ زیادہ کہ جس سے تباہی پھیل جائے اور نہ اتنا کم کہ پیداوار اور دیگر ضروریات کے لئے کافی نہ ہو۔ 182یعنی یہ انتطام بھی کیا کہ سارا پانی برس کر فوراً بہہ نہ جائے اور ختم نہ ہوجائے بلکہ ہم نے چشموں، نہروں، دریاؤں اور تالابوں اور کنوؤں کی شکل میں اسے محفوظ بھی کیا، تاکہ ان ایام میں جب بارشیں نہ ہوں، یا ایسے علاقے میں جہاں بارش کم ہوتی ہے اور پانی کی ضرورت زیادہ ہے، ان سے پانی حاصل کرلیا جائے۔ 183یعنی جس طرح ہم اپنے فضل و کرم سے پانی کا ایسا وسیع انتظام کیا ہے، وہیں ہم اس بات پر بھی قادر ہیں کہ پانی کی سطح اتنی نیچی کردیں کہ تمہارے لئے پانی کا حصول ناممکن ہوجائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠] سوال یہ ہے کہ یہ ایک خاص مقدار میں پانی اللہ تعالیٰ نے کب اتارا تھا ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو اس وقت ہی ایک خاص اور کثیر مقدار میں پانی اتار دیا تھا۔ اتنا کثیر مقادر میں جو قیامت تک زمین پر پیدا ہونے والی مخلوق، خواہ وہ کسی نوع سے تعلق رکھتی ہو، کی ضروریات کے لئے کافی ہو۔ اس کثیر مقدار کے ایک کثیر حصہ نے زمین کی تین چوتھائی سطح کو سمندروں کی شکل میں تدیل کر رکھا ہے۔ پھر اس کثیر مقدار کا کثیر حصہ زمین کی سطح کے نیچے چلا گیا جیسے زمین کے نیچے بھی پانی کے دریا بہہ رہے ہیں اور سطح زمین کا کثیر حصہ ایسا ہے کہ جہاں سے کھودیں نیچے سے پانی نکل آتا ہے۔ جو انسان نکال کر اپنے استعمال میں لاتا ہے اور کبھی زمین سے از خود چشمے ابل پڑتے ہیں۔ پھر اپنی مخلوق کی ضروریات کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم فرمایا کہ سورج کی گرمی سے سمندر سے آبی بخارات اوپر اٹھتے ہیں۔ جو کسی سرد طبقہ میں پہنچ کر بادلوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور مزید سردی سے زمین پر برسنے لگتے ہیں۔ اس بارش کے پانی سے زمین کی تمام نباتات سیراب ہوتی ہے۔ جاندار بھی اپنی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ پھر اس بارش کا کچھ حصہ پانی میں جذب ہوجاتا ہے اور باقی حصہ ندی نالوں اور دریاؤں کی شکل میں پھر سمندروں میں جاگرتا ہے۔ اور جو پانی مخلوق استعمال کرتی ہے وہ بھی بالآخر یا تو پانی کی شکل میں زمین میں چلا جاتا ہے یا بخارات بن کر ہوا میں مل جاتا ہے۔ ان تصریحات سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کی جتنی مقدار زمین پر نازل فرمائی تھی۔ اس مقدار میں نہ کچھ اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی کمی واقع ہوئی ہے۔ البتہ اس طریقہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ضروریات کی تکمیل کا ایک مستقل اور دائمی انتظام مہیا فرما دیا ہے۔- اس سلسلہ میں حیران کن امر یہ ہے کہ پانی بذات خود ایک مرکب چیز ہے جو دو حصے ہائیڈروجن گیس اور ایک حصہ آکسیجن سے مل کر بنتا ہے ( 2) ہائیڈروجن گیس ایک آتش گیر اور فوراً بھڑک اٹھنے والی گیس ہے اور آکسیجن وہ گیس ہے۔ جو جلانے میں مدد دیتی ہے۔ گویا ان آتشیں خاصیت والے مادوں سے اللہ تعالیٰ نے وہ چیز پیدا کی جو آگ کو بجھا دیتی ہے اور پھر اسی کو کیمیاوی عمل کے ذریعہ پھاڑ کر انھیں گیسوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اور دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ ہائیڈروجن گیس اور آکسیجن گیس آج بھی وافر مقدار میں فضا میں موجود ہے اگر وہ از خود زمین کی پیدائش کے وقت مل کر پانی بن گئیں تھیں تو آج بھی مل کر پانی کی مقدار میں اضافہ کیوں نہیں کردیتیں ؟ نیچری اور دہریہ حضرات کے لئے یہ ایک بہت اہم لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے پاس تو اس کا واضح جواب موجود ہے کہ جتنا پانی بنانا اللہ کو منظور اور اس کے اندازہ کے موافق تھا اتنا بن گیا۔ ان گیسوں میں از خود یہ قدرت نہیں ہے کہ مل کر پانی بن جائیں۔- اور اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی مخلوق کی ضروریات کے مطابق آسمان سے بوقت ضرورت پانی برساتے ہیں۔ نہ اتنا زیادہ کہ مخلوق ڈوب کر مرجائے اور نہ اتنا کم کہ مخلوق قحط میں مبتلا ہو کر مرجائے۔ الا یہ کہ وہ عذاب الٰہی ہی کی شکل ہو۔ - [٢١] یعنی پانی کے زمین دوز ذخیروں کو اتنی گہرائی تک لے جائیں کہ اسے نکالنا انسانوں کی بساط سے باہر ہوجائے۔ یا ان ذخیروں کو کڑوا کسیلا بنادیں جو قابل استعمال ہی نہ رہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ : آسمان کی پیدائش کے بعد اپنی مزید نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ پانی بذات خود بہت بڑی نعمت ہے، جیسا کہ فرمایا : ( وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ) [ الأنبیاء : ٣٠ ] ” اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی۔ “ اس آیت میں پانی اتارنے کی عظیم نعمت کے ذکر کے بعد اس کے متعلق تین باتیں فرمائیں، چناچہ فرمایا کہ ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ کچھ پانی اتارا، جس سے انسان، حیوان، کھیت اور درخت سیراب ہو سکیں۔ میدانوں، صحراؤں اور پہاڑوں میں زندگی باقی رہ سکے اور سمندروں اور ندی نالوں کی ضرورت پوری ہو سکے، کیونکہ اگر اس مخصوص مقدار سے زیادہ بارش برستی تو سمندر خشکی پر چڑھ کر زندگی کا سلسلہ نیست و نابود کردیتے اور اگر کم برستی تو انسان، حیوان، درخت اور کھیت زندہ نہ رہ سکتے۔ دوسری جگہ فرمایا کہ صرف پانی ہی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز مخصوص مقدار میں اتارتا ہے، نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُهٗ ۡ وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ ) [ الحجر : ٢١ ] ” اور کوئی بھی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے۔ “- مستدرک حاکم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ہے : ( مَا مِنْ عَامٍ أَمْطَرَ مِنْ عَامٍ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُصَرِّفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ ثُمَّ قَرَأَ : (؀ وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا) [ الفرقان : ٥٠ ] ) [ مستدرک حاکم : ٢؍٤٠٣، ح : ٣٥٢٠۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٥؍٤٦٠، ح : ٢٤٦١ ] ” کوئی سال ایسا نہیں جس میں دوسرے کسی سال کی نسبت بارش زیادہ ہوتی ہو، لیکن اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے بارش میں کمی بیشی کرتا ہے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : ” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اسے ان کے درمیان پھیر پھیر کر بھیجا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ “- فَاَسْكَنّٰهُ فِي الْاَرْضِ : دوسری بات یہ کہ آسمانوں سے برسنے والا پانی اللہ کے حکم سے مختلف صورتوں میں زمین پر ٹھہر جاتا ہے۔ اس میں سے کچھ چشموں کی صورت میں نمودار ہوجاتا ہے، کچھ زیر زمین محفوظ ہوجاتا ہے، جسے لوگ کنووں وغیرہ کی صورت میں نکال کر استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَلَكَهٗ يَنَابِيْعَ فِي الْاَرْضِ ) [ الزمر : ٢١ ] ” کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے کچھ پانی اتارا، پھر اسے چشموں کی صورت زمین میں چلایا۔ “ اور کچھ پانی ندی نالوں اور دریاؤں کی صورت اختیار کرجاتا ہے جس سے لوگ اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں، خود پیتے ہیں، غسل کرتے ہیں، کپڑے وغیرہ دھوتے ہیں، جانوروں کو پلاتے ہیں، کھیتیاں اور باغات سیراب کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِيَةٌۢ بِقَدَرِهَا ) [ الرعد : ١٧] ” اس نے آسمان سے کچھ پانی اتارا تو کئی نالے اپنی اپنی وسعت کے مطابق بہ نکلے۔ “ اور بارش کا کچھ پانی سمندر کی صورت میں ذخیرہ ہوجاتا ہے، جو دوبارہ بارش کا اور انسان کے بیشمار منافع و فوائد کا ذریعہ بنتا ہے۔- وَاِنَّا عَلٰي ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ : تیسری بات یہ کہ جس طرح ہم نے پانی اتارا ہے اسے لے جا بھی سکتے ہیں، پھر کون ہے جو اسے واپس لاسکے ؟ ” ذَهَابٍ “ کی تنوین میں نکرہ کے عموم کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے کہ ” ہم اسے کسی بھی طرح لے جانے پر قادر ہیں۔ “ مثلاً ہم بارش روک دیں، یا برسنے والا پانی گندا کردیں جو پینے اور استعمال کے قابل ہی نہ رہے، یا جس طرح یہ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے تو ” کُنْ “ کہہ کر اسے پھر گیس میں بدل دیں، یا زمین میں اتنا گہرا لے جائیں کہ تم نکال ہی نہ سکو، جیسا کہ فرمایا : (قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَاۗءٍ مَّعِيْنٍ ) [ الملک : ٣٠ ] ” کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر تمہارا پانی گہرا چلا جائے تو کون ہے جو تمہارے پاس بہتا ہوا پانی لائے گا ؟ “ یا اسے سخت نمکین بنادیں جو پیا ہی نہ جاسکے، جیسا کہ فرمایا : (اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ 68۝ۭءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ 69؀ لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ ) [ الواقعۃ : ٦٨ تا ٧٠ ] ” پھر کیا تم نے دیکھا وہ پانی جو تم پیتے ہو ؟ کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے، یا ہم ہی اتارنے والے ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے سخت نمکین بنادیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے ؟ “ یا اس میں سے وہ برکت نکال لیں جو ان لوگوں کو عطا ہوتی ہے جنھیں ہم عطا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ آیت سورة ملک کی آیت (٣٠) : (قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَاۗءٍ مَّعِيْنٍ ) سے زیادہ وسعت رکھتی ہے۔ صاحب روح المعانی نے زیر تفسیر آیت کے سورة ملک کی آیت سے زیادہ بلیغ ہونے کی اٹھارہ وجہیں ” التقریب لتفسیر التحریر والتنویر للطاہر ابن عاشور “ سے نقل کرنے کے بعد مزید بارہ وجہیں ذکر کرکے انھیں تیس تک پہنچا دیا ہے۔ صاحب ذوق حضرات وہاں ملاحظہ فرمائیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِي الْاَرْضِ ڰ وَاِنَّا عَلٰي ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ- انسانوں کو آب رسانی کا قدرتی عجیب و غریب نظام :- اس آیت میں آسمان سے پانی برسانے کے ذکر کے ساتھ ایک قید بقدر کی بڑھا کر اس طرف اشارہ کردیا کہ انسان ایسا ضعیف الخلقت ہے کہ جو چیزیں اس کے لئے مدار زندگی ہیں اگر وہ مقدار مقدر سے زائد ہوجاویں تو وہی اس کیلئے وبال جان اور عذاب بن جاتی ہیں۔ پانی جیسی چیز جس کے بغیر کوئی انسان و حیوان زندہ نہیں رہ سکتا اگر ضرورت سے زیادہ برس جائے تو طوفان آجاتا ہے اور انسان اور اس کے سامان کے لئے وبال و عذاب بن جاتا ہے۔ اس لئے آسمان سے پانی برسانا بھی ایک خاص پیمانے سے ہوتا ہے جو انسان کی ضرورت پوری کر دے اور طوفان کی صورت اختیار نہ کرے بجز ان خاص مقامات کے جن پر اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہی کسی وجہ سے طوفان مسلط کرنے کا سبب ہوجائے۔ اس کے بعد بڑا غور طلب مسئلہ یہ تھا کہ پانی اگر روزانہ کی ضرورت کا روزانہ برسا کرے تو بھی انسان مصیبت میں آجائے روز کی بارش اس کے کاروبار اور مزاج کے خلاف ہے۔ اور اگر سال بھر یا چھ مہینے یا تین مہینے کی ضرورت کا پانی ایک دفعہ برسایا جائے اور لوگوں کو حکم ہو کہ اپنا اپنا کوٹہ پانی کا چھ مہینے کے لئے جمع کر کے رکھو اور استعمال کرتے رہو تو ہر انسان کیا اکثر انسان بھی اتنے پانی کے جمع رکھنے کا انتظام کیسے کریں اور کسی طرح بڑے حوضوں اور گڑھوں میں بھر لینے کا انتظام بھی کرلیں تو چند روز کے بعد یہ پانی سڑ جائے گا جس کا پینا بلکہ استعمال کرنا بھی دشوار ہوجائے گا اس لئے قدرت حق جل شانہ نے اس کا نظام یہ بنایا کہ پانی جس وقت برستا ہے اس وقت وقتی طور پر جتنے درخت اور زمینیں سیرابی کے قابل ہیں وہ سیراب ہوجاتے ہیں پھر زمین کے مختلف تالابوں، حوضوں اور قدرتی گڑھوں میں یہ پانی جمع رہتا ہے جس کو انسان اور جانور ضرورت کے وقت استعمال کرتے ہیں مگر ظاہر ہے یہ پانی چند روز میں ختم ہوجاتا ہے۔ دائمی طور پر روزانہ انسان کو تازہ پانی کس طرح پہنچے جو ہر خطے کے باشندوں کو مل سکے ؟ اس کا نظام قدرت نے یہ بنایا کہ پانی کا بہت بڑا حصہ برف کی صورت میں ایک بحر منجمد بنا کر پہاڑوں کے سروں پر ایسی پاک صاف فضاء میں رکھ دیا جہاں نہ گرد و غبار کی رسائی نہ کسی آدمی اور جانور کی اور جس میں نہ سڑنے کا امکان ہے نہ اس کے ناپاک یا خراب ہونے کی کوئی صورت ہے۔ پھر یہ برف کا پانی آہستہ آہستہ رس رس کر پہاڑوں کی رگوں کے ذریعہ زمین کے اندر پھیلتا ہے اور یہ قدرتی پائپ لائن پوری زمین کے گوشہ گوشہ میں پہنچ جاتی ہے جہاں سے کچھ تو چشمے خود پھوٹ نکلتے ہیں اور ندی نالے اور نہروں کی شکل میں زمین پر بہنے لگتے ہیں، تازہ بتازہ جاری پانی کروڑوں انسانوں اور جانوروں کو سیراب کرتا ہے اور کچھ یہی پہاڑی برف سے بہنے والا پانی زمین کی تہ میں اتر کر نیچے نیچے بہتا رہتا ہے اور اس کو کنواں کھود کر ہر جگہ نکالا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں اس پورے نظام کو ایک لفظ فَاَسْكَنّٰهُ فِي الْاَرْضِ سے بیان فرما دیا ہے آخر میں اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ زمین کی تہ سے جو پانی کنوؤں کے ذریعہ نکالا جاتا ہے یہ بھی قدرت کی طرف سے آسانی ہے کہ بہت زیادہ گہرائی میں نہیں بلکہ تھوڑی گہرائی میں یہ پانی رکھا گیا ہے۔ ورنہ یہ بھی ممکن تھا بلکہ پانی کی طبعی خاصیت کا تقاضا یہی تھا کہ یہ پانی زمین کی گہرائی میں اترتا چلا جاتا، جہاں تک انسان کی رسائی ممکن نہیں۔ اسی مضمون کو آیت کے آخری جملہ میں ارشاد فرمایا وَاِنَّا عَلٰي ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰہُ فِي الْاَرْضِ ۝ ٠ۤ ۖ وَاِنَّا عَلٰي ذَہَابٍؚبِہٖ لَقٰدِرُوْنَ۝ ١٨ۚ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- ذهاب - والذَّهَابُ :- المضيّ ، يقال : ذَهَبَ بالشیء وأَذْهَبَهُ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ، ، لَيَقُولَنَّ : ذَهَبَ السَّيِّئاتُ عَنِّي [هود 10]- ( ذ ھ ب ) الذھب - الذھاب ( والذھوب ) کے معنی چلا جانے کے ہیں ۔ ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ لَيَقُولَنَّ : ذَهَبَ السَّيِّئاتُ عَنِّي [هود 10] تو ( خوش ہوکر ) کہتا ہے کہ ( آہا ) سب سختیاں مجھ سے دور ہوگئیں ۔- قادر - الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه .- ( ق د ر ) القدرۃ - ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨) اور ہم نے معاشی ضرورت کے مطابق بارش برسائی یا یہ کہ اتنا پانی برسایا جو تمہاری کفایت کرجائے اور پھر ہم نے اس پانی کو زمین میں داخل کردیا اور اس پانی سے ہم نے چشمے، جھیلیں، تالاب اور نہریں بنائیں اور پانی کو زمین میں سے بالکل خشک کردینے پر بھی قادر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًم بِقَدَرٍ ) ” - زمین پر پانی اسی مقدار میں رکھا گیا ہے جس قدر واقعتا یہاں اس کی ضروت ہے۔ اگر اس مقدار سے پانی زیادہ ہوجائے تو روئے زمین سیلاب میں ڈوب جائے اور پوری نوع انسانی اس میں غرق ہوجائے۔ اور اگر اس مقدار سے کم ہو تو زمین پر زندگی کا وجود ہی ممکن نہ رہے ۔- (فَاَسْکَنّٰہُ فِی الْاَرْضِ ق وَاِنَّا عَلٰی ذَہَابٍمبِہٖ لَقٰدِرُوْنَ ) ” - اگر ہم چاہیں تو روئے ارضی سے پانی کا وجود ختم کردیں اور یوں دنیا میں زندگی کی بنیاد ہی ختم ہوجائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :17 اس سے مراد اگرچہ موسمی بارش بھی ہو سکتی ہے ، لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے ایک دوسرا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ آغاز آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اتنی مقدار میں زمین پر پانی نازل فرما دیا تھا جو قیامت تک اس کرے کی ضروریات کے لیے اس کے علم میں کافی تھا ۔ وہ پانی زمین ہی کے نشیبی حصوں میں ٹھہر گیا جس سے سمندر اور بحیرے وجود میں آئے اور آپ زیر زمین ( - ) پیدا ہو ا اب یہ اسی پانی کا الٹ پھیر ہے جو گرمی ، سردی اور ہواؤں کے ذریعے سے ہوتا رہتا ہے ، اسی کو بارشیں ، برف پوش پہاڑ ، دریا ، چشمے اور کنوئیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلاتے رہتے ہیں ، اور وہی بے شمار چیزوں کی پیدائش اور ترکیب میں شامل ہوتا اور پھر ہوا میں تحلیل ہو کر اصل ذخیرے کی طرف واپس جاتا رہتا ہے ۔ شروع سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں نہ ایک قطرے کی کمی ہوئی اور نہ ایک قطرے کا اضافہ ہی کرنے کی کوئی ضرورت پیش آئی ۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانی جس کی حقیقت آج ہر مدرسے کے طالب علم کو معلوم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن ، دو گیسوں کے امتزاج سے بنا ہے ، ایک دفعہ تو اتنا بن گیا کہ اس سے سمندر بھر گئے ، اور اب اس کے ذخیرے میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں ہوتا ۔ کون تھا جس نے ایک وقت میں اتنی ہائیڈروجن اور آکسیجن ملا کر اس قدر پانی بنا دیا ؟ اور جب پانی بھاپ بن کر ہوا میں اڑ جاتا ہے تو اس وقت کون ہے جو آکسیجن اور ہائیڈروجن کو الگ الگ ہو جانے سے روکے رکھتا ہے ؟ کیا دہریوں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے ؟ اور کیا پانی اور ہوا اور گرمی اور سردی کے الگ الگ خدا ماننے والے اس کا کوئی جواب رکھتے ہیں ؟ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :18 یعنی اسے غائب کر دینے کی کوئی ایک ہی صورت نہیں ہے ، بے شمار صورتیں ممکن ہیں ، اور ان میں سے جس کو ہم جب چاہیں اختیار کر کے تمہیں زندگی کے اس اہم ترین وسیلے سے محروم کر سکتے ہیں ۔ اس طرح یہ آیت سورہ ملک کی اس آیت سے وسیع تر مفہوم رکھتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ : قُلْ اَرَاَیْتُم اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُکَمْ غَوْراً فَمَنْ یَّاتِیْکُمْ بِمَآءِ مَّعِیْنٍ ہ ان سے کہو ، کبھی تم نے سوچا کہ اگر تمہارا یہ پانی زمین میں بیٹھ جائے تو کون ہے جو تمہیں بہتے چشمے لادے گا ؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: یعنی اگر آسمان سے پانی برسا کر تمہیں ذمہ داری دی جاتی کہ تم خود اس کا ذخیرہ کرو، تو یہ تمہارے بس میں نہیں تھا۔ ہم نے یہ پانی پہاڑوں پر برسا کر اسے برف کی شکل میں جما دیا، جو رفتہ رفتہ پگھل کر دریاؤں کی شکل اختیار کرتا ہے، اور اس کی جڑیں زمین بھر میں پھیلی ہوئی ہیں، جن سے کنویں بنتے ہیں، اور اس طرح زمین کی تہ میں وہ پانی محفوظ رہتا ہے۔