آسمان کی پیدائش مرحلہ وار انسان کی پیدائش کا ذکر کرکے آسمانوں کی پیدائش کا بیان ہو رہا ہے جن کی بناوٹ انسانی بناوٹ سے بہت بڑی بہت بھاری اور بہت بڑی صنعت والی ہے ۔ سورۃ الم سجدہ میں بھی اسی کا بیان ہے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز کی اول رکعت میں پڑھا کرتے تھے وہاں پہلے آسمان وزمین کی پیدائش کا ذکر ہے پھر انسانی پیدائش کا بیان ہے پھر قیامت کا اور سزا جزا کا ذکر ہے وغیرہ ۔ سات آسمانوں کے بنانے کا ذکر کیا ہے جسے فرمان ہے آیت ( تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ 44 ) 17- الإسراء:44 ) ساتوں آسمان اور سب زمینیں اور ان کی سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اوپر تلے ساتوں آسمانوں کو بنایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے انہی جیسی زمینیں بھی ۔ اس کا حکم ان کے درمیان نازل ہوتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور تمام چیزوں کو اپنے وسیع علم سے گھیرے ہوئے ہے اللہ اپنی مخلوق سے غافل نہیں ۔ جو چیز زمین میں جائے جو زمین سے نکلے اللہ کے علم میں ہے آسمان سے جو اترے اور جو آسمان کی طرف چڑھے وہ جانتا ہے جہاں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے ایک ایک عمل کو وہ دیکھ رہا ہے ۔ آسمان کی بلند و بالا چیزیں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں ، اور پہاڑوں کی چوٹیاں ، سمندروں ، میدانوں ، درختوں کی اسے خبر ہے ۔ درختوں کا کوئی پتہ نہیں گرتا جو اس کے علم میں نہ ہو کوئی دانہ زمین کی اندھیروں میں ایسا نہیں جاتا جسے وہ نہ جانتا ہو کوئی ترخشک چیز ایسی نہیں جو کھلی کتاب میں نہ ہو ۔
1 7 1طرائق، طریقۃ کی جمع ہے مراد آسمان ہیں عرب، اوپر تلے چیز کو بھی کہتے ہیں آسمان بھی اوپر تلے ہیں اس لئے انھیں طرائق کہا۔ یا طریقہ بمعنی راستہ ہے، آسمان ملائکہ کے آنے جانے یا ستاروں کی گزرگاہ ہے، اس لئے انھیں طرائق قرار ریا۔ 1 7 2خَلَق سے مراد مخلوق ہے۔ یعنی آسمانوں کو پیدا کر کے ہم اپنی زمینی مخلوق سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ ہم نے آسمانوں کو زمین پر گرنے سے محفوظ رکھا ہے تاکہ مخلوق ہلاک نہ ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ مخلوق کی مصلحتوں اور ان کی ضروریات زندگی سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ ہم اس کے انتظام کرتے ہیں (فتح القدیر) اور بعض نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ زمین سے جو کچھ نکلتا یا داخل ہوتا، اسی طرح آسمان سے جو اترتا اور چڑھتا ہے، سب اس کے علم میں ہے اور ہر چیز پر وہ نظر رکھتا ہے اور ہر جگہ وہ اپنے علم کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہوتا ہے (ابن کثیر)
[١٨] سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ دلیل بیان فرمائی جو انفس سے تعلق رکھتی ہے اور جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ (فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14ۭ ) 23 ۔ المؤمنون :14) اب آفاق سے چند دلائل پیش کئے جارہے ہیں۔- مبلع طرائق سے بعض علماء نے سات آسمان یا سات طبقات مراد لئے ہیں۔ جیسے ارشاد باری ہے : (اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا 15ۙ ) 71 ۔ نوح :15) اور بعض نے ان سے مراد سات راستے ہی لئے ہیں۔ جو فرشتوں کی آسمانوں میں آمدورفت کے راستے ہیں۔ اور آسمان چونکہ سات ہیں۔ اس لئے یہ راستے بھی سات ہیں۔ اور بعض علماء نے ان سے سات سیاروں کے راستے یا مدار مراد لئے ہیں۔ چونکہ نزول قرآن کے زمانہ میں بطلیموسی نظریہ ہیئت بھی درست سمجھا جاتا تھا اور اس نظریہ کے مطابق سات سیارے ہی محو گردش ہیں اور وہ چاند، زہرہ، عطارد، سورج، مشتری، مریخ اور زحل۔ لہذا قرآن نے لوگوں کے علم اور سمجھ کے مطابق ساتھ ہی راستوں کا ذکر فرمایا۔ اگرچہ اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔- اور فَوْقَکُمْ (یعنی تمہارے اوپر کے ایک معنی تو وہی ہیں جو عام فہم ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں کی یا سیاروں اور ان کے مداروں کی تخلیق تمہاری تخلیق سے بہت بلند تر اور بڑی چیز ہے۔ اور اس مطلب کی بھی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے ہوجاتی ہے۔ ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57) 40 ۔ غافر :57)- [١٩] یعنی ہم اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اس کے مستقل نگہداشت بھی کرتے رہتے ہیں کیونکہ جس چیز سے بھی کام لیا جائے وہ کسی نہ کسی وقت بگڑ بھی جاتی ہے اس کی چال اور اس کے کام میں فرق آجاتا ہے اور اگر بروقت اس کی نگہداشت نہ کی جاوے تو وہ خراب اور تباہ بھی ہوجاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کا نظام اتنا مربوط و منظم ہے کہ اس میں نہ ذرہ بھر فرق آتا ہے اور نہ کہیں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ جو اس کی بات کی قوی دلیل ہے کہ اس کائنات کا کوئی ایسا منتظم موجود ہے جو اپنی اس عظیم الجثہ مخلوق کی ہمہ وقت کڑی نگہداشت کر رہا ہے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ : اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد زندگی کی دلیل کے طور پر انسان کی اپنی پیدائش کا ذکر فرمایا، جو غور کرنے والے کے لیے کافی تھی، مگر اس کے بعد اس سے بھی کہیں بڑی مخلوق آسمانوں اور زمین کا اور ان میں رکھی ہوئی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ قیامت کی دلیل کے طور پر اللہ تعالیٰ اکثر انسان کی پیدائش کے ذکر کے بعد آسمانوں اور زمین کی پیدائش کا ذکر فرماتا ہے اور اس سے پہلے یا بعد قیامت کا ذکر فرماتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰىهَا 27۪رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰىهَا 28ۙوَاَغْطَشَ لَيْلَهَا وَاَخْرَجَ ضُحٰىهَا 29۠وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا ) [ النازعات : ٢٧ تا ٣٠ ] ” کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان ؟ اس نے اسے بنایا۔ اس کی چھت کو بلند کیا، پھر اسے برابر کیا۔ اور اس کی رات کو تاریک کردیا اور اس کے دن کی روشنی کو ظاہر کردیا اور زمین، اس کے بعد اسے بچھا دیا۔ “ اسی طرح دیکھیے سورة مومن (٥٧) اور سورة سجدہ کی شروع کی آیات۔- فَوْقَكُمْ : زمین کے کسی حصے پر چلے جاؤ آسمان اوپر ہی ہوگا۔- سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ :” طَرَاۗىِٕقَ “ ” طَرِیْقَۃٌ“ کی جمع ہے۔ ” طَارَقَ یُطَارِقُ “ اور ” أَطْرَقَ “ کا معنی ایک دوسرے پر چڑھانا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم ترکوں سے لڑو گے۔ “ پھر ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا : ( کَأَنَّ وُجُوْھَھُمُ الْمَجَانُّ الْمُطَرَّقَۃُ ) [ بخاري، الجہاد والسیر، باب قتال الترک : ٢٩٢٨ ] ” ان کے چہرے (ایسے چوڑے ہوں گے) جیسے وہ ایسی ڈھا لیں ہیں جن پر چمڑا چڑھایا ہوا ہے۔ “ ” طَارَقْتُ بَیْنَ الثَّوْبَیْنِ “ ” میں نے دو کپڑے اوپر تلے لیے۔ “ مطلب یہ ہے کہ یہ ساتوں آسمان ایک دوسرے کے اوپر ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا) [ نوح : ١٥ ] ” کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کس طرح اللہ نے سات آسمانوں کو اوپر تلے پیدا فرمایا۔ “ ” طَرَقَ یَطْرُقُ “ (ن ) ” ضَرَبَ “ کے معنی میں بھی آتا ہے، ہتھوڑے کو ” اَلْمِطْرَقَۃُ “ اسی لیے کہتے ہیں۔ ” طَرِیْقٌ“ کا ایک معنی راستہ بھی ہے، کیونکہ وہ چلنے والوں کی ٹھوکر میں ہوتا ہے۔ آسمانوں کو ” طَرِیْقَۃٌ“ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ وہ فرشتوں کی آمد و رفت اور احکام الٰہی کے نزول اور اعمال کے اوپر جانے کے راستے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ) [ الطلاق : ١٢ ] - ” اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ اللہ نے یقیناً ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے۔ “- وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِيْنَ : ” کُنَّا “ استمرار (ہمیشگی) کے لیے ہے، اسی لیے ترجمہ میں ” کبھی “ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی ایسا نہیں کہ انسانوں اور آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد ہم ان سے بیخبر اور بےتعلق ہوگئے ہوں، یا انھیں کسی داتا، دستگیر - یا گنج بخش کے حوالے کردیا ہو، نہیں، ایسا نہ کبھی تھا نہ ہوگا۔ ان کا وجود تو قائم ہی ہمارے علم اور ہماری قدرت کی بدولت ہے، جیسا کہ فرمایا : (يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْــرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَا ۭ وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ) [ الحدید : ٤ ] ” وہ جانتا ہے جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے - اور جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو اور اللہ اسے جو تم کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔ “ اور دیکھیے سورة انعام (٥٩) ۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ ، طرائق، طریقة کی جمع ہے اس کو بمعنی طبقہ بھی لیا جاسکتا ہے جس کے معنے یہ ہوں گے کہ تہ بہ تہ سات آسمان تمہارے اوپر بنائے گئے اور طریقہ کے معنے مشہور راستہ کے ہیں۔ یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ سب آسمان فرشتوں کی گزرگاہیں ہیں جو احکام لے کر زمین پر آتے جاتے ہیں۔- وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِيْنَ اس میں یہ بتلایا کہ ہم نے انسان کو صرف پیدا کر کے نہیں چھوڑ دیا اور اس سے غافل نہیں ہو سکتے بلکہ اس کے نشو و نما اور رہائش و آسائش کے سامان بھی مہیا کئے جس کی ابتداء آسمانوں کی تخلیق سے ہوئی پھر آسمان سے بارش برسا کر انسان کے لئے غذا اور اس کی آسائش کا سامان پھلوں پھولوں سے پیدا کیا جس کا ذکر بعد کی آیت میں اس طرح فرمایا۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ ٠ۤۖ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِيْنَ ١٧- فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - طرق - الطَّرِيقُ : السّبيل الذي يُطْرَقُ بالأَرْجُلِ ، أي يضرب . قال تعالی: طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ- [ طه 77] ، وعنه استعیر کلّ مسلک يسلكه الإنسان في فِعْلٍ ، محمودا کان أو مذموما . قال :- وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه 63] ، وقیل : طَرِيقَةٌ من النّخل، تشبيها بالطَّرِيقِ في الامتداد، والطَّرْقُ في الأصل : کا لضَّرْبِ ، إلا أنّه أخصّ ، لأنّه ضَرْبُ تَوَقُّعٍ كَطَرْقِ الحدیدِ بالمِطْرَقَةِ ، ويُتَوَسَّعُ فيه تَوَسُّعَهُم في الضّرب، وعنه استعیر : طَرْقُ الحَصَى للتَّكَهُّنِ ، وطَرْقُ الدّوابِّ الماءَ بالأرجل حتی تكدّره، حتی سمّي الماء الدّنق طَرْقاً «2» ، وطَارَقْتُ النّعلَ ، وطَرَقْتُهَا، وتشبيها بِطَرْقِ النّعلِ في الهيئة، قيل : طَارَقَ بين الدِّرْعَيْنِ ، وطَرْقُ الخوافي «3» : أن يركب بعضها بعضا، والطَّارِقُ : السالک للطَّرِيقِ ، لکن خصّ في التّعارف بالآتي ليلا، فقیل : طَرَقَ أهلَهُ طُرُوقاً ، وعبّر عن النّجم بالطَّارِقِ لاختصاص ظهوره باللّيل . قال تعالی: وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ- [ الطارق 1] ، قال الشاعر :- 299 ۔ نحن بنات طَارِقٍ«4» وعن الحوادث التي تأتي ليلا بالطَّوَارِقِ ، وطُرِقَ فلانٌ: قُصِدَ ليلًا . قال الشاعر :۔ كأنّي أنا المَطْرُوقُ دونک بالّذي ... طُرِقْتَ به دوني وعیني تهمل - «5» وباعتبار الضّرب قيل : طَرَقَ الفحلُ النّاقةَ ، وأَطْرَقْتُهَا، واسْتَطْرَقْتُ فلاناً فحلًا، کقولک :- ضربها الفحل، وأضربتها، واستضربته فحلا .- ويقال للنّاقة : طَرُوقَةٌ ، وكنّي بالطَّرُوقَةِ عن المرأة .- وأَطْرَقَ فلانٌ: أغضی، كأنه صار عينه طَارِقاً للأرض، أي : ضاربا له کا لضّرب بالمِطْرَقَةِ ،- وباعتبارِ الطَّرِيقِ ، قيل : جاءت الإبلُ مَطَارِيقَ ، أي : جاءت علی طَرِيقٍ واحدٍ ، وتَطَرَّقَ إلى كذا نحو توسّل، وطَرَّقْتُ له : جعلت له طَرِيقاً ، وجمعُ الطَّرِيقِ طُرُقٌ ، وجمعُ طَرِيقَةٍ طرَائِقُ. قال تعالی:- كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] ، إشارة إلى اختلافهم في درجاتهم، کقوله : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران 163] ، وأطباق السّماء يقال لها : طَرَائِقُ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون 17] ، ورجلٌ مَطْرُوقٌ: فيه لين واسترخاء، من قولهم : هو مَطْرُوقٌ ، أي : أصابته حادثةٌ لَيَّنَتْهُ ، أو لأنّه مضروب، کقولک : مقروع، أو مدوخ، أو لقولهم : ناقة مَطْرُوقَةٌ تشبيها بها في الذِّلَّةِ.- ( ط رق ) الطریق - کے معنی راستہ ہیں جس پر چلا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] پھر ان کے لئے دریا میں راستہ بناؤ ۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہاجاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے اس سے کہ وہ قتل محمود ہو یا مذموم ۔ قرآن میں ہے : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه 63] اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں ۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کھجور کے لمبے درخت کو بھی طریقۃ کہہ دیتے ہیں ۔ الطرق کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضرب سے زیادہ خاص ہے ۔ کیونکہ طرق کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضرب کی طرح طرق کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی چناچہ بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ طرق الحصی ٰ کا ہن کا اپنی کہانت کے لئے کنکر مارنا طرق الدواب چوپائے جانورون کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا ۔ طارقت النعل وطرق تھا میں نے جوتے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا ۔ پھر طرق النعل کی مناسبت سے طارق بین الدرعین کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں ۔ طرق الخوارج پرند کے اندورنی پروں کا تہ برتہ ہونا اور الطارق کے معنی ہیں راستہ پر چلنے والا ۔ مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چناچہ طرق اھلہ طروقا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور النجم ستارے کو بھی الطارق کہاجاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق 1] آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم ۔ شاعر نے کہاے ُ ۔ ( الرجز) (291) نحن بنات طارق ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں ۔ طوارق اللیل وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں ۔ طرق فلان رات میں صدمہ پہنچا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الطویل ) (292) کانی انا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی وعینی تھمل میں اس طرح بےچین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے ۔ اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور معنی ضرف یعنی مجفتی کرنے کے اعتبار سے کہاجاتا ہے ۔ صرق الفحل الناقۃ ( اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا ) اطرق تھا میں نے سانڈہ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ استطرقت فلانا الفحل : میں نے فلاں سے جفتی کے لئے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضربھا الفحل واضرب تھا واستضربتہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طروقۃ کہاجاتا ہے اور بطور کنایہ طروقۃ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے ۔ اطرق فلان فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔ گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیسا کہ مطرقۃ ( ہتھوڑے ) سے کو ٹا جاتا ہے اور طریق بمعنی راستہ کی مناسبت سے جاءت الابل مطاریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تطرقالیٰ کذا کے معنی ہیں : کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طرقت لہ کسی کے لئے راستہ ہموار کرنا ۔ الطریق کی جمع طرق آتی ہے اور طریقۃ کی جمع طرائق ۔ چناچہ آیت کریمہ : كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے تھے اور یہ آیت کریمہ : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران 163] ان لوگوں کے خدا کے ہاں ( مختلف اور متقارب ) درجے ہیں ۔ کی مثل ہے یعنی جیسا کہ یہاں دربات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرئق سے اصحاب طرائق مراد ہیں ) اور آسمان کے طبقات کو بھی طرائق کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون 17] ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کئے ) رجل مطروق نرم اور سست آدمی پر ھو مطروق کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا جیسا کہ مصیبت زدہ آدمی کو مقروع یا مدوخکہاجاتا ہے یا یہ ناقۃ مطروقۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کیساتھ تشبیہ دیکر بولا جاتا ہے ۔- غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا
(١٧) اور ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے کہ ان میں سے ایک ایک کے اوپر ہے اور ہم مخلوق کی مصلحتوں سے بیخبر نہ تھے کہ بغیر کسی حکم اور نہی کے ان کو ویسے ہی چھوڑ دیتے۔
آیت ١٧ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعَ طَرَآءِقَق) ” - عام طور پر ” سَبْعَ طَرَآءِقَ “ سے سات آسمان مراد لیے جاتے ہیں۔ ” طرائق “ کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور طبقوں کے بھی۔ دوسرے معنی کے مطابق اس سے ” تہہ بر تہہ سات آسمان “ مراد ہیں۔ واللہ اعلم جب تک انسانی علم کی رسائی اس کی حقیقت تک نہ ہوجائے ‘ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لحاظ سے یہ آیت متشابہات میں سے ہوگی۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :15 اصل میں لفظ : طرائق استعمال ہوا ہے جس کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور طبقوں کے بھی ۔ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو غالباً اس سے مراد سات سیاروں کی گردش کے راستے ہیں ، اور چونکہ اس زمانے کا انسان سبع سیارہ ہی سے واقف تھا ، اس لیے سات ہی راستوں کا ذکر کیا گیا ۔ اس کے معنی بہرحال یہ نہیں ہیں کہ ان کے علاوہ اور دوسرے راستے نہیں ہیں اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو : سَبْعَ طَرَآئِقَ کا وہی مفہوم ہو گا جو سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقاً ( سات آسمان طبق بر طبق ) کا مفہوم ہے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے ، تو اس کا ایک تو سیدھا سادھا مطلب وہی ہے جو ظاہر الفاظ سے ذہن میں آتا ہے ، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم سے بھی زیادہ بڑی چیز ہم نے یہ آسمان بنائے ہیں ، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : لَخَلقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ۔ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے ( المومن ۔ آیت 57 ) ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :16 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : اور مخلوقات کی طرف سے ہم غافل نہ تھے ، یا نہیں ہیں ۔ متن میں جو مفہوم لیا گیا ہے اس کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو ہم نے بنایا ہے ، یہ بس یونہی کسی اناڑی کے ہاتھوں الل ٹپ نہیں بن گیا ہے ، بلکہ اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر پورے علم کے ساتھ بنایا گیا ہے ، اہم قوانین اس میں کار فرما ہیں ، ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک سارے نظام کائنات میں ایک مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے ، اور اس کار گاہ عظیم میں ہر طرف ایک مقصدیت نظر آتی ہے جو بنانے والے کی حکمت پر دلالت کر رہی ہے ۔ دوسرا مفہوم لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اس کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہم نے پیدا کی ہے اس کی کسی حاجت سے ہم کبھی غافل ، اور کسی حالت سے کبھی بے خبر نہیں رہے ہیں ۔ کسی چیز کو ہم نے اپنے منصوبے کے خلاف بننے اور چلنے نہیں دیا ہے ۔ کسی چیز کی فطری ضروریات فراہم کرنے میں ہم نے کوتاہی نہیں کی ہے ۔ اور ایک ایک ذرے اور پتے کی حالت سے ہم با خبر رہے ہیں ۔
11: یہاں آسمانوں کو تہہ بر تہہ راستوں سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے انہی آسمانوں سے آتے جاتے ہیں۔ اور یہ جو فرمایا گیا ہے کہ ہم اپنی مخلوق سے غافل نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ہماری مخلوق کی ضروریات کیا ہیں، اور ان کی مصلحت کا کیا تقاضا ہے، اس لیے ہماری تمام تخلیقات میں ان مصالح کی پوری رعایت ہے۔