Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

201اس سے زیتون کا درخت مراد ہے، جس کا روغن تیل کے طور پر اور پھل سالن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سالن کو صِبْغٍ ، ُ رنگ کہا ہے کیونکہ روٹی، سالن میں ڈبو کر، گویا رنگی جاتی ہے۔ طُوْرِ سَیْنَآءَ (پہاڑ) اور اس کا قرب و جوار خاص طور پر اس کی عمدہ قسم کی پیداوار کا علاقہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] اس درخت سے مراد زیتون کا درخت ہے۔ شام و فلسطین اس درخت کا اصلی وطن ہے۔ اور طور سینا کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ یہ اس علاقہ کا مشہور مقام ہے۔ اس درخت کی عمر، اس کا قد و قامت اور پھیلاؤ بہت زیادہ ہوتا ہے ہے۔ جیسے ہمارے ہاں برگد کا درخت ہوتا ہے۔ جس کے زیادہ پھیلاؤ کی وجہ سے اس کی کئی شاخیں واپس زمین تک آکر اس کا سہارا بنتی ہیں۔ زیتوں کے درخت سے تیل وافر مقدار میں حاصل ہوتا ہے۔ یہیں سے یہ تیل دنیا کے اکثر مقامات پر جاتا ہے۔ طبی لحاظ سے یہ تیل بہت مفید چیز ہے۔ اور بہت سے لوگ اس کے پھل کا اچار ڈالتے ہیں۔ اس کے تیل کو سالن کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ اور سالن میں گھی کی جگہ بھی استعمال کرتے ہیں اس کی عام افادیت کے پیش نظر ہی اللہ تعالیٰ نے سورة تین میں زیتوں کی قسم بھی کھائی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۙوَشَجَــرَةً تَخْــرُجُ مِنْ طُوْرِ سَيْنَاۗءَ : طور ایک مخصوص پہاڑ کا نام ہے۔ طور کا معنی پہاڑ بھی ہے۔ بعض نے کہا کہ طور وہ پہاڑ ہے جس پر درخت اگتے ہوں۔ سیناء اس پہاڑ کا نام ہے، جیسا کہ جبل احد کہتے ہیں، یا ” جَبَلَا طَيْءٍ “ (بنو طے کے دو پہاڑ) کہتے ہیں۔ امام طبری نے فرمایا : ” اور ہم نے تمہارے لیے وہ درخت بھی پیدا کیا جو طور سیناء سے نکلتا ہے، یعنی اس پہاڑ سے جس پر درخت اگتے ہیں۔ مراد زیتون کا درخت ہے۔ “ اعراب القرآن و بیانہ از درویش میں ہے : ” سیناء ایک شبہ جزیرہ ہے، جس کی حد شمال میں بحر ابیض متوسط ہے اور مغرب میں نہر سویز اور خلیج سویز ہے اور مشرق میں فلسطین اور خلیج عقبہ ہے اور جنوب میں وہ بحر احمر میں ” رأس محمد “ کے پاس ختم ہوتا ہے اور سیناء ایک پہاڑ ہے جو شبہ جزیرہ سیناء میں جنوب کی طرف واقع ہے اور درخت سے مراد زیتون کا درخت ہے اور اسے طور سیناء کے ساتھ اس لیے خاص کیا گیا ہے کہ اس کا اصل وطن وہ ہے جہاں سے وہ دوسرے مقامات پر منتقل ہوا۔ “ کھجور اور انگور کے بعد زیتون کا خصوصیت کے ساتھ ذکر اس کے کثیر فوائد کی وجہ سے فرمایا۔ شام اور فلسطین اس کا اصلی وطن ہیں اور وہاں کا زیتون بہت عمدہ ہوتا ہے۔ شام میں زیتون اتنی کثرت سے ہے کہ گھروں، کھیتوں اور سڑکوں کے کناروں وغیرہ پر خود بخود اگا ہوا ملتا ہے۔ اس درخت کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے : ” یہ ڈیڑھ دو ہزار برس تک چلتا ہے، حتیٰ کہ فلسطین کے بعض درختوں کا قد و قامت اور پھیلاؤ دیکھ کر اندازہ کیا گیا ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے سے اب تک چلے آ رہے ہیں۔ “ (واللہ اعلم) - سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ نے اسے شجرۂ مبارکہ قرار دیا ہے، اس کے تیل کی تعریف میں فرمایا : (يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ) [ النور : ٣٥ ] ” اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے، خواہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو۔ “ اور سورة التین میں اس کی قسم کھائی ہے۔ - تَنْۢبُتُ بالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰكِلِيْنَ : زیتون میں اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی قدرت کا کمال دیکھیے کہ پانی سے سیراب ہوتا ہے اور اپنے ہمراہ تیل کا خزانہ اور کھانے والوں کے لیے ایک طرح کا سالن لے کر اگتا ہے۔ ” وَصِبْغٍ “ نکرہ ہے، اس لیے ترجمہ ” ایک طرح کا سالن “ کیا گیا ہے، کیونکہ سالن بیشمار ہیں اور اس سے عمدہ اور لذیذ بھی ہیں۔ (بقاعی) اس کا تیل کھانا پکانے، سالن کے طور پر کھانے، جسم پر لگانے اور دوسری ضروریات میں کام آتا ہے اور اس کا پھل اچار کی صورت میں بھی کھانے کے کام آتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کُلُوا الزَّیْتَ وَادَّھِنُوْا بِہِ فَإِنَّہُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُبَارَکَۃٍ ) [ ترمذي، الأطعمۃ، باب ما جاء في أکل الزیت : ١٨٥١۔ صححہ الألباني في الصحیحۃ : ٣٧٩ ] ” زیتون کھاؤ اور اس کا تیل استعمال کرو، کیونکہ یہ ایک مبارک درخت سے ہے۔ “ ابن حبان نے فرمایا : ” کھجور، انگور اور زیتون کا خاص طور پر اس لیے ذکر فرمایا : ” لِأَنَّھَا أَکْرَمُ الشَّجَرِ وَ أَجْمَعُھَا لِلْمُنَافِعِ “ ” کیونکہ یہ تمام درختوں سے زیادہ عمدہ ہیں اور سب سے زیادہ فوائد کے جامع ہیں۔ “ [ البحر المحیط ]- 3 اگرچہ یہاں صرف زیتون کا ذکر کیا گیا ہے، مگر اس کے ضمن میں وہ تمام درخت اور پودے بھی آگئے جن سے انسان اپنی روغنیات کی ضرورت حاصل کرتا ہے اور جنھیں کھانے کے لازمہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَشَجَــرَةً تَخْــرُجُ مِنْ طُوْرِ سَيْنَاۗءَ ، سیناء اور سینین اس مقام کا نام ہے جس میں کوہ طور واقع ہے۔ زیتون کا تیل، تیل کی ضروریات مثلاً بدن کی مالش اور چراغ میں جلانے کے بھی کام آتا ہے اور کھانے میں سالن کا بھی کام دیتا ہے اسی کو فرمایا تَنْۢبُتُ بالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰكِلِيْنَ ، زیتون کے درخت کے لئے کوہ طور کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ درخت سب سے پہلے کوہ طور ہی پر پیدا ہوا ہے اور بعض نے کہا کہ طوفان نوح کے بعد سب سے پہلا درخت جو زمین پر اگا ہے وہ زیتون تھا۔ (مظھری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَشَجَــرَۃً تَخْــرُجُ مِنْ طُوْرِ سَيْنَاۗءَ تَنْۢبُتُ بِالدُّہْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰكِلِيْنَ۝ ٢٠- شجر - الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه .- ( ش ج ر ) الشجر - ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - طور - طَوَارُ الدّارِ وطِوَارُهُ : ما امتدّ منها من البناء، يقال : عدا فلانٌ طَوْرَهُ ، أي : تجاوز حدَّهُ ، ولا أَطُورُ به، أي : لا أقرب فناء ه . يقال : فعل کذا طَوْراً بعد طَوْرٍ ، أي : تارة بعد تارة، وقوله :- وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح 14] ، قيل : هو إشارة إلى نحو قوله تعالی: خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج 5] ، وقیل : إشارة إلى نحو قوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] ، أي : مختلفین في الخَلْقِ والخُلُقِ. والطُّورُ اسمُ جبلٍ مخصوصٍ ، وقیل : اسمٌ لكلّ جبلٍ وقیل : هو جبل محیط بالأرض «2» . قال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص 46] ، وَطُورِ سِينِينَ- [ التین 2] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء 154] .- ( ط و ر )- طوارا لدار وطوارھ کے معنی گھر کی عمارت کے امتداد یعنی لمبا ہونے اور پھیلنے کے ہیں محاورہ ہے : ۔ عدا فلان طوارہ فلاں اپنی حدود سے تجاوز کر گیا ۔ لاوطور بہ میں اسکے مکان کے صحن کے قریب تک نہیں جاؤں گا ۔ فعل کذا طورا بعد طور اس نے ایک بار کے بعد دوسری باریہ کام کیا اور آیت کریمہ : ۔ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح 14] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کہ اطوارا سے ان مختلف منازل ومدارج کی طرف اشارہ ہے جو کہ آیت : ۔ خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج 5] ہم نے تم کو ( پہلی بار بھی ) تو پیدا کیا تھا ( یعنی ابتداء میں ) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بناکر پھر اس سے خون کا لوتھڑا بناکر پھر اس سے بوٹی بناکر ۔ میں مذکور ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مختلف احوال مراد ہیں جن کی طرف آیت : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا ۔ میں اشارہ فرمایا ہے یعنی جسمانی اور اخلاقی تفاوت جو کہ ہر معاشرہ میں نمایاں طور پر پا یا جاتا ہے ۔ الطور ( ایلہ کے قریب ایک خاص پہاڑ کا نام ہے) اور بعض نے کہا ہے کہ ہر پہاڑ کو طور کہہ سکتے ہیں اور بعض کے نزدیک طور سے وہ سلسلہ کوہ مراد ہے جو کرہ ارض کو محیط ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] کوہ طور کی قسم اور کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے ۔ وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص 46] اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے تھے ۔ وَطُورِ سِينِينَ [ التین 2] اور طورسنین کی ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کی داہنی جانب سے پکارا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء 154] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کر کھڑا کیا ۔- سين - طور سَيْنَاءَ : جبل معروف، قال : تَخْرُجُ مِنْ طُورِ سَيْناءَ [ المؤمنون 20] . قرئ بالفتح والکسر «2» ، والألف في سَيْنَاءَ بالفتح ليس إلّا للتأنيث، لأنه ليس في کلامهم فعلال إلّا مضاعفا، کالقلقال والزّلزال، وفي سِينَاءَ يصحّ أن تکون الألف فيه كالألف في علباء وحرباء «3» ، وأن تکون الألف للإلحاق بسرداح «4» ، وقیل أيضا :- وَطُورِ سِينِينَ- «5» . والسِّينُ من حروف المعجم .- ( س ی ن ) طور سیناء یہ مشہور پہاڑ کا نام ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تَخْرُجُ مِنْ طُورِ سَيْناءَ [ المؤمنون 20] اور درخت بھی ہم ہی نے پیدا کیا ) جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے ۔ یہ حرف اول یعنی سین کے فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے ۔ فتح کی صورت میں قطعی طور پر الف ممدو وہ برائے تانیث ہوگا کیونکہ عربی زبان میں فعلال کا وزن صرف کلمہ مضاعف کے ساتھ مختص ہے جیسے زلزال وقلقال اور سین کے مکسور ہونے کی صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس لا لف علیاء اور حرباء کی طرح ( برائے تانیث ہو اور یہ بھی صحیح ہے ۔ کہ الف سرواح کے ساتھ ملحق کرنے کے لئے ہو اور اسی کو ( دوسری جگہ وَطُورِ سِينِينَ«5»بھی کہا گیا ہے ۔ السین حروف ہجاء میں سے ایک حرف کا نام ہے ۔- نبت - النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31]- ( ن ب ت ) النبت والنبات - ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ - دهن - قال تعالی: تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ [ المؤمنون 20] ، وجمع الدّهن أدهان . وقوله تعالی:- فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن 37] ، قيل : هو درديّ الزّيت، والمُدْهُن : ما يجعل فيه الدّهن، وهو أحد ما جاء علی مفعل من الآلة «3» ، وقیل للمکان الذي يستقرّ فيه ماء قلیل : مُدْهُن، تشبيها بذلک، ومن لفظ الدّهن استعیر الدَّهِين للناقة القلیلة اللّبن، وهي فعیل في معنی فاعل، أي : تعطي بقدر ما تدهن به . وقیل : بمعنی مفعول، كأنه مَدْهُون باللبن . أي : كأنها دُهِنَتْ باللبن لقلّته، والثاني أقرب من حيث لم يدخل فيه الهاء، ودَهَنَ المطر الأرض : بلّها بللا يسيرا، کالدّهن الذي يدهن به الرّأس، ودَهَنَهُ بالعصا : كناية عن الضّرب علی سبیل التّهكّم، کقولهم : مسحته بالسّيف، وحيّيته بالرّمح . والإِدْهَانُ في الأصل مثل التّدهين، لکن جعل عبارة عن المداراة والملاینة، وترک الجدّ ، كما جعل التّقرید وهو نزع القراد عن البعیر عبارة عن ذلك، قال : أَفَبِهذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ [ الواقعة 81] ، قال الشاعر : 162 ۔ الحزم والقوّة خير من ال ... إدهان والفکّة والهاع «1»وداهنت فلانا مداهنة، قال : وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ [ القلم 9] .- ( د ھ ن ) الدھن ۔ تیل ۔ چکنا ہٹ ج ادھان قرآن میں ہے : ۔ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ [ المؤمنون 20] جو روغن لئے ہوئے اگتا ہے : ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن 37] پھر ۔۔۔۔ تیل کی تلچھٹ کیطرح گلابی ہوجائیگا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہپ دھان کے معنی تلچھٹ کے ہیں المدھن ۔ ہر وہ برتن جس میں تیل ڈالا جائے ۔ یہ اسم آلہ کے منجملہ ان اوزان کے ہے جو ( بطور شواز ) مفعل کے وزن پر آتے ہیں اور بطور تشبیہ ( پہاڑ میں ) اس مقام ( چھوٹے سے گڑھے ) کو بھی مدھن کہا جاتا ہے جہاں تھوڑا سا پانی ٹھہر جاتا ہو اور دھن سے بطور استعارہ کم دودھ والی اونٹنی کو دھین کہا جاتا ہے اور یہ فعیل بمنعی فاعل کے وزن پر ہے یعنی وہ بقدر دہن کے دودھ دیتی ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ فعیل بمعنی مفعول ہے ۔ گویا اسے دودھ کا دھن لگایا گیا ہے ۔ یہ بھی دودھ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ دوسرا قول الی الصحت معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس کے آخر میں ہ تانیث نہیں آتی ۔ ( جو فعیل بمنعی مفعول ہونیکی دلیل ہی دھن المطر الارض ۔ بارش نے زمین کو ہلکا سنم کردیا جیسا کہ سر پر تیل ملا جاتا ہے ۔ دھنۃ بالعصا ر ( کنایۃ ) لاٹھی سے اس کی تواضع کی ۔ یہ بطور تہکم کے بولا جاتا ہے جیسا کہ مسحۃ ہ بالسیف وحیتہ بالروح کا محاورہ ہے ۔ الادھان ۔ یہ اصل میں تذھین کی طرح ہے ۔ لیکن یہ تصنع ، نرمی برتنے اور حقیقت کا دامن ترک کردینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ تقدیر کا لفظ جس کے اصل معنی اونٹ سے چیچڑ دور کر نا کے ہیں پھر تصنع اور نرمی برتنا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَبِهذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ [ الواقعة 81] کیا تم اسی کتاب سے انکار کرتے ہو ؟ شاعر نے کہا ہے : ۔ کہ حزم و احتیاط اور قوت چاپلوسی اور جزع فزع سے بہتر ہیں ۔ میں نے فلاں کے سامنے چاپلوسی کی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ [ القلم 9] کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم مداہنت سے کام لو یہ بھی نرم ہوجائیں ۔- صبغ - الصَّبْغُ : مصدر صَبَغْتُ ، والصِّبْغُ : الْمَصْبُوغُ ، وقوله تعالی: صِبْغَةَ اللَّهِ- [ البقرة 138] ، إشارة إلى ما أوجده اللہ تعالیٰ في الناس من العقل المتميّز به عن البهائم کالفطرة، وکانت النّصاری إذا ولد لهم ولد غمسوه بعد السّابع في ماء عموديّة يزعمون أنّ ذلک صِبْغَةٌ ، فقال تعالیٰ له ذلك، وقال : وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً [ البقرة 138] ، وقال : وَصِبْغٍ لِلْآكِلِينَ [ المؤمنون 20] ، أي : أدم لهم، وذلک من قولهم : اصْطَبَغْتُ بالخلّ «1» .- ( ص ب غ ) الصبغ یہ صبغت ( ص) کا مصدر ہے اور صبغ بمعنی مصبوغ آتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ صِبْغَةَ اللَّهِ [ البقرة 138] ( کہدو کہ ہم نے ) خدا کا رنگ اختیار کرلیا ہے ۔ میں اس عقل کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر پیدا کی ہے اور وہ اس کے ذریعے بہائم سے ممتاز ہوتا ہے ۔ جیسا کہ فطرت انسانیہ : ۔ نصارٰی کے ہاں دستور یہ تھا کہ جب بچہ پیدا ہوتا تو وہ ساتویں روز اسے عمود یہ ( زردرنگ کے پانی ) میں غوطہ دیتے اور اس کا نام صبغۃ یعنی دین رکھتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے دین کو صبغۃ اللہ کہا اور فرمایا ۔ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً [ البقرة 138] اور خدا سے بہتر رنگ یعنی دین کس کا ہوسکتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَصِبْغٍ لِلْآكِلِينَ [ المؤمنون 20] اور کھانے والے کے لئے سالن ۔ میں صبغ کے معنی سالن کے ہیں اور یہ اصبغت بالخل کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی سر کہ میں روٹی ڈبو کر کھانے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٠) اور اسی پانی سے ایک زیتون کا درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طور سینا میں کثرت سے ہوتا ہے نبطی زبان میں طور پہاڑ کو اور حبشی زبان میں سیناء اس پہاڑ کو کہتے ہیں جس پر درخت زیادہ ہوں جس میں سے تیل نکلتا ہے اور وہ تیل سالن کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآءَ ) ” - اس سے زیتون کا درخت مراد ہے جو عام طور پر جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑی علاقوں میں بکثرت پایا جاتا ہے۔- م (تَنْبُتُ بالدُّہْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰکِلِیْنَ ) ” - ایک زمانے میں روئے زمین پر وسیع علاقے کی آبادی کا اپنی خوراک کے لیے بنیادی طور پر اسی زیتون پر ہی انحصار تھا اور عام لوگ روغن زیتون میں روٹی کو بھگو کر کھالیتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :21 مراد زیتون ، جو بحر روم کے گرد و پیش کے علاقے کی پیداوار میں سب سے زیادہ اہم چیز ہے ۔ اس کا درخت ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو ہزار برس تک چلتا ہے ، حتی کہ فلسطین کے بعض درختوں کا قد و قامت اور پھیلاؤ دیکھ کر اندازہ کیا گیا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے اب تک چلے آ رہے ہیں ۔ طور سیناء کی طرف اس کو منسوب کرنے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہی علاقہ جس کا مشہور ترین اور نمایاں ترین مقام طور سیناء ہے ، اس درخت کا وطن اصلی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: اس سے مراد زیتون کا درخت ہے جو طور سینا کے علاقے میں کثرت سے پایا جاتا تھا۔ اس سے جو تیل نکلتا ہے، اس سے روغن کا کام بھی لیا جاتا ہے، اور عرب میں اسے روتی کے ساتھ سالن کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس درخت کا خاص طور پر اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اس کے فوائد بہت ہیں۔