2 4 1یعنی یہ تو تمہارے جیسا ہی انسان ہے، یہ کس طرح نبی اور رسول ہوسکتا ہے ؟ اور اگر یہ نبوت و رسالت کا دعویٰ کر رہا ہے تو اصل مقصد اس سے تم پر فضیلت اور بہتری حاصل کرنا ہے۔ 2 4 2اور اگر واقع اللہ اپنے رسول کے ذریعہ سے ہمیں یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ عبادت کے لائق صرف وہی ہے، تو وہ کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتا نہ کہ کسی انسان کو، وہ ہمیں آ کر توحید کا مسئلہ سمجھاتا۔ 2 4 3یعنی اس کی دعوت توحید، ایک نرالی دعوت ہے، اس سے پہلے ہم نے اپنے باپ دادوں کے زمانے میں تو یہ سنی ہی نہیں۔
[٢٧] تمام انبیاء اور رسل ہمیشہ بشر ہی ہوتے تھے۔ اور انسانوں کے لئے رسول ہونا بھی کوئی بشر ہی چاہئے جو انہی میں سے ہو تاکہ جب وہ انھیں اپنی زبان میں اللہ کا پیغام پہنچاویں تو وہ اسے سمجھ سکیں۔ نیز رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہی نہیں ہوتا۔ ان احکام پر سب سے پہلے خود عمل پیرا ہو کر عملی نمونہ دکھلانا بھی ہوتا ہے۔ اب اگر رسول انسان کی بجائے فرشتہ ہو یا نوری مخلوق ہو یا کسی اور اعلیٰ جنس سے ہو۔ تو اس پر ایمان لانے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم لوگ انسان ہو کر ایک فرشتہ یا کسی بالاتر جنس والی ہستی کی اقتداء کیسے کرسکتے ہیں۔ یہی وہ مصلحتیں ہیں جن کا بنا پر رسول کا بشر ہونا ضروری ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کسی بشر ہی کو نبی اور رسول بنا کر مبعوث فرمایا اور قرآن کریم میں ان باتوں کی بہت سے مقامات پر وضاحت موجود ہے۔ اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کی زبان سے کئی بار اپنی بشریت کا اقرار کرایا ہے۔ حتیٰ کہ اس حقیقت کو اس کلمہ کا لازمی جز بنادیا جس کے اقرار پر کوئی شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ لیکن گمراہ لوگوں کی گمراہیوں میں سے ایک یہ بھی گمراہی بھی بطور قدر مشترک رہی ہے۔ بشریت اور رسالت دونوں صفات اکٹھی نہیں ہوسکتیں انبیاء کی تکذیب کرنے والوں نے سب سے پہلے بطور طعنہ انبیاء سے یہی بات کہی کہ تم تو ہم جیسے بشر ہو تم رسول بن کیسے سکتے ہو ؟ یہ ایک طرح کی گمراہی تھی اور دوسری طرح کی گمراہی انبیاء کے عقیدت مندوں میں پیدا ہوتی ہے۔ جو غلو کی راہ اختیار کرکے دوسری انتہاء کو پہنچتے ہیں۔ ان کا نظریہ بھی یہی ہوتا ہے کہ نبوت یا رسالت اور بشیریت ایک ہی شخص میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ فرق یہ پڑجاتا ہے کہ وہ رسالت کا تو اقرار کرتے ہیں مگر بشریت سے انکار کردیتے ہیں۔ دور کیوں جائیے ہم مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر کہنے والوں کو گستاخانہ رسول کا طعنہ دیتا ہے۔ چناچہ ان کا یہ فرمان زد نعرہ بشر عرش توں پار جا کوئی نہیں سکدا ان کے اسی نظریہ کی ترجمانی کرتا ہے یہ لوگ آپ کو بشر کے بجائے نور ثابت کرتے ہیں اور بشریت سے انکار کرتے ہیں اور یہ بحث پہلے سورة مائدہ کی آیت نمبر ١٥ کے حاشیہ نمبر ٤٢ کے تحت گزر چکی ہے۔- [٢٨] دنیا داروں کا ہمیشہ سے یہ نظریہ رہا ہے کہ جو شخص بھی کوئی اصلاحی دعوت کے کام کا آغاز کرتا ہے تو انھیں فوراً یہ خیال آتا ہے کہ یہ شخص اپنی چودھراہٹ قائم کرنے اور اپنا جھنڈا بلند کرنے کے لئے یہ کام کر رہا ہے۔ اور وہ اپنے اس نظریہ میں اس حد تک حق بجانب بھی ہوتے ہیں کہ وہ خود چونکہ اسی غرض کے لئے اپنی زندگیاں اور اپنی تمام تر کوششیں کھپا دیتے ہیں۔ لہذا وہ ہر شخص کو اسی نظریہ سے دیکھتے ہیں قوم نوح نے نوح (علیہ السلام) کو یہ طعنہ دیا۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہی بات کہی کہ موسیٰ اس ملک پر قابض ہونا چاہتا ہے اور آپ کی قوم نے آپ کے متعلق یہی نظریہ قائم کیا اور آپ سے کہا کہ اگر تم مال و دولت چاہتے تو جتنا چاہو حاضر ہے۔ اقتدار چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا قائد تسلیم کرلیتے ہیں اور کسی حسین عورت سے شادی کرنا چاہتے ہو تو یہ کام بھی ہم کئے دیتے ہیں۔ بشرطیکہ ہماری مخالفت اور ہمارے معبودوں سے باز آجاؤ اور ہم سے سمجھوتہ کرلو - پھر یہ بات بھی واضح ہے کہ انبیاء کو بھی بالآخر اللہ کی مدد سے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے۔ مگر ان دونوں کے اقتدار کے حصول میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایک دنیا دار کا مقصود ہی اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ جبکہ ایک نبی کا اصل مقصود احکام الٰہیہ کا نفاذ ہوتا ہے اور اس کے لئے وہ اقتدار کو محض ایک ذریعہ بناتا ہے۔ اس فرق کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک آدمی قتل ناحق کرتا ہے تو یہ سراسا فساد ہے اور ایک جج اس قاتل کو قصاص میں قتل کی سزا دیتا ہے تو یہ سراسر عدل اور رحمت اور فساد کی روک تھا ہے۔ جبکہ نفس قفل کے لحاظ دونوں واقعات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔- [٢٩] یعنی یہ بات کہ رسول بشر ہی ہوتا ہے یا یہ کہ ایک اکیلا اللہ ہی ساری کائنات کی فرمانروائی اور حاجت روائی کے لئے بہت کافی ہے اور دوسرے سب معبود لغو اور باطل ہیں
فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ : معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کے واضح طور پر الگ الگ قبیلے تھے اور نوح (علیہ السلام) کا اپنا قبیلہ انکار میں پیش پیش تھا۔ اس لیے انکار اور اعتراض کے اپنوں کی طرف سے ہونے کی شناعت کو واضح کرنے کے لیے ” مِنْ قَوْمِهٖ “ فرمایا۔ (بقاعی) اس میں ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے، کیونکہ آپ کی سخت ترین مخالفت آپ کے قریب ترین رشتہ دار ابولہب نے کی۔ (دیکھیے سورة لہب) ایک شاعر نے کہا - وَ ظُلْمُ ذَوِی الْقُرْبٰی أَشَدُّ مَضَاضَۃً- عَلَی الْمَرْءِ مِنْ وَقْعِ الْحُسَامِ الْمُھَنَّدِ- ” اور قرابت والوں کا ظلم تکلیف میں آدمی پر ہندی تلوار لگنے سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ “- مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ : مفسر رازی نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے پانچ شبہات ذکر فرمائے، مگر جواب کسی کا نہیں دیا، کیونکہ معمولی سے غور کے ساتھ ان کا بےکار ہونا سمجھ میں آجاتا ہے۔ “ ان کا پہلا شبہ یہ تھا کہ یہ تو تمہارے جیسا بشر ہے۔ بقاعی نے فرمایا : ” انھوں نے کسی انسان کا نبی ہونا نہیں مانا تو لازم تھا کہ کسی مٹی کا انسان ہونا بھی نہ مانتے، پانی کے کسی قطرے کا علقہ ہونا اور خون کی کسی پھٹکی کا مضغہ ہونا بھی نہ مانتے ۔۔ “ ابن جزیّ نے التسہیل میں فرمایا : ” کس قدر تعجب ہے کہ انھوں نے بشر کے رسول ہونے کو نہیں مانا، مگر پتھر کے رب ہونے کو مان لیا۔ “ مشرک کی عقل ایسی ہی ہوتی ہے، ہمارے زمانے کے بعض لوگ جو جدّی پشتی مسلمان ہیں، آبا و اجداد سے سن کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی مانتے ہیں مگر بشر نہیں مانتے۔ پہلے لوگوں کا کہنا تھا کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا اور ان کا کہنا ہے کہ رسول بشر نہیں ہوسکتا۔ نتیجہ دونوں باتوں کا ایک ہی ہے۔ قرآن نے بشر کے رسول نہ ہونے یا رسول کے بشر نہ ہونے کا بار بار رد فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (٦٣ تا ٦٩) ، یونس (٢) ، ہود (٢٧ تا ٣١) ، یوسف (١٠٩) ، رعد (٣٨) ، ابراہیم (١٠، ١١) ، نحل (٤٣) ، بنی اسرائیل (٩٤، ٩٥) ، کہف (١١٠) ، انبیاء (٣) ، مومنون (٣٣، ٣٤، ٤٧) ، فرقان (٧ تا ٢٠) ، شعراء (١٥٤، ١٨٦) اور سورة یٰس (١٥) ۔- يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ : یہ دوسرا شبہ ہے جو کافر سرداروں نے انبیاء کو عوام میں بےوقعت بنانے کے لیے پیش کیا کہ یہ تم پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اکثر کفار نے اپنے اپنے انبیاء کے بارے میں یہی بات کہی کہ یہ اقتدار کے بھوکے ہیں۔ فرعون اور اس کے سرداروں نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو یہ طعنہ دیا تھا : (قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاۗءُ فِي الْاَرْضِ ) [ یونس : ٧٨ ] ” انھوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس راہ سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور اس سر زمین میں تم دونوں ہی کو بڑائی مل جائے ؟ “ گویا سرداری اور برتری ان مشرکوں ہی کا مادری و پدری ورثہ ہے، یہ کسی اور کا حق نہیں۔ جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ اگر رسول اپنے منصب کی وجہ سے برتری چاہتے ہیں تو برتری کا حامل ہونا ان کا حق ہے، تاکہ کسی کو ان کے اتباع میں عار نہ ہو اور اگر وہ تکبر اور فخر و غرور کے لیے برتری چاہتے ہیں تو یہ ان پر بہتان ہے، کیونکہ ان سے بڑھ کر کوئی متواضع نہیں ہوتا۔ - وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَةً : یہ تیسرا اعتراض ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ اللہ کو مانتے تھے، مگر اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے۔ نوح (علیہ السلام) کی طرف سے ایک اللہ کی عبادت کا حکم سن کر بہانہ گھڑا کہ اگر اللہ چاہتا کہ کوئی رسول بھیجے تو وہ انسان کے بجائے کوئی فرشتے بھیج دیتا۔ یہ بھی درحقیقت بشر کی نبوت سے انکار ہے۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ مالک مرضی والا ہے، وہ جسے چاہے، جس کام کے لیے چاہے چن لیتا ہے۔ وہ مالک ہی کیا ہوا جو تمہارے چاہنے کا پابند ہو۔- مَّا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِيْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ : یہ چوتھا اعتراض ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) سے پہلے جاہلیت کا طویل عرصہ گزرا تھا۔ پہلی تینوں باتوں میں نوح (علیہ السلام) کے رسول ہونے کا انکار تھا اور یہ اس دعوت کا انکار ہے جو نوح (علیہ السلام) لے کر آئے تھے۔ یعنی اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنے کی بات ہم نے نہیں سنی اور نہ یہ سنا ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے یا سفارشی بنانے کے لیے بھی کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ کفار کے سرداروں کی یہ بات بھی اس لیے جواب کے قابل نہیں کہ اس کی بنیاد تقلید ہے، جب کہ تقلید سراسر جہل ہے اور جاہلوں کا جواب خاموشی اور سلام متارکہ ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ) [ الفرقان : ٦٣ ] ” اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔ “ (دیکھیے بقرہ : ١٧٠) بھلا بتاؤ اس سے بڑی جہالت کیا ہوگی کہ جو چیز ہم نے سنی نہیں وہ ہے ہی نہیں ؟
فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ٠ۙ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ ٠ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَۃً ٠ۚۖ مَّا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِيْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ ٢٤ۚ- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] ،- ( م ل ء ) الملاء - ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- شاء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ- [ الرعد 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة- الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ- [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔
(٢٤۔ ٢٥) تو ان کی قوم کے رئیس یہ سن کر عوام سے کہنے لگے کہ نوح (علیہ السلام) سوائے اس کے کہ تمہاری طرح کے ایک آدمی ہیں اور کچھ نہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ نبوت اور رسالت کے دعوے سے تم پر فوقیت حاصل کریں اور اگر اللہ تعالیٰ ہمارے پاس رسول بھیجنا منظور ہوتا تو فرشتوں میں سے کئی فرشتے کو بھیج دیتا، نوح (علیہ السلام) جو کہتے ہیں، ہم نے اپنے پہلے بڑوں کے زمانہ میں بھی اس چیز کا تذکرہ نہیں سنا، نوح (علیہ السلام) کو جنون ہوگیا ہے تو ان کے وقت تک ان کی حالت کا انتظار کرو۔
آیت ٢٤ (فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا ہٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْلا) ” - حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بڑے بڑے سرداروں نے اپنے عوام کو تسلی دینے کے لیے ان کے سامنے یہ دلیل اختیار کی کہ یہ نوح ( علیہ السلام) بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہی تو ہے اور ایک انسان اللہ کا فرستادہ کیسے ہوسکتا ہے ؟- (یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ ط) ” - اس نے اقتدار و اختیار اور سرداری حاصل کرنے کے لیے نبوت و رسالت کا یہ ڈھونگ رچایا ہے۔- (وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَاَنْزَلَ مَلآءِکَۃً ج) ” - اگر اللہ نے اپنا رسول بھیجنا ہوتا تو وہ اپنے فرشتوں میں سے کسی کو بھیجتا۔ اس شخص میں کون سی ایسی خاص بات تھی کہ اللہ نے اسے اس کام کے لیے منتخب کیا ہے ؟- (مَّا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِیْٓ اٰبَآءِنَا الْاَوَّلِیْنَ ) ” - اس کا یہ دعویٰ بالکل نیا ہے۔ ہم نے ایسی کوئی بات اپنے باپ دادا سے تو نہیں سنی کہ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے بھی کسی کو رسول مبعوث کرتا ہے ۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :26 یہ خیال تمام گمراہ لوگوں کی مشترک گمراہیوں میں سے ایک ہے کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا اور نبی بشر نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے قرآن نے بار بار اس جاہلانہ تصور کا ذکر کر کے اس کی تردید کی ہے اور اس بات کو پورے زور کے ساتھ بیان کیا ہے کہ تمام انبیاء انسان تھے اور انسانوں کے لیے انسان ہی نبی ہونا چاہیے ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہوں الاعراف ، آیات 63 ۔ 69 ۔ یونس ، آیت 2 ۔ ہود ، 27 ۔ 31 ۔ یوسف 109 ۔ الرعد 38 ۔ ابراہیم 10 ۔ 11 ، النحل 43 ۔ بنی اسرائیل ، 94 ۔ 95 ۔ الکہف 110 ۔ الانبیاء 3 ۔ 34 ۔ المومنون 33 ۔ 34 ۔ 47 ۔ الفرقان 7 ۔ 20 ۔ الشعراء 154 ۔ 186 ۔ یٰسین 15 ۔ حٰم السجدہ ، 6 ۔ مع حواشی ) ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :27 یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اٹھے اس پر فوراً یہ الزام چسپاں کر دیتے ہیں کہ کچھ نہیں ، بس اقتدار کا بھوکا ہے ۔ یہ الزام فرعون نے حضرت موسیٰ اور ہارون پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اٹھے ہو کہ تمہیں ملک میں بڑائی حاصل ہو جائے ، تکون لکما الکبریاء فی الارض ( یونس آیت 78 ) ۔ یہی حضرت عیسیٰ پر لگایا گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے ۔ اور اسی کا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سرداران قریش کو تھا ، چنانچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو اپوزیشن چھوڑ کر حزب اقتدار میں شامل ہو جاؤ ، تمہیں ہم بادشاہ بنائے لیتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں ان کے لیے یہ تصور کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بے غرضی کے ساتھ فلاح انسانیت کی خاطر بھی اپنی جان کھپا سکتا ہے ۔ وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اور اصلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں ، اس لیے مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جا سکتا یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ انکا اپنا ہم جنس ہی ہو گا ۔ اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف اقتدار کی بھوک کا یہ الزام ہمیشہ بر سر اقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں ۔ گویا خود انہیں اور ان کے آقایان نامدار کو جو اقتدار حاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے ، اس کے حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں ، البتہ نہایت قابل ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ غذا پیدائشی حق نہ تھی اور اب یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی بھوک محسوس کر رہے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ 36 ) ۔ اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظام زندگی کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اٹھے گا اور اس کے مقابلے میں اصلاحی نظریہ و نظام پیش کرے گا ، اس کے لیے بہرحال یہ بات ناگزیر ہو گی کہ اصلاح کی راہ میں جو طاقتیں بھی سدراہ ہوں انہیں ہٹانے کی کوشش کرے اور ان طاقتوں کو برسر اقتدار لائے جو اصلاحی نظریہ و نظام کو عملاً نافذ کر سکیں ۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہو گی ، اس کا قدرتی نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ لوگوں کا مقتدا و پیشوا بن جائے گا اور نئے نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی ، یا اس کے حامیوں اور پیروؤں کے ہاتھ ان پر قابض ہوں گے ۔ آخر انبیاء اور مصلحین عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملاً نافذ کرنا نہ تھا ، اور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا نہیں بنا دیا ؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کر دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ دراصل اقتدار کا بھوکا تھا ، اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کرلی ؟ ظاہر ہے کہ بد طینت دشمنان حق کے سوا اس سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجائے خود مطلوب ہونے اور کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، اتنا ہی بڑا فرق جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے ۔ اگر کوئی شخص صرف اس بنا پر ڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کر دے کہ دونوں بلارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے ، تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے ۔ ورنہ دونوں کی نیت دونوں کے طریق کار اور دونوں کے مجموعی کردار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحب عقل آدمی ڈاکو کو ڈاکو اور ڈاکٹر کو ڈاکٹر سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :27 ( الف ) یہ اس امر کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قوم نوح اللہ تعالیٰ کے وجود کی منکر نہ تھی اور نہ اس بات کی منکر تھی کہ رب العالمین وہی ہے اور سارے فرشتے اس کے تابع فرمان ہیں ۔ اس قوم کی اصل گمراہی شرک تھی نہ کہ انکار خدا ، وہ خدائی کی صفات اور اختیارات میں اور اس کے حقوق میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتی تھی ۔