Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

251یہ ہمیں اور ہمارے باپ دادوں کو بتوں کی عبادت کرنے کی وجہ سے، بیوقوف اور کم عقل سمجھتا اور کہتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود ہی دیوانہ ہے اسے ایک وقت تک ڈھیل دو ، موت کے ساتھ ہی اس کی دعوت بھی ختم ہوجائے گی یا ممکن ہے اس کی دیوانگی ختم ہوجائے اور اس دعوت کو ترک کر دے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٠] قوم نوح کی نظروں میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی دیوانگی یہ تھی کہ ساری قوم کے نظریہ کے خلاف خالص توحید کی طرف دعوت دے رہے تھے۔ اور وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ نوح کا (نعوذ باللہ) ایک بیہودہ سا خیال ہے۔ بھلا ساری قوم کے مقابلہ میں اس اکیلے کی پکار کی کیا حقیقت ہے۔ لہذا اس کی طرف توجہ کی چنداں ضرورت نہیں۔ وہ خود ہی جب اپنی ناکامی دیکھے گا تو اپنی ایسی باتوں سے باز آجائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ :” جِنَّةٌ“ جنون، دیوانگی۔ ان کی پانچویں بات یہ بہتان ہے جو انھوں نے لگایا، یعنی اس کا یہ کہنا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے رسول بنایا ہے، پھر وہ بات کہنا جو ہم نے کبھی سنی ہی نہیں کہ بتوں کی عبادت مت کرو، صرف اللہ کی عبادت کرو اور دن رات اسی کی تبلیغ میں لگے رہنا، نہ کاروبار کا خیال، نہ پوری قوم کی مخالفت کی پروا، درحقیقت اسے ایک جنون لاحق ہے، دیوانگی ہے جو اس سے یہ سب کچھ کرواتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن کی نظر میں کافر جو کچھ کرتا ہے سراسر دیوانگی ہے کہ ساری جد و جہد چند روزہ زندگی کے لیے کرتا ہے، ہمیشہ کی زندگی کی اسے فکر ہی نہیں اور پیدا کرنے والے کے ساتھ ان لوگوں کو پکارتا اور ان کی عبادت کرتا ہے جنھوں نے نہ کچھ پیدا کیا اور نہ وہ کچھ اختیار رکھتے ہیں۔ اسی طرح کافر کی نظر میں مومن کے کام دیوانگی ہیں کہ نقد کو چھوڑ کر ادھار کے پیچھے پڑا ہے، نظر نہ آنے والے رب سے ڈر کر اپنی محبوب خواہشیں ترک کیے ہوئے ہے۔ ” جِنَّةٌ“ میں تنوین تنکیر کی ہے، یعنی اسے ایک قسم کا جنون لاحق ہے۔ مکمل پاگل کہنے کے بجائے کچھ جنون کہا، تاکہ ہر شخص انھیں جھٹلا نہ دے کہ بھلا اتنا کامل عقل والا شخص دیوانہ ہوسکتا ہے ؟ ابن جزی فرماتے ہیں : ” ان کی باتوں کا باہمی تضاد دیکھیے، ابھی کہہ رہے تھے کہ یہ شخص (اتنی صلاحیتوں کا مالک ہے کہ) تم پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے اور ابھی کہتے ہیں کچھ دیوانگی میں مبتلا ہے۔ “- فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ حَتّٰى حِيْنٍ : یعنی اس کے متعلق کچھ مدت انتظار کرو، حتیٰ کہ یہ زمانے کے کسی چکر کی لپیٹ میں آجائے، یا فوت ہوجائے اور تمہاری جان چھوٹ جائے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنْ ہُوَاِلَّا رَجُلٌۢ بِہٖ جِنَّۃٌ فَتَرَبَّصُوْا بِہٖ حَتّٰى حِيْنٍ۝ ٢٥- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنتہ - جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- ربص - التّربّص : الانتظار بالشیء، سلعة کانت يقصد بها غلاء، أو رخصا، أو أمرا ينتظر زواله أو حصوله، يقال : تربّصت لکذا، ولي رُبْصَةٌ بکذا، وتَرَبُّصٌ ، قال تعالی: وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ- [ البقرة 228] ، قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ [ الطور 31] ، قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ [ التوبة 52] ، وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَ [ التوبة 98] .- ( ر ب ص ) التربص - کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ خواہ وہ انتظار سامان تجارت کی گرانی یا ارزانی کا ہو یا کسی امر وا قع ہونے یا زائل ہونیکا انتظار ہو ۔ کسی چیز کا انتظار کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة 228] عورتوں کو چاہئے کہ انتظار کریں ۔ قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ [ الطور 31] ان سے کہو کہ ( بہت اچھا ) تم ( بھی ) انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ [ التوبة 52] اے پیغمبر ان لوگوں سے کہو کہ تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ( خواہ نخواہ ) ایک نہ ایک کا انتظار کرتے ہو اور ہم تمہارے حق میں انتظار کرتے ہیں ۔- حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani