جب نوح علیہ السلام ان سے تنگ آگئے اور مایوس ہوگئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میرے پروردگار میں لاچار ہوگیا ہوں میری مدد فرما ۔ جھٹلانے والوں پر مجھے غالب کر اسی وقت فرمان الہٰی آیا کہ کشتی بناؤ اور خوب مضبوط چوڑی چکلی ۔ اس میں ہر قسم کا ایک ایک جوڑا رکھ لو حیوانات نباتات پھل وغیرہ وغیرہ اور اسی میں اپنے والوں کو بھی بٹھالو مگر جس پر اللہ کی طرف سے ہلاکت سبقت کرچکی ہے جو ایمان نہیں لائے ۔ جیسے آپ کی قوم کے کافر اور آپ کا لڑکا اور آپ کی بیوی ۔ واللہ اعلم ۔ اور جب تم عذاب آسمانی بصورت بارش اور پانی آتا دیکھ لو پھر مجھ سے ان ظالموں کی سفارش نہ کرنا ۔ پھر ان پر رحم نہ کرنا نہ ان کے ایمان کی امید رکھنا ۔ بس پھر تو یہ سب غرق ہوجائیں گے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہوگا ۔ اس کا پورا قصہ سورۃ ھود کی تفسیر میں گزر چکا ہے ہے اس لئے ہم نہیں دہراتے ۔ جب تو اور تیرے مومن ساتھی کشتی پرسوار ہوجاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے ، جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی جیسے فرمان ہے کہ اللہ نے تمہاری سواری کے لئے کشتیاں اور چوپائے بنائے ہیں تاکہ تم سواری لے کر اپنے رب کی نعمت کو مانو اور سوار ہو کر کہو کہ وہ اللہ پاک ہے جس نے ان جانوروں کو ہمارے تابع بنادیا ہے حالانکہ ہم میں خود اتنی طاقت نہ تھی بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے یہی کہا اور فرمایا آؤ اس میں بیٹھ جاؤ اللہ کے نام کے ساتھ اس کا چلنا اور ٹھیرنا ہے پس شروع چلنے کے وقت بھی اللہ کو یاد کیا ۔ اور جب وہ ٹھیرنے لگی تب بھی اللہ کو یاد کیا اور دعا کی کہ اے اللہ مجھے مبارک منزل پر اتارنا اور توہی سب سے بہتر اتارنے والا ہے اس میں یعنی مومنوں کی نجات اور کافروں کی ہلاکت میں انبیاء کی تصدیق کی نشایاں ہیں اللہ کی الوہیت کی علامتیں ہیں اس کی قدرت اس کا علم اس سے ظاہر ہوتا ہے ۔ یقینا رسولوں کو بھیج کر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش اور ان کا پورا امتحان کرلیتا ہے
2 6 1ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ و دعوت کے بعد، بالآخر رب سے دعا کی، (فدَعارَبَّہ، اَنِّیْ مَغْلُوْب فَانْتَصِرُ ) (القمر 1 0 نوح (علیہ السلام) نے رب سے دعا کی، میں مغلوب اور کمزور ہوں میری مدد کر اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ میری نگرانی اور ہدایت کے مطابق کشتی تیار کرو۔
[٣١] حضرت نوح (علیہ السلام) کا زمانہ تبلیغ غالباً تمام انبیاء سے زیادہ ہے جو قرآن کی صراحت کے مطابق ساڑھے نو سو سال ہے۔ اس طویل عرصہ میں آپ اپنی قوم سے ناروا باتیں اور طعنے وغیرہ سنتے اور برداشت کرتے رہے۔ اتنی طویل مدت میں بہت ہی کم لوگ ایمان لائے۔ دوسروں کا کیا ذکر آپ کی بیوی اور ایک بیٹا بھی آپ کے مقابلہ میں کافروں کا ساتھ رہے تھے۔ حضرت نوح کو یہ یقین ہوگیا کہ اب جو کافر موجود ہیں وہ اس قدر ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی دعوت حق کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ بس یہ لوگ صرف حضرت نوح کی اذیت اور ذہنی کوفت کا باعث بن رہے تھے۔ جب ان کافروں نے آپ کو اذیت دینے میں انتہا کردی تو اس وقت آپ نے دعا کی کہ یا اللہ یہ قوم مجھ پر غالب آگئی ہے اب تو ہی میری مدد فرما اور ان سے اس ظلم کا بدلہ لے جو انہوں نے اتنی طویل مدت مجھ پر ڈھایا ہے۔
قَالَ رَبِّ انْــصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ : درحقیقت یہ قوم پر عذاب کی دعا ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے یہ بد دعا کب کی اور کن الفاظ میں کی، اس کے لیے دیکھیے سورة قمر (٩، ١٠) ، سورة شعراء (١١٧، ١١٨) اور سورة نوح (٢٦، ٢٧) ۔
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ ٢٦- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
(٢٦۔ ٢٧) نوح (علیہ السلام) نے (مایوس ہو کر) عرض کیا، پروردگار ان پر عذاب نازل کرکے میرا بدلہ لے لے کیوں کہ انہوں نے میری رسالت کو جھٹلایا ہے تو ہم نے انکے پاس بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) حکم بھیجا کہ تم کشتی تیار کرلو ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے پس جس وقت ہمارے عذاب کا وقت قریب آپہنچے اور زمین سے پانی ابلنا شروع ہو یا یہ کہ صبح کا کنارا نکل جائے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک نر اور ایک مادہ اس کشتی میں سوار کرلو اور آپ کے متعلقین میں سے جو آپ پر ایمان لائے ان کو بھی سوار کرلو سوائے ان کے جن پر عذاب نازل ہونے کا حکم ہوچکا اور یہ سن لو کہ مجھے اپنی قوم کے کافروں کی نجات کے بارے میں کوئی درخواست مت کرنا وہ سب غرق کیے جائیں گے۔