2 9 1کشتی میں بیٹھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا کہ ان ظالموں کو بالآخر غرق کر کے، ان سے نجات عطا فرمائی اور کشتی کے خیرو عافیت کے ساتھ کنارے پر لگنے کی دعا کرنا (وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِيْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ ) 23 ۔ المومنون :29) 2 9 2نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، سواری پر بیٹھتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اللّٰہُ اَکْبَرْ ، اللّٰہ اَکْبَرْ ، ا للّٰہُ اَکْبَرْ (وَتَـقُوْلُوْاسُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ ) 43 ۔ الزخرف :13)
[٣٤] یہ بھی اس دعا کا حصہ ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی میں سوار ہوتے وقت سکھلائی تھی۔ اس دعاء میں (اَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِِِلْیْنَ ) کا ایک معنی تو ترجمہ سے واضح ہے اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ تو بہت اچھا مہمان نواز ہے یا بہت اچھا میزبان ہے جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا : کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں ناپ میں بھی پورا دیتا ہوں اور مہمان نواز بھی بہت اچھا ہوں (١٢: ٥٩) مطلب یہ کہ مجھے بابرکت جگہ پر کشتی سے اتارنا اور اترنے کے بعد ہمیں وافر رزق بھی مہیا فرمانا
وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِيْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا : یہ نوح (علیہ السلام) کو سکھائی گئی دعا کا دوسرا حصہ ہے۔ ” مُنْزَلًا “ باب افعال میں سے مصدر میمی بھی ہے اور ظرف بھی، اتارنا اور اتارنے کی جگہ، یعنی اے میرے پروردگار تو مجھے اتار، ایسا اتارنا جو بابرکت ہو اور ایسی جگہ اتار جو بہت برکت والی ہو۔ بابرکت اتارنے سے مراد یہ ہے کہ سوار ہوتے وقت کوئی تکلیف نہ ہو اور جہاں اتریں وہاں کوئی آفت نہ آئے، ہر حال میں اور ہر جگہ بڑی رحمت و برکت شامل رہے۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی : (وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا ) [ بني إسرائیل : ٨٠ ] ” اور کہہ اے میرے رب داخل کر مجھے سچا داخل کرنا اور نکال مجھے سچا نکالنا اور میرے لیے اپنی طرف سے ایسا غلبہ بنا جو مددگار ہو۔ “ یہ دونوں دعائیں خود اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی ہیں جنھیں ” قل “ کہہ کر پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں، ان دونوں دعاؤں کو ورد زبان رکھنا چاہیے، خصوصاً گھر جاتے اور گھر سے نکلتے وقت اور یہ دعائیں کرتے ہوئے دنیا کی باعزت اور بابرکت منزل کے ساتھ ہماری اصل منزل جنت کی نیت بھی رکھنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں وہ باعزت اور بابرکت مقام عطا فرمائے۔ (آمین)- وَّاَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ : اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو اوپر ترجمے میں ہے اور ایک وہ ہے جو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا : (وَاَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ ) [ یوسف : ٥٩ ] ” اور میں بہترین مہمان ٹھہرانے والا (میزبان) ہوں۔ “ یعنی کشتی سے اترنے کے بعد تو ہی ہماری مہمان نوازی اور ہماری ضروریات کا بندوبست کرنے والا ہے اور تجھ سے بہتر مہمان نواز کوئی نہیں۔
وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِيْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ ٢٩- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔
(٢٩) اور جس وقت کشتی سے زمین پر اترنے لگو تو یوں کہنا اے میرے رب میرے یہاں اترنے میں برکت فرمائیے یعنی پانی اور سبزہ کی برکت ہو اور آپ دنیا وآخرت میں سب اتارنے والوں سے اچھے ہیں۔
آیت ٢٩ (وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَکًا) ” - پروردگار ہم تیری مہربانی اور تیرے حکم سے اس کشتی میں سوار ہوئے ہیں۔ ہمیں مستقبل کا کچھ علم نہیں۔ ہم نہیں جانتے اب یہ کشتی ہمیں لے کر کہاں کہاں جائے گی اور کہاں پر جا کر رکے گی۔ یہ معاملہ اب تیرے سپرد ہے۔ ہماری التجا ہے کہ اس کشتی سے ہمارے اترنے کو بھی بابرکت بنا دے۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :31 اتارنے سے مراد محض اتارنا ہی نہیں ہے ، بلکہ عربی محاورے کے مطابق اس میں میزبانی کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ گویا اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدایا اب ہم تیرے مہمان ہیں اور تو ہی ہمارا میزبان ہے ۔