Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٢] یہ واقعات اور ان کی تفصیل سورة ہود کے حواشی نمبر ٣٤ سے ٥٣ تک تفصیل سے گزر چکے ہیں۔ لہذا ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔- [٣٣] یعنی یہ قوم اتنی بدبخت تھی جس کی غرقابی پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور بجائے افسوس کے خوشی کا اظہار کیا۔ یہ قوم فی الواقعہ خس کم جہاں پاک کا مصداق تھی۔ جبکہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں واضح طور پر یہ الفاظ کہے تھے کہ : یا اللہ اس قوم میں سے ایک گھرانہ بھی زندہ نہ رہنے دے کیونکہ ان کے ہاں جو بچے پیدا ہوں گے وہ بھی فاسق و فاجر ہی پیدا ہوں گے اور کبھی حق کو قبول نہ کریں گے (٧١: ٢٦، ٢٧)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاِذَا اسْتَوَيْتَ اَنْتَ وَمَنْ مَّعَكَ عَلَي الْفُلْكِ ۔۔ : کشتی پر سوار ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد کا حکم دیا اور اس کے الفاظ خود بتائے، جیسے آدم (علیہ السلام) کو خود دعا سکھائی اور جیسے قیامت کے دن ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حمد سکھائیں گے۔ دوسری جگہ چوپاؤں اور کشتیوں کے متعلق فرمایا : (وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ 12 ۝ ۙلِتَسْتَوٗا عَلٰي ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْـتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَـقُوْلُوْاسُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ 13؀ۙوَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ) [ الزخرف : ١٢ تا ١٤ ] ” اور تمہارے لیے وہ کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھو، پھر اپنے رب کی نعمت یاد کرو، جب ان پر جم کر بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے تابع کردیا، حالانکہ ہم اسے قابو میں لانے والے نہیں تھے۔ اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سواری پر سوار ہو کر یہ دعا پڑھتے تھے : ( اَللّٰہُ أَکْبَرُ ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ ، سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَ مَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ وَ إِنَّا إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ، اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَسْءَلُکَ فِيْ سَفَرِنَا ھٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَ مِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی، اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ھٰذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَہُ ، اَللّٰھُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ والْخَلِیْفَۃُ فِي الْأَھْلِ ، اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَعْثَآء السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمَنْظَرِ وَ سُوْٓءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَھْلِ ) ” اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کردیا، حالانکہ ہم اسے ملنے والے نہیں تھے اور یقیناً ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ اے اللہ ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا سوال کرتے ہیں اور اس عمل کا جسے تو پسند کرے سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ ہمارا یہ سفر ہم پر آسان فرما دے اور ہم سے اس کی دوری کم کر دے۔ اے اللہ تو ہی سفر میں ساتھی اور گھر والوں میں نائب ہے۔ اے اللہ میں تجھ سے سفر کی مشقت سے اور مال اور اہل میں منظر کے غم سے اور ناکام لوٹنے کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ “ اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر سے واپس آتے تو یہی دعا پڑھتے، البتہ یہ الفاظ زیادہ کہتے : ( آءِبُوْنَ ، تَاءِبُوْنَ ، عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ ) [ مسلم، الحج، باب استحباب الذکر إذا رکب ۔۔ : ١٣٤٢ ] ” ہم واپس لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب ہی کی حمد کرنے والے ہیں۔ “ نوح (علیہ السلام) کو سوار ہو کر یہ دعا پڑھنے کا حکم ہوا : (الْـحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ) [ المؤمنون : ٢٨ ] ” سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی۔ “ اور انھوں نے یہ کہہ کر ساتھیوں کو کشتی میں سوار ہونے کا حکم دیا : (بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرٖ۩ىهَا وَمُرْسٰىهَا ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) [ ھود : ٤١ ] ” اللہ کے نام کے ساتھ اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا ہے۔ بیشک میرا رب یقیناً بیحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ “- فَقُلِ الْـحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا ۔۔ : ” الظّٰلِمِيْنَ “ سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے۔ ظلم کا معنی ” وَضْعُ الشَّيْءِ فِيْ غَیْرِ مَحَلِّہِ “ (کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ کہیں رکھنا) ہے اور ظلم کا معنی اندھیرا بھی ہے، گویا ظالم اندھیرے میں چیزوں کو ان کے اصل محل کے بجائے ادھر ادھر رکھ دیتا ہے۔ سب سے بڑا حق اللہ کا ہے، وہ غیر کو دیا تو یہ سب سے بڑا ظلم ٹھہرا۔ (ابن عاشور)- 3 ظالم لوگوں سے نجات پر اللہ کی حمد کا حکم اس لیے دیا کہ وہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بیشمار اذیتوں کا نشانہ بناتے تھے، اس کے علاوہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا ان میں رہنا، ان کے کفر و شرک اور گندے اور غلیظ کاموں کو دیکھنا بجائے خود شدید تکلیف دہ تھا۔ اب ان سے نجات ملی، دشمن غرق ہوئے، الگ رہنے کی جگہ ملی، اپنا ماحول اور اپنی مجلس بنی، تو اس پر شکر ادا کرنے کا حکم ہوا۔- 3 اسی لیے مسلمان کو دعوت یا جہاد کے مقصد کے بغیر کفار میں رہائش رکھنا حرام ہے، کیونکہ مسلسل کفر و شرک اور بدکاری و بےحیائی کا ارتکاب دیکھ دیکھ کر یا تو ہمیشہ شدید تکلیف میں رہے گا، یا اس کی اپنی غیرت و حمیت بھی ختم ہوجائے گی۔ چناچہ اگر ایسی جگہ رہتا ہے تو وہاں سے ہجرت کا حکم ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَنَا بَرِيْءٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ أَظْھُرِ الْمُشْرِکِیْنَ ) [ أبوداوٗد، الجہاد، باب النھي عن قتل ۔۔ : ٢٦٤٥ ] ” میں ہر اس مسلم سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا اسْتَوَيْتَ اَنْتَ وَمَنْ مَّعَكَ عَلَي الْفُلْكِ فَقُلِ الْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ٢٨- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - فلك - الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر .- قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع .- ( ف ل ک ) الفلک - کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٨) پھر جس وقت تم اور تمہارے مومنین کشتی میں بیٹھ کیں تو یوں کہنا کہ شرک ہے اس اللہ کا جس نے ہمیں کافروں سے نجات دی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :30 یہ کسی قوم کی انتہائی بد اطواری اور خباثت و شرارت کا ثبوت ہے کہ اس کی تباہی پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani