4 4 1نَتْرَا کے معنی ہیں۔ یکے بعد دیگرے، متواتر لگا تار۔ 4 4 2ہلاکت اور بربادی میں۔ یعنی جس طرح یکے بعد دیگرے رسول آئے، اسی طرح رسالت کے جھٹلانے پر یہ قومیں یکے بعد دیگرے، عذاب سے دو چار ہو کر ہست و نیست ہوتی رہیں۔ 4 4 3جس طرح اَعَاجِیْبُ ، اُعْجُوبَۃً کی جمع ہے (تعجب انگیز چیز یا بات) اسی طرح اَحَاحِیْثُ اُحْدُوْثَۃً کی جمع ہے بمعنی مشہور معروف مخلو قات کے واقعات اور قصص۔
[٤٦] قوم عاد اولیٰ اور عاد ثانی کے بعد، موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ تک درج ذیل انبیاء مبعوث ہوئے۔ حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت ایوب، اور حضرت شعیب (علیہم السلام) یہ تو وہ انبیاء ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے اور جن کا ذکر قرآن میں نہیں آیا وہ ان سے بہت زیادہ ہیں۔ بعض روایات کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دنیا میں مبعوث ہونے والے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ٣١٣ تا ٣١٥ بتلائی اور انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتلائی جبکہ قرآن میں صرف ٢٧ انبیاء و رسل کا ذکر ہے۔- اب اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو جہاں تک انسانی علم کی رسائی ہوسکی ہے اس کے مطابق عاد اولیٰ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیانی مدت تقریباً چار ہزار سال پر محیط ہے۔ اس طویل عرصہ میں لاتعداد انبیاء و رسل مبعوث ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ ان انبیاء کا ایسا تانتا بندھا ہوا تھا کہ کوئی وقت ایسا نہ تھا جب روئے زمین پر کوئی نبی موجود نہ ہو۔ بلکہ بیک وقت ایک ہی زمانے میں کئی کئی انبیاء مبعوث ہوتے رہے۔ ان سب سے یہی سلوک ہوتا رہا کہ انھیں جھٹلایا گیا۔ کیونکہ چودھری قسم کے لوگ قطعاً اس بات پر آمادہ نہیں ہوتے کہ وہ اپنی سرداریوں سے دستبردار ہو کر نبیوں کے مطیع فرمان بن جائیں۔ وہ دوسرے لوگوں کو بھی انبیاء کے خلاف بھڑکاتے رہے۔ ان کے اس جرم کی پاداش میں ان پر عذاب آتے رہے۔ ایک قوم مٹتی تو دوسری اس کی جگہ لیتی رہی۔ پھر اس کے مقررہ وقت کے مطابق اسے بھی صفحہ ہستی سے نیست و نابود کیا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ ان کے آثار بھی باقی نہ رہے، ماسوائے ان داستانوں اور افسانوں کے جو بعد کے آنے والے لوگوں میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے۔
ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا ۔۔ :” تَتْرَا “ ” دَعْوٰی “ اور ” سَلْوٰی “ (فَعْلٰی) کے وزن پر مصدر ہے، جو ” رُسُلَنَا “ سے حال ہے۔ ” تَتْرَا “ اصل میں ” وَتَرٰی “ ہے۔ واؤ کو تاء سے بدل دیا، جس طرح ” تَقْوٰی “ میں تاء واؤ کی جگہ آئی ہے۔ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، یعنی ” مُتَوَاتِرِیْنَ “ یعنی پھر ہم نے اپنے کئی رسول پے در پے بھیجے، مگر ان کی قوموں نے پہلی امتوں کے انجام سے کوئی عبرت حاصل نہ کی اور ہر امت اپنے رسول کے آنے پر اسے جھٹلاتی رہی، تو ہم نے بھی یکے بعد دیگرے ان کی ہلاکت کا تانتا باندھ دیا اور انھیں ایسا نیست و نابود کیا کہ قصے کہانیوں کے سوا ان کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔
ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا ٠ۭ كُلَّمَا جَاۗءَ اُمَّۃً رَّسُوْلُہَا كَذَّبُوْہُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَہُمْ بَعْضًا وَّجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِيْثَ ٠ۚ فَبُعْدًا لِّــقَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ ٤٤- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - وتر - الوَتْرُ في العدد خلاف الشّفع، وقد تقدّم الکلام فيه في قوله : وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر 3] «1» وأَوْتَرَ في الصلاة . والوِتْرُ والوَتَرُ ، والتِّرَةُ : الذّحل، وقد وَتَرْتُهُ : إذا أصبته بمکروه .- قال تعالی: وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ [ محمد 35] . والتَّواتُرُ : تتابع الشیء وترا وفرادی، وجاء وا تَتْرَى قال تعالی: ثُمَّ أَرْسَلْنا رُسُلَنا تَتْرا [ المؤمنون 44] ولا وتیرة في كذا، ولا غمیزة، ولا غير، والوَتِيرَة : السّجيّة من التّواتر، وقیل للحلقة التي يتعلم عليها الرّمي : الوَتِيرَة، وکذلک للأرض المنقادة، والوَتِيرَة : الحاجز بين المنخرین .- ( و ت ر ) الواتر ( طاق ) یہ اعداد میں شفیع کی ضد ہے جس کی بحث آیت ۔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر 3] اور جفت اور طاق کی ( قسم ) کے تحت گزرچکی ہے ۔ اوتر ۔ وتر نماز پڑھنا ۔ الوتر والوتر والترۃ کے معنی کینہ کے ہیں اور اسی سے وترتہ ( ض ) ہے جس کے معنی کسی کو تکلیف پہنچانے یا اس کا حق کم کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ : ۔ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ [ محمد 35] وہ ہر گز تمہارے اعمال کو کم ( اور کم ) ) نہیں کرے گا ۔ التواتر کسی چیز کا یکے بعد دیگرے آنا محاورہ ہے جاؤ تترٰی ( وہ یکے دیگرے کچھ وقفہ کے بعد آئے ) قرآن میں ہے : ثُمَّ أَرْسَلْنا رُسُلَنا تَتْرا [ المؤمنون 44] پھر ہم پے درپے اپنے پیغمبر بھیجتے رہے ۔ لاوتیرۃ فی کذ ولا عمیزۃ ولاغیر اس میں عقلی کمزوری یا کوئی دوسرا عیب نہیں ہے اور تواتر سے وتیرۃ ہے جس کے معنی سجیتہ ( طبعی عادت کے ) بھی آتے ہیں ۔ نیز وتیرۃ کا لفظ ذیل معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) وہ حلقہ جس پر بچے تیر اندازی کی مشق کرتے ہیں ۔ ( 2) نرم زمین ( 3 ) ناک کے نتھنوں کا درمیان پردہ ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - حدث - الحدوث : كون الشیء بعد أن لم يكن، عرضا کان ذلک أو جوهرا، وإِحْدَاثه : إيجاده .- وإحداث الجواهر ليس إلا لله تعالی، والمُحدَث : ما أوجد بعد أن لم يكن، وذلک إمّا في ذاته، أو إحداثه عند من حصل عنده، نحو : أحدثت ملکا، قال تعالی: ما يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ [ الأنبیاء 2] ، ويقال لكلّ ما قرب عهده محدث، فعلا کان أو مقالا . قال تعالی: حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْراً [ الكهف 70] ، وقال : لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] ، وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له :- حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3]- ( ح د ث ) الحدوث )- ( ن) کے معنی ہیں کسی ایسی چیز کو جود میں آنا جو پہلے نہ ہو عام اس سے کہ وہ جوہر ہو یا عرض اور احداث صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ محدث ( صیغہ صفت مفعول ) ہر وہ چیز جو عدم سے وجود میں آئی ہو اور کسی چیز کا احداث کبھی تو نفس شے کے اعتبار سے ہوتا ہے اور کبھی اس شخص کے اعتبار سے ہوتا ہے ۔ جسے وہ حاصل ہوئی ہو ۔ جیسے ۔ احدثت ملکا ) میں نے نیا ملک حاصل کیا ) چناچہ آیت کریمۃ ؛۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ [ الأنبیاء 2] ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی ( میں اسی دوسرے معنی کے اعتبار ذکر کو محدث کہا گیا ہے اور ہر وہ قول و فعل جو نیا ظہور پذیر ہوا ہو اسے بھی محدث کہہ دیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْراً [ الكهف 70] جب تک میں خود ہی پہل کرکے تجھ سے بات نہ کروں ۔ لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] شاید خدا اس کے بعد کوئی ( رجعت کی ) سبیل پیدا کردے ۔ ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری ) قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔
(٤٤) پھر ہم نے اپنے پیغمبروں کو یکے بعد دیگرے بھیجا جب کسی امت کے پاس اس امت کا رسول اللہ کے احکام لے کر آیا اور انہوں نے اس رسول کو جھٹلایا، تو ہم نے بھی ہلاک کرنے میں ایک کے بعد ایک کا نمبر لگا دیا اور ہم نے ان کی کہانیاں بنا دیں کہ ان کے زمانہ میں وہ سنائی جانے لگیں تو اللہ کی رحمت سے دور ہیں وہ لوگ جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے۔
(کُلَّمَا جَآءَ اُمَّۃً رَّسُوْلُہَاکَذَّبُوْہُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَہُمْ بَعْضًا) ” - ان کی تکذیب کے جواب میں ہم بھی ان قوموں کو یکے بعد دیگرے ہلاک کرتے چلے گئے۔ - (وَّجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِیْثَ ج) ” - ان قوموں کے نام اب دنیا میں کہانیوں اور داستانوں کی حد تک باقی رہ گئے ہیں کہ قوم مدین فلاں علاقے میں بستی تھی ‘ عامورہ اور سدوم کے شہر فلاں جگہ پر واقع تھے ‘ وغیرہ وغیرہ۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :38 یا باالفاظ دیگر پیغمبروں کی بات نہیں مانتے ۔