Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٩] دنیا دار اور جاہل لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ آسودہ حالی اللہ کی رضا مندی کی علامت ہوتی ہے۔ اور تنگدستی یا پریشان حالی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی۔ حالانکہ بسا اوقات معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ چودھری لوگوں کی سرکشی کا بڑا سبب یہی نظریہ ہوتا ہے وہ دیکھتے ہیں کہ پیغمبروں کی تکذیب کرنے اور ایمانداروں پر ظلم و زیادتی روا رکھنے کے باوجود ہی ان کا کچھ نہیں بگڑا تو وہ اس نظریہ پر مزید پختہ ہوجاتے ہیں۔ اب اللہ کی طرف سے ان پر ابتلاء کا دور یوں آتا ہے کہ ان پر مزید انعامات الٰہی کی بارش ہونے لگتی ہے۔ حالانکہ ان انعامات کی حیثیت ایسے ہی ہوتی ہے جیسے بجھنے والا چراغ بجھنے سے پیشتر ایک دفعہ خوب روشن ہوجاتا ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ مال و دولت اور نعمتوں کی فراوانی اللہ کی خوشنودی کے طور پر نہیں بلکہ امہال و استدراج کی بنا پر ہے۔ اور جتنی انھیں ڈھیل دی جارہی ہے اسی قدر ان کی شفادت کا پیمان لبریز ہو رہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

نُسَارِعُ لَہُمْ فِي الْخَــيْرٰتِ۝ ٠ۭ بَلْ لَّا يَشْعُرُوْنَ۝ ٥٦- سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- شعر ( شاعر)- الشَّعْرُ معروف، وجمعه أَشْعَارٌ قال اللہ تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل 80] ، وشَعَرْتُ : أصبت الشَّعْرَ ، ومنه استعیر : شَعَرْتُ كذا، أي علمت علما في الدّقّة كإصابة الشَّعر،- وسمّي الشَّاعِرُ شاعرا لفطنته ودقّة معرفته، فَالشِّعْرُ في الأصل اسم للعلم الدّقيق في قولهم : ليت شعري، وصار في التّعارف اسما للموزون المقفّى من الکلام، والشَّاعِرُ للمختصّ بصناعته، وقوله تعالیٰ حكاية عن الکفّار : بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] ، وقوله : لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] ، شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور 30] ، وكثير من المفسّرين حملوه علی أنهم رموه بکونه آتیا بشعر منظوم مقفّى، حتی تأوّلوا ما جاء في القرآن من کلّ لفظ يشبه الموزون من نحو : وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] ، وقوله : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد 1] . وقال بعض المحصّلين : لم يقصدوا هذا المقصد فيما رموه به، وذلک أنه ظاهر من الکلام أنّه ليس علی أسالیب الشّعر، ولا يخفی ذلک علی الأغتام من العجم فضلا عن بلغاء العرب، وإنما رموه بالکذب، فإنّ الشعر يعبّر به عن الکذب، والشَّاعِرُ : الکاذب حتی سمّى قوم الأدلة الکاذبة الشّعريّة، ولهذا قال تعالیٰ في وصف عامّة الشّعراء : وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] ، إلى آخر السّورة، ولکون الشِّعْرِ مقرّ الکذب قيل : أحسن الشّعر أكذبه . وقال بعض الحکماء : لم ير متديّن صادق اللهجة مفلقا في شعره . - ( ش ع ر )- الشعر بال اس کی جمع اشعار آتی ہے قرآن میں ہے ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل 80] اون اور ریشم اور بالوں سے شعرت کے معنی بالوں پر مارنے کے ہیں ۔ اور اسی سے شعرت کذا مستعار ہے جس کے معنی بال کی طرح باریک علم حاصل کرلینے کے ہیں اور شاعر کو بھی اس کی فطانت اور لطافت نظر کی وجہ سے ہی شاعر کہا جاتا ہے تو لیت شعری کذا کے محاورہ میں شعر اصل میں علم لطیف کا نام ہے پھر عرف میں موزوں اور مقفیٰ کلام کو شعر کہا جانے لگا ہے اور شعر کہنے والے کو شاعر کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے ۔ نہیں بلکہ ( یہ شعر ہے جو اس ) شاعر کا نتیجہ طبع ہے ۔ نیز آیت کریمہ : ۔ لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے ۔ اور آیت شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور 30] شاعر ہے اور ہم اس کے حق میں ۔۔۔ انتظار کر رہے ہیں ۔ بہت سے مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ انہوں نے آنحضرت پر شعر بمعنی منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے کی تہمت لگائی تھی ۔ حتی کہ وہ قران میں ہر اس آیت کی تاویل کرنے لگے جس میں وزن پایا جاتا ہے جیسے وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] لیکن بعض حقیقت شناس لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے ان کا مقصد منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے تہمت لگانا نہیں تھا ۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ قرآن اسلوب شعری سے مبرا ہے اور اس حقیقت کو عوام عجمی بھی سمجھ سکتے ہیں پھر فصحاء عرب کا کیا ذکر ہے ۔ بلکہ وہ آپ پر ( نعوذ باللہ ) جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے کیونکہ عربی زبان میں شعر بمعنی کذب اور شاعر بمعنی کاذب استعمال ہوتا ہے ۔ حتی کہ جھوٹے دلائل کو ادلۃ شعریۃ کہا جاتا ہے اسی لئے قرآن نے شعراء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اور شعر چونکہ جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے ۔ اس لیے مقولہ مشہور ہے کہ احسن الشعر اکذبہ سب سے بہتر شعروہ ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ پر مشتمل ہوا اور کسی حکیم نے کہا ہے کہ میں نے کوئی متدین اور راست گو انسان ایسا نہیں دیکھا جو شعر گوئی میں ماہر ہو ۔ المشاعر حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْْخَیْرٰتِط بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ ) ” - ہماری طرف سے اپنے ان نافرمانوں کو مال و اولاد جیسی نعمتوں سے نوازتے چلے جانا ان کے ساتھ بھلائی کی علامت نہیں ہے بلکہ یہی چیزیں ان کے لیے موجب عذاب بن جائیں گی۔ سورة التوبہ میں یہ فلسفہ اس طرح بیان ہوا ہے : (فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلآَ اَوْلاَدُہُمْط اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ ) ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ کو ان کے اموال اور ان کی اولاد سے تعجب نہ ہو ‘ اللہ تو چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعے سے انہیں دنیا کی زندگی میں عذاب دے ‘ اور ان کی جانیں نکلیں اسی کفر کی حالت میں “۔ اور سورة التوبہ ہی کی آیت ٨٥ میں الفاظ کے بہت معمولی فرق کے ساتھ یہی مضمون پھر سے دہرایا گیا ہے۔- آگے جو آیات آرہی ہیں ان کا انداز اس سورت کی ابتدائی آیات سے مشابہ ہے۔ سورت کے آغاز میں اکثر آیات اَلَّذِیْنَ یا والَّذِیْنَ سے شروع ہوتی ہیں اور ان آیات میں بھی اَلَّذِیْنَ اور والَّذِیْنَ کی تکرار ہے۔ گویا جو مضمون آغاز سورت میں بیان ہوا تھا یہ اس کی دوسری قسط ہے۔ وہاں پر بندۂ مؤمن کی سیرت کی تعمیر اور شخصیت کے ارتقاء کے لیے درکار بنیادی خصوصیات کا ذکر کیا گیا تھا جبکہ یہاں پر مطلوبہ شخصیت و کردار کی پختہ ( ) خصوصیات کی جھلکیاں دکھائی جا رہی ہیں ‘ جن میں زیادہ تر بندۂ مؤمن کی باطنی کیفیات کا تذکرہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :50 اس مقام پر آغاز سورہ کی آیتوں پر پھر ایک نگاہ ڈال لیجیے ۔ اسی مضمون کو اب پھر ایک دوسرے انداز سے دہرایا جا رہا ہے ۔ یہ لوگ فلاح اور خیر اور خوش حالی کا ایک محدود مادی تصور رکھتے تھے ۔ ان کے نزدیک جس نے اچھا کھانا ، اچھا لباس ، اچھا گھر پالیا ، جو مال و اولاد سے نواز دیا گیا ، اور جسے معاشرے میں نام و نمود اور رسوخ و اثر حاصل ہو گیا ، اس نے بس فلاح پالی ۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ ناکام و نامراد رہا ۔ اس بنیادی غلط فہمی سے وہ پھر ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ، اور وہ یہ تھی کہ جسے اس معنی میں فلاح نصیب ہے وہ ضرور راہ راست پر ہے ، بلکہ خدا کا محبوب ہے ، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ اسے یہ کامیابیاں حاصل ہوتیں ۔ اور اس کے برعکس جو اس فلاح سے ہم کو علانیہ محروم نظر آ رہا ہے وہ یقیناً عقیدے اور عمل میں گمراہ اور خدا ( یا خداؤں ) کے غضب میں گرفتار ہے ۔ اس غلط فہمی کو ، جو درحقیقت مادہ پرستانہ نقطہ نظر رکھنے والوں کی ضلالت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے ، قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے ، مختلف طریقوں سے اس کی تردید کی گئی ہے ، اور طرح طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ ، آیت 126 ، 212 ۔ الاعراف 32 ۔ التوبہ 55 ۔ 69 ۔ 85 ۔ یونس 17 ۔ ہود 3 ۔ 27 تا 31 ۔ 38 ۔ 39 ۔ الرعد 26 ۔ الکہف 28 ۔ 32 تا 43 ۔ 103 تا 105 ۔ مریم 77تا 80 ۔ طٰہ ، 131 ، 132 ۔ الانبیاء 44 ۔ مع حواشی ) ۔ اس سلسلے میں چند اہم حقیقتیں ایسی ہیں کہ جب تک آدمی ان کو اچھی طرح نہ سمجھ لے اس کا ذہن کبھی صاف نہیں ہو سکتا ۔ اول یہ کہ انسان کی فلاح اس سے وسیع تر اور بلند تر چیز ہے کہ اسے کسی فرد یا گروہ یا قوم کی محض مادی خوش حالی اور وقتی کامیابی کے معنی میں لے لیا جائے ۔ دوم یہ کہ فلاح کو اس محدود معنی میں لینے کے بعد اگر اسی کو حق و باطل اور خیر و شر کا معیار قرار دے لیا جائے تو یہ ایک ایسی بنیادی گمراہی بن جاتی ہے جس سے نکلے بغیر ایک انسان کبھی عقیدہ و فکر اور اخلاق و سیرت میں راہ راست پا ہی نہیں سکتا ۔ سوم یہ کہ فی الاصل دار الجزا نہیں بلکہ دار الامتحان ہے ۔ یہاں اخلاقی جزا و سزا اگر ہے بھی تو بہت محدود پیمانے پر اور ناقص صورت میں ہے ، اور امتحان کا پہلو خود اس میں بھی موجود ہے ۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے یہ سمجھ لینا کہ یہاں جس کو جو نعمت بھی مل رہی ہے وہ انعام ہے اور اس کا ملنا انعام پانے والے کے بر حق اور صالح اور محبوب رب ہونے کا ثبوت ہے ، اور جس پر جو آفت بھی آ رہی ہے وہ سزا ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ سزا پانے والا باطل پر ہے ، غیر صالح ہے ، اور مغضوب بارگاہ خداوندی ہے ، یہ سب کچھ درحقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی بلکہ حماقت ہے جس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری چیز ہمارے تصور حق اور معیار اخلاق کو بگاڑ دینے والی ہو ۔ ایک طالب حقیقت کو اول قدم پریہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں سے افراد کا ، قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہو رہا ہے ۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں کہ انہی کو نظریات ، اخلاق اور اعمال کی صحت اور غلطی کا معیار بنا لیا جائے ، اور ان ہی کو خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کی علامات قرار دے لیا جائے ۔ چہارم یہ کہ فلاح کا دامن یقیناً حق اور نیکی کے ساتھ بندھا ہوا ہے ، اور بلا شک و ریب یہ ایک حقیقت ہے کہ باطل اور بدی کا انجام خسران ہے ۔ لیکن اس دنیا میں چونکہ باطل اور بدی کے ساتھ عارضی و نمائشی فلاح ، اور اسی طرح حق اور نیکی کے ساتھ ظاہری اور وقتی خسران ممکن ہے ، اور اکثر و بیشتر یہ چیز دھوکہ دینے والی ثابت ہوتی ہے ، اس لیے حق و باطل اور خیر و شر کی جانچ کے لیے ایک مستقل کسوٹی کی ضرورت ہے جس میں دھوکے کا خطرہ نہ ہو ۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات اور آسمانی کتابیں ہم کو وہ کسوٹی بہم پہنچاتی ہیں ، انسانی عقل عام ( ) اس کی صحت کی تصدیق کرتی ہے اور معروف و منکر کے متعلق نوع انسانی کے مشرک وجدانی تصورات اس پر گواہی دیتے ہیں ۔ پنجم یہ کہ جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو ، اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو ، تو عقل اور قرآن دونوں کی رو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خد نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہو گیا ہے ۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا ابھی اس پر مہربان ہے ، اسے تنبیہ کر رہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے ۔ لیکن غلطی پر انعام یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے ۔ اس کے بر عکس جہاں ایک طرف سچی خدا پرستی ہو ، اخلاق کی پاکیزگی ہو ، معاملات میں راستبازی ہو ، خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک اور رحمت و شفقت ہو ، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسلادھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں ، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں اس کی رحمت ہی کی علامت ہے ۔ سنار اس سونے کو تپا رہا ہے تاکہ خوب نکھر جائے اور دنیا پر اس کا کامل المعیار ہونا ثابت ہو جائے ۔ دنیا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اٹھے تو پروا نہیں ۔ سنار خود اس کی قیمت دے گا ، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا ۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو رکھتے ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں ، یا پھر اس سوسائٹی کے لیے جس میں صالحین ستائے جائیں اور فساق نوازے جائیں ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :50 ( الف ) اردو زبان کی رعایت سے ہم نے آیت ٦۱ کا ترجمہ پہلے کردیا ہے اور آیت ۵۷ تا ٦۰ کا ترجمہ بعد میں ہے ۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ آیت ٦۱ کا ترجمہ چھوٹ گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

21: بہت سے کفار اپنے حق پر ہونے کی یہ دلیل دیتے تھے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے بہت سامال ودولت دے رکھا ہے، ہماری اولاد بھی خوشحال ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہے، اور ہمیں آئندہ بھی خوشحال رکھے گا، اگر ناراض ہوتا تو یہ مال اور اولاد ہمیں میسر نہ ہوتا، یہ آیت ان کا جواب دے رہی ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں مال ودولت مل جانا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی دلیل نہیں ہے ؛ کیونکہ وہ کافروں اور نافرمانوں کو بھی رزق دیتا ہے اس کے بجائے وہ ان لوگوں سے خوش ہے، اور ان کا انجام بہتر کرے گا جن کے حالات آیت نمبر : ٥٧ تا ٦٠ میں بیان فرمائے گئے ہیں۔