Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مؤمن کی تعریف فرمان ہے کہ احسان اور ایمان کے ساتھ ہی ساتھ نیک اعمال اور پھر اللہ کی ہیبت سے تھرتھرانا اور کانپتے رہنا یہ ان کی صفت ہے ۔ یہ ان کی صفت ہے حسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مومن نیکی اور خوف الٰہی کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ منافق برائی کے ساتھ نڈر اور بےخوف ہوتا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شرعی اور فطری آیات اور نشانیوں پر یقین رکھتے ہیں جیسے حضرت مریم علیہا السلام کا وصف بیان ہوا ہے کہ وہ اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کا یقین رکھتی تھیں اللہ کی قدرت قضا اور شرع کا انہیں کامل یقین تھا ۔ اللہ کے ہر امر کو وہ محبوب رکھتے ہیں اللہ کے منع کردہ ہر کام کو وہ ناپسند رکھتے ہیں ، ہر خبر کو وہ سچ مانتے ہیں وہ موحد ہوتے ہیں شرک سے بیزار رہتے ہیں ، اللہ کو واحد اور بےنیاز جانتے ہیں اسے بے اولاد اور بیوی کے بغیر مانتے ہیں ، بینظیر اور بےکفو سمجھتے ہیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اللہ کے نام پر خیراتیں کرتے ہیں لیکن خوف زدہ رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو قبول نہ ہوئی ہو ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جن سے زنا ، چوری ، اور شراب خواری ہوجاتی ہے ؟ لیکن ان کے دل میں خوف الٰہی ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اے صدیق کی لڑکی یہ نہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، صدقے کرتے ہیں ، لیکن قبول نہ ہونے سے ڈرتے ہیں ، یہی ہیں جو نیکیوں میں سبقت کرتے ہیں ( ترمذی ) اس آیت کی دوسری قرأت یاتون ما اتوا بھی ہے یعنی کرتے ہیں جو کرتے ہیں لیکن دل ان کے ڈرتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس ابو عاصم گئے ۔ آپ نے مرحبا کہا اور کہا برابر آتے کیوں نہیں ہو ؟ جواب دیا اس لئے کہ کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو لیکن آج میں ایک آیت کے الفاظ کی تحقیق کے لئے حاضر ہوا ہوں آیت ( وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ 60؀ۙ ) 23- المؤمنون:60 ) ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیا ہونا تمہارے لئے مناسب ہے میں نے کہا آخر کے الفاظ اگر ہوں تو گویا میں نے ساری دنیا پالی ۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خوشی مجھے ہوگی آپ نے فرمایا پھر تم خوش ہوجاؤ ۔ واللہ میں نے اسی طرح انہی الفاظ کو پڑھتے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے ۔ اس کا ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے ۔ ساتوں مشہور قرأتوں اور جمہور کی قرأت میں وہی ہے جو موجودہ قرآن میں ہے اور معنی کی رو سے بھی زیادہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہیں سابق قرار دیا ہے اور اگر دوسری قرأت کو لیں تو یہ سابق نہیں بلکہ ہیں واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ خَشْـيَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ :”إِشْفَاقٌ“ کا معنی ہے متوقع چیز کا شدید خوف اور ” وَجِلٌ“ بروزن ” فَزِعٌ“ کا معنی ہے، سخت ڈرنے والا۔ اس سے پہلے غفلت میں مبتلا ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن کے ہاں کفر و فسق کے باوجود مال اور بیٹوں کی فراوانی ہوتی جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر خوش ہے، تبھی یہ سب کچھ ہمیں دے رہا ہے۔ اب ان کے مقابلے میں مخلص و مومن بندوں کا ذکر ہے، جو کمال ایمان و عمل کے باوجود عجب اور خود پسندی سے محفوظ ہیں اور ہر وقت اس بات سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ کیا خبر اس کی جناب میں ہمارے عمل قبول ہوتے ہیں یا نہیں۔- 3 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص مومن بندوں کی چار صفات بیان فرمائی ہیں، پہلی یہ کہ وہ اپنے رب سے بہت ڈرنے والے ہیں کہ وہ ناراض نہ ہوجائے۔ واضح رہے کہ اہل ایمان کا اپنے رب سے یہ خوف اس قسم کا نہیں ہوتا جیسے کسی جابر و ظالم بےرحم سے ہوتا ہے، بلکہ وہ اسے اپنا رب یعنی ہر نعمت عطا کرنے والا سمجھ کر اس کے ساتھ انتہائی محبت کے ساتھ ساتھ اس کی ناراضی کے خطرے سے انتہائی خوف بھی رکھتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ شرک نہیں کرتے اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں) دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور (باوجود اللہ کی راہ میں دینے اور خرچ کرنے کے) ان کے دل اس سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں (دیکھئے وہاں جا کر ان صدقات کا کیا ثمرہ ظاہر ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دینا حکم کے موافق نہ ہو مثلاً مال حلال نہ ہو یا نیت اللہ کے لئے خالص نہ ہو اور نیت میں اخلاص کامل نہ ہونا یا مال کا حرام ہونا ہمیں معلوم نہ ہو تو الٹا اس پر مواخذہ ہونے لگے تو جن لوگوں میں یہ صفات ہوں) یہ لوگ اپنے فائدے جلدی جلدی حاصل کر رہے ہیں اور وہ ان کی طرف دوڑ رہے ہیں اور (یہ اعمال مذکورہ کچھ سخت بھی نہیں جن کا کرنا مشکل ہو کیونکہ) ہم کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ کام کرنے کو نہیں کہتے (اس لئے یہ سب کام آسان ہیں اور اس کے ساتھ ان کا اچھا انجام اور ثمرہ یقینی ہے کیونکہ) ہمارے پاس ایک دفتر (نامہ اعمال کا محفوظ) ہے جو ٹھیک ٹھیک (سب کا حال) بتلا دے گا اور لوگوں پر ذرا ظلم نہ ہوگا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ ہُمْ مِّنْ خَشْـيَۃِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَ۝ ٥٧ۙ- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - شفق - الشَّفَقُ : اختلاط ضوء النّهار بسواد اللّيل عند غروب الشمس . قال تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ- [ الانشقاق 16] ، والْإِشْفَاقُ : عناية مختلطة بخوف، لأنّ الْمُشْفِقَ يحبّ المشفق عليه ويخاف ما يلحقه، قال تعالی: وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء 49] ، فإذا عدّي ( بمن) فمعنی الخوف فيه أظهر، وإذا عدّي ب ( في) فمعنی العناية فيه أظهر . قال تعالی:- إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور 26] ، مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری 18] ، مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری 22] ، أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة 13] .- ( ش ف ق ) الشفق - غروب آفتاب کے وقت دن کی روشنی کے رات کی تاریکی میں مل جانے کو شفق کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق 16] ہمیں شام کی سرخی کی قسم ۔ الاشفاق ۔ کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا کیونکہ مشفق ہمیشہ مشفق علیہ کو محبوب سمجھتا ہے اور اسے تکلیف پہنچنے سے ڈرتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء 49] اور وہ قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں ۔ اور جب یہ فعل حرف من کے واسطہ سے متعدی تو اس میں خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے اور اگر بواسطہ فی کے متعدی ہو تو عنایت کے معنی نمایاں ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور 26] اس سے قبل ہم اپنے گھر میں خدا سے ڈرتے رہتے تھے ۔ مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری 18] وہ اس سے ڈرتے ہیں ۔ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری 22] وہ اپنے اعمال ( کے وبال سے ) ڈر رہے ہوں گے ۔ أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة 13] کیا تم اس سے کہ ۔۔۔ پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٧۔ ٦١) اب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے جنھیں حقیقی طور پر دنیا میں جلدی جلدی فائدے پہنچائے جاتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔- اور جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ اس ایمان میں اپنے رب کے ساتھ ان بتوں کو شریک نہیں کرتے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں اور جو کچھ صدقہ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو کچھ مال خرچ کرتے ہیں، سو کرتے ہیں یا یہ کہ جو کچھ نیک اعمال کرتے ہیں سو کرتے ہیں اور باوجود اس دینے کے ان کے دل اس بات سے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں کہیں ایسا نہ کہ وہاں آخرت میں یہ چیزیں قابل قبول نہ ہوں ایسی خوبیوں والوں کو ہماری طرف سے بہت جلد فائدہ پہنچایا جائے گا۔- اور یہ لوگ اعمال صالحہ میں سبقت کر رہے ہیں اور اپنے فائدے جلدی جلدی حاصل کرنے میں اس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :51 یعنی وہ دنیا میں خدا سے بے خوف اور بے فکر ہو کر نہیں رہتے کہ جو دل چاہے کرتے رہیں اور کبھی نہ سوچیں کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ظلم اور زیادتی پر پکڑنے والا ہے ، بلکہ ان کے دل میں ہر وقت اس کا خوف رہتا ہے اور وہی انہیں برائیوں سے روکتا رہتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani