۔ 1یعنی دنیا میں عذاب الٰہی سے دوچار ہوجانے کے بعد کوئی چیخ پکار انھیں اللہ کی گرفت سے چھڑا نہیں سکتی۔ اسی طرح عذاب آخرت سے بھی انھیں چھڑانے والا یا مدد کرنے والا، کوئی نہیں ہوگا۔
لَا تَجْــــَٔــرُوا الْيَوْمَ ۔۔ : یعنی اب بلبلانے اور چیخنے چلانے سے کچھ حاصل نہیں، کیونکہ یہ جزا کا وقت ہے، توبہ اور عمل کا وقت ختم ہوگیا۔ اب ہماری طرف سے کسی مدد کی امید مت رکھو۔ دیکھیے سورة مومن (٨٢ تا ٨٥) ۔
لَا تَجْــــَٔــرُوا الْيَوْمَ ٠ۣ اِنَّكُمْ مِّنَّا لَا تُنْصَرُوْنَ ٦٥- جأر - قال تعالی: فَإِلَيْهِ تَجْئَرُونَ [ النحل 53] ، وقال تعالی: إِذا هُمْ يَجْأَرُونَ [ المؤمنون 64] ، لا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ [ المؤمنون 65] ، جَأَرَ : إذا أفرط في الدعاء والتضرّع تشبيها بجؤار الوحشیات، کا لظباء ونحوها .- ( ج ء ر ) الجئر ا ( ف ) کے اصل معنی وحشیات جیسے ہرن وغیرہ کے گھبراہٹ کے وقت زور سے آواز نکالنے اور چیخنے کے ہیں پھر تشبیہ کے طور پر وعا اور تضرع میں افراط اور مبالغہ کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَإِلَيْهِ تَجْئَرُونَ [ النحل 53] تو اسی کے سامنے آہ وگریہ کرتے ہو ۔ إِذا هُمْ يَجْأَرُونَ [ المؤمنون 64] تو اس وقت چلائیں گے ۔ لا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ [ المؤمنون 65] آج مت چلاؤ ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی
(٦٥) آپ ان سے فرما دیجیے آج کے دن ہمارے عذاب سے چیخ و پکار مت کرو کیوں کہ ہمارا عذاب تم سے ٹالا نہیں جائے گا۔
آیت ٦٥ (لَا تَجْءَرُوا الْیَوْمَقف اِنَّکُمْ مِّنَّا لَا تُنْصَرُوْنَ ) ” (- آج تمہاری اس چیخ و پکار اور آہ و فریاد کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تمہاری فریاد سن کر آج کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :61 یعنی اس وقت ان سے یہ کہا جائے گا ۔