Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

641عذاب تو آسودہ اور غیر آسودہ حال دونوں کو ہی ہوتا ہے۔ لیکن آسودہ حال لوگوں کا نام خصوصی طور پر شاید اس لئے لیا گیا کہ قوم کی قیادت بالعموم انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، وہ جس طرف چاہیں قوم کا رخ پھیر سکتے ہیں۔ اگر وہ اللہ کی نافرمانی کا راستۃ اختیار کریں اور اس پر ڈٹے رہیں تو انہی کی دیکھا دیکھی قوم بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ یا مراد چوہدری اور سردار قسم کے لوگ ہیں۔ اور عذاب سے مراد اگر دنیاوی ہے، تو جنگ بدر میں کفار مکہ مارے گئے بلکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعا کے نتیجے میں بھوک اور قحط سالی کا عذاب مسلط ہوا، وہ مراد ہے یا پھر مراد آخرت کا عذاب ہے۔ مگر یہ سیاق سے بعید ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٥] یعنی جب عذاب الٰہی آتا ہے تو واویلا اور چیخ پکار کرنے والے بھی وہی لوگ ہوتے ہیں جو آسودہ حال اور چودھری ٹائپ ہوتے ہیں۔ یہی لوگ نبیوں کی تکذیب، انھیں ایذائیں پہنچانے اور عوام کو اللہ کی راہ سے روکنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اور عذاب نازل ہونے پر چیخنے چلانے والے بھی یہی ہوتے ہیں۔ حالانکہ جب عذاب آجاتا ہے تو پھر چیخنے چلانے یا فریادیں کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا۔ نہ ہی کوئی طاقت انھیں اللہ کے عذاب سے بچاسکتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

حَتّيٰٓ اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِيْهِمْ ۔۔ : ” يَجْــــَٔــرُوْنَ “ ” جُؤَارٌ“ درحقیقت گائے یا بیل کے سخت تکلیف میں بلبلانے کو کہتے ہیں۔ عذاب سے مراد بظاہر دنیا میں آنے والا عذاب ہے، خواہ کسی آفت کی صورت میں ہو یا موت کی صورت میں، کیونکہ آسودگی اور خوش حالی کی موجودگی میں وہی آتا ہے۔ عذاب خواہ خوش حال کفار پر آئے یا بدحال کفار پر، چیخنے چلانے اور بلبلانے میں دونوں یکساں ہوتے ہیں، مگر ” مُتْرَفِیْنَ “ (خوش حال) کا ذکر خاص طور پر اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ یہی لوگ حق کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں اور اپنی سرداری کی وجہ سے بدحال لوگوں کے کفر پر قائم رہنے کا باعث بنتے ہیں۔ (دیکھیے سورة سبا : ٣١ تا ٣٣) اس لیے عذاب نازل ہونے کے وقت ان کی حالت بیان فرمائی کہ ان کی ساری شیخی اور اکڑفوں ختم ہوجائے گی اور وہ سخت تکلیف میں مبتلا بیل کی طرح بلبلائیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مُتْرَفِيْهِمْ ، مترف، ترف سے مشتق ہے جس کے معنے تنعم اور خوشحالی کے ہیں۔ اس جگہ اس قوم کو عذاب میں پکڑنے کا ذکر ہے جس میں امیر غریب خوشحال بدحال سبھی داخل ہوں گے مگر مترفین اور خوشحالوں کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا کہ ایسے ہی لوگ دنیا کے مصائب سے اپنے بچاؤ کا کچھ سامان کرلیا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا عذاب جب آتا ہے تو سب سے پہلے یہی لوگ بےبس ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس آیت میں جس عذاب کے اندر ان کے پکڑے جانے کا ذکر ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جو غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تلوار سے ان کے سرداروں پر پڑا تھا۔ اور بعض حضرات نے اس عذاب سے مراد قحط کا عذاب لیا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے مکہ والوں پر مسلط کردیا گیا تھا یہاں تک کہ وہ مردار جانور اور کتے اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہوگئے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کے لئے بددعا بہت کم کی ہے لیکن اس موقع میں مسلمانوں پر ان کے مظالم کی شدت سے مجبور ہو کر یہ بددعا کی تھی۔ اللھم اشدد وطاتک علی مضر واجعلھا علیھم سنین کسنی یوسف (رواہ البخاری ومسلم) ۔ (قرطبی و مظھری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

حَتّٰٓي اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِيْہِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا ہُمْ يَجْــــَٔــرُوْنَ۝ ٦٤ۭ- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- ترف - التُّرْفَةُ : التوسع في النعمة، يقال : أُتْرِفَ فلان فهو مُتْرَف . أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون 33] ، وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود 116] - ( ت ر ف) الترفۃ - ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ اترف فلان فھو مترف وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون 33] اور دنیا کی زندگی میں ہم نے اس کو آسودگی دی رکھی تھی ۔ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود 116] اور جو ظالم تھے و ہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے ۔ جن میں عیش و آرام تھا ۔ - جأر - قال تعالی: فَإِلَيْهِ تَجْئَرُونَ [ النحل 53] ، وقال تعالی: إِذا هُمْ يَجْأَرُونَ [ المؤمنون 64] ، لا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ [ المؤمنون 65] ، جَأَرَ : إذا أفرط في الدعاء والتضرّع تشبيها بجؤار الوحشیات، کا لظباء ونحوها .- ( ج ء ر ) الجؤ ا ( ف ) کے اصل معنی وحشیات جیسے ہرن وغیرہ کے گھبراہٹ کے وقت زور سے آواز نکالنے اور چیخنے کے ہیں پھر تشبیہ کے طور پر وعا اور تضرع میں افراط اور مبالغہ کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَإِلَيْهِ تَجْئَرُونَ [ النحل 53] تو اسی کے سامنے آہ وگریہ کرتے ہو ۔ إِذا هُمْ يَجْأَرُونَ [ المؤمنون 64] تو اس وقت چلائیں گے ۔ لا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ [ المؤمنون 65] آج مت چلاؤ ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٤) یہاں تک کہ جب ہم ان کے سرکشوں اور امراء و رؤسا ہشام، ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، عتبہ شیبہ، وغیرہ پر سات سالہ قحط سالی کا عذاب نازل کریں گے تو یہ چیخ و پکار شروع کردیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :59 عیاش یہاں مُتْرَفِیْن کا ترجمہ کیا گیا ہے ۔ مترفین اصل میں ان لوگوں کو کہتے ہیں جو دنیوی مال و دولت کو پا کر مزے کر رہے ہوں اور خدا و خلق کے حقوق سے غافل ہوں ۔ اس لفظ کا صحیح مفہوم لفظ عیاش سے ادا ہو جاتا ہے ، بشرطیکہ اسے صرف شہوت رانی کے معنی میں نہ لیا جائے بلکہ عیش کوشی کے وسیع تر معنوں میں لیا جائے ۔ عذاب سے مراد یہاں غالباً آخرت کا عذاب نہیں بلکہ دنیا کا عذاب ہے جو اسی زندگی میں ظالموں کو دیکھنا پڑے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :60 اصل میں لفظ جُؤَار استعمال کیا گیا ہے جو بیل کی اس آواز کو کہتے ہیں جو سخت تکلیف کے وقت وہ نکالتا ہے ۔ یہ لفظ یہاں محض فریاد و فغان کے معنی میں نہیں بلکہ اس شخص کی فریاد و فغان کے معنی میں بولا گیا ہے جو کسی رحم کا مستحق نہ ہو ۔ اس میں تحقیر اور طنز کا انداز چھپا ہوا ہے ۔ اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ اچھا ، اب جو اپنے کرتوتوں کا مزا چکھنے کی نوبت آئی تو بلبلانے لگے

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani