Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

631یعنی شرک کے علاوہ دیگر برائیاں یا اعمال مراد ہیں، جو مومنوں کے اعمال (خشیت الٰہی، ایمان با توحید وغیرہ) کے برعکس ہیں۔ تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٤] یعنی یہ بات ان کے ذہن میں آتی ہی نہیں کہ ان کی پوری ہسٹری شیٹ ساتھ ہی ساتھ تیار ہو رہی ہے۔ لہذا وہ اپنے دنیا کے دوسرے کاموں میں ہی ایسے منہمک اور مگن ہیں کہ انھیں اس نامہ اعمال اور اس کی بنا پر آخرت کی بازپرس کا خیال تک نہیں آتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِيْ غَمْرَةٍ مِّنْ ھٰذَا ۔۔ : ” غَمْرَةٍ “ میں تنوین تہویل کی ہے، اس لیے ترجمہ ” سخت غفلت “ کیا ہے۔ ” ھذا “ کا اشارہ ان چیزوں کی طرف ہے جو اس سے پہلے مذکور ہیں، یعنی بات وہ نہیں جو کفار نے سمجھ رکھی ہے کہ اموال و اولاد کی صورت میں انھیں اللہ کی طرف سے بھلائیاں مل رہی ہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے دل بھلائیوں کے حصول کا سبب بننے والی صفات سے (یعنی خشیت الٰہی، آیات پر ایمان، شرک سے اجتناب اور کوئی بھی عمل کرتے ہوئے اس کے قبول نہ ہونے کا خوف رہنا) اور قیامت کے دن کتاب اعمال کے پیش ہونے سے سخت غفلت میں ہیں۔ پھر ان کا جرم یہی نہیں بلکہ ان کے علاوہ اور بھی کئی اعمال ہیں جنھیں وہ ہر حال میں کرنے والے ہیں، تاکہ ان پر حجت تمام ہو اور وہ اپنے کیے کا خمیازہ بھگتیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (یہ تو اوپر مومنین کی حالت سنی مگر کفار ایسے نہیں ہیں) بلکہ (برعکس) ان کفار کے قلوب اس دین کی طرف سے (جس کا ذکر بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ میں ہے) جہالت (اور شک) میں (ڈوبے ہوئے ہیں (جن کا حال اوپر بھی معلوم ہوچکا فَذَرْهُمْ فِيْ غَمْرَتِهِمْ ) اور اس (جہالت و انکار) کے علاوہ ان لوگوں کے اور بھی (برے برے خبیث) عمل ہیں جن کو یہ (مسلسل) کرتے رہتے ہیں (یہ لوگ شرک اور اعمال سیہ کے برابر خوگر رہیں گے) یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال لوگوں کو (جن کے پاس مال و دولت اور نوکر چاکر سب کچھ ہے) عذاب (بعد الموت) میں دھر پکڑیں گے (اور غریب غرباء تو کس گنتی میں ہیں اور وہ تو عذاب سے کیا بچاؤ کرسکتے ہیں، غرض یہ کہ جب ان سب پر عذاب نازل ہوگا) تو فوراً چلا اٹھیں گے (اور سارا انکار و استکبار جس کے اب عادی ہیں کافور ہوجاوے گا اس وقت ان سے کہا جاوے گا کہ) اب مت چلاؤ (کہ کوئی فائدہ نہیں کیونکہ) ہماری طرف سے تمہاری مطلق مدد نہ ہوگی (کیونکہ یہ دار الجزاء ہے دار العمل نہیں ہے جس میں چلانا اور عاجزی کرنا مفید ہو جو دار العمل تھا اس میں تو تمہارا یہ حال تھا کہ) میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر (رسول کی زبان سے) سنائی جایا کرتی تھیں تو تم الٹے پاؤں بھاگتے تھے تکبر کرتے ہوئے قرآن کا مشغلہ بناتے ہوئے (اس قرآن کی شان) میں بیہودہ بکتے ہوئے (کہ کوئی اس کو سحر کہتا تھا کوئی شعر کہتا تھا اور مشغلہ کا یہی مطلب ہے پس تم نے دار العمل میں جیسا کیا آج دار الجزاء میں ویسا بھگتو۔ اور یہ لوگ جو قرآن کی اور صاحب قرآن کی تکذیب کر رہے ہیں تو اس کا کیا سبب ہے) کیا ان لوگوں نے اس کلام (الٰہی) میں غور نہیں کیا (جس سے اس کا اعجاز ظاہر ہوجاتا اور یہ ایمان لے آتے) یا (تکذیب کی یہ وجہ ہے کہ) ان کے پاس کوئی ایسی چیز آئی ہے جو ان کے پہلے بڑوں کے پاس نہیں آئی تھی (مراد اس سے احکام الٰہیہ کا آنا ہے جو کوئی نئی بات نہیں، ہمیشہ سے انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ ان کی امتوں کو یہی احکام دیئے جاتے رہے ہیں کقولہ تعالیٰ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ ، پس تکذیب کی یہ وجہ بھی باطل ٹھہری اور یہ دو وجہ تو قرآن کے متعلق ہیں۔ آگے صاحب قرآن کے متعلق فرماتے ہیں یعنی) یا (وجہ تکذیب کی یہ ہے کہ) یہ لوگ اپنے رسول (کی صفت دیانت و صدق و امانت) سے واقف نہ تھے اس وجہ سے ان کے منکر ہیں، (یعنی یہ وجہ بھی باطل ہے کیونکہ آپ کے صدق و دیانت پر سب کا اتفاق تھا) یا (یہ وجہ ہے کہ) یہ لوگ (نعوذ باللہ) آپ کی نسبت جنون کے قائل ہیں (سو آپ کا اعلیٰ درجہ کا صاحب عقل اور صاحب الرائے ہونا بھی ظاہر ہے۔ سو واقع میں ان میں سے کوئی وجہ بھی معقول نہیں) بلکہ (اصلی وجہ یہ ہے کہ) یہ رسول ان کے پاس حق بات لے کر آئے ہیں اور ان میں اکثر لوگ حق بات سے نفرت رکھتے ہیں۔ (بس یہ تمام تر وجہ ہے تکذیب کی اور عدم اتباع حق کی اور یہ لوگ اس دین حق کا اتباع تو کیا کرتے یہ تو اور الٹا یہ چاہتے ہیں کہ وہ دین حق ہی ان کے خیالات کے تابع کردیا جاوے اور جو مضامین قرآن میں ان کے خلاف ہیں ان کو خارج یا ترمیم کردیا جاوے کقولہ تعالیٰ فی سورة یونس قال الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْهُ ) اور (بفرض محال) اگر (ایسا امر واقع ہوجاتا) اور دین حق ان کے خیالات کے تابع (اور موافق) ہوجاتا تو (تمام عالم میں کفر و شرک پھیل جاتا اور اس کا اثر یہ ہوتا کہ حق تعالیٰ کا غضب تمام عالم پر متوجہ ہوجاتا اور اس کا مقتضا یہ تھا کہ) تمام آسمان اور زمین اور جو ان میں (آباد) ہیں سب تباہ ہوجاتے (جیسا قیامت میں تمام انسانوں میں گمراہی عام ہوجانے کے سبب اللہ تعالیٰ کا غضب بھی سب پر عام ہوگا اور غضب الٰہی عام ہونے سے سب کی ہلاکت بھی عام ہوگی اور اول تو کسی امر کا حق ہونا مقتضی ہے اس کے وجوب قبول کو گو نافع بھی نہ ہو۔ اور اس کا قبول نہ کرنا خود عیب ہے مگر ان لوگوں میں صرف یہی ایک عیب نہیں کہ حق سے کراہت ہو) بلکہ (اس سے بڑھ کر دوسرا عیب اور بھی ہے کہ حق کا اتباع جو انہیں کے نفع کا سامان ہے اس سے دور بھاگتے ہیں بس) ہم نے ان کے پاس ان کی نصیحت (اور نفع) کی بات بھیجی سو یہ لوگ اپنی نصیحت سے بھی روگردانی کرتے ہیں یا (علاوہ وجوہ مذکورہ کے ان کی تکذیب کی یہ وجہ ہے کہ ان کو یہ شبہ ہوا ہو کہ) آپ ان سے کچھ آمدنی چاہتے ہیں تو (یہ بھی غلط ہے کیونکہ جب آپ جانتے ہیں کہ) آمدنی تو آپ کے رب کی سب سے بہتر ہے اور وہ سب دینے والوں سے اچھا ہے (تو آپ لوگوں سے کیوں مانگتے ہیں) اور (خلاصہ ان کی حالت کا یہ ہے کہ) آپ تو ان کو سیدھے رستہ کی طرف (جس کو اوپر حق کہا ہے) بلا رہے ہیں اور ان لوگوں کی جو کہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یہ حالت ہے کہ اس (سیدھے) رستہ سے ہٹے جاتے ہیں (مطلب یہ کہ حق ہونا اور مستقیم ہونا اور نافع ہونا یہ سب مقتضیات ایمان کے جمع ہیں اور جو وجوہات مانع ہو سکتی تھیں وہ کوئی موجود نہیں، پھر ایمان نہ لانا اشد درجہ کی جہالت اور ضلالت ہے) اور (ان کی قسادت وعناد کی یہ حالت ہے کہ جس طرح یہ لوگ آیات شرعیہ سے متاثر نہیں ہوتے اسی طرح آیات قہریہ مصائب و بلیات سے بھی متاثر نہیں ہوتے گو مصیبت کے وقت طبعی طور پر ہم کو پکارتے بھی ہیں لیکن وہ دفع الوقتی ہوتی ہے چنانچہ) اگر ہم ان پر مہربانی فرما دیں اور ان پر جو تکلیف ہے اس کو ہم دور بھی کردیں تو وہ لوگ (پھر) اپنی گمراہی میں بھٹکتے ہوئے اصرار کرتے رہیں (اور وہ قول وقرار جو مصیبت میں کئے تھے سب ختم ہوجاویں کقولہ تعالیٰ وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا الخ وقولہ تعالیٰ اِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ الخ) اور (شاہد اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات) ہم نے ان کو گرفتار عذاب بھی کیا ہے سو ان لوگوں نے نہ اپنے رب کے سامنے (پورے طور پر) فروتنی کی اور نہ عاجزی اختیار کی (پس جب عین مصیبت میں اور مصیبت بھی ایسی سخت جس کو عذاب کہا جاسکے جیسے قحط جو مکہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے ہوا تھا انہوں نے عاجزی اختیار نہیں کی تو بعد زوال مصیبت کے تو بدرجہ اولیٰ ان سے اس کی توقع نہیں مگر ان کی یہ ساری بےپروائی و بیباکی ان مصائب تک ہے جن کے عادی ہوچکے ہیں) یہاں تک کہ ہم جب ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے (جو کہ فوق العادة ہو خواہ دنیا ہی میں کہ کوئی غیبی قہر آ پڑے یا بعد الموت کہ ضرور ہی واقع ہوگا) تو اس وقت بالکل حیرت زدہ رہ جاویں گے (کہ یہ کیا ہوگیا اور سب نشہ ہرن ہوجاوے گا)- معارف و مسائل - غَمْرَةٍ ، ایسے گہرے پانی کو کہتے ہیں جس میں آدمی ڈوب جائے اور جو اس میں داخل ہونے والے کو اپنے اندر چھپا لے اسی لئے لفظ غمرہ پردہ اور ہر ڈھانپ لینے والی چیز کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ یہاں ان کی مشرکانہ جہالت کو غمرہ کہا گیا ہے جس میں ان کے دل ڈوبے ہوئے اور چھپے ہوئے ہیں کہ کسی طرف سے ان کو روشنی کی کرن نہیں پہنچتی۔- وَلَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ ، یعنی ان کی گمراہی کے لئے تو ایک شرک و کفر ہی کا پردہ غفلت کافی تھا مگر وہ اسی پر بس نہیں کرتے اس کے ساتھ دوسرے اعمال خبیثہ بھی مسلسل کرتے ہی رہتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَلْ قُلُوْبُہُمْ فِيْ غَمْرَۃٍ مِّنْ ھٰذَا وَلَہُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ ہُمْ لَہَا عٰمِلُوْنَ۝ ٦٣- غمر - أصل الغَمْرِ : إزالة أثر الشیء، ومنه قيل للماء الکثير الذي يزيل أثر سيله، غَمْرٌ وغَامِرٌ ، قال الشاعر :- 342-- والماء غَامِرُ جدّادها - «1» .- وبه شبّه الرّجل السّخيّ ، والفرس الشّديد العدو، فقیل لهما : غَمْرٌ كما شبّها بالبحر، والغَمْرَةُ : معظم الماء الساترة لمقرّها، وجعل مثلا للجهالة التي تَغْمُرُ صاحبها، وإلى نحوه أشار بقوله : فَأَغْشَيْناهُمْ [يس 9] ، ونحو ذلک من الألفاظ قال : فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ [ المؤمنون 54] ، الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ ساهُونَ [ الذاریات 11] ، وقیل للشَّدائِد :- غَمَرَاتٌ. قال تعالی: فِي غَمَراتِ الْمَوْتِ [ الأنعام 93] ، ورجل غَمْرٌ ، وجمعه : أَغْمَارٌ.- والغِمْرُ : الحقد المکنون «2» ، وجمعه غُمُورٌ والْغَمَرُ : ما يَغْمَرُ من رائحة الدّسم سائر الرّوائح، وغَمِرَتْ يده، وغَمِرَ عِرْضُهُ : دنس، ودخل في غُمَارِ الناس وخمارهم، أي : الذین يَغْمُرُونَ.- والْغُمْرَةُ : ما يطلی به من الزّعفران، وقد تَغَمَّرْتُ بالطّيب، وباعتبار الماء قيل للقدح الذي يتناول به الماء : غُمَرٌ ، ومنه اشتقّ : تَغَمَّرْتُ : إذا شربت ماء قلیلا، وقولهم : فلان مُغَامِرٌ: إذا رمی بنفسه في الحرب، إمّا لتوغّله وخوضه فيه کقولهم يخوض الحرب، وإمّا لتصوّر الغَمَارَةِ منه، فيكون وصفه بذلک کو صفه بالهوج «3» ونحوه .- ( غ م ر ) الغمر ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کے اثر کو زائل کردینے کے ہیں ۔ اسی سے غمرۃ غامر اس زیادہ پانی کو کہتے ہیں جس کا سیلاب ہر قسم کے اثرات کو چھپا کر زائل کردے شاعر نے کہا ہے ( المتقاریب ( 330 ) والماء غامر خدا دھا اور پانی اپنے گڑھوں کو چھپانے والا تھا ۔ اسی مناسبت سے فیاض آدمی اور تیز رو رگھوڑی کو بھی غمر کہا جاتا ہے جس طرح کہ تشبیہ کے طور پر اسے بحر کہہ دیا جاتا ہے اور غمرۃ اس پانی کثیر کو کہتے ہیں جس کی اتھا ہ نظڑ نہ آئے ۔ اور یہ اس جہالت کے لئے ضرب المثل ہے جو آدمی پر چھا جاتی ہے اور قرآن پاکنے وغیرہ الفاظ سے اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ [ المؤمنون 54] تو ان کو ۔۔۔۔ ان کی غفلت ہی میں رہنے دو ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ ساهُونَ [ الذاریات 11] جو بے خبر ی میں بھولے ہوئے ہیں ۔ اور غمرات کے معنی شدائد کے ہیں ( کیونکہ وہ بھی انسان پر ہجوم کر کے اسے بد حواس کردیتے ) ہیں فرمایا : ۔ فِي غَمَراتِ الْمَوْتِ [ الأنعام 93]( جب موت کی سختی میں ۔ اور نا تجربہ کار آدمی کو بھی غمر کہا جاتا ہے والجمع اغمار نیز غمر کے معنی پوشیدہ کینہ کے بھی آتے ہیں ۔ والجمع غمور اور غمر کے معنی چربی کی بدبو کے آتے ہیں جو تمام چیزوں کی بو پر غالب آجاتی ہے غمرت یدہ اس کا ہاتھ میلا ہوگیا غمر عر ضہ اس کی عزت پر بٹہ لگ گیا محاورہ ہے ۔ وہ لوگوں کے ہجوم میں داخل ہوگیا ۔ الغمرۃ زعفران سے تیار کیا ہوا طلا جو چہرے پر ملتے ہیں تغمرت باالطیب میں نے ( اپنے چہرہ پر ) زعفرانی خوشبو اور پانی پینے کے چھوٹے پیا لے کو غمر کہا جاتا ہے اسی سے تغمرت ہے جس کے معنی تھوڑا سا پانی پینے کے ہیں اور کسی شخص کو مغافر اس وقت کہتے ہیں جب کہ وہ اپنے آپ کو لڑائی کی آگ میں جھونک دے اور یہ یا تو دشمن کی صفوں میں گھسنے کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ فلان یخوض الحرب کا محاورہ ہے اور یا نا تجربہ کاری کی وجہ سے اور اس صؤرت میں اسے مغافر کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ اناڑی آدمی کو ھوج وغیرہ کہا جاتا ہے ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ولھم اعمال من دون ذلک ھم لھا عاملون اور ان کے اعمال بھی اس طریقے سے مختلف ہیں (جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے) وہ اپنے یہ کرتوت کئے چلے جائیں گے) قتادہ اور ابوالعالیہ کا قول ہے کہ اعمال سے مراد ایسی خطائیں ہیں جو حق کو نظر انداز کر کے کی جائیں حسن اور مجاہد سے منقول ہے۔” جو برے اعمال وہ ابھی کر رہے ہیں ان کے علاوہ بھی ایسے اعمال ہیں جنہیں یہ لازماً کر کے رہیں گے۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٣) بلکہ ان مکہ والوں یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے دل اس قرآن کریم کی طرف سے جہالت اور غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور جن نیکیوں کا آپ ان کو حکم دیتے ہیں ان کے علاوہ برائیاں ان کے مقدر میں لکھی ہوئی ہیں جن کو یہ دنیا میں اپنے وقت آنے تک کر رہے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَلَہُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِکَ ہُمْ لَہَا عٰمِلُوْنَ ) ” - اوپر اہل ایمان کے جن اعمال کا تذکرہ کیا گیا ہے ‘ ان کے مشاغل اور سرگرمیاں ان سے یکسر مختلف ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس دین کی خدمت اور بھلائی کے کاموں کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ انہیں دن رات اپنی دنیا کمانے کی فکر ہے۔ وہ اپنے وقت کاُ کل سرمایہ اپنی ساری توانائیوں سمیت خود ساختہ جھوٹے معیارات کو برقرار رکھنے اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لیے کھپا رہے ہیں۔ اس آیت کے مضمون کی روشنی میں ہر شخص کو اپنی مصروفیات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس کی شبانہ روز تگ و دو اور بھاگ دوڑ کا کتنا حصہ دین کے لیے ہے اور کتنا حصہ دنیا کے لیے۔ اگر کسی شخص کی تمام تر کوشش اور ساری محنت ہے ہی دنیا کے لیے ‘ اس کا نصب العین بھی دنیا ہے اور اس نے منصوبہ بندی بھی صرف اسی کے لیے کر رکھی ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ آخرت کی تیاری کرنے کے لیے فرصت کے لمحات اسے کب اور کیسے میسر آئیں گے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :58 یعنی اس امر سے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں ، کہہ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں ، یہ سب کچھ کہیں درج ہو رہا ہے ، اور کبھی اس کا حساب ہونے والا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

23: یعنی کفر اور شرک کے علاوہ ان لوگوں کے اور بھی بہت سے برے کام ہیں جو وہ کرتے رہتے ہیں