Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

671یعنی انھیں اپنی تولیت خانہ کعبہ اور اس کا خادم و نگران ہونے کا جو غرور تھا، اس کی بنا پر آیات الٰہی کا انکار کیا اور بعض نے اس کا مرجع قرآن کو بنایا ہے اور مطلب یہ ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل میں کھلبلی پیدا ہوجاتی جو انھیں قرآن پر ایمان لانے سے روک دیتی۔ 672سَمَر کے معنی ہیں رات کی گفتگو یہاں اس کے معنی خاص طور پر ان باتوں کے ہیں جو قرآن کریم اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں وہ کرتے تھے اور اس کی بنا پر وہ حق کی بات سننے اور قبول کرنے سے انکار کردیتے۔ یعنی چھوڑ دیتے۔ اور بعض نے ہجر کے معنی فحش گوئی کے کئے ہیں۔ یعنی راتوں کی گفتگو میں تم قرآن کی شان میں بےہودہ اور فحش باتیں کرتے ہو، جن میں کوئی بھلائی نہیں (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٧] سمر کے معنی رات کے وقت سونے سے پیشتر ایک دوسرے سے قصے کہانیاں بیان کرنا۔ تاکہ ان قصے کہانیوں میں محو ہو کر نیند آجائے۔ یہ قصے یا افسانے یا کہانیاں محض دفع الوقتی یا خوش وقتی کے لئے سنے سنائے جاتے ہیں۔ ان کا اور کچھ مقصد نہیں ہوتا۔ دیہاتوں میں آج بھی یہ دستور ہے کہ بڑے لوگ چھوٹوں کو کوئی بھوت پریت یا ایسی ہی دوسری کہانیاں سناتے ہیں اور مکہ میں بھی یہی دستور تھا۔ اور مجر کے معنی بیماری، نیم بےہوشی یا نیم خفتگی کی حالت میں مہمل سی باتیں کرنا یا بڑبڑانا۔- گویا مترفین یا ان عیاش لوگوں کا جرم یہ تھا کہ اللہ کی آیات کو سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے اور راہ تکبر منہ موڑتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے۔ مزید برآں ایک دوسرے سے اگر آیات الٰہی کا ذکر کرتے بھی تو انتہائی بےنیازی اور لاپروائی سے جیسے کوئی مہمل سی باتیں یا قصے کہانیاں سنا رہا ہو۔ ان کے ان جرائم کی سزا یہی ہے کہ اب ان کے چھٹکارا کی سب راہیں بند کردی جاتیں اور نہ ہی ان کی آہ و فغاں پر کچھ توجہ دی جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

”ۙمُسْتَكْبِرِيْنَ “ یہ ” تَنْكِصُوْن “ کی ضمیر سے حال ہے، یعنی ہماری آیات کی تلاوت کے وقت تمہارا الٹے پاؤں پھرجانا کسی خوف یا مصروفیت یا کسی اور وجہ سے نہیں تھا، بلکہ تم محض تکبر کرتے ہوئے سننے سے اجتناب کے لیے ایڑیوں پر پھرجاتے تھے۔- بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ : ” سَمَرَ یَسْمُرُ سَمْرًا وَ سُمُوْرًا فَھُوَ سَامِرٌ“ (ن) رات کو دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا اور قصے کہانیاں سنانا۔ ” ھَجَرَ یَھْجُرُ ھَجْرًا وَ ھِجْرَۃً “ چھوڑنا اور ” ھُجْرًا “ بےہودہ، لغو اور فضول باتیں کرنا، بکواس کرنا۔ ” بِهٖ “ کی ضمیر قرآن کی طرف جاتی ہے، جو آیات کے ضمن میں مذکور ہے، یعنی رات کو باتیں کرتے ہوئے تم اس قرآن کے متعلق بےہودہ گوئی اور بکواس کیا کرتے تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مُسْتَكْبِرِيْنَ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ ، اس میں لفظ بہ کی ضمیر اکثر مفسرین نے حرم کی طرف راجع قرار دی جو اگرچہ اوپر کہیں مذکور نہیں مگر حرم سے قریش مکہ کا گہرا تعلق اور ان پر ان کا ناز اتنا معروف و مشہور تھا کہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں اور معنے اس کے یہ ہیں کہ قریش مکہ کا اللہ کی آیتیں سن کر پچھلے پاؤں بھاگنے اور نہ ماننے کا سبب حرم مکہ کی نسبت اور اس کی خدمت پر ان کا تکبر اور ناز تھا۔ اور سامراً ، سمر سے مشتق ہے جس کے اصل معنے چاندنی رات کے ہیں۔ عرب کی عادت تھی کہ چاندنی رات میں بیٹھ کر قصے کہانیاں کہا کرتے تھے اس لئے لفظ سمر قصہ کہانی کے معنے میں استعمال ہونے لگا اور سامر قصہ گو کو کہا جاتا ہے یہ لفظ اگرچہ مفرد ہے مگر معنی میں جمع کے لئے بھی بولا جاتا ہے اس جگہ سامر بمعنے سامرین جمع کے لئے استعمال ہوا ہے۔ مشرکین کا ایک حال جو آیات الٰہیہ سے انکار کا سبب بنا ہوا تھا حرم مکہ کی نسبت و خدمت پر ان کا ناز تھا۔ دوسرا حال یہ بیان فرمایا کہ یہ لوگ بےاصل اور بےبنیاد قصے کہانیوں میں مشغول رہنے کے عادی ہیں ان کو اللہ کی آیات سے دلچسپی نہیں۔- تھجرون، یہ لفظ ہجر بضم الہاء سے مشتق ہے جس کے معنے فضول بکواس اور گالی گلوچ کے ہیں یہ تیسرا حال ان مشرکین کا بیان کیا گیا کہ یہ لوگ فضول بکواس اور گالی گلوچ کے عادی ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں بعض ایسے ہی گستاخانہ کلمات کہتے رہتے ہیں۔- عشاء کے بعد قصہ گوئی کی ممانعت اور خاص ہدایات :- رات کو افسانہ گوئی کا مشغلہ عرب و عجم میں قدیم سے چلا آتا ہے اور اس میں بہت سے مفاسد اور وقت کی اضاعت تھی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رسم کو مٹانے کے لئے عشاء سے پہلے سونے کو اور عشاء کے بعد فضول قصہ گوئی کو منع فرمایا۔ حکمت یہ تھی کہ عشاء کی نماز پر انسان کے اعمال یومیہ ختم ہو رہے ہیں جو دن بھر کے گناہوں کا بھی کفارہ ہوسکتا ہے۔ یہی اس کا آخری عمل اس دن کا ہو تو بہتر ہے اگر بعد عشاء فضول قصہ گوئی میں لگ گیا تو اولاً یہ خود فعل عبث اور مکروہ ہے اس کے علاوہ اس کے ضمن میں غیبت جھوٹ اور دوسرے طرح طرح کے گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے اور ایک برا انجام اس کا یہ ہے کہ رات کو دیر تک جاگے گا تو صبح کو سویرے نہیں اٹھ سکے گا اسی لئے حضرت فاروق اعظم جب کسی کو عشاء کے بعد فضول قصوں میں مشغول دیکھتے تو تنبیہ فرماتے تھے اور بعض کو سزا بھی دیتے تھے اور فرماتے کہ جلد سو جاؤ شاید آخر رات میں تہجد کی توفیق ہوجائے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مُسْتَكْبِرِيْنَ۝ ٠ۤۖ بِہٖ سٰمِرًا تَہْجُرُوْنَ۝ ٦٧- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - سمر - السُّمْرَةُ أحد الألوان المرکّبة بين البیاض والسواد، والسَّمْرَاءُ كنّي بها عن الحنطة، والسَّمَارُ : اللّبن الرّقيق المتغيّر اللّون، والسَّمُرَةُ : شجرة تشبه أن تکون للونها سمّيت بذلک، والسَّمَرُ سواد اللّيل، ومنه قيل : لا آتيك السَّمَرَ والقمر «2» ، وقیل للحدیث باللیل : السَّمَرُ ، وسَمَرَ فلان : إذا تحدّث ليلا، ومنه قيل : لا آتيك ما سَمَرَ ابنا سمیر «3» ، وقوله تعالی: مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سامِراً تَهْجُرُونَ [ المؤمنون 67] ، قيل معناه : سُمَّاراً ، فوضع الواحد موضع الجمع، وقیل : بل السَّامِرُ : اللّيل المظلم . يقال : سَامِرٌ وسُمَّارٌ وسَمَرَةُ وسَامِرُونَ ، وسَمَرْتُ الشیءَ ، وإبل مُسْمَرَةٌ: مهملة، والسَّامِرِيُّ : منسوب إلى رجل .- ( س م ر ) السمرۃ گندمی رنگ کو کہتے ہیں اور کنایہ کے طور پر سمراء گندم کو کہا جاتا ہے اور السمار پتلا دودھ جس میں بکثرت پانی کی آمیزش ہو ۔ السمرۃ ببول کا درخت غالبا اس کی رنگت کے اعتبار سے یہ نام رکھا گیا ہے ۔ السمر ۔ اصل میں رات کی تاریکی کو کہتے ہیں اور اسی سے محاورہ ہے ( مثل ) لا اٰ یتک السمر والقمر کہ میں تیرے پاس کبھی نہیں آؤں گا پھر رات کو باتیں کرنا کے معنی میں استمال ہونے لگا ہے اور سمر فلان کے معنی ہیں اس نے رات کو باتیں کی ۔ اسی سے مشہور محاورہ ہے ۔ لا آتيك السَّمَرَ والقمر کہ میں تیرے پاس کبھی نہیں آؤنگا اور آیت کریمہ : ۔ مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سامِراً تَهْجُرُونَ [ المؤمنون 67] ان سے سرکشی کرتے کہانیوں میں مشغول ہوتے ۔ اور بیہودہ بکواس کرتے تھے ۔ میں بعض نے اس کے معنی سمار کئے ہیں تو ان کے نزدیک مفرد موضع جمع میں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ سامر کے معنی تاریک رات کے ہیں ۔ سامر کی جمع سمار سمرۃ اور سامرون آتی ہے ۔ اور سمرت الشئی ( ن ) کے معنی کسی چیز میں میخ لگا کر مضبوط اور استوار کرنے کے ہیں اور مہمل چھوڑے ہوئے اونٹوں کو اہل مسمرۃ کہا جاتا ہے ۔ اور سامری ایک قبیلہ کی طرف نسبت ہے ۔- هجر - الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی:- وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله :- وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] ، وقوله تعالی:- وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي :- (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه .- وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد،- ( ھ ج ر ) الھجر - والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ایک اور حدیث میں ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (مستکبرین بہ سامراً تھجرون اپنے گھمنڈ میں اس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے، اپنی چوپالوں میں اس پر باتیں چھاٹتے اور بکواس کیا کرتے تھے) لفظ تھجرون کی ایک قرأت حرف تاء کے فتحہ اور حرف جیم کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ ایک قرأت کے مطابق حرف تاء مضموم اور حرف جیم مکسور ہے۔ اس لفظ کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ ایک تو حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ تم حق سے منہ موڑ کر اسے چھوڑ دیتے ہو۔ “ مجاہد اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ ” تم بکواس کرتے ہو۔ “ ھجر بکواس کرنے کو کہتے ہیں۔ جن حضرات نے پہلی قرأت کی ہے ان کے نزدیک یہ لفظ ھجر بمعنی چھوڑنا سے ہی نکلا ہے جیسا کہ حضرت ابن بع اس وغیرہ سے مروی ہے۔ جب مریض بیماری کے دبائو میں آ کر ادھر ادھر کی ہانکنے لگے اور ہذیانی انداز میں باتیں کریں تو کہا جاتا ہے۔ ” اھجر المریض “ ایک قول کے مطابق لفظ (سامراً ) کو واحد کے صیغے میں بیان کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ظرفیت کے معنی ادا کر رہا ہے اور تقدیر کلام اس طرح ہے ۔” لیلا تھجرون “ (تم رات کے وقت بکواس کرتے رہتے ہو) مشرکین کی عادت تھی کہ رتا کے وقت کعبہ کے ارد گرد ٹولیاں بنا کر بیٹھ جاتے اور دنیا بھر کی گپیں ہانکتے (ایک قول کے مطابق اس لفظ کے معنی اگرچہ سماء یعنی اکٹھے بیٹھ کر گپ ہانکنے کے ہیں لیکن لفظ (سامراً ) اس لئے واحد لایا گیا ہے کہ یہ مصدر کے مقام میں ہے جس طرح کہا جاتا ہے ” قوموا قیاماً (کھڑے ہو جائو)- رات کو گپیں ہانکنا شیوئہ مومن نہیں - یعنی رات کے وقت باتیں کرنے اور گپیں ہانکنے کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ شعبہ نے ابو المنہال سے، انہوں نے حضرت ابوبرزہ اسلمی سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ عشاء کی نماز سے پہلے سو جانے کو اور عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے شعبہ نے منصور سے، انہوں نے خزیمہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے (الا سمو الالرجلین مضل او مسافر۔ دو شخصوں کے سوا کسی کے لئے رات کو باتیں کرنا درست نہیں ہے ایک نمازی اور دوسرا مسافر ) حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔ باتیں کرنے کے متعلق رخصت والی روایتیں بھی موجود ہیں۔ اعمش نے ابراہیم سے اور انہوں نے علقمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں سے کسی نہ کسی معاملے پر رتا کے وقت تبادلہ خیالات کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح عمرو بن دینار اور ایوب سختیانی بھی آدھی آدھی رات تک باتیں کرتے رہتے تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (مُسْتَکْبِرِیْنَق بِہٖ سٰمِرًا تَہْجُرُوْنَ ) ” - اس زمانے میں عربوں کے ہاں قصہ گوئی کا بہت رواج تھا۔ پیشہ ور قصہ گو راتوں کو مجمع جما کر قصے سنایا کرتے تھے۔ یہ عام لوگوں کے لیے تفریح کا ذریعہ تھا اور قصہ گو کے لیے کمائی کا وسیلہ۔ اسی طرح کے قصہ گو ہندوستان میں راجپوتوں کے ہاں بھی پائے جاتے تھے جو ان کے لیے راتوں کو محفلیں سجاتے تھے۔ چناچہ اس پس منظر میں مشرکین مکہ کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ کیا تم لوگوں نے ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی قصہ گو سمجھ رکھا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سننا یا نہ سننا تمہارے لیے برابر ہے ؟ اور تم سمجھتے ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ؟ تم لوگوں کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ یہ فیصلہ کن کلام ہے : (وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَط وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ الاَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ) ( بنی اسرائیل) ” اور اس (قرآن) کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور یہ حق کے ساتھ ہی نازل ہوا ہے ‘ اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا “۔ آئندہ اسی کلام کے ترازو میں قوموں کی قسمتیں تولی جائیں گی ‘ اسی کے سہارے لوگ کامیاب و کامران ہوں گے اور اس کو چھوڑ کر ناکامیوں اور محرومیوں کے گڑھوں میں گریں گے۔ اس سلسلے میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بہت واضح اور دوٹوک ہے : (اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ ) (١) ” اللہ اسی کتاب کی بدولت قوموں کو اٹھائے گا اور اس (کو چھوڑنے) کے باعث قوموں کو گرائے گا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :63 اصل میں لفظ سٰمِراً استعمال کیا گیا ہے ۔ سمر کے معنی ہیں رات کے وقت بات چیت کرنا ، گپیں ہانکنا ، قصے کہانیاں کہنا ۔ دیہاتی اور قصباتی زندگی میں یہ راتوں کی گپیں عموماً چوپالوں میں ہوا کرتی ہیں ، اور یہی اہل مکہ کا بھی دستور تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani