Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قرآن کریم سے فرار اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس فعل پر اظہار کر رہا ہے جو وہ قرآن کے نہ سمجھنے اور اس میں غور وفکر نہ کرنے میں کررہے تھے اور اس سے منہ پھیر لیتے تھے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ رب العزت نے ان پر اپنی وہ پاک اور برتر کتاب نازل فرمائی تھی جو کسی نبی پر نہیں اتاری گئی ، یہ سب سے اکمل اشرف اور افضل کتاب ہے ان کے باپ دادے جاہلیت میں مرے تھے جن کے ہاتھوں میں کوئی الہامی کتاب نہ تھی ان میں کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا ۔ تو انہیں چاہے تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مانتے کتاب اللہ کی قدر کرتے اور دن رات اس پر عمل کرتے جیسے کہ ان میں کے سمجھ داروں نے کیا کہ وہ مسلمان متبع رسول ہوگئے ۔ اور اپنے اعمال سے اللہ کو راضی رضامند کردیا ۔ افسوس کفار نے عقلمندی سے کام نہ لیا ۔ قرآن کی متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑ کر ہلاک ہوگئے ۔ کیا یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتے نہیں؟ کیا آپ کی صداقت امانت دیانت انہیں معلوم نہیں ؟ آپ تو انہی میں پیدا ہوئے انہی میں پلے انہی میں بڑے ہوئے پھر کیا وجہ ہے کہ آج اسے جھوٹا کہنے لگے جسے اس سے پہلے سچا کہتے تھے ؟ دوغلے ہو رہے تھے ۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شاہ حبش نجاشی رحمتہ اللہ علیہ سے سر دربار یہی فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین وحدہ لاشریک نے ہم میں ایک رسول بھیجا ہے جس کا نسب جس کی صداقت جس کی امانت ہمیں خوب معلوم تھی ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسریٰ سے بوقت جنگ میدان میں یہی فرمایا تھا ابو سفیان صخر بن حرب نے شاہ روم سے یہی فرمایا تھا جب کہ سردربار اس نے ان سے اور ان کے ساتھیوں سے پوچھا تھا ۔ حالانکہ اس وقت تک وہ مسلمان بھی نہیں تھے لیکن انہیں آپ کی صداقت امانت دیانت سچائی اور نسب کی عمدگی کا اقرار کرنا پڑا کہتے تھے اسے جنون ہے یا اس نے قرآن اپنی طرف سے گھڑلیا ہے حالانکہ بات اس طرح سے نہیں ۔ حقیت صرف یہ ہے کہ ان کے دل ایمان سے خالی ہیں یہ قرآن پر نظریں نہیں ڈالتے اور جو زبان پر آتا ہے بک دیتے ہیں قرآن تو وہ کلام ہے جس کی مثل اور نظیر سے ساری دنیا عاجز آگئی باوجود سخت مخالفت کے اور باجود پوری کوشش اور انتہائی مقالبے کے کسی سے نہ بن پڑا کہ اس جیسا قرآن خود بنا لیتا یا سب کی مدد لے کر اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاتا ۔ یہ تو سراسر حق ہے اور انہیں حق سے چڑ ہے پچھلا جملہ حال ہے اور ہوسکتا ہے کہ خبریہ مستانفعہ ، واللہ اعلم ۔ مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک شخص سے فرمایا مسلمان ہوجا اس نے کہا اگرچہ مجھے یہ ناگوار ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں اگرچہ ناگوار ہو ایک روایت میں ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں ملا آپ نے اس سے فرمایا اسلام قبول کر اسے یہ برا محسوس ہوا اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا دیکھو اگر تم کسی غیرآباد خطرناک غلط راستے پر چلے جا رہے ہو اور تمہیں ایک شخص ملے جس کے نام نسب سے جس کی سچائی اور امانت داری سے تم بخوبی واقف ہو وہ تم سے کہے کہ اس راستے پر چلو جو وسیع آسان سیدھا اور صاف ہے بتاؤ تم اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلوگے یانہیں؟ اس نے کہا ہاں ضرور آپ نے فریاما بس تو یقین مانو قسم اللہ کی تم اس دن بھی سخت دشوار اور خطرناک راہ سے بھی زیادہ بری راہ پر ہو اور میں تمہیں آسان راہ کی دعوت دیتا ہوں میری مان لو ۔ مذکور ہے کہ ایک اور ایسے ہی شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاجب کہ اس نے دعوت اسلام کا برا منایا بتاتو؟ اگر تیرے دوساتھی ہوں ایک تو سچا امانت دار دوسرا جھوٹا خیانت پیشہ بتاؤ تم کس سے محبت کروگے اس نے کہا سچے امین سے فرمایا اسی طرح تم لوگ اپنے رب کے نزدیک ہو حق سے مراد بقول سدی رحمتہ اللہ علیہ خود اللہ تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ اگر انہی کی مرضی کے مطابق شریعت مقرر کرتا تو زمینوں آسمان بگڑ جاتے جیسے اور آیت میں کہ کافروں نے کہا ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے شخص کے اوپر یہ قرآن کیوں نہ اترا اس کے جواب میں فرمان ہے کہ کیا اللہ کی رحمت کی تقسیم ان کے ہاتھوں میں ہے اور آیت میں ہے کہ اور اگر انہیں ملک کے کسی حصے کا مالک بنا دیا ہوتا تو کسی کو ایک کوڑی بھی نہ پرکھاتے ۔ پس ان آیتوں میں جناب باری تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ انسانی دماغ مخلوق کے انتظام کی قابلیت میں نااہل ہے یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ اس کی صفتیں اس کے فرمان اس کے افعال اس کی شریعت اس کی تقدیر اس کی تدبیر تمام مخلوق کو حاوی ہے اور تمام مخلوق کی حاجت بر آری اور ان کی مصلحت کے مطابق ہے اس کے سوا نہ کوئی معبود ہے نہ پالنہار ہے پھر فرمایا اس قرآن کو ان کی نصیحت کے لئے ہم لائے اور یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں پھر ارشاد ہے کہ تو تبلیغ قرآن پر ان سے کوئی اجرت نہیں مانگتا تیری نظریں اللہ پر ہیں وہی تجھے اس کا اجر دے گا جیسے فرمایا جو بدلہ میں تم سے مانگو وہ بھی تمہیں ہی دیا میں تو اجر کا طالب صرف اللہ ہی سے ہوں ۔ ایک آیت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ اعلان کردو کہ نہ میں کوئی بدلہ چاہتا ہوں نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں اور جگہ ہے کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا ۔ صرف قرابت داری کی محبت کا خواہاں ہوں ۔ سورۃ یاسین میں ہے کہ شہر کے دور کے کنارے سے جو شخص دوڑا ہوا آیا اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگوں نبیوں کی اطاعت کرو جو تم سے کسی اجر کے خواہاں نہیں یہاں فرمایا وہی بہترین رازق ہے ۔ تو لوگوں کو صحیح راہ کی طرف بلارہا ہے مسند امام احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے جو دو فرشتے آئے ایک آپ کے پاؤں میں بیٹھا دوسرا سر کی طرف پہلے نے دوسرے سے کہا ان کی اور دوسروں کی امت کی مثالیں بیان کرو اس نے کہا ان کی مثال ان مسافروں کے قافلے کی مثل ہے جو ایک بیابان چٹیل میدان میں تھے ان کے پاس نہ توشہ تھا نہ دانہ پانی نہ آگے بڑھنے کی قوت نہ پیچھے ہٹنے کی طاقت حیران تھے کہ کیا ہوگا اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ ایک بھلا آدمی ایک شریف انسان عمدہ لباس پہنے ہوئے آرہا ہے اس نے آتے ہی ان کی گھبراہٹ اور پریشانی دیکھ کر ان سے کہا کہ اگر تم میرا کہامانو اور میرے پیچھے چلو تو میں تمہیں پھلوں سے لدے ہوئے باغوں اور پانی سے بھرے حوضوں پر پہنچادوں ۔ سب نے اس کی بات مان لی اور اس نے انہیں فی الواقع ہرے بھرے تروتازہ باغوں اور جاری چشموں میں پہنچا دیا یہاں ان لوگوں نے بےروک ٹوک کھایا پیا اور آسودہ حالی کی وجہ سے موٹے تازہ ہوگئے ایک دن اس نے کہا دیکھو میں تمہیں اس ہلاکت وافلاس سے بچا کریہاں لایا اور اس فارغ البالی میں پہنچایا ۔ اب اگر تم میری مانو تو میں تمہیں اس سے بھی اعلیٰ باغات اور اس سے طیب جگہ اور اس سے بھی زیادہ جگہ لہردار نہروں کی طرف لے چلوں اس پر ایک جماعت تو تیار ہوگئی اور انھوں نے کہا ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن دوسری جماعت نے کہاہمیں اور زیادہ کی ضرورت نہیں بس یہیں رہ پڑے ۔ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تمہیں اپنی باہوں میں سمیٹ کرتمہاری کمریں پکڑ پکڑ کر جہنم سے روک رہا ہوں ۔ لیکن تم پرنالوں اور برساتی کیڑوں کی طرح میرے ہاتھوں سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں گر رہے ہو کیا تم یہ چاہتے ہو؟ کہ میں تمہیں چھوڑ دوں؟ سنو میں تو حوض کوثر پر بھی تمہارا پیشوا اور میرسامان ہوں ۔ وہاں تم اکا دکا اور گروہ گروہ بن کر میرے پاس آؤگے ۔ میں تمہیں تمہاری نشانیوں علامتوں اور ناموں سے پہچان لونگا ۔ جیسے کہ ایک نو وارد انجان آدمی اپنے اونٹوں کو دوسروں کے اونٹوں سے تمیز کرلیتا ہے ۔ میرے دیکھتے ہوئے تم میں سے بعض کو بائیں طرف والے عذاب کے فرشتے پکڑ کرلے جانا چاہیں گے تو میں جناب باری تعالیٰ میں عرض کروں گا ۔ کہ اے اللہ یہ میری قوم کے میری امت کے لوگ ہیں ۔ پس جواب دیا جائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ انہیں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالیں تھیں؟ یہ آپ کے بعد اپنی ایڑیوں کے بل لوٹتے ہی رہتے ۔ میں انہیں بھی پہچان لوں گا جو قیامت کے دن اپنی گردن پر بکری لئے ہوئے آئے گا جو بکری چیخ رہی ہوگی وہ میرا نام لے کر آوازیں دے رہا ہوگا ۔ لیکن میں اس سے صاف کہہ دوں گا کہ میں اللہ کے سامنے تجھے کچھ کام نہیں آسکتا میں نے تو اللہ کی باتیں پہنچا دی تھیں ۔ اسی طرح کوئی ہوگا جو اونٹ کو لئے ہوئے آئے گا جو بلبلا رہا ہوگا ۔ ندا کرے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کہہ دوں گا کہ میں اللہ کے ہاں تیرے لئے کچھ اختیار نہیں رکھتا میں نے تو حق بات تمہیں پہنچا دی تھی ۔ بعض آئیں گے جن کی گردن پر گھوڑا سوار ہوگا جو ہنہنا رہا ہوگا وہ بھی مجھے آواز دے گا اور میں یہی جواب دوں بعض آئیں گے اور مشکیں لادے ہوئے پکاریں گے یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کہوں گا تمہارے کسی معاملہ سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ میں تو تم تک حق بات پہنچا چکا تھا ۔ امام علی بن مدینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسی حدیث کی سند ہے توحسن لیکن اس کا ایک راوی حفص بن حمید مجہول ہے لیکن امام یحییٰ بن ابی معین نے اسے صالح کہا ہے اور نسائی اور ابن حبان نے بھی اسے ثقہ کہا ہے ۔ آخرت کا یقین نہ رکھنے والے راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ جب کوئی شخص سیدھی راہ سے ہٹ گیا تو عرب کہتے ہیں نکب فلان عن الطریق ۔ ان کے کفر کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے سختی کو ہٹادے انہیں قرآن سنا اور سمجھا بھی دے تو بھی یہ اپنے کفر وعناد سے ، سرکشی اور تکبر سے باز نہ آئیں گے ۔ جو کچھ نہیں ہوا وہ جب ہوگا تو کس طرح ہوگا اس کا علم اللہ کو ہے ۔ اس لئے اور جگہ ارشاد فرمایا دیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان میں بھلائی دیکھتا تو ضرور انہیں اپنے احکام سناتا اگر انہیں سناتا بھی تو وہ منہ پھیرے ہوئے اس سے گھوم جاتے یہ توجہنم کے سامنے کھڑے ہو کر ہی یقین کریں گے اور اس وقت کہیں گے کاش کہ ہم لوٹا دئیے جاتے اور رب کی باتوں کو نہ جھٹلاتے اور یقین مند ہوجاتے ۔ اس سے پہلے جو چھپا تھا وہ اب کھل گیا ۔ بات یہ ہے کہ اگر یہ لوٹابھی دئیے جائیں تو پھر سے منع کردہ کاموں کی طرف لوٹ آئیں گے ۔ پس یہ وہ بات ہے جو ہوگی نہیں لیکن اگر ہو تو کیا ہو؟ اسے اللہ جانتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ لو سے جو جملہ قرآن کریم میں ہے وہ کبھی واقع ہونے والا نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

681بات سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی اس میں غور کرلیتے تو انھیں اس پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہوجاتی۔ 682یعنی ان کے پاس وہ دین اور شریعت آئی ہے جس سے ان کے آباؤ اجداد زمانہ جاہلیت میں محروم رہے۔ جس پر انھیں اللہ کا شکر ادا کرنا اور دین اسلام کو قبول کرلینا چاہیے تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٨] یعنی اگر لوگ قرآن اور اس کی آیات میں غور کرتے تو انھیں باسانی معلوم ہوسکتا تھا کہ اس میں وہی باتیں مذکور ہیں تو سابقہ تمام انبیاء کی تعلیم وہی ہے اور جنہیں ان کے آباء و اجداد بھی سنتے رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی تعلیم تو ہے نہیں۔ پھر آخر ان کے اس طرح بدلنے کی کیا وجہ ہے ؟ بلکہ اگر وہ سنجیدگی سے اس میں غور کرتے تو انھیں خوب معلوم ہوجاتا کہ یہ کلام طعن وتشنیع کے نہیں۔ تعریف کے قابل ہے۔ جس میں سراسر حکمت بھری ہوئی ہے اور کلام بھی ایسا فصیح وبلیغ ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ ۔۔ : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزیں بیان فرمائی ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی بھی سبب ہوتا تو کفار کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان نہ لانا معقول تھا، مگر جب ان میں سے کوئی بات بھی نہیں تو ان کے پاس انکار، تکبر اور مذاق اڑانے کا کوئی عذر نہیں۔- اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ : یعنی کیا ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کو انھوں نے سمجھا نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ وجہ نہیں، قرآن کوئی پہیلی نہیں، کسی ایسی زبان میں نہیں جو ان کی سمجھ سے باہر ہو۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو آدمی کی سمجھ سے بالا ہو، وہ اس کی ایک ایک بات کو سمجھتے ہیں۔ مخالفت اس لیے نہیں کر رہے کہ انھوں نے سمجھنے کی کوشش کی اور انھیں سمجھ نہیں آیا، بلکہ اس لیے مخالفت کر رہے ہیں کہ وہ ماننا نہیں چاہتے۔- اَمْ جَاۗءَهُمْ مَّا لَمْ يَاْتِ اٰبَاۗءَهُمُ الْاَوَّلِيْنَ : یعنی یا ان کے انکار کی یہ وجہ ہے کہ اس نے کوئی نرالی بات پیش کی ہے جو کبھی کسی کے سننے ہی میں نہیں آئی ؟ ظاہر ہے یہ بات بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء ہمیشہ آتے رہے ہیں، یہ کوئی پہلا رسول نہیں۔ فرمایا : (قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ ) [ الأحقاف : ٩ ] ” کہہ دیجیے میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں۔ “ ان کے گرد و پیش عراق، شام اور مصر میں کئی انبیاء آئے ہیں، ان کی اپنی سرزمین میں ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) آئے، ہود، صالح اور شعیب (علیہ السلام) آئے۔ یہ خود ان کو سچے رسول مانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ مشرک نہ تھے، بلکہ توحید کی دعوت لے کر آئے تھے۔ غرض ان کے انکار کی وجہ یہ بھی نہیں کہ ان کے پاس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کوئی انوکھی بات ہے۔ - تنبیہ : قرآن میں جہاں یہ ذکر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان لوگوں کی طرف بھیجا گیا جن کے آباء کی طرف کوئی رسول نہیں آیا، وہاں مراد قریب زمانے میں رسول کا نہ آنا ہے اور یہاں مراد بعید زمانے میں رسول کا آنا ہے، جو ان کے بھی علم میں ہے، کیونکہ ابراہیم، اسماعیل، ہود، صالح اور شعیب (علیہ السلام) کو وہ لوگ بھی رسول مانتے تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ سے اَمْ يَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ تک ایسی پانچ چیزوں کا ذکر ہے جو مشرکین کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے کسی درجہ میں مانع ہو سکتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک وجہ کے منفی ہونے کا بیان اس کے ساتھ کردیا ہے۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ جو وجوہ ان لوگوں کے لئے ایمان سے مانع ہو سکتی تھیں ان میں سے کوئی بھی وجہ موجود نہیں اور ایمان لانے کے لئے جو اسباب و وجوہ داعی ہیں وہ سب موجود ہیں اس لئے اب ان کا انکار خالص عناد اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں جس کا ذکر اس کے بعد کی آیت میں اس طرح فرمایا ہے بَلْ جَاۗءَهُمْ بالْحَقِّ وَاَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ ۔ یعنی انکار رسالت کی کوئی عقلی یا طبعی وجہ تو موجود نہیں پھر انکار کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق بات لے کر آئے ہیں اور یہ لوگ حق بات ہی کو برا سمجھتے ہیں سننا نہیں چاہتے جس کا سبب ہوا، وہ ہوس کا غلبہ اور جاہلوں کو جو ریاست و اقتدار حاصل ہے اس کی محبت اور جاہلوں کی تقلید ہے۔ یہ پانچ وجوہ جن کا ذکر ایمان اور اقرار بالنبوت سے مانع ہونے کی حیثیت میں کیا گیا ہے ان میں ایک یہ بھی بیان فرمائی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَلَمْ يَدَّ بَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَاۗءَہُمْ مَّا لَمْ يَاْتِ اٰبَاۗءَہُمُ الْاَوَّلِيْنَ۝ ٦٨ۡ- دبر - والتدبیرُ : التفکّر في دبر الأمور، قال تعالی: فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] ، يعني : ملائكة موكّلة بتدبیر أمور،- ( د ب ر ) دبر ۔- التدبیر ( تفعیل ) کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے اس میں غور و فکر کرنا قرآن میں ہے :۔ فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے ) کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ یعنی وہ فرشتے جو امور دینوی کے انتظام کیلئے مقرر ہیں ۔ - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٨) کیا ان لوگوں نے اس قرآن کریم میں اور جو کچھ اس میں وعیدیں بیان کی گئی ہیں غور نہیں کیا یا ان مکہ والوں کے لیے امن و برأت کی کوئی دستاویز آگئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ (اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَ ہُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَ ہُمُ الْاَوَّلِیْنَ ) ” - تو کیا وحی کا نازل ہونا اور رسول ( علیہ السلام) کا من جانب اللہ مبعوث ہونا انہیں اس لیے عجیب لگ رہا ہے کہ ان کے باپ دادا یعنی بنو اسماعیل ( علیہ السلام) پر اس سے پہلے کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ان کی طرف اس سے پہلے کوئی نبی ( علیہ السلام) آیا تھا ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :64 یعنی کیا ان کے اس رویے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں اس لیے وہ اسے نہیں مانتے ؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ نہیں ہے ۔ قرآن کوئی چیستان نہیں ہے ، کسی ناقابل فہم زبان میں نہیں ہے ۔ کسی ایسے مضمون اور موضوع کلام پر مشتمل نہیں ہے جو آدمی کی سمجھ سے بالا تر ہو ۔ وہ اس کی ایک ایک بات اچھی طرح سمجھتے ہیں اور مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ پیش کر رہا ہے اسے نہیں ماننا چاہتے ، نہ اس لیے کہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی اور سمجھ میں نہ آیا ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :65 یعنی کیا ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک نرالی بات پیش کر رہا ہے جس سے انسانی کان کبھی آشنا ہی نہ ہوئے تھے ؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ بھی نہیں ہے ۔ خدا کی طرف سے انبیاء کا آنا ، کتابیں لے کر آنا ، توحید کی دعوت دینا ، آخرت کی باز پرس سے ڈرانا ، اور اخلاق کی معروف بھلائیاں پیش کرنا ، ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تاریخ میں آج پہلی مرتبہ رونما ہوئی ہو ، اور اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا ہو ۔ ان کے گرد و پیش عراق ، شام اور مصر میں انبیاء پر انبیاء آئے ہیں جنہوں نے یہی باتیں پیش کی ہیں اور یہ لوگ اس سے ناواقف نہیں ہیں ۔ خود ان کی اپنی سر زمین میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام آئے ، ہود اور صالح اور شعیب علیہم السلام آئے ، ان کے نام آج تک ان کی زبانوں پر ہیں ، ان کو یہ خود فرستادہ الٰہی مانتے ہیں ، اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مشرک نہ تھے بلکہ خدائے واحد کی بندگی سکھاتے تھے ۔ اس لیے درحقیقت ان کے انکار کی یہ وجہ بھی نہیں ہے کہ ایک بالکل ہی انوکھی بات سن رہے ہیں جو کبھی نہ سنی گئی تھی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الفرقان ، حاشیہ 84 ۔ السجدہ ، حاشیہ 5 ۔ سباء ، حاشیہ 35 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani