7 1 1حق سے مراد دین اور شریعت ہے۔ یعنی اگر دین ان کی خواہشات کے مطابق اترے تو ظاہر بات ہے کہ زمین و آسمان کا سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائے۔ مثلاً وہ چاہتے ہیں کہ ایک معبود کے بجائے متعدد معبود ہوں، اگر فی الواقع ایسا ہو، تو کیا نظام کائنات ٹھیک رہ سکتے ہیں۔
[٧٢] یعنی اگر اللہ تعالیٰ یا اللہ تعالیٰ کے احکام عام لوگوں کی خواہشات کے مطابق نازل ہوں اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی خواہشات کے مطابق احکام کرے تو اللہ تعالیٰ مالک مختار رہ کہاں گیا ؟ اس صورت میں تو اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) بندوں کے ہاتھوں میں کٹ پتلی بن گیا۔ پھر خواہشات بھی ہر شخص کی الگ الگ ہیں۔ اور ایک دوسرے کی خواہشات سے ٹکراتی ہیں اس بات کو ایک سادہ سی کہانی سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں ایک آدمی کی دو بیٹیاں تھیں۔ اس نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح ایک زمنیدار لڑکے سے کردیا اور دوسری کا ایک کمہار سے۔ ایک دفعہ وہ اپنی بیٹیوں سے ملنے گیا۔ پہلے بری بیٹی کے ہاں گیا تو وہ کہنے لگی۔ ابا جان کافی عرصہ سے بارش نہیں ہو رہی فصل کو پانی کی شدید ضرورت ہے۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ رحمت کی بارش برسا دے۔ ورنہ اگر فصل نہ ہوئی تو ہم تو بھوکوں مرجائیں گے۔ اس نے بیٹی سے دعا کا وعدہ کیا۔ پھر دوسری بیٹی کے ہاں گیا۔ تو وہ کہنے لگی : ابا جان ابھی ابھی ہم نے برتنوں والا آوا چڑھایا ہے۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ ابھی کچھ مدت بارش نہ ہو۔ اگر بارش ہوگئی تو ہمارا بہت نقصان ہوجائے گا وہ اس کی بات سن کر کہنے لگا : یا اللہ جیسے تیری مرضی ہے ویسے ہی کر۔ اپنے کاموں کو تو ہی بہتر جانتا ہے - اب اگر مشرکوں کی خواہش کا اتباع کیا جائے تو ان کی تو یہ خواہش ہے کہ ان کے معبودوں کو تصرف امور میں شریک سمجھا ہی نہ جائے بلکہ بنا بھی دیا جائے۔ اب بتلائیے کہ اس صورت میں یہ نظام کائنات ایک ساعت بھی قائم رہ سکتا ہے ؟ ایک گھر میں دو منتظم یا ایک مملکت میں دو بادشاہ بھی سما نہیں سکتے تو کیا اس کائنات میں مشرکوں کے سینکڑوں خداؤں کی خدائی سے کائنات کا نظام ایک منٹ بھی چل سکتا ہے۔ حق صرف اس لئے حق ہے کہ لوگ اس کی اتباع کریں نہ یہ کہ حق لوگوں کی خواہشات کی اتباع کرنے لگے۔ اور اگر بفرض محال ایسی صورت ہو تو کوئی بات بھیحق نہ رہے گی۔- [٧٣] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہم نے ان کی طرف قرآن اس لئے نازل کیا تھا کہ وہ ہدایت حاصل کرتے۔ جیسا کہ کفار مکہ کہا کرتے تھے کہ اگر ذکر ہماری طرف نازل کیا جائے تو ہم یقیناً دوسری سب قوموں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے۔ (٦: ١٥٧) پھر جب ذکر ان کے پاس آگیا تو بجائے اس کے کہ اسے قبول کرلیتے اس سے اعراض کرنے لگے۔- اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہاں ذکر سے مراد عزو شرف ہے اور یہ معنی بھی اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے یعنی ہم نے یہ ذکر تمہاری ہی زبان میں نازل کیا تاکہ تم اسے خوب سمجھ سکو پھر رسول نے تمہیں واضح طور پر بتلا دیا کہ اگر تم اس کی تعلیم پر عمل کرو گے تو تم عرب و عجم کے حکمران بن جاؤ گے اور اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دفعہ عقبہ بن ربیعہ، جو ایک معزز قریش سردار، نہایت بہادر اور فطرتاً نیک دل انسان تھا۔ حرم میں بیٹھ کر اپنے دوسرے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ امید ہے وہ ان میں سے ایک نہ ایک ضرور قبول کرے گا اور اگر اس نے قبول کرلی تو ہم اس مصیبت سے نجات حاصل کرسکیں گے۔- مشرکوں نے کہا : ابو الولید ضرور یہ کام کرو۔ چناچہ آپ کے پاس اگر چند باتیں پیش کیں۔ جن کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں۔ ان سب باتوں کے جواب میں آپ نے سورة حم السجدہ کی چند آیات پڑھیں جنہیں عقبہ چپ چاپ سنتا رہا۔ جب آپ اس آیت پر پہنچے (فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13ۭ ) 41 ۔ فصلت :13) یعنی اگر یہ لوگ اعراض کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں عاد وثمود کی کڑک جیسی ایک کڑک کے خطرہ سے آگاہ کر رہا ہوں تو عتبہ کے آنسو بہنے لگے اور آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ قرآن کی یہ آیات اس کے دل کو خوب متاثر کر رہی تھیں اور اسے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں ایسا عذاب اسی وقت نہ آن پڑے۔ وہ چپ چاپ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مگر اب وہ پہلا عتبہ نہ رہا تھا۔ جاکر قریشیوں سے کہنے لگا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلام پیش کرتا ہے وہ شاعری نہیں کچھ اور ہی چیز ہے تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس میں تمہاری ہی عزت ہے اور اگر وہ خود ہی ختم ہوگیا تو یہی کچھ تم چاہتے ہو وہ کہنے لگے : ابوالولید معلوم ہوتا ہے تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔ (تفسیر ابن کثیر، ج ٦ د ١٥٩ تا ١٦١)- مگر جب یہ عزوشرف بخشنے والا ذکر آگیا تو انہوں نے اس سے اعراض اور نفرت کا اظہار شروع کردیا۔
وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَهْوَاۗءَهُمْ ۔۔ : یعنی اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلے تو زمین و آسمان کا یہ سلسلہ تباہ ہوجائے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے کی خواہش سے ٹکراتی ہے اور ان کا علم محدود ہے، نہ پوری موجود کائنات کا علم رکھتے ہیں، نہ آئندہ کی کچھ خبر رکھتے ہیں۔ ان کی خواہشات پر عمل کا نتیجہ بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ دور کیوں جائیے، ملکوں کے منتخب نمائندے ایک قانون بناتے ہیں، جب اس کی خرابیاں سامنے آتی ہیں تو اسے ختم کر کے اور بنا دیتے ہیں، کچھ دیر کے بعد اسے بھی بدلنا پڑتا ہے۔ کتنے قانون انھوں نے خود بنائے، جن کے نتیجے میں وہ خود پھانسی کے پھندے میں جھول گئے۔ پھر یہ لوگ تو اللہ کے سوا کئی معبودوں کی پرستش کرتے ہیں، اگر ان کی خواہش کے مطابق ایک سے زیادہ معبودوں کے ہاتھ میں کائنات کا نظام دے دیا جائے تو سوچ لو کہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ سلسلہ چل سکتا ہے ؟ یہ کائنات تو صرف ایک مالک کے حکم پر چل رہی ہے، جو خود حق ہے، اس کا کلام حق ہے اور اس کا سب کچھ برحق ہے۔ دیکھیے سورة انبیاء کی آیت (٢٢) : (لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا ) کی تفسیر۔ - بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ ۔۔ : ذکر کے دو معنی ہیں، ایک نصیحت اور ایک عز و شرف اور ناموری، یہاں دونوں درست ہیں۔ نصیحت اس لیے کہ کفار مکہ کہہ سکتے تھے : ( لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَهْدٰي مِنْهُمْ ) [ الأنعام : ١٥٧ ] ” اگر ہم پر کتاب نازل کی جاتی تو ہم پہلی امتوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے۔ “ اللہ تعالیٰ نے ان کو شکوے کا موقع ہی نہیں دیا اور خود ہی وہ کتاب نازل فرما دی جو ان کے لیے نصیحت ہے، مگر چونکہ اس میں ان کے عیوب اور خامیوں کی اصلاح کی بات تھی، اس لیے تکبر اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ اسے تسلیم کرنے کے بجائے اپنی ہی نصیحت اور خیر خواہی کی بات سے منہ موڑنے والے بن گئے۔ فعل ماضی ” أَعْرَضُوْا “ کے بجائے اسم فاعل ” مُّعْرِضُوْنَ “ کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے صرف ایک دو بار ہی منہ نہیں موڑا، بلکہ پکے منہ موڑنے والے بن گئے۔ ذکر کا دوسرا معنی عز و شرف اور شہرت و ناموری ہے، یعنی یہ قرآن ایمان لانے والوں، خصوصاً عرب کے لیے تمام دنیا میں قیامت تک کے لیے عز و شرف اور ناموری کا باعث ہے، مگر یہ ایسے بدنصیب ہیں کہ انھیں اپنی ناموری اور اپنا عز و شرف بھی راس نہیں آتا۔ یہ دوسرا مطلب یہاں زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)
وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَہْوَاۗءَہُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہِنَّ ٠ۭ بَلْ اَتَيْنٰہُمْ بِذِكْرِہِمْ فَہُمْ عَنْ ذِكْرِہِمْ مُّعْرِضُوْنَ ٧١ۭ- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔
(٧١) اور اگر بالفرض والتقدیر خدا ان کے خیالات کے مطابق ہوجاتا کہ آسمان میں بھی ایک اللہ اور زمین پر بھی ایک اللہ تعالیٰ تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں مخلوقات ہیں سب تباہ ہوجاتے بلکہ ہم نے ان کے نبی کے پاس بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) قرآن کریم بھیجا جس میں ان کی عزت اور شرافت ہے سو یہ لوگ اپنی شرافت وعزت کی چیز کو بھی جھٹلاتے ہیں۔
آیت ٧١ (وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَہْوَآءَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ ط) ” - اگر حق کہیں ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین و آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ حق ان لوگوں کی خواہشات کے مطابق نہیں ڈھل سکتا ‘ بلکہ انہیں خود کو حق کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور اس کی پیروی کرنا ہوگی۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :68 اس مختصر سے جملے میں ایک بڑی بات کہی گئی ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ دنیا میں نادان لوگوں کی بالعموم یہ روش ہوتی ہے کہ جو شخص ان سے حق بات کہتا ہے وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ گویا ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات وہ کہی جائے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو ، نہ کہ وہ جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہو ۔ حالانکہ حقیقت بہرحال حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا ناپسند ۔ تمام دنیا کی متفقہ خواہش بھی کسی واقعہ کو غیر واقعہ اور کسی امر حق کو غیر حق نہیں بنا سکتی ، کجا کہ حقائق اور واقعات ایک ایک شخص کی خواہشات کے مطابق ڈھلا کریں اور ہر آن بے شمار متضاد خواہشوں سے ہم آہنگ ہوتے رہیں ۔ حماقت مآب ذہن کبھی یہ سوچنے کے زحمت گوارا نہیں کرتے کہ حقیقت اور ان کی خواہش کے درمیان اگر اختلاف ہے تو یہ قصور حقیقت کا نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس کا ہے ۔ وہ اس کی مخالفت کر کے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ، اپنا ہی کچھ بگاڑ لیں گے ۔ کائنات کا یہ عظیم الشان نظام جن اٹل حقائق اور قوانین پر مبنی ہے ان کے زیر سایہ رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی ظاہر ہی نہیں ہے کہ اپنے خیالات ، خواہشات اور طرز عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے ، اور اس غرض کے لیے ہر وقت دلیل ، تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے ۔ صرف ایک بے وقوف ہی یہاں یہ طرز فکر و عمل اختیار کر سکتا ہے کہ جو کچھ وہ سمجھ بیٹھا ہے ، یا جو کچھ اس کا جی چاہتا ہے کہ ہو ، یا جو کچھ اپنے تعصبات کی بنا پر وہ فرض کر چکا ہے کہ ہے یا ہونا چاہیے ، اس پر جم کر رہ جائے اور اس کے خلاف کسی کی مضبوط سے مضبوط اور معقول سے معقول دلیل کو بھی سننا گوارا نہ کرے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :69 یہاں لفظ ذکر کے تین معنی ممکن ہیں اور تینوں ہی صحیح بیٹھتے ہیں : 1 : ذکر بمعنی بیان فطرت ۔ اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم کسی دوسرے عالم کی باتیں نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کی اپنی ہی حقیقت اور فطرت اور اس کے مقتضیات ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں ، تاکہ وہ اپنے اس بھولے ہوئے سبق کو یاد کریں ، مگر وہ اسے قبول کرنے سے کترا رہے ہیں ۔ ان کا یہ فرار کسی غیر متعلق چیز سے نہیں بلکہ اپنے ہی ذکر سے ہے ۔ 2 : ذکر بمعنیٰ نصیحت ۔ اس کی رو سے آیت کی تفسیر یہ ہو گی کہ جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے یہ ان ہی کے بھلے کے لیے ایک نصیحت ہے ، اور ان کا یہ فرار کسی اور چیز سے نہیں اپنی ہی بھلائی کی بات سے ہے ۔ 3 : ذکر بمعنی شرف و اعزاز ۔ اس معنی کو اختیار کیا جائے تو آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ ہم وہ چیز ان کے پاس لائے ہیں جسے یہ قبول کریں تو ان ہی کو عزت اور سرفرازی نصیب ہو گی ۔ اس سے ان کی یہ روگردانی کسی اور چیز سے نہیں ، اپنی ہی ترقی اور اپنے ہی اٹھان کے ایک زرین موقع سے رو گردانی ہے ۔