[٧٤] آپ کی دعوت سے ان لوگوں کے انکار کی ایک چوتھی وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ آپ ان سے اپنی اس محنت تبلیغ کا معاوضہ مانگتے ہوں اور وہ اسے تاوان سمجھ کر اس سے انکار کردیں۔ یہ بات بھی نہ تھی۔ نہ صرف یہ کہ آپ بےلوث ہو کر دعوت دین کا کام سرانجام دے رہے تھے بلکہ اس سے کئی مسائل پیدا ہوگئے۔ نبوت سے پہلے آپ تجارت کرتے تھے۔ نبوت کے بعد یہ شغل چھوٹ گیا۔ پہلے آپ مالدار تھے، بعد میں افلاس میں مبتلا ہوگئے۔ پہلے آپ اپنی قوم کی آنکھوں کا تارا تھے۔ بعد میں وہی قوم آپ کی دشمن بن گئی۔ قوم نے آپ سے سمجھوتہ کی خاطر بیشمار مال و دولت قدموں میں ڈھیر کرنے کا لالچ دیا مگر آپ نے اسے ٹھکرا دیا۔ اس سے ان لوگوں کو اتنا بھی پتہ نہیں چل سکتا کہ جو شخص کئی طرح مصبتیں سہہ کر اور بغیر معاوضہ کے ایسی خدمت سرانجام دے رہا ہے اس کی کوئی غرض دنیا سے وابستہ نہیں ہوسکتی۔ اور جس ہستی کے لئے وہ اتنی مشقتیں برداشت کر رہا ہے اس کا معاوضہ بھی اسی کے ذمہ ہے اور وہ ایسے ذرائع سے رزق مہیا کرتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں نہیں آسکتے۔
ۭاَمْ تَسْـَٔــلُهُمْ خَرْجًا ۔۔ : ” خَرْجٌ“ اور ” خَرَاجٌ“ کسی شخص کو ادا کیا جانے والا روزانہ، ماہانہ یا سالانہ عطیہ۔ یہ ان کے انکار کی پانچویں وجہ ہے، جو ممکن ہوسکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یا پھر یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ آپ ان سے روزانہ، ماہانہ یا سالانہ کسی تنخواہ کا سوال کرتے ہوں، جسے وہ بوجھ محسوس کرتے ہوں، تو ان سے کہہ دیجیے کہ مجھے تم سے کسی اجرت کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ان کا دیا ہوا تو ختم ہوجائے گا مگر دنیا اور آخرت میں آپ کے رب کی طرف سے عطا کیا جانے والا رزق کبھی ختم ہونے والا نہیں اور اس سے بہتر روزی دینے والا کوئی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب آپ دعوت حق کا یہ کام بالکل بےلوث ہو کر کر رہے ہیں اور ان سے کوئی حق الخدمت طلب نہیں کرتے تو ان کا آپ کی دعوت کو ٹھکرانا سراسر حماقت اور عاقبت نااندیشی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کئی جگہ صاف اعلان کرنے کا حکم دیا ہے کہ میں تم سے کسی اجرت یا بدلے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ مثلاً سورة ص (٨٦) وغیرہ۔
اَمْ تَسْـَٔــلُہُمْ خَرْجًا فَخَــرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ ٠ۤۖ وَّہُوَخَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ ٧٢- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو
(٧٢) کیا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان مکہ والوں سے کچھ آمدنی چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ آپ کی بات کو قبول نہیں کرتے، سو یہ بھی غلط ہے کیوں کہ آمدنی تو آپ کی جو جنت میں ہے اس تمام دولت سے بہتر ہے جو ان کے پاس دنیا میں ہے اور وہ دنیا و آخرت میں سب دینے والوں سے اچھا ہے۔
آیت ٧٢ (اَمْ تَسْءََلُہُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّکَ خَیْرٌق وَّہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ) ” - دراصل یہاں ان الفاظ میں خطاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہیں ہے بلکہ مشرکین مکہّ سے ہے کہ عقل کے اندھو ‘ ذرا سوچو تو تمہارے شاعر اور قصہ گو تو تم لوگوں سے اجر و انعام چاہتے ہیں۔ مگر تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے کبھی ایسی کوئی بات سنی ہے ؟ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اس خدمت کے عوض تم سے کوئی اجرت طلب کی ہے ؟ ان کو تو ان کے رب کی طرف سے جو اجر و انعام ملنے والا ہے وہ پوری دنیا کے خزانوں سے بہتر ہے۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :70 یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے حق میں ایک اور دلیل ہے ۔ یعنی یہ کہ آپ اپنے اس کام میں بالکل بے لوث ہیں ۔ کوئی شخص ایمانداری کے ساتھ یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیل رہے ہیں کہ کوئی نفسانی غرض آپ کے پیش نظر ہے ۔ اچھی خاصی تجارت چمک رہی تھی ، اب افلاس میں مبتلا ہو گئے ۔ قوم میں عزت کے ساتھ دیکھے جاتے تھے ۔ ہر شخص ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا ۔ اب گالیاں اور پتھر کھا رہے ہیں ، بلکہ جان تک کے لالے پڑے ہیں ۔ چین سے اپنے بیوی بچوں میں ہنسی خوشی دن گزار رہے تھے ۔ اب ایک ایسی سخت کشمکش میں پڑ گئے ہیں جو کسی دم قرار نہیں لینے دیتی ۔ اس پر مزید یہ کہ بات وہ لے کر اٹھے ہیں جس کی بدولت سارا ملک دشمن ہو گیا ہے ، حتّیٰ کہ خود اپنے ہی بھائی بند خون کے پیاسے ہو رہے ہیں ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک خود غرض آدمی کے کرنے کا کام ہے ؟ خود غرض آدمی اپنی قوم اور قبیلے کے تعصبات کا عَلَم بردار بن کر اپنی قابلیت اور جوڑ توڑ سے سرداری حاصل کرنے کی کوشش کرتا ، نہ کہ وہ بات لے کر اٹھتا جو صرف یہی نہیں کہ تمام قومی تعصبات کے خلاف ایک چیلنج ہے ، بلکہ سرے سے اس چیز کی جڑ ہی کاٹ دیتی ہے جس پر مشرکین عرب میں اس کے قبیلے کی چودھراہٹ قائم ہے ۔ یہ وہ دلیل ہے جس کو قرآن میں نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ، بلکہ بالعموم تمام انبیاء علیہم السلام کی صداقت کے ثبوت میں بار بار پیش کیا گیا ہے ۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام ، آیت 90 ۔ یونس 72 ۔ ہود 29 ۔ 51 ۔ یوسف 104 ۔ افرقان57 ۔ الشعراء ، 109 ۔ 127 ۔ 145 ۔ 164 ۔ 180 ۔ سباء 47 ۔ یٰسین 21 ۔ ص ، 86 الشوریٰ 23 ، النجم 40 مع حواشی ۔