[٧٥] یعنی وہ ایسی موٹی موٹی باتیں ہیں جو ہر پیغمبر پر وحی کی جاتی رہی ہیں۔ ان میں کوئی ایچ پیچ نہیں۔ کوئی پیچیدگی اور ابہام نہیں۔ ان کے دلائل نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔ جو ایک دیہاتی اور بدو کو بھی متاثر کردیتے ہیں۔ ان کے سمجھنے کے لئے کسی لمبی چوڑی تعلیم کی بھی ضرورت نہیں۔ مثلاً ایک بدو سے کسی نے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے ؟ کہنے لگا : ہاں ہے پوچھنے والے نے دوبارہ وال کیا بھلا کیسے ؟ بدو کہنے لگا : اگر ہم راہ میں کوئی اونٹ کی مینگنی پڑی دیکھیں تو ہم اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہاں سے یقیناً کوئی اونٹ گزرا ہے۔ اسی طرح جب ہم یہ کائنات کا اتنا وسیع کارخانہ دیکھتے ہیں لازماً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس کا کوئی بنانے والا ضرور ہونا چاہئے - اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گھر میں دو حاکم ہوں تو اس کا نظام کبھی درست نہیں رہتا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کچھ اور بھی مالک و مختار ہوں ؟ اگر ایسی صورت ہو تو کائنات کا نظام تو ایک دن بھی نہ چل سکے۔- اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر زمانہ میں مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ پیدا کرتا رہتا ہے۔ انسان جو غذائیں کھاتا ہے سب بےجان ہیں۔ کئی مراحل کے بعد انھیں غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے۔ پھر اسی نطفہ سے ایک جیتا جاگتا انسان پیدا ہوجاتا ہے۔ جس میں اس کے ماں باپ کے خصائل و عادات اور نقش وغیرہ تک جھلک موجود ہوتی ہے۔ اسی سے باسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جو کام اس دنیا میں ہر آں ہمارے سامنے ہو رہے ہیں وہ آخر انسان کی موت کے بعد کیوں ناممکن ہیں۔ غرض دین کی اصولی تعلیمات پر غور فرمائیے تو سب باتیں سیدھی، سادہ اور عام فہم نظر آئیں گی اور یہی اصولی باتیں ہی اللہ کی سیدھی راہ ہے۔
وَاِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : یعنی ان پانچوں باتوں میں سے ایک کا وجود بھی نہیں، جس کی وجہ سے یہ آپ کو جھٹلا سکیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ انھیں بالکل سیدھے راستے کی طرف دعوت دیتے ہیں، جسے کوئی الٹی سمجھ والا ہی ٹھکرا سکتا ہے۔ صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے۔
وَاِنَّكَ لَتَدْعُوْہُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ٧٣- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سہدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے
(٧٣) بلکہ آپ تو ان کو صراط مستقیم یعنی دین اسلام کی طرف بلا رہے ہیں۔