8 7 1یعنی جب تمہیں تسلیم ہے کہ زمین کا اور اس میں موجود تمام اشیا کا خالق بھی ایک اللہ ہے آسمان اور عرش عظیم کا مالک بھی وہی ہے، تو پھر تمہیں یہ تسلیم کرنے میں تامل کیوں ہے کہ عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک اللہ ہے، پھر تم اس کی واحدانیت کو تسلیم کر کے اس کے عذاب سے بچنے کا اہتمام کیوں نہیں کرتے۔
[٨٤] پہلی آیت میں صرف زمین اور اس میں موجودات کی ملکیت کے متعلق سوال تھا۔ اس آیت میں پوری کائنات کی ملکیت کا سوال ہے۔ کفار مکہ کو یہ بھی اعتراف تھا کہ اس پوری کائنات کا مالک و مختار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے معبودوں کے اس کائنات میں تصرف کے اختیار کہاں سے آگئے ؟ انھیں اس بات سے ڈر نہیں لگتا کہ اللہ کے تصرف و اختیار میں ایسی چیزوں کو شریک بنا رہے ہیں۔ جو دوسروں کے تو کیا، اپنے بھی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ ایسے صریح ظلم اور اس کے انجام سے انھیں ڈر نہیں لگتا ؟
سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ ٠ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ٨٧- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
(٨٧) اس کا بھی وہ یہی جواب دیں گے کہ ان سب کا خالق ومالک اللہ ہے تو آپ ان سے فرما دیجیے کہ پھر تم غیر اللہ کی پرستش سے کیوں نہیں ڈرتے۔
آیت ٨٧ ( سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ط قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ) ” - تم لوگ اللہ کو اس دنیا ومافیہا کا خالق بھی مانتے ہو اور اسے عرش و فرش کا مالک بھی تسلیم کرتے ہو ‘ لیکن اس کے ساتھ بتوں اور دیوی دیوتاؤں کو اس کا شریک بھی بناتے ہو کیا تمہیں یہ جسارت کرتے ہوئے ذرا بھی خوف محسوس نہیں ہوتا ؟
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :79 اصل میں لفظ لِلہ استعمال ہوا ہے ، یعنی یہ سب چیزیں بھی للہ کی ہیں ۔ ہم نے ترجمے میں محض اردو زبان کے حسن کلام کی خاطر وہ اسلوب اختیار کیا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :80 یعنی ، پھر کیوں تمہیں اس سے بغاوت کرتے اور اس کے سوا دوسروں کی بندگی کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا ؟ اور کیوں تم کو یہ خوف لاحق نہیں ہوتا کہ آسمان و زمین کے فرمانروا نے اگر کبھی ہم سے حساب لیا تو ہم کیا جواب دیں گے ؟