8 8 1یعنی جس کی حفاظت کرنا چاہے اسے اپنی پناہ میں لے لے، کیا اسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ 8 8 2یعنی جس کو وہ نقصان پہنچانا چاہے، کیا کائنات میں اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی ہے کہ وہ اسے نقصان سے بچا لے اور اللہ کے مقابلے میں اپنی پناہ میں لے لے ؟
[٨٥] اس آیت میں ملکوت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس میں ملک، ملک اور ملک تینوں معنی پائے جاتے ہیں۔ نیز یہ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے ہر چیز پر مکمل حاکمیت یا بادشاہی۔ ہر چیز کی پوری کی پوری ملکیت اور ہر چیز پر پورے کا پورا اختیار و تصرف۔ لہذا وہ جونسی بھی چیز کو چاہے اسے اپنا پناہ میں لے سکتا ہے اور کوئی دوسرا اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ مگر جس چیز کو وہ پکڑے تو اسے نہ کوئی اس سے چھڑ سکتا ہے اور نہ ہی پکڑنے سے پیشتر پناہ دے سکتا ہے۔- اس آیت میں مشرکین مکہ کے اعتراف سے معلوم ہوا کہ ان کا عقیدہ تھا کہ جس کو اللہ پکڑ لے اس کو نہ کوئی پناہ دے سکتا ہے اور نہ چھڑا سکتا ہے۔ مگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آج کے مشرکین، مکہ کے مشرکوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں جو یہ کہتے ہیں :- خدا جے پکڑے چھڑا لے محمد - محمد جے پکڑے چھڑا کوئی نہیں سکدا - یعنی اگر اللہ کسی کو پکڑ لے تو اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چھڑا لیں گے اور اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکڑ لیں تو اسے کوئی چھڑا نہیں سکتا۔- اس شعر سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پکڑنے اور لوگوں سے مواخذہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ دوسری یہ کہ ان کے یہ اختیارات اتنے وسیع ہیں کہ ان کے پکڑے ہوئے کو کوئی (یعنی اللہ تعالیٰ جیسا کہ شعر میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ پر خدا کا لفظ استعمال ہوا ہے) بھی چھڑا نہیں سکتا۔ پھر جب اس شعر پر اعتراض کیا جاتا ہے جو اس کی ایسی توجییہ بیان کرکے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو عذر گناہ، بدتر از گناہ کا مصداق ہوتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا رد پیش کیا جارہا ہے۔
قُلْ مَنْۢ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ : ” مُلْکٌ“ اور ” مِلْکٌ“ دونوں کے مفہوم میں مبالغہ پیدا کرنے کے لیے لفظ ” مَلَكُوْتُ “ استعمال کیا گیا ہے، یعنی ایسی کامل ملکیت اور کامل بادشاہی جس میں کوئی نقص نہ ہو۔ ” بِيَدِهٖ “ کو پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” کہہ کون ہے وہ کہ صرف اس کے ہاتھ میں ہر چیز کی مکمل بادشاہی ہے۔ “- وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ : ” أَجَارَ یُجِیْرُ “ (افعال) پناہ دینا، کسی کو ہر ایک سے بچا کر اپنی حفاظت میں لے لینا۔ ابن کثیر فرماتے ہیں : ” عرب کا دستور تھا کہ ان کا سردار کسی کو پناہ دے دیتا تو اس کی پناہ کی خلاف ورزی نہیں کی جاتی تھی اور کسی کو اس کے مقابلے میں پناہ دینے کا اختیار نہیں ہوتا تھا۔ “- 3 جب ان سے نیچے اور اوپر کے دونوں جہانوں کے مالک ہونے کا اقرار کروا لیا تو حکم دیا گیا کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے ہر چیز کے رب ہونے کا اعتراف کر واؤ، تاکہ اس میں وہ چیزیں آجائیں جن کا ذکر ہوا ہے اور وہ بھی جن کا ذکر نہیں ہوا۔ چناچہ فرمایا، کہہ دے وہ کون ہے کہ صرف اس کے ہاتھ میں ہر چیز کی مکمل ملکیت اور کامل بادشاہی ہے اور وہ پناہ دیتا ہے (یعنی جسے وہ پناہ دے دے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا) اور اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دی جاتی (یعنی جسے وہ پکڑ لے اسے کوئی اپنی پناہ میں نہیں لے سکتا، نہ اس سے چھڑا سکتا ہے) ۔
معارف و مسائل - وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ ، یعنی اللہ تعالیٰ جس کو چاہے عذاب اور مصیبت رنج و تکلیف سے پناہ دیدے اور یہ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے مقابلہ پر کسی کو پناہ دے کر اس کے عذاب و تکلیف سے بچا لے۔ یہ بات دنیا کے اعتبار سے بھی صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو کوئی نفع پہنچانا چاہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا اور جس کو کوئی تکلیف و عذاب دینا چاہے اس سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ اور آخرت کے اعتبار سے بھی یہ مضمون صحیح ہے کہ جس کو وہ عذاب میں مبتلا کرے گا اس کو کوئی بچا نہ سکے گا اور جس کو جنت اور راحت دے گا اس کو کوئی روک نہ سکے گا (قرطبی)
قُلْ مَنْۢ بِيَدِہٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُوَيُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٨٨- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - جار - الجار : من يقرب مسکنه منك، وهو من الأسماء المتضایفة، فإنّ الجار لا يكون جارا لغیره إلا وذلک الغیر جار له، قال تعالی: لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب 60] ، وقال تعالی: وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد 4] - ( ج و ر ) الجار - پڑسی ۔ ہمسایہ ہر وہ شخص جس کی سکونت گاہ دوسرے کے قرب میں ہو وہ اس کا جار کہلاتا ہے یہ ، ، اسماء متضا یفہ ، ، یعنی ان الفاظ سے ہے جو ایک دوسرے کے تقابل سے اپنے معنی دیتے ہیں قرآن میں ہے ۔ - قرآن میں ہے : ۔ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب 60] وہ اس ( شہر ) میں عرصہ قلیل کے سوا تمہارے ہمسایہ بن کر نہیں رہ سکیں گے ۔ وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد 4] اور زمین ایک دوسرے سے متصل قطعات ہیں ۔
(٨٨۔ ٨٩) آپ ان سے یہ بھی فرمائیے اچھا وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں تمام چیزوں کا اختیار ہے اور وہ جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی بھی فیصلہ نہیں کرسکتا یہ مطلب ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے اپنے عذاب سے پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی کسی کو اس کے عذاب سے پناہ نہیں دے سکتا، اس بات کا جواب دو اگر تمہیں کچھ خبر ہے۔- البتہ وہ ضرور یہی کہیں گے کہ یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں تو آپ ان سے اس وقت کہیے کہ پھر تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیوں تکذیب کر رہے ہو، یا یہ کہ آپ دیکھے یہ کیسے جھوٹ کی طرف جا رہے ہیں۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :81 اصل میں لفظ مَلَکُوْت استعمال ہوا ہے جس میں ملک ( بادشاہی ) اور ملک ( مالکیت ) ، دونوں مفہوم شامل ہیں ، اور اس کے ساتھ یہ انتہائی مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ اس تفصیل کے لحاظ سے آیت کے پیش کردہ سوال کا پورا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز پر کامل اقتدار کس کا ہے اور ہر چیز پر پورے پورے مالکانہ اختیارات کس کو حاصل ہیں ؟