9 8 1یعنی پھر تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس اعتراف اور علم کے باوجود تم دوسروں کو اس کی عبادت میں شریک کرتے ہو ؟ قرآن کریم کی اس صراحت سے واضح ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، اسکی خالقیت و مالکیت اور رزاقیت کے منکر نہیں تھے بلکہ وہ سب باتیں تسلیم کرتے تھے۔ انھیں صرف توحید الوہیت سے انکار تھا۔ یعنی عبادت صرف ایک اللہ کی نہیں کرتے تھے بلکہ اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے اس لئے نہیں کہ آسمان و زمین کی تخلیق یا تدبیر میں کوئی اور بھی شریک ہے بلکہ صرف اس مغالطے کی بنا پر کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے ان کو اللہ نے اختیار دے رکھے ہیں اور ہم ان کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔
[٨٦] کفار مکہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ ہر چیز کی ملکیت اور اس پر پورے کا پورا اختیار و اقتدار اللہ ہی کو ہے۔ پھر یہ لوگ دوسروں کو اللہ کے اختیار و تصرف میں شریک کرکے اپنی مسلمہ بات کی خود ہی تردید بھی کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کو مخاطب کرکے پوچھ رہے ہیں کہ تم جو اپنے پیغمبر کو کبھی ساحر اور کبھی مسحور کہتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ مسحور پیغمبر نہیں بلکہ مسحور تم خود ہو۔ جو ایسی حقیقت کا انکار کر رہے ہو جس کا تمہیں خود بھی اعتراف ہے۔ اور جسے تم حقیقت سمجھ رہے ہو تو محض تمہارے باطل نظریات ہیں۔ حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود حقیقت تم سے اوجھل ہے۔ ایسا جادو آخر کہاں سے تم پر چل گیا ہے ؟
سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ : یعنی وہ کہیں گے اس کا مالک بھی اللہ ہی ہے ۔- قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ : ” تُسْحَرُوْنَ “ کا لفظی معنی ہے ” جادو کیے جاتے ہو۔ “ جادو کا اثر دماغ پر ہوتا ہے، آدمی دھوکا کھا جاتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ پھر تمہاری مت کہاں سے ماری جا رہی ہے اور تمہارے ہوش و حواس کیسے گم ہوگئے کہ ایسی موٹی بات نہیں سمجھ سکتے۔ جب زمین و آسمان اور عرش عظیم کا مالک وہی ہوا اور ہر چیز اسی کے قبضہ و اختیار میں ہوئی تو عبادت میں اس کا شریک کہاں سے نکل آیا اور تمہارے بدن کی ہڈیاں اور ریزے اس کی قدرت و اختیار سے نکل کر کہاں چلے جائیں گے کہ وہ انھیں زندہ نہیں کرسکے گا۔ - 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب کا عقیدہ یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ جسے پکڑ لے اسے کوئی پناہ دے کر چھڑا نہیں سکتا اور جسے اپنی پناہ میں لے لے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ مگر افسوس کہ بعض مسلمان کہلانے والے شرک میں اس حد تک بڑھ گئے کہ مخلوق کو خالق سے بھی زیادہ اختیار رکھنے والا بنادیا، چناچہ ایسے ہی ایک تک باندھنے والے نے کہا ہے - خدا جس کو پکڑے چھڑا لے محمد - محمد کا پکڑا چھڑا کوئی نہیں سکتا - عجیب بات یہ ہے کہ اس صریح شرک اور اللہ تعالیٰ کی شدید گستاخی کے باوجود انھیں اصرار ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کے مسلمان ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا تُطْرُوْنِيْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُہُ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( واذکر في الکتاب مریم۔۔ ) : ٣٤٤٥ ] ” مجھے حد سے مت بڑھاؤ، جیسے نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کو حد سے بڑھا دیا، میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، چناچہ یہی کہو کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ “
سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ ٠ۭ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ ٨٩- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔
آیت ٨٩ (سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِط قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ ) ” - یہ کون سا جادو اور فریب ہے جس کے اثر سے تم لوگ یہ سب کچھ تسلیم کر کے پھر شرک پر آمادہ ہوجاتے ہو ؟
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :82 اصل الفاظ ہیں اَنّیٰ تُسْحَرُوْنَ ، جن کا لفظی ترجمہ ہے کہاں سے تم مسحور کیے جاتے ہو ۔ سحر اور جادو کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک چیز کو اس کی اصل ماہیت اور صحیح صورت کے خلاف بنا کر دکھاتا ہے اور دیکھنے والے کے ذہن میں یہ غلط تاثر پیدا کرتا ہے کہ اس شے کی اصلیت وہ ہے جو بناوٹی طور پر ساحر پیش کر رہا ہے ۔ پس آیت میں جو سوال کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کس نے تم پر یہ سحر کر دیا ہے کہ یہ سب باتیں جاننے کے باوجود حقیقت تمہاری سمجھ میں نہیں آتی؟ کس کا جادو تم پر چل گیا ہے کہ جو مالک نہیں ہیں وہ تمہیں مالک یا اس کے شریک نظر آتے ہیں اور جنہیں کوئی اقتدار حاصل نہیں ہے وہ اصل صاحب اقتدار کی طرح ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تم کو بندگی کے مستحق محسوس ہوتے ہیں ؟ کس نے تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے کہ جس خدا کے متعلق خود مانتے ہو کہ اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے اس سے غداری و بے وفائی کرتے ہو اور پھر بھروسہ ان کی پناہ پر کر رہے ہو جو اس سے تم کو نہیں بچا سکتے ؟ کس نے تم کو اس دھوکے میں ڈال دیا ہے کہ جو ہر چیز کا مالک ہے وہ تم سے کبھی نہ پوچھے گا کہ تم نے میری چیزوں کو کس طرح استعمال کیا ، اور جو ساری کائنات کا بادشاہ ہے وہ کبھی تم سے اس کی باز پرس نہ کرے گا کہ میری بادشاہی میں تم اپنی بادشاہیاں چلانے یا دوسروں کی بادشاہیاں ماننے کے کیسے مجاز ہو گئے ؟ سوال کی یہ نوعیت اور زیادہ معنی خیز ہو جاتی ہے جب یہ بات پیش نظر رہے کہ قریش کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کا الزام رکھتے تھے ۔ اس طرح گویا سوال کے ان ہی الفاظ میں یہ مضمون بھی ادا ہو گیا کہ بیوقوفو جو شخص تمہیں اصل حقیقت ( وہ حقیقت جسے تمہارے اپنے اعترافات کے مطابق حقیقت ہونا چاہیے ) بتاتا ہے وہ تو تم کو نظر آتا ہے جادوگر ، اور جو لوگ تمہیں رات دن حقیقت کے خلاف باتیں باور کراتے رہتے ہیں ، حتیٰ کہ جنہوں نے تم کو صریح عقل اور منطق کے خلاف ، تجربے اور مشاہدے کے خلاف ، تمہاری اپنی اعتراف کردہ صداقتوں کے خلاف ، سراسر جھوٹی اور بے اصل باتوں کا معتقد بنا دیا ہے ۔ ان کے بارے میں کبھی تمہیں یہ شبہ نہیں ہوتا کہ اصل جادو گر تو وہ ہیں ۔