Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٧] سابقہ آیات میں تین باتوں کا اعتراف کرنے سے مشرکین پر حجت قائم ہوجاتی ہے ایک طرف تو وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور ہر طرح کا تصرف و اختیار اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے معبودوں کا بھی مالک اللہ تعالیٰ ہے اور وہ ایسے ہی مملوک ہیں جیسے کائنات کی دوسری اشیاء اور مخلوقات اور مملوک کبھی مالک کے اختیارات میں شریک نہیں ہوسکتا۔ یہی وہحق بات ہے جو ہم نے انھیں بتلائی ہے اور جس کا اعتراف وہ خود کر رہے ہیں۔ رہے ان کے زبانی دعوے کہ ان کے معبود بھی کچھ اختیارات رکھتے ہیں تو وہ اپنپے اقرار و اعتراف کی بنا پر بھی وہ جھوٹے قرار پاتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بالْحَقِّ : ” اَلْحَقُّ “ سے مراد یہاں ” سچ “ ہے، کیونکہ مقابلے میں ” لَكٰذِبُوْنَ “ آ رہا ہے۔ ” کامل “ کا مفہوم الف لام سے حاصل ہو رہا ہے، یعنی ہم ان کے پاس جھوٹے قصے کہانیاں (اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْن) نہیں لائے، بلکہ ایسا سچ لائے ہیں جس میں کوئی نقص نہیں۔- وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ : یعنی یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں، اس بات میں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک ہے، یا کوئی اس کا بیٹا ہے جسے خدائی اختیارات حاصل ہیں، یا وہ جو چاہے اللہ تعالیٰ سے منوا سکتا ہے اور اس بات میں جھوٹے ہیں کہ موت کے بعد زندگی ممکن نہیں ہے اور ان کا جھوٹ ان کے اعترافات سے ثابت ہے جو اوپر گزرے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَلْ اَتَيْنٰہُمْ بِالْحَقِّ وَاِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝ ٩٠- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٠۔ ٩١) بلکہ ہم نے تو ان کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس قرآن کریم بذریعہ جبریل (علیہ السلام) پہنچایا ہے جس میں صاف طور پر یہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے اور یقینا یہ خود ہی اپنے اس قول میں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں جھوٹے ہیں اللہ تعالیٰ نے کسی کو اولاد قرار نہیں دیا، نہ انسانوں میں اور نہ بقول ان کے فرشتوں میں سے اور نہ ان کے ساتھ اور کوئی شریک ہے، اگر بقول ان کے ایسا ہوتا تو ہر ایک اللہ اپنی مخلوق کو تقسیم کر کے جدا کرلیتا ہے اور اس پر اپنی سلطنت جما لیتا اور پھر ایک دوسرے پر چڑھائی کرکے غالب آجاتا۔ اللہ تعالیٰ تو ان نازیبا باتوں سے ماوراء، پاک اور برتر ہے جو لوگ اس کی نسبت بیان کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :83 یعنی اپنے اس عقل میں جھوٹے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو بھی الوہیت ( خدائی کی صفات ، اختیارات اور حقوق ، یا ان میں سے کوئی حصہ ) حاصل ہے ۔ اور اپنے اس قول میں جھوٹے کہ زندگی بعد موت ممکن نہیں ہے ۔ ان کا جھوٹ ان کے اپنے اعترافات سے ثابت ہے ۔ ایک طرف یہ ماننا کہ زمین و آسمان کا مالک اور کائنات کی ہر چیز کا مختار اللہ ہے ، اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خدائی تنہا اسی کی نہیں ہے بلکہ دوسروں کا بھی ( جو لامحالہ اس کے مملوک ہی ہوں گے ) اس میں کوئی حصہ ہے ، یہ دونوں باتیں صریح طور پر ایک دوسرے سے متناقض ہیں ۔ اسی طرح ایک طرف یہ کہنا کہ ہم کو اور اس عظیم الشان کائنات کو خدا نے پیدا کیا ہے ، اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خدا اپنی ہی پیدا کردہ مخلوق کو دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا ، صریحاً خلاف عقل ہے ۔ لہٰذا ان کی اپنی مانی ہوئی صداقتوں سے یہ ثابت ہے کہ شرک اور انکار آخرت ، دونوں ہی جھوٹے عقیدے ہیں جو انھوں نے اختیار کر رکھے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani