وہ ہر شان میں بےمثال ہے اللہ تعالیٰ اس سے اپنی برتری بیان فرما رہا ہے کہ اس کی اولاد ہو یا اس کا شریک ہو ۔ ملک میں ، تصرف میں ، عبادت کا مستحق ہونے میں ، وہ یکتا ہے ، نہ اسکی اولاد ہے ، نہ اس کا شریک ہے ۔ اگر مان لیا جائے کہ کئی ایک اللہ ہیں تو ہر ایک اپنی مخلوق کامستقل مالک ہونا چاہے تو موجودات میں نظام قائم نہیں رہ سکتا ۔ حالانکہ کائنات کا انتظام مکمل ہے ، عالم علوی اور عالم سفلی ، آسمان وزمین وغیرہ کمال ربط کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ کام میں مشغول ہیں ۔ دستور سے ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتے ۔ پس معلوم ہوا کہ ان سب کا خالق مالک اللہ ایک ہی ہے نہ کہ متفرق کئی ایک اور بہت سے اللہ مان لینے کی صورت میں یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر ایک دوسرے کو پست ومغلوب کرنا اور خود غالب اور طاقتور ہونا چاہے گا ۔ اگر غالب آگیا تو مغلوب اللہ نہ رہا اگر غالب نہ آیا تو وہ خود اللہ نہیں ۔ پس یہ دونوں دلیلیں بتا رہی ہیں کہ اللہ ایک ہی ہے ۔ متکلمین کے طور پر اس دلیل کو دلیل تمانع کہتے ہیں ۔ ان کی تقریر یہ ہے کہ اگر دو اللہ مانے جائیں یا اس سے زیادہ پھر ایک تو ایک جسم کی حرکت کا ارادہ کرلے اور دوسرا اس کے سکون کا ارادہ کرے اب اگر دونوں کی مراد حاصل نہ ہو تو دونوں ہی عاجز ٹھہرے اور جب عاجز ٹھہرے تو اللہ نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ واجب عاجز نہیں ہوتا ۔ اور یہ بھی ناممکن ہے کہ دونوں کی مراد پوری ہو کیونکہ ایک کے خلاف دوسرے کی چاہت ہے ۔ تو دونوں کی مراد کا حاصل ہونامحال ہے ۔ اور یہ محال لازم ہوا ہے اس وجہ سے کہ دو یا دو سے زیادہ اللہ فرض کئے گئے تھے پس یہ تعدد میں باطل ہوگیا ۔ اب رہی تیسری صورت یعنی یہ کہ ایک کی چاہت پوری ہو اور ایک کی نہ ہو تو جس کی پوری ہوئی وہ تو غالب اور واجب رہا اور جس کی پوری نہ ہوئی اور مغلوب اور ممکن ہوا ۔ کیونکہ واجب کی صفت یہ نہیں کہ وہ مغلوب ہو تو اس صورت میں بھی معبودوں کی کثرت تعداد باطل ہوتی ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ اللہ ایک ہے وہ ظالم سرکش ، حد سے گزر جانے والے ، مشرک جو اللہ کی اولاد ٹھراتے ہیں اور اس کے شریک بتاتے ہیں ، ان کے ان بیان کردہ اوصاف سے ذات الٰہی بلند وبالا اور برتر و منزہ ہے ۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے جو مخلوق سے پوشیدہ ہے ۔ اور اسے بھی جو مخلوق پر عیاں ہے ۔ پس وہ ان تمام شرکا سے پاک ہے ، جسے منکر اور مشرک شریک اللہ بتاتے ہیں ۔ آیت ( رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِيْ فِي الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ 94 ) 23- المؤمنون:94 )
[٨٨] جبکہ مشرکین اپنی دیویوں کی لات، منات اور عزیٰ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور باقی ممالک کے مشرکین نے تو ایسی دیو مالا تیار کی کہ اللہ کی نسل ہی چلا دی۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا اور یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو۔ اب ظاہر ہے کہ بیٹا مملوک نہیں ہوتا بلکہ شریک ہوتا ہے۔ اب ایک طرف تو مشرکین مکہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہر چیز کا مالک اللہ ہے اور ہر چیز اس کی مملوک ہے۔ لہذا اگر ہر چیز کو مملوک مان لیا جائے تو کوئی بھی چیز اس کی اولاد نہیں ہوسکتی۔ یا پھر ان کلیہ سے دستبردار ہونا پڑے گا کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔- [٨٩] اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو الٰہ ماننے سے مشکل یہ پیش آتی ہے کہ الٰہ صرف وہی ہوسکتا ہے جس کے پاس کچھ اختیارات بھی ہوں۔ اس طرح اللہ کے علاوہ بہت سے اصحاب اختیار و اقتدار سامنے آجاتے ہیں اور ہر ایک کی یہ کوشش ہوگی کہ دوسرے کو بات کرکے خود غالب آجائے پھر جس مخلوق پر کسی الٰہ کا اختیار چلتا ہوگا یقیناً وہ اسے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے گا۔ اور اقتدار کی اس جنگ میں لامحالہ کائنات کا نظام بھی تباہ ہو کے رہے گا۔ لیکن چونکہ کائنات کے نظام میں ہم آہنگی اور استقلال پایا جاتا ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ دوسرے معبودوں اور ان کے اختیارات کا عقیدہ باطل اور لغو ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ان بےہودگیوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔
مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ ۔۔ : ” وَّلَدٍ “ نکرہ پر ” مَا “ کے ساتھ نفی آئی تو عموم پیدا ہوگیا کہ ” اللہ نے کوئی اولاد نہیں بنائی۔ “ ” مِنْ “ کے ساتھ اس عموم کی تاکید ہوگئی، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے : ” اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی اولاد نہیں بنائی۔ “ یعنی نہ کوئی فرشتہ، نہ نبی، نہ ولی، نہ کوئی اور۔- 3 تفسیر ابن کثیر میں ہے : ” اللہ تعالیٰ اس سے اپنی برتری بیان فرما رہا ہے کہ اس کی اولاد ہو یا اس کا کوئی شریک ہو، ملک میں، تصرف میں، عبادت کا مستحق ہونے میں۔ وہ یکتا ہے، نہ اس کی اولاد ہے، نہ اس کا کوئی شریک ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ کئی ایک الٰہ (معبود) ہیں تو ہر ایک اپنی مخلوق کا مستقل مالک ہونا چاہیے۔ ایسی صورت میں موجودات میں نظام قائم نہیں رہ سکتا، حالانکہ کائنات کا انتظام مکمل ہے۔ عالم علوی، عالم سفلی اور آسمان و زمین وغیرہ کمال ربط کے ساتھ اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں۔ دستور سے ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ پس معلوم ہوا کہ ان سب کا خالق ومالک ایک ہی ہے، نہ کہ متفرق کئی ایک۔ پھر بہت سے الٰہ (معبود) مان لینے کی صورت میں یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر ایک دوسرے کو پست و مغلوب کرنا اور خود غالب اور طاقت ور ہونا چاہے گا، اگر غالب آگیا تو مغلوب الٰہ (معبود) نہ رہا، اگر غالب نہ آیا تو وہ خود الٰہ (معبود) نہیں۔ “ (ابن کثیر)- پس ثابت ہوا کہ معبود ایک اللہ ہے۔ وہ ظالم، سرکش، حد سے گزر جانے والے مشرک جو اللہ کی اولاد ٹھہراتے ہیں اور اس کے شریک بتاتے ہیں، ان کے بیان کردہ اوصاف سے ذات الٰہی بہت بلند و بالا اور برتر و منزہ ہے، وہ ہر چیز کو جانتا ہے جو مخلوق سے پوشیدہ ہے اور اسے بھی جو مخلوق پر عیاں ہے، پس وہ ان تمام شرکاء سے پاک ہے جو مشرک اور منکر اللہ کا شریک بتاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد یا شریک کے رد کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٢٢) ، بنی اسرائیل (٤٢، ١١١) ، نحل (٥٧، ٥٨) ، اور کہف (٤) کی تفسیر۔
مَا اتَّخَذَ اللہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ كُلُّ اِلٰہٍؚبِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ ٠ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يَصِفُوْنَ ٩١ۙ- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - علا - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی:- عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] - ( ع ل و ) العلو - کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔- إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- وصف - الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ :- الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116]- ( و ص ف ) الوصف - کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔
(سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ) ” - اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ لوگ جس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ ان سے پاک اور بہت ارفع و اعلیٰ ومنزہّ ہے۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :84 یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ارشاد محض عیسائیت کی تردید میں ہے ۔ نہیں ، مشرکین عرب بھی اپنے معبودوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے ، اور دنیا کے اکثر مشرکین اس گمراہی میں ان کے شریک حال رہے ہیں ۔ چونکہ عیسائیوں کا عقیدہ ابن اللہ زیادہ مشہور ہو گیا ہے اس لیے بعض اکابر مفسرین تک کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ یہ آیت اسی کی تردید میں وارد ہوئی ہے ۔ حالانکہ ابتدا سے روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اور آخر تک ساری تقریر کے مخاطب وہی ہیں ۔ اس سیاق و سباق میں یکایک عیسائیوں کی طرف کلام کا رخ پھر جانا بے معنی ہے ۔ البتہ ضمناً اس میں ان تمام لوگوں کے عقائد کی تردید ہو گئی ہے جو خدا سے اپنے معبودوں یا پیشواؤں کا نسب ملاتے ہیں ، خواہ وہ عیسائی ہوں یا مشرکین عرب یا کوئی اور ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :85 یعنی یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ کائنات کی مختلف قوتوں اور مختلف حصوں کے خالق اور مالک الگ الگ خدا ہوتے اور پھر ان کے درمیان ایسا مکمل تعاون ہوتا جیسا کہ تم اس پورے نظام عالم کی بے شمار قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں میں ، اور ان گنت تاروں اور سیاروں میں پا رہے ہو ۔ نظام کی باقاعدگی اور اجزائے نظام کی ہم آہنگی اقتدار کی مرکزیت و وحدت پر خود دلالت کر رہی ہے ۔ اگر اقتدار بٹا ہوا ہوتا تو صاحب اقتدار میں اختلاف رونما ہونا یقیناً ناگزیر تھا ۔ اور یہ اختلاف ان کے درمیان جنگ اور تصادم تک پہنچے بغیر نہ رہ سکتا تھا ۔ یہی مضمون سورہ انبیاء میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ : لَوْ کَانَ فَیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ، ( آیت 22 ) ۔ اگر زمین اور آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا ۔ اور یہی استدلال سورہ بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ : لَوْ کَانَ مَعَہ اٰلِھَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلیٰ ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلاً ( آیت 42 ) اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے ، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں ، تو ضرور وہ مالک عرش کے مقام پر پہنچنے کی کوشش کرتے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حاشیہ 47 ۔ جلد سوم ، الانبیاء ، حاشیہ 22 ۔
29: یہ توحید کی تقریباً وہی دلیل ہے جو سورۂ بنی اسرائیل : 42 اور سورۂ انبیاء : 22 میں گذری ہے۔ تشریح کے لیے ان آیتوں کے حواشی ملاحظہ فرمائیے