Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

971چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شیطان سے اس طرح پناہ مانگتے (وَ اَعُوذ باللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ حَمْزِہِ وَ نَفُخِہِ وَنَفْثِہِ ) (ابو داؤد)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ ۔۔ : ” اَلْھَمْزُ “ کا معنی ہاتھ یا کسی بھی چیز کے ساتھ چوکا مارنا ہے۔ گلا گھونٹنے، طعنہ دینے اور غیبت کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مراد شیطان کے چوکے، وسوسے اور اکساہٹیں ہیں، جن کے ساتھ وہ غصے پر ابھارتا ہے، حتیٰ کہ جنون تک پہنچا دیتا ہے۔ شیاطین انس و جن کے وساوس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة ناس کی تفسیر۔ ” اَنْ يَّحْضُرُوْنِ “ اصل میں ” أَنْ یَّحْضُرُوْنِيْ “ ہے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ” اَنْ “ کے ساتھ ” يَّحْضُرُوْنِ “ کا نون گر جاتا، یاء کو حذف کرکے نون کا کسرہ باقی رکھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے میرے رب میں صرف شیاطین کے چوکوں ہی سے تیری پناہ نہیں مانگتا، اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں، کیونکہ انھوں نے خیر کے ساتھ تو آنا ہی نہیں۔ برے لوگوں کی صحبت سے بھی بچنے کی دعا سکھائی۔ - 3 برائی کا جواب نیکی سے دینا اگرچہ دشمنوں کو دوست بنانے کے لیے اکسیر ہے، مگر اس کے لیے بہت بڑے حوصلے کی ضرورت ہے، ہر شخص میں یہ برداشت نہیں پائی جاتی، آدمی کا نفس اسے انتقام پر ابھارتا ہے، پھر انسانوں اور جنوں میں سے شیطان اسے اکسا کر غصہ دلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے برائی کا جواب بہترین طریقے کے ساتھ دینے کی تلقین کے بعد ایسے شیطان انسانوں اور جنوں کی اکساہٹوں سے اپنی پناہ مانگنے کی تاکید فرمائی، کیونکہ ان ظالموں کا مقابلہ کرنے میں انسان بےبس ہے۔ یہاں اس کی کوئی تدبیر کام نہیں آتی، نہ ہی وہ شیطان کسی نیکی یا احسان سے دوست بنتے یا نرم ہوتے ہیں، کیونکہ انھوں نے دشمنی کی قسم کھا رکھی ہے۔ اس لیے اسے اس ذات گرامی کی پناہ میں آجانا چاہیے جس کے قبضے میں کائنات کی ہر چیز ہے، نیک ہو یا بد ہر ایک کی پیشانی اس کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری جگہ یہی بات تفصیل سے بیان فرمائی : (وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا ۚ وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ ۭاِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ) [ حٰمٓ السجدۃ : ٣٤ تا ٣٦ ] ” اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔ اور یہ چیز نہیں دی جاتی مگر انھی کو جو صبر کریں اور یہ نہیں دی جاتی مگر اسی کو جو بہت بڑے نصیب والا ہے۔ اور اگر کبھی شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ تجھے ابھار ہی دے تو اللہ کی پناہ طلب کر، بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید پڑھتے وقت شیطان سے پناہ مانگنے کا حکم دیا۔ ( النحل : ٩٨) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موت کے وقت شیطان کے گمراہ کرنے سے دعا کی تعلیم دی، ابو الیسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے : ( أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَدْمِ وَ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ التَّرَدِّيْ ، وَ أَعُوْذُ بِکَ منَ الْغَرَقِ وَالْحَرَقِ وَالْھَرَمِ وَ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ أَنْ یَتَخَبَّطَنِيَ الشَّیْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ أَعُوْذُ بِکَ أَنْ أَمُوْتَ فِيْ سَبِیْلِکَ مُدْبِرًا وَ أَعُوْذُ بِکَ أَنْ أَمُوْتَ لَدِیْغًا ) [ أبوداوٗد، الوتر، باب في الإستعاذۃ : ١٥٥٢، و صححہ الألباني ]” اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں (اپنے اوپر) دیوار وغیرہ گرنے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں نیچے گر جانے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں غرق ہونے سے، جلنے سے اور شدید بڑھاپے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت خبطی بنا دے اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تیرے راستے میں پیٹھ دیتا ہوا مروں اور تیری پناہ مانگتا ہوں کہ زہریلے ڈنگ سے مروں۔ “ کسی خاص وقت ہی میں نہیں، بلکہ ”ۙوَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ “ کا مطلب یہ ہے کہ ” اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس کسی بھی وقت آئیں یا موجود ہوں۔ “ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام کاموں کے شروع میں اللہ کا نام لینے کا حکم دیا، کیونکہ اللہ کا نام لینے سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھانے پینے، جماع اور ذبح وغیرہ کے شروع میں اللہ کا نام لینے کا حکم دیا، رات کو اللہ کا نام لے کر سونے کا حکم دیا اور فرمایا : ( وَ أَغْلِقُوا الْأَبْوَابَ ، وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ لاَ یَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا، وَ أَوْکُوْا قِرَبَکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ ، وَ خَمِّرُوْا آنِیَتَکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ ، وَلَوْ أَنْ تَعْرُضُوْا عَلَیْہَا شَیْءًا وَ أَطْفِءُوْا مَصَابِیْحَکُمْ ) [ بخاري، الأشربۃ، باب تغطیۃ الإناء : ٥٦٢٣۔ مسلم : ٩٧؍٢٠١٢ ] ” (جب رات کی ایک گھڑی گزر جائے تو) دروازے بند کرلو اور اس وقت اللہ کا نام لو، کیونکہ شیطان بند دروازے کو نہیں کھولتا اور اللہ کا نام لے کر اپنے مشکیزوں کا منہ باندھ دو ۔ اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھانپ دو ، خواہ کسی چیز کو چوڑائی میں رکھ کر ہی ڈھانپ سکو اور اپنے چراغ ( سونے سے پہلے ) بجھا دیا کرو۔ “ ہمارے استاذ حافظ محمد گوندلوی (رض) نے بیان کیا کہ ان کے پاس ایک شخص نے شکایت کی کہ رات کو اچانک گھر کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں، تو انھوں نے رات بسم اللہ پڑھ کر دروازے بند کرنے کی نصیحت کی تو دروازوں کا کھلنا ختم ہوگیا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غصے کے وقت بھی شیطان سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی۔ سلیمان بن صرد (رض) فرماتے ہیں کہ دو آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دوسرے کو گالی دینے لگے، ہم آپ کے پاس بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک دوسرے کو سخت غصے میں گالی دے رہا تھا، اس کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنِّيْ لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَھَا لَذَھَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ ، لَوْ قَالَ أَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ ، فَقَالُوْا للرَّجُلِ أَلَا تَسْمَعُ مَا یَقُوْلُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ؟ قَالَ إِنِّيْ لَسْتُ بِمَجْنُوْنٍ ) [ بخاري، الأدب، باب الحذر من الغضب : ٦١١٥ ] ” میں ایک کلمہ جانتا ہوں، اگر یہ شخص وہ کلمہ کہہ دے تو جو غصہ اسے آیا ہوا ہے چلا جائے۔ وہ کلمہ ” أَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ “ ہے۔ “ لوگوں نے اسے کہا : ” سنتے نہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا فرما رہے ہیں ؟ “ وہ کہنے لگا : ” میں کوئی پاگل نہیں ہوں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ ، وَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ ، لفظ ھمز کے معنے دھکا دینے اور دبانے کے آتے ہیں۔ اور پیچھے کی طرف سے آواز دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ دعا اپنے مفہوم عام کے اعتبار سے ایک جامع دعا شیطان کے شر اور مکر سے بچنے کے لئے ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اس دعا کی تلقین فرمائی ہے تاکہ ایسے غصہ اور غیظ و غضب کی حالت میں جبکہ انسان کو اپنے نفس پر قابو نہیں رہتا اور اس میں ھمز شیطان کا دخل ہوتا ہے اس سے محفوظ رہیں۔ اس کے علاوہ شیاطین اور جنات کے دوسرے آثار اور حملوں سے بچنے کے لئے بھی یہ دعا مجرب ہے۔ حضرت خالد (رض) کو شب میں نیند نہ آتی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یہ کلمات دعا تلقین فرمائے کہ یہ پڑھ کر لیٹا کریں۔ انہوں نے پڑھا تو یہ شکایت جاتی رہی وہ دعا یہ ہے اعوذ بکلمات اللہ التامة من غضب اللہ و عقابہ و من شر عبادہ و من ھمزت الشیطین و ان یحضرون۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ ہَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ۝ ٩٧ۙ- عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال :- عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ - همز - الْهَمْزُ کالعصر . يقال : هَمَزْتُ الشیء في كفّي، ومنه : الْهَمْزُ في الحرف، وهَمْزُ الإنسان :- اغتیابه . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] يقال : رجل هَامِزٌ ، وهَمَّازٌ ، وهُمَزَةٌ.- قال تعالی: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة 1] وقال الشّاعر :- 471 ۔ وإن اغتیب فأنت الْهَامِزُ اللُّمَزَهْ«1» وقال تعالی: وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّياطِينِ [ المؤمنون 97] .- ( ھ م ز ) الھمز کے آصل معنی کسی چیز کو دبا کر نچوڑ نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ ھمزت الشئی فی کفی میں نے فلاں چیز کو اپنی ہتھیلی میں دبا کر نچوڑ اور اس سے حرف ہمزہ ہے جو کہ زبان جو جھٹکا د ے کر پڑھا جاتا ہے اور ھمز کے معنی غیبت کرنا بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز شارتیں کر نیوالا چغلیاں لئے پھر نیوا لا اور ھامز وھمزۃ وھما ز کے معنی عیب چینی کرنے والا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ ؎ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 456 ) وان غتبت فانت الھا مز اللمزۃ اگر غیبت کی جائے تو تو طعن آمیز اشارتیں کرنے والا بد گو ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّياطِينِ [ المؤمنون 97] کہو اے پروردگار میں شیاطین کے وسا س پناہ مانگتا ہوں ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٧) اور آپ یہ بھی دعا کیجیے کہ اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں شیطانوں کے وسوسوں سے کہ جن سے انسان سے خلاف مصلحت کام سرزد ہوجائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani